مدینہ منورہ سے اسی میل کے فاصلے پر بدر کے نواح میں بنو غفار ایک جنگجو قبیلہ آباد تھا ان کے قریب ہی وہ کاروانی راستہ واقع تھا جو مکہ مکرمہ کو شام و فلسطین سے ملاتا تھا ۔
بنو غفار بہت مفلس لوگ تھے اور بمشکل گزر اوقات کرتے تھے ۔ مدتوں صبر و قناعت ساتھ زندگی بسر کرتے رہے لیکن پھر ایسا وقت آیا کہ مفلسی اور بدحالی نے ان کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا اور انہوں نے ڈاکہ زنی اور قزاقی کا پیشہ اختیار کرلیا ۔
وہ نہ صرف مکہ اور شام کے درمیان آنے جانے والے تجارتی قافلوں کو لوٹ لیتے بلکہ نواحی علاقوں کے قبائل کو بھی وقتاً فوقتاً اپنی ترکتازیوں کا نشانہ بناتے رہتے ۔
حضرت ابوذر غفاری اسی ماحول میں پروان چڑھے ، جب دیکھا کہ قبیلے کے نوجوان نت نئی مہموں پر جاتے ہیں اور انواع و اقسام کے مال و اسباب کے ساتھ واپس آتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ شریک ہو گئے ۔
لیکن بہت جلد ان کی طبیعت لوٹ مار اور رہزنی سے متنفر ہوگئی ۔اس کے ساتھ ہی وہ قبیلہ کے دیوتاؤں ، دیویوں اور بتوں سے بھی بیزار ہو گئے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو توحید کا راستہ سجھا دیا اور وہ شب و روز خدائے واحد کی عبادت اور غوروفکر میں مشغول رہنے لگے ۔
بنو غفار ان کو دیکھتے اور حیران ہوتے تھے کہ یہ کس جنون میں مبتلا ہیں ۔ اسی زمانے میں مکہ سے اسلام کا خورشید طلوع ہو چکا تھا اور ہادئ برحق صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دعوت توحید کا آغاز فرما دیا تھا
ایک دن قبیلہ غفار کا ایک شخص مکہ گیا ۔ وہاں اس کے کانوں میں دعوت حق کی بھنک پڑ گئی ۔ واپس آکر ابوذر سے ملا اور کہنے لگا ، ابوذر مکہ میں ایک شخص لا الہ الا اللّٰہ کہتا ہے اور لوگوں کو بت پرستی سے منع کرتا ہے ۔
ابوذر تو پہلے ہی کسی ہادی و راہنما کی تلاش میں تھے ۔ یہ خبر سن کر بیتاب ہو گئے ۔ اسی وقت اپنے بھائی انیس کو یہ کہہ کر مکہ روانہ کیا کہ جا کر اس شخص سے ملو جو خدائے واحد کی طرف بلاتا ہے اور پھر واپس آکر اس کے حالات بتاؤ ۔
انیس ایک بلند پایہ شاعر اور نہایت زیرک آدمی تھے ۔ مکہ پہنچ کر انہوں نے سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی سنے تو بہت متاثر ہوئے ۔ واپس آئے تو ابوذر نے پوچھا ، تم نے مکہ کے داعی توحید کو کیسا پایا۔
انیس نے جواب دیا ، لوگ انہیں شاعر ، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں لیکن خدا کی قسم میں نے اُنہیں ایسا نہیں پایا ۔ وہ نہ شاعر ہیں ، نہ کاہن اور نہ ہی جادوگر وہ تو لوگوں کو محض بھلائی کی طرف بلاتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔ لیکن اہل مکہ ان کی شدید مخالفت پر کمر بستہ ہیں ۔
اس مختصر جواب سے ابوذر کی تسلّی نہ ہوئی اور وہ خود تحقیق احوال کے لیے مکہ روانہ ہو گئے ۔
مکہ پہنچ کر حضرت ابوذر نے کعبہ میں قیام کیا ۔ وہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ملنے کی جستجو میں لگے رہے مگر چونکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اور کسی سے پوچھنا بھی نہ چاہتے تھے اس لیے اپنی تلاش میں کامیاب نہ ہوسکے ۔
ایک دن حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان سے دریافت کیا ، بھائی میں تمہیں کئی دنوں سے یہاں دیکھ رہا ہوں ۔تم کس کی تلاش میں ہو ؟
حضرت ابوذر نے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان کی بات سن کر فرمایا ، تم اپنی منزل پر پہنچ گئے ہو ، جن کی تلاش میں تم آئے ہو بے شک وہ خدا کے سچے رسول ہیں ۔ حضرت ابوذر غفاری پر رقت طاری ہوگئی ۔ انہوں نے حضرت علی سے درخواست کی کہ مجھے جلد از جلد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم تک پہنچا دیں
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں لے کر بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جلال نبوت سے منور چہرہ مبارک دیکھ کر ابوذر کے دل نے گواہی دی کہ یہ واقعی خدا کے سچے رسول ہیں ۔ بے تابانہ عرض کی ، اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم مجھے اپنی دعوت کی تفصیل بتائیے ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایسے بلیغ انداز سے ابوذر کو اسلام کی دعوت دی کہ ان کا دل جوش ایمان سے لبریز ہو گیا اور دین حق کی طرف ایسی کشش پیدا ہوئی کہ اسی وقت مسلمان ہو گئے ۔
قبولِ اسلام کے بعد حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ابوذر اب تم اپنے قبیلے میں واپس جاؤ اور اسے دعوت توحید دو ۔ جب دعوت حق کے آشکار ہونے کی خبر ملے اس وقت پھر یہاں آجانا ۔ فی الحال تم بھی مکہ میں اپنا اسلام پوشیدہ رکھو ۔
ابوذر کا دل جوش ایمان سے معمور تھا ۔ عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، آپ اجازت دیجیئے میں مکہ میں اپنے اسلام کا اعلان کر کے جاؤں ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کا جوش اور ولولہ دیکھ کر خاموش ہو گئے ۔ ابوذر سیدھا حرم کعبہ میں گئے ، وہاں مشرکین کا مجمع تھا انہوں نے باآواز بلند کہا ، لوگو ، خدائے واحد کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ کے سچے رسول ہیں ۔
![]() |
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
ابوذر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ مشرکین چاروں اطراف سے ان پر ٹوٹ پڑے اور اُنہیں لہو لہان کر دیا ۔ اتنے میں حضرت عباس بن عبد المطلب آپہنچے ۔ مشرکین سے کہا ، اپنا ہاتھ روکو ، کیوں ناحق ایک غریب کی جان لیتے ہو ۔ حضرت عباس ابھی ایمان نہیں لائے تھے اس لیے مشرکین کو ان کی بات کا بہت پاس تھا ۔ ان کے کہنے پر انہوں نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھوڑ دیا ۔
حضرت ابوذر اگلے دن پھر کعبہ جا پہنچے اور مشرکین کو دعوت توحید دینے لگے ۔ مشرکین مکہ نے اُنہیں پھر پکڑ لیا اور زدو کوب کرنے لگے ۔ اس وقت بھی حضرت عباس ان کی حمایت میں سامنے آئے اور مشرکین کو سمجھایا کہ یہ شخص غفار کے جنگجو اور خوں آشام قبیلے کا فرد ہے ۔ اگر تم نے اسے ہلاک کردیا تو تمہارا کوئی قافلہء تجارت منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے گا ۔ غفاریوں سے خوامخواہ کی دشمنی کیوں مول لیتے ہو ؟۔
مشرکینِ مکہ نے حضرت ابوذر کو چھوڑ دیا ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا ، مجھے ایک ایسی سرزمین کی طرف نشاندہی کی گئی ہے جہاں نخلستان ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ مدینہ کے سوا کوئی اور نہیں ۔ کیا تم میرا پیغام اپنی قوم میں پہنچاؤ گے ؟ کہ ان کو فائدہ پہنچے اور تمہیں بھی اس کا اجر ملے
![]() |
حضرت ابو ذر غفاری ، Moral Stories |
حضرت ابوذر غفاری نے اپنے وطن مراجعت کی ۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے اپنے دو بھائیوں اور والدہ کو دعوتِ توحید دی ۔ ان تینوں نے فوراً اس پر لبیک کہا ۔ پھر انہوں نے اپنے قبیلے کو اسلام کی طرف بلایا ۔ آدھا قبیلہ اسی وقت مسلمان ہو گیا اور باقی ہجرتِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد دولتِ ایمان سے بہرہ مند ہوا ۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک عرصہ دراز تک اپنے قبیلے کے لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیتے رہے ۔ یہاں تک کہ اس عرصے میں بدر ، احد اور خندق کے غزوات گزر گئے ۔
![]() |
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
![]() |
حضرت ابو ذر غفاری ، Moral Stories |
خیر البشر رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایک دن چند صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم کے درمیان رونق افروز تھے کہ ایک کشیدہ قامت آدمی جن کے سر اور داڑھی کے بال سفید ہو چکے تھے ، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایسے لہجے میں سلام کیا جس میں بے پناہ عقیدت ، محبت اور جوش تھا ۔ اُنہیں دیکھ کر سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے روئے انور پر بشاشت پھیل گئی اور لسان رسالت پر یہ الفاظ جاری ہو گئے ، " آسمان کسی ایسے شخص پر سایہ فگن نہیں ہوا اور زمین نے کسی ایسے شخص کو کندھوں پر نہیں اُٹھایا جو ابوذر سے زیادہ سچی زبان رکھتا ہو ۔ "۔
![]() |
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
اور کائنات کے ذرے ذرے نے شہادت دی کہ بے شک خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت اسلام کی صداقت کی گواہی دی تھی جب حضرت خدیجتہ الکبریٰ ، حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت زید بن حارثہ کے سوا کسی نے اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ و اشھد ان محمد رسول اللّٰہ نہیں کہا تھا ۔ اور پھر زندگی بھر کسی نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے حق کے سوا کوئی دوسری بات نہ سنی ۔
![]() |
حضرت ابو ذر غفاری ، Historical Stories |
جب غزوہ تبوک پیش آیا تو حضرت ابوذر بھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ہمراہ تبوک کے سفر پر روانہ ہو ئے ۔ راستے میں ان کا اونٹ سست پڑ گیا اور وہ لشکر اسلام سے بچھڑ گئے ۔ دل میں جہاد کا شوق تھا ۔ اونٹ کو وہیں چھوڑا اور سارا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر پیادہ پا منزل مقصود کی طرف روانہ ہوگئے ۔ آگے جا کر لشکرِ اسلام نے ایک جگہ قیام کیا ۔ ایک شخص نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہ دور ایک شخص آرہا ہے معلوم نہیں کہ کون ہے ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ابوذر ہوں گے ۔
لوگوں نے دیکھا تو وہ واقعی ابوذر تھے ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، واللّٰہ یہ ابوذر غفاری ہی ہیں ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ابوذر اکیلے ہی چلتے ہیں ، اکیلے ہی مریں گے اور قیامت کے دن اکیلے ہی اٹھیں گے
ایک دن حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،ایک شخص بعض ہستیوں سے محبت رکھتا ہے لیکن ان کے اعمال کو اپنانے کی طاقت نہیں رکھتا اس کے متعلق کیا ارشاد ہے ؟
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، وہ شخص جن کے ساتھ محبت رکھتا ہے انہی کے ساتھ ہے ۔
ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں صرف اللّٰہ تعالیٰ سے اور آپ سے محبت رکھتا ہوں ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ،تم یقیناً اللّٰہ تعالیٰ اور اللّٰہ کے رسول کے ساتھ ہو ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے دل کی دنیا اجڑ گئی ۔ مدینہ چھوڑ کر ارض شام میں جا بسے ۔ ہر وقت عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے ۔ فقر و قناعت کی زندگی گزارتے اور بہت کثرت سے اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ لوگوں میں مال و دولت سے رغبت پیدا ہوگئی ہے ۔ سادہ لباس کی جگہ پر تکلف ملبوسات کا استعمال شروع ہوگیا ہے ، فتوحات اور مال غنیمت کی کثرت نے خزانوں کی بنیاد رکھ دی ہے اور سادہ مکانات کے بجائے محلات کی تعمیر شروع ہو گئی ہے ۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ یہ حالات دیکھ کر بےچین ہو گئے ۔ انہوں نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ مال و دولت جمع کرنے سے احتراز کریں ، اسے اللّٰہ کی راہ میں خرچ کریں ۔
وہ کہا کرتے تھے کہ اے مسلمانو ، اللّٰہ تعالیٰ کے اس فرمان کو یاد رکھو ، اگر اپنا مال اللّٰہ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے تو قیامت کے دن تمہاری جمع کی ہوئی دولت سے تمہارے چہروں ، پیٹھوں اور پہلوؤں کو داغا جائے گا
اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے : جو لوگ سونا اور چاندی جمع رکھتے ہیں اور اس کو اللّٰہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو
غریب لوگ تو حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی باتیں سن کر ان کے گرویدہ ہوگئے لیکن اغنیاء ان سے محتاط ہو گئے ۔
حضرت امیر معاویہ نے قبرص پر چڑھائی کا ارادہ کیا جب لشکر روانہ ہونے لگا تو انہوں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا ، کیا آپ جہاد میں شرکت کرنا چاہتے ہیں
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے تو اپنی جان خدا کی راہ میں وقف کر رکھی تھی لشکرِ اسلام میں شامل ہو گئے ۔ جب مجاہدین نے قبرص فتح کرلیا تو حضرت ابوذر غفاری نے شام واپس آ کر لوگوں میں دوبارہ تبلیغ شروع کردی۔
حکومت پر وہ اس شدت سے نکتہ چینی کرتے تھے کہ اکثر امرائے حکومت ان سے کھٹکنے لگے ۔
ایک دن حضرت امیر معاویہ نے ایک معقول رقم حضرت ابوذر کی خدمت میں بھیجی ۔ انہوں نے وہ رقم چند گھنٹوں کے اندر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی ۔
دوسرے دن حضرت امیر معاویہ نے امتحان لینے کی غرض سے ایک قاصد ان کے پاس بھیجا کہ کل وہ رقم غلطی سے آپ کو مل گئی ہے اسے واپس کر دیجیے مقصد یہ تھا کہ اگر وہ رقم حضرت ابوذر کے پاس موجود ہوئی تو ان سے پوچھا جا سکے گا کہ آپ تو ایک رات کے لیے بھی دولت جمع رکھنا حرام سمجھتے ہیں پھر یہ رقم کیوں اپنے پاس رکھی ؟
جب قاصد ان کے پاس پہنچا اور ان سے رقم کی واپسی کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا ، وہ رقم تو ہم نے اسی وقت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی تھی ۔
قاصد حضرت امیر معاویہ کے پاس واپس گیا اور انہیں حضرت ابوذر غفاری کا جواب سنایا ، تو بے اختیار ان کی زبان سے نکلا ، ابوذر غفاری واقعی سچے ہیں ، جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ شام میں قیام کرنے کے بعد اپنے اہل وعیال کے ہمراہ صحرائے عرب کے ایک چھوٹے سے گاؤں ربزہ چلے گئے ۔ حضرت ابوذر غفاری تنہائی پسند انسان تھے ، ہنگامہ ہائے دنیا سے الگ تھلگ صبر و قناعت سے زندگی گزارنے لگے ۔
31 ھ یا 32 ھ کے ایام حج میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے ، ربزہ کے تمام لوگ حج کے لیے روانہ ہوچکے تھے اور حضرت ابوذر غفاری کے پاس صرف ان کی اہلیہ اور ایک بیٹی تھی ۔جب ان پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو ان کی اہلیہ رونے لگیں ، حضرت ابوذر نے نحیف آواز میں رونے کی وجہ دریافت کی ، انہوں نے کہا ، آپ ایک ویرانے میں دم توڑ رہے ہیں ، نہ میرے پاس کپڑا ہے کہ آپ کو کفن دے سکوں اور نہ میرے بازوؤں میں اتنی طاقت ہے کہ آپ کی آخری آرامگاہ تیار کرسکوں ۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، سنو ایک دن ہم چند لوگ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ایک شخص صحرا میں جان بحق ہوگا اور اس کے جنازے میں مسلمانوں کی ایک جماعت باہر سے آکر شرکت کرے گی ۔ اس وقت جو لوگ اس مجلس میں موجود تھے وہ سب شہری آبادیوں میں وفات پاچکے ہیں اب صرف میں ہی باقی رہ گیا ہوں اور کوئی وجہ نہیں کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا مصداق نہ بنوں ۔ تم باہر جا کر دیکھو ، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسلمانوں کی کوئی جماعت ضرور آتی ہو گی ۔
![]() |
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
نزدیک ہی ایک ٹیلہ تھا ، حضرت ابوذر غفاری کی اہلیہ اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگیں ۔ تھوڑی دیر بعد دور گرد اڑتی نظر آئی پھر اس میں سے چند سوار نمودار ہوئے ، جب وہ قریب پہنچے تو حضرت ابوذر غفاری کی اہلیہ نے کہا بھائیو ، قریب ہی ایک مسلمان سفر آخرت کی تیاری کر رہا ہے اس کے کفن دفن میں میری مدد کریں ۔ قافلے والوں نے پوچھا وہ کون شخص ہے ، انہوں نے جواب دیا ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نام سنتے ہی قافلے والے بیتاب ہو گئے اور تیزی سے ان کی طرف لپکے ۔۔
اُدھر حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیٹی سے کہا ، جان پدر ایک بکری زبح کرو اور گوشت کا سالن تیار کر دو ۔ کچھ مہمان آنے والے ہیں جو میری تجہیز وتکفین کریں گے ۔ جب وہ مجھے سپردِ خاک کر چکیں تو ان سے کہنا کہ ابوذر نے آپ لوگوں کو خدا کی قسم دی ہے کہ جب تک آپ لوگ کھانا نہ کھا لیں یہاں سے رخصت نہ ہوں
جب قافلے والے حضرت ابوذر کے خیمے میں داخل ہوئے تو ان کی سانس اکھڑی ہوئی تھی ، انہوں نے فرمایا ، تم لوگوں کو مبارک ہو کہ تمہارے یہاں پہنچنے کی خبر سالہا سال پہلے ہادئ برحق صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دے دی تھی ۔
میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسا شخص نہ کفنائے جو حکومت کا عہدہ دار ہو یا رہ چکا ہو ۔
اتفاق سے اس قافلہ میں ایک انصاری نوجوان کے سوا باقی سب لوگ کسی نہ کسی صورت میں حکومت سے وابستہ رہ چکے تھے ۔
اس نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا ، اے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے محبوب رفیق میں آج تک حکومت کے معاملات سے بے تعلق رہا ہوں ، میرے پاس دو کپڑے ہیں جو میری والدہ کے ہاتھوں کے بنے ہوئے ہیں ، اجازت ہو تو ان میں آپ کو کفنا دوں ۔۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر بسم اللّٰہ و علی ملتہ رسول اللّٰہ کہہ کر جان جان آفریں کے سپرد کر دی ۔
اس قافلہ کے اکثر لوگ یمن کے رہنے والے تھے ۔ لیکن ان کے ساتھ فقیہ امت حضرت عبداللّٰہ بن مسعود بھی تھے ۔ انہوں نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور پھر سب نے مل کر اس آفتاب رشد و ہدایت کو سپردِ خاک کر دیا ۔ جب چلنے لگے تو حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی نے حضرت ابوذر کی قسم دے کر انہیں کھانا کھلایا۔
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے ان کے اہل وعیال کو ساتھ لے لیا اور مکہ مکرمہ پہنچ کر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ خلیفہ وقت کے حوالے کر دیا ۔ حضرت عثمان غنی انہیں مدینہ منورہ لے گے اور پھر ہمیشہ ان کے کفیل رہے
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کا سب سے نمایاں پہلو ان کا زہد و تقویٰ اور صبر و قناعت ہے ۔ وہ طبعاً نہایت سادہ مزاج اور درویش منش انسان تھے ۔ ان کے زہد اور توکل کو دیکھ کر سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ابوذر غفاری میں عیسیٰ ابنِ مریم جیسا زہد ہے ۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندہ زہد اختیار کرے تو اللّٰہ تعالیٰ ضرور اس کے دل میں حکمت پیدا فرما دیں گے اور اس کی زبان پر بھی حکمت جاری کریں گے اور دنیا کے عیوب اور اس کی بیماریاں اور ان کا علاج معالجہ بھی اس کو آنکھوں سے دکھا دیں گے اور اس کو دنیا سے سلامتی کے ساتھ نکال کر جنت میں پہنچا دیں گے (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کے بارے میں زہد اور اس کی طرف سے بے رغبتی ، حلال کو اپنے اوپر حرام کرنے اور اپنے مال کو برباد کرنے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقی زہد فی الدنیا یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس اور تمہارے ہاتھ میں ہو اس سے زیادہ اعتماد اور بھروسہ تمہیں اس پر ہو جو اللّٰہ کے پاس اور اللّٰہ کے قبضے میں ہے ۔
اور یہ کہ جب تم کو کوئی تکلیف اور ناخوشگواری پیش آئے تو اس کے اخروی ثواب کی چاہت اور رغبت تمہارے دل میں زیادہ ہو بہ نسبت اس خواہش کے کہ وہ تکلیف اور ناخوشگواری کی بات تم کو پیش ہی نہ آتی (جامع ترمذی ، سنن ابنِ ماجہ )
Moral Stories
Historical Stories
Moral Stories for children
2 Comments
💖💖
ReplyDelete💖
ReplyDelete