حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام
اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ انسانی نظر سے پوشیدہ ہے اس لیے انسانی اذہان حیرت و استعجاب سے دو چار ہو جاتے ہیں ۔
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
نافرمان اس آزادی سے یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ کبھی پکڑ میں نہیں آئیں گے اور ایمان کی راہ اختیار کرنے والے اس طرح کے حالات و واقعات سے دل شکستہ ہو جاتے ہیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو توحید کی دعوت دیتے کچھ مدت گزر چکی تھی ، فرعون اور اس کی قوم کی نافرمانیاں اور بنی اسرائیل پر ان کے مظالم شدت اختیار کرتے جا رہے تھے ۔
فرعون اور اہل مصر عذاب میں تاخیر دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اوپر کوئی نہیں جو ان سے باز پرس کرنے والا ہو اور مظلوم بنی اسرائیل بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بار بار پوچھتے تھے کہ ظالموں پر انعامات کی بارش اور ہم پر مصائب کا طوفان آخر کب تک رہے گا ؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا : اے پروردگار ، تو نے فرعون اور اس کی قوم کو دنیا کی زندگی میں بڑی شان وشوکت اور مال و دولت دے رکھی ہے ۔ اے پروردگار کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ دنیا کو تیرے راستے سے بھٹکا دیں ؟
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ایک خاص بندے حضرت خضر علیہ السلام سے ملنے کا حکم دیا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ایک ساتھی حضرت یوشع بن نون کے ہمراہ ایک کشتی میں مصر سے روانہ ہوئے ،
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
ان کا سفر سوڈان کی جانب تھا اور ان کی منزل شہر خرطوم کے قریب دریائے نیل کی دو بڑی شاخوں البحر الابیض اور البحر الارزق کا وسط تھی ۔
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
جس کی علامت یہ بتائی گئی کہ وہاں ان کی مچھلی دریا میں چلی جائے گی ۔ کشتی دریائے نیل میں تیرتی چلی جا رہی تھی
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں ورنہ میں ایک زمانہء دراز تک چلتا ہی رہوں گا لیکن جب وہ ان دریاؤں کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور مچھلی نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کوئی سرنگ لگی ہو ۔
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
کچھ مزید فاصلہ طے کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا ، لاؤ ہمارا ناشتہ آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں ۔
یوشع بن نون نے کہا ، آپ نے دیکھا یہ کیا ہوا ، جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اس وقت مجھے اس مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھے ایسا غافل کردیا کہ میں اس کا ذکر آپ سے کرنا بھول گیا ۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ، اسی مقام کی تو ہمیں تلاش تھی ۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر پھر واپس ہوئے اور آخر ان دریاؤں کے سنگم پر ان کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی ۔
حضرت خضر علیہ السلام ایک ایسی ہستی جنہیں بارگاہِ خداوندی سے خاص رحمت ، حکمت اور علم و عرفان عطا ہوا اور انہیں اس کائنات میں مشیت ایزدی کے مطابق کام کرنے والے فرشتوں میں شامل فرمایا گیا ہے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا ، کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے ۔
حضرت خضر علیہ السلام نے جواب دیا ، آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ، آپ انشاء اللّٰہ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا ۔
حضرت خضر علیہ السلام نے کہا ، اچھا اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام رضا مند ہو گئے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام روانہ ہوئے یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی میں شگاف ڈال دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ، آپ نے اس کشتی میں شگاف ڈال دیا اس طرح تو سب کشتی والوں کو ڈبو دیں گے ۔ یہ تو آپ نے سخت حرکت کر ڈالی ؟
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
انہوں نے کہا ، میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا مجھ سے بھول ہوگئی اس بھول چک پر مجھے نہ پکڑیں ، میرے معاملے میں آپ سختی سے کام نہ لیں ۔
پھر وہ دونوں آگے بڑھے ۔ کچھ دور ان کو ایک لڑکا ملا اور حضرت خضر علیہ السلام نے اس لڑکے کو قتل کردیا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ، آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اس نے کسی کا خون نہ کیا تھا ۔ یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا ؟
حضرت خضر علیہ السلام نے جواب دیا ، میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا اچھا اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ اور پوچھوں تو آپ بےشک مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں ۔ لیجیے اب تو میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا ۔
پھر وہ آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا مگر بستی والوں نے ان کی ضیافت سے انکار کردیا ۔
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو ٹیڑھی تھی اور گرا چاہتی تھی ۔
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
حضرت خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو پھر قائم کردیا ۔ آگے بڑھے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ، اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے ۔
حضرت خضر علیہ السلام نے کہا ، بس میرا آپ کا ساتھ ختم ہوا ۔ اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے ۔
اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے میں نے اسے اس لیے عیب دار کیا کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا ۔
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
رہا وہ لڑکا تو اس کے والدین مومن تھے ۔ وہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرتا ۔ ان کا رب ان کے صبر کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے گا جو اخلاق میں بھی بہتر ہو گی اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو گی ۔
اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس بستی میں رہتے ہیں ۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا ۔ آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں بچے بالغ ہوں تو وہاں سے اپنا خزانہ نکال لیں ۔
![]() |
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام |
یہ سب آپ کے رب کی رحمت کی بناء پر کیا گیا ہے میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے ۔
یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہ کر سکے ۔
Moral Stories
Moral Stories for children
Quranic Stories
Hazrat Musa and Hazrat Khizar
0 Comments