حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو غطفان سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے والد حسیل الیمان نے زمانہء جاہلیت میں اپنے قبیلے کے ایک فرد کو قتل کر دیا اور پھر قصاص کے خوف سے مدینہ منورہ چلے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔
سرورِ عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت کا ابتدائی زمانہ تھا ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت دے رہے تھے ۔
![]() |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، مکہ مکرمہ |
کفار مکہ کی مخالفت اور مزاحمت شروع ہو چکی تھی اور رفتہ رفتہ شدت اختیار کرتی جا رہی تھی ۔ ایمان لانے والوں پر مظالم کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا اور ان پر عرصہء حیات تنگ کیا جا رہا تھا ۔
حسیل الیمان اور حذیفہ بن الیمان نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعوت کا حال سنا تو انہیں احساس ہوا کہ داعیء اسلام خدا کے سچے رسول ہیں اور ان کی دعوت قبول کرنے میں تاخیر کرنا خسران کا موجب ہوگا ۔ چنانچہ ہر قسم کے خطرات کی پروا کیے بغیر وہ سیدھا مکہ مکرمہ پہنچے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم تیرہ سال مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت دیتے رہے اور آخر اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ ہجرت فرما گئے ۔
![]() |
مدینہ منورہ ، Moral Stories |
ہجرت کے دوسرے سال اسلام اور کفر کا سب سے بڑا معرکہ غزوہِ بدر پیش آیا ،
![]() |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، میدانِ بدر |
اس موقع پر حسیل الیمان اور ان کے بیٹے حذیفہ اتفاقاً مکہ مکرمہ میں تھے ۔ غزوہ کا حال سنا تو اس میں شریک ہونے کے لیے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے ۔ راستے میں مشرکین نے روک کر پوچھا ، کیا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس جا رہے ہو ؟
انہوں نے جواب دیا ہم اپنے گھر (مدینہ ) جا رہے ہیں ۔
مشرکین نے کہا تمہارے مدینہ جانے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تم محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حمایت میں ہمارے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاؤ گے ۔ دونوں نے طوعاً و کرہاً مشرکین کی شرط مان لی اور مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ابھی غزوہ بدر میں شرکت کے لیے روانہ نہیں ہوئے تھے ، دونوں نے بارگاہِ رسالت صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بیان کیا ۔ اگرچہ اس وقت ایک ایک آدمی کی بہت ضرورت تھی لیکن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم اپنا عہد پورا کرو اور واپس جاؤ فتح و نصرت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی مدد درکار ہے ۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل کی اور دکھی دل کے ساتھ واپس چلے گئے ۔
غزوہِ بدر کے کچھ مدت بعد غزوہِ احد میں حضرت حذیفہ بن الیمان اور ان کے والد کو شریک ہونے کا موقع ملا ۔
![]() |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، میدانِ احد |
حسیل الیمان چونکہ ضعیف العمر تھے اس لیے لڑائی شروع ہونے سے پہلے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں اور ایک دوسرے بزرگ صحابی حضرت رفاعہ بن وقش انصاری کو ایک بلند ٹیلے پر بھیج دیا ۔
ہنگامہء کارزار گرم ہوا تو دونوں بزرگ بھی پر جوش ہوگئے ، ایک نے دوسرے سے کہا ، آخر ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں جب کہ ہمارے بھائی اور فرزند راہ حق میں جانیں قربان کر رہے ہیں ، ہم تو چراغِ سحری ہیں آج مر جائیں یا کل ، آؤ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں لڑ کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوں ۔
دوسرے ساتھی نے کہا ! واللّٰہ تم نے صحیح کہا ۔
چنانچہ وہ دونوں تلواریں سونت کر میدانِ جہاد میں جا پہنچے ۔ اس وقت ایک اتفاقی لغزش کی وجہ سے مسلمانوں میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی ، رفاعہ بن وقش انصاری تو کسی مشرک کے ہاتھوں شہید ہوگئے لیکن حسیل الیمان کو کچھ مسلمانوں نے غلطی سے مشرک سمجھ کر شہید کر دیا حضرت حذیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے والد کی شہادت پر دکھی تو بہت ہوئے لیکن انہوں نے عفو و درگزر سے کام لیا کیونکہ یہ فعل مسلمانوں سے نادانستگی میں سرزد ہوا تھا بس یغفر اللّٰہ لکم ، اللّٰہ تمہیں معاف کرے کہہ کر خاموش ہوگئے
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ سنا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ سے اظہارِ ہمدردی فرمایا اور ان کے جذبہ عفو کی تحسین فرمائی
اس کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے حضرت حذیفہ کو دیت عطا فرمائی ۔
حضرت حذیفہ نے اس دیت کو مسلمانوں پر صدقہ کر دیا اور ایک درہم بھی اپنے استعمال میں نہ لائے ۔
غزوہِ احزاب میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو ایک عظیم سعادت نصیب ہوئی
![]() |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
کفار کے ٹڈی دل لشکر نے تقریباً ایک ماہ سے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر رکھا تھا ایک رات یکایک شدید آندھی آئی اور اس کے ساتھ ہی آسمان پر سیاہ بادل چھا گئے
اس رات مجاہدین صفیں باندھے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے ، ابوسفیان ( جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ) اور لشکرِ کفار بالائی جانب صف آرا تھے اور ان کے حلیف بنو قریظہ نشیب کی طرف تھے ۔ وہ رات ، تاریکی ، ٹھنڈک اور ہواؤں کی شدت کے لحاظ سے محاصرے کی شدید ترین رات تھی ، بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج سے دل خوفزدہ ہو رہے تھے ، اندھیرے کا یہ عالم تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا
![]() |
حضرت حذیفہ بن الیمان ، Moral Stories |
ایسی سخت گھڑی میں جبکہ بنو قریظہ بھی حملہ آوروں کے ساتھ مل گئے تھے تو منافقین کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر سے نکلنے کا ایک بہانہ ہاتھ آ گیا اور انہوں نے یہ کہہ کر رخصت طلب کرنی شروع کی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں لہٰذا ہمیں جا کر اپنے بال بچوں کی حفاظت کرنے کا موقع دیا جائے ، حالانکہ اس وقت سارے اہل مدینہ کی حفاظت کے ذمہ دار رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تھے ۔
بنو قریظہ کی بد عہدی سے جو خطرہ بھی پیدا ہوا تھا اس سے شہر اور اس کے باشندوں کو بچانے کی تدبیر کرنا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا کام تھا نہ کہ فوج کے ایک ایک فرد کا ۔
منافقین میں سے جو بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے جانے کی اجازت مانگتا ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اسے اجازت مرحمت فرما دیتے ، یہاں تک کہ محاذ پر صرف تقریباً تین سو آدمی رہ گئے ۔
اس وقت نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم باری باری ہر شخص کے پاس تشریف لائے اور ان کا حوصلہ بڑھایا ۔
پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ،
کون ہے جو مشرکین کے لشکر میں جائے اور ان کی نقل و حرکت اور ارادوں کا جائزہ لے کر ہمیں آگاہ کرے ۔
اس وقت نہایت سرد اور یخ بستہ ہواؤں کے جھکڑ چل رہے تھے ، لوگ ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے ، دفعتاً حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن الیمان کا نام لے کر پکارا ، حذیفہ : یہ کام تم کرو گے ۔
پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ کے لیے دعا کی
”اللہم احفظہ من بین یدیہ ، ومن خلفہ ، وعن یمینہ ، وعن شمالہ ، وعن فوقہ و تحتہ“․
”خدایا اس کی حفاظت فرما ، اس کے سامنے سے ، اس کے پیچھے سے ، اس کے دائیں سے ، اس کے بائیں سے ، اس کے اوپر سے اور اس کے نیچے سے ۔“
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے یہ الفاظ ابھی ختم بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے میرے دل سے خوف اور میرے جسم سے ٹھنڈک کے اثرات کو زائل کر دیا ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمان کی تعمیل میں ، میں جانے کے لیے مڑا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا : حذیفہ! دیکھو ان کے کیمپ میں پہنچ کر کوئی اقدام مت کرنا
میں نے کہا ، جی بہت اچھا اور خاموشی کے ساتھ تاریکی کے پردے میں چلتا ہوا مشرکین کے لشکر میں پہنچ گیا اور ان کے درمیان میں اس طرح گھل مل گیا گویا انہی میں کا ایک فرد ہوں ۔
لشکر کفار میں عجیب افراتفری کا عالم تھا ، ہر ایک کو اپنی پڑی تھی ، سالار لشکر ابوسفیان کو شدید چوٹ لگی تھی اور وہ اسے سینک رہا تھا ۔ اسے دیکھ کر جی چاہا کہ اسے اپنے تیر کا ہدف بناؤں لیکن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہدایت یاد آگئی اور اپنا ہاتھ روک لیا ۔
طوفان بادو باراں سے مشرکین کو شدید نقصان ہوا ، ان کے خیمے اکھڑ گئے اور ہانڈیاں چولہوں سے الٹ گئیں ، اس ناگہانی افتاد سے حواس باختہ ہو کر مشرکین نے مدینہ سے کوچ کرنے کی ٹھانی
میرے پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد ابو سفیان ان کے درمیان میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا اور اس نے کہا
” قریش کے لوگو ! میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں یہ بات محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تک نہ پہنچ جائے ۔ اس لیے تم میں سے ہر شخص اپنے ساتھ والے شخص کو اچھی طرح سے دیکھ لے
میں نے فوراً اپنے پہلو میں بیٹھے آدمی کا ہاتھ پکڑا اور اس سے پوچھا کہ ” تم کون ہو ؟ “ اس نے کہا فلاں بن فلاں ، میں نے کہا ٹھیک ہے ۔
ابوسفیان نے تقریر کا سلسلہ آگے بڑھایا ، ” قریش کے لوگو ! اب ہمارے لیے یہاں ٹھہرنے کی مزید کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ، ہمارے جانور ہلاک ہو رہے ہیں ، بنو قریظہ کے یہودی ہم سے کنارہ کش ہو چکے ہیں اور تند و تیز ہواؤں کے ہاتھوں جن پریشانیوں اور مصیبتوں کاسامنا ہمیں کرنا پڑ رہا ہے ، یہ سب تمہارے سامنے ہے ۔ اس لیے اب بہتر یہی ہے کہ سب یہاں سے کُوچ کر جائیں ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے اُونٹ کے پاس آیا ، اس کے گھٹنے سے بندھی ہوئی رسی کھولی اور اس پر سوار ہوا اور اسے ایک کوڑا رسید کیا ، اُونٹ اُچھل کر کھڑا ہوا اور اپنے سوار کو لے کر روانہ ہو گیا ۔
مشرکین کی شکستہ حالی کا جائزہ لے کر حضرت حذیفہ بن الیمان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے اور تمام حالات من و عن عرض کیے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کی کارگزاری سے بہت خوش ہوئے اور انہیں اپنا کمبل اوڑھایا ۔ سفر کی تکان اور سردی سے بے حال ہو رہے تھے کمبل اوڑھ کر اسی جگہ سو گئے ۔
صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بڑی شفقت سے یہ فرما کر جگایا
قم یا نومان
اے سونے والے اب اٹھ جاؤ
غزوہِ احزاب کے بعد حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے خیبر ، بیعتِ رضوان ، فتح مکہ اور دوسرے غزوات میں بھی مجاہدانہ حصہ لیا وہ رفتار ، گفتار اور عادات غرض ہر چیز میں سرورِ کائنات صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو ظہر سے عشاء تک آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفید ہوتے ۔
ایک مرتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں عشاء کے بعد روک لیا اور پھر ان کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے نوافل کی نیت باندھ لی ، ساری رات دو رکعت میں گزر گئی یہاں تک کہ حضرت بلال نے فجر کی اذان دی اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت حذیفہ کے ہمراہ فجر کی نماز کے لیے مسجد تشریف لے گئے ۔
حضرت حذیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی والدہ حضرت رباب بھی بہت نیک خاتون تھیں ان کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بہت عقیدت تھی اور چاہتی تھیں کہ حضرت حذیفہ باقاعدگی سے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا کریں ۔
ایک دفعہ کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ چند دن حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے ، حضرت رباب کو معلوم ہوا تو بہت ناراض ہوئیں اور انہیں حکم دیا کہ ابھی اسی وقت حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ ، اس وقت شام ہو رہی تھی وہ تیزی سے مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پہنچے اور مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ادا کی
![]() |
Moral Stories مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم |
نماز پڑھ کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسجد سے نکلے تو حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی سر جھکائے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیے ۔ چند قدم چل کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے معا'' پیچھے مڑ کر دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے ؟ انہوں نے عرض کیا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا غلام ، حذیفہ
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللّٰہ تعالیٰ تمہاری اور تمہارے والدین کی مغفرت فرمائے ۔
اس واقعہ کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بارگاہِ نبوت میں بلا ناغہ حاضر رہنے لگے ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ دل شکستگی کے عالم میں مدینہ منورہ سے عراق چلے گئے ۔
![]() |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، عراق |
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں انہیں نواحِ دجلہ کا مہتمم مقرر کیا ۔
![]() |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، دریائے دجلہ |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ درویش صفت انسان تھے اور نہایت سادگی سے زندگی بسر کرتے تھے ، نواح دجلہ کے لوگ بہت شریر النفس اور بد دیانت تھے ، انہوں نے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے فقر و استغناء کا تمسخر اڑایا اور تعاون کرنے کی بجائے ان کے کام میں طرح طرح سے رکاوٹیں ڈالنے لگے ، ان لوگوں کے معاندانہ رویے اور رکیک حرکات کے باوجود حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے تفویض کردہ فرائض کو نہایت تندہی سے انجام دیتے رہے ، قدرت نے انہیں کمال درجے کی انتظامی صلاحیت سے نوازا تھا ، ان کے حسن معاملہ سے حکومت کی آمدنی میں معقول اضافہ ہوا ، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان کی کارکردگی سے بہت خوش ہوئے ۔
١٨ ھ میں مسلمانوں نے نہاوند پر لشکر کشی کی تیاری شروع کی
![]() |
نہاوند ، Moral Stories for children |
اس زمانے میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کوفہ میں اقامت اختیار کیے ہوئے تھے ، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے انہیں لکھا کہ کوفہ سے مجاہدین کا لشکر لے کر نکلو اور نعمان بن مقرن کی مدد کو پہنچو ۔
فاتح خوزستان حضرت نعمان بن مقرن بڑے صاحب تدبیر اور جانباز صحابی تھے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عراق عرب کے کئی معرکوں میں اپنی شجاعت اور سرفروشی کی دھاک بٹھا چکے تھے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بہت غور و خوض کے بعد انہیں نہاوند کی مہم کا سپہ سالار مقرر کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع عام میں ان کے بارے میں یہ خیال ظاہر فرمایا کہ بخدا اس شخص کا سینہ سب سے پہلے نیزوں کے لیے سپر بنے گا ۔
قادسیہ کے بعد نہاوند کا معرکہ ایران کی تمام جنگوں میں سب سے زیادہ شدید تھا ۔ اس معرکہ میں ایران اپنے ڈیڑھ لاکھ جنگجو عرب کے مقابلے پر لے آیا اور اس زور و شور سے جنگی تیاریاں کیں کہ ہر طرف طوفان برپا ہو گیا ۔
ایرانیوں کی زبردست جنگی تیاریوں کے پیشِ نظر حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے خود ان کے مقابلے پر جانے کا ارادہ کیا لیکن حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے انہیں روک دیا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت کے مطابق حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک منتخب لشکر لے کر کوفہ سے نکلے اور حضرت نعمان بن مقرن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے لشکر سے جا ملے ۔ کچھ دوسرے مقامات سے بھی امدادی فوجیں آ گئیں لیکن اس کے باوجود بھی لشکرِ اسلام کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ تیس ہزار تک پہنچ سکی ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت نعمان بن مقرن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے نام یہ فرمان بھیجا کہ اس لڑائی میں اگر خدانخواستہ تمہیں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پھر حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اسلامی لشکر کے سپہ سالار ہوں گے ۔
ایرانیوں نے نہاوند میں خود کو قلعہ بند کر لیا تھا مسلمانوں نے نہاوند کا رخ کیا تو راستے میں کسی نے بھی ان کی مزاحمت نہ کی اور وہ شہر سے دو تین میل کے فاصلے پر خیمہ زن ہو گئے ۔
اب انہیں انتظار تھا کہ ایرانی کب باہر نکل کر ان کے مقابلے پر آتے ہیں ، لیکن ایرانیوں کو قادسیہ اور دوسری لڑائیوں میں جو تجربہ حاصل ہوا تھا اس کے پیشِ نظر ان کو کھلم کھلا مسلمانوں کے مقابلے پر آنے کی ہمت نہ ہو رہی تھی البتہ کبھی کبھار ان کا کوئی دستہ چوری چھپے باہر نکلتا اور مسلمانوں کے کسی دستے سے ایک آدھ جھڑپ کر کے واپس چلا جاتا تھا ۔
اسی طرح دو مہینے گزر گئے ، ادھر مسلمان ایرانیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے بے قرار ہو رہے تھے ۔
آخر تنگ آ کر انہوں نے ایرانیوں کو قلعہ سے باہر لانے کے لیے ایک تجویز سوچی ۔
اس تجویز کے مطابق ایک دستے کے سوا باقی سارا لشکر ایک دن اپنے خیمے اکھاڑ کر پیچھے ہٹ گیا ۔
اس دستے کی قیادت حضرت قعقاع بن عمرو تمیمی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کر رہے تھے وہ اسے لے کر شہر کی طرف بڑھے اور قریب پہنچ کر قلعے کی برجوں اور فصیل پر تیر برسانے شروع کر دیے ۔
ایرانیوں کو ان کے جاسوسوں کے ذریعے پل پل کی خبریں مل رہی تھیں ، وہ سمجھے کہ مسلمان پسپائی اختیار کررہے ہیں اور صرف چند جوشیلے لوگ پیچھے رہ گئے ہیں چنانچہ وہ قلعے کے دروازے کھول کر باہر نکل آئے اور حضرت قعقاع کے دستے پر حملہ کر دیا ۔
حضرت قعقاع بن عمرو تمیمی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ طے شدہ منصوبے کے مطابق تھوڑی دیر جم کر لڑتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ۔
ایرانی فوج ان کے تعاقب میں چل پڑی ، جب وہ شہر سے کافی دور نکل آئے تو یکایک ایک بڑا اسلامی لشکر ان کے سامنے نمودار ہوا ۔
کثیر التعداد ایرانی لشکر کے لیے اب واپس جانا ممکن نہیں تھا کیونکہ سارا راستہ ان کے اپنے بچھائے ہوئے گوکھروءوں ( آہنی کانٹوں ) سے پٹا پڑا تھا
چنانچہ اسی جگہ تاریخ کی وہ خونریز جنگ لڑی گئی جس نے مجوسی ایران کی قسمت پر ہمیشہ کے لیے مہر لگا دی ۔
عین معرکہء کارزار میں حضرت نعمان بن مقرن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا گھوڑا پھسل کر گرا اور اس کے ساتھ ہی تیروں کی بوچھاڑ نے انہیں شہادت کے بلند مقام پر فائز کر دیا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت پر اب حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ امیر لشکر بنے حضرت نعیم بن مقرن ، حضرت سوید بن مقرن ، حضرت قعقاع بن عمرو تمیمی ، حضرت جریر بن عبد اللّٰہ البجلی ، حضرت طلیحہ بن خویلد اور حضرت عمرو بن معدی الکرب اپنے اپنے دستوں کے ساتھ ان کے دائیں ، بائیں اور آگے پیچھے تھے ۔
انہوں نے ایرانیوں پر تابڑ توڑ ایسے شدید حملے کیے کہ آفتاب غروب ہونے تک ان کے پر خچے اڑ گئے ۔ تیس ہزار ایرانی میدانِ جنگ میں کام آئے اور اسی ہزار کے قریب رات کے اندھیرے میں بھاگتے ہوئے خندق میں گر کر ہلاک ہو گئے ۔
اس کھلی فتح کے بعد حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ شہر کی جانب بڑھے اور اس میں داخل ہو گئے ۔ اہل شہر دہشت زدہ ہو کر امان امان پکار رہے تھے ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا ، ڈرو نہیں ہم مسلمان کسی نہتے شخص پر ہاتھ نہیں اٹھاتے ۔ اس کے بعد انہوں نے بالغ اشخاص پر معمولی جزیہ عائد کرکے سب کو امان دے دی اور یہ وعدہ بھی کیا کہ ان کی جائیداد اور مذہب سے مطلق کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا ۔
اہل شہر اس فیاضانہ برتاؤ سے اتنے خوش ہوئے کہ فرط عقیدت سے ان کے روبرو بچھے جاتے تھے
حضرت حذیفہ کے قیام نہاوند کے دوران میں ایک دن کسی آتش کدہ کا موءبد ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہایت بیش قیمت جواہرات سے لبالب بھرے ہوئے دو صندوق ان کی نذر کیے ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے وہ صندوق مال غنیمت کے پانچویں حصے کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں مدینہ منورہ بھجوا دیے ۔
فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان جواہرات کو بیت المال میں داخل کرنا پسند نہ کیا اور وہ سب اس ہدایت کے ساتھ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو واپس بھیج دیے کہ انہیں فروخت کرکے جو رقم ملے اسے مجاہدین میں تقسیم کردیں ۔ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے وہ جواہرات چار کروڑ درہم پر فروخت کیے اور ساری رقم مجاہدین میں تقسیم کردی ۔
نہاوند کی فتح کے بعد حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے آذر بائیجان پر لشکر کشی کی اور ایک سخت لڑائی کے بعد آذر بائیجان کو اسلامی سلطنت کا باجگزار بنالیا ۔
![]() |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، آذر بائیجان |
اس کے بعد انہوں نے جیلان کو مسخر کیا ۔ وہ مزید آگے بڑھنے کا ارادہ کر رہے تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے انہیں فوجی خدمات سے سبکدوش کرکے مدائن کا گورنر مقرر کردیا ۔
![]() |
مدائن ، Historical Stories |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ مدائن اس شان سے داخل ہوئے کہ بغیر زین کے ایک گھوڑے کی پیٹھ پر سوار تھے اور معمولی سا لباس زیب تن تھا معززین شہر اپنے نئے گورنر کے استقبال کے لیے شہر سے باہر جمع تھے ، حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان کے سامنے سے گزر گئے اور انہیں خبر تک نہ ہوئی کہ والئ مدائن شہر میں داخل ہو چکے ہیں ۔ جب انتظار کرتے انہیں کافی وقت گزر گیا تو انہوں نے مسلمانوں سے پوچھا کہ نئے والئ شہر آنے والے تھے ابھی تک کیوں نہیں پہنچے مسلمانوں نے بتایا کہ وہ تو ابھی تمہارے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر داخل ہو گئے ہیں ۔ یہ سن کر اکابرین شہر ششدر رہ گئے ۔
کچھ دیر بعد حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے تمام مسلمانوں اور اہلِ مدائن کو جمع کیا اور ان کے سامنے امیر المؤمنین کا فرمان پڑھا ، اس میں لکھا تھا :
حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تمہارے امیر مقرر کیے جاتے ہیں ، ان کا حکم سنو اور ان کی اطاعت کرو ، اور وہ جو کچھ تم سے طلب کریں ان کو دو ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جب تک مدائن میں رہے امارت میں درویشی کی شان رہی ۔ لوگوں کو بھی نصیحت کرتے تھے کہ فتنہ کہ جگہوں سے دور رہو ۔
ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا ، فتنہ کی جگہیں کون سی ہیں ؟
فرمایا ، امراء و حکام کے دروازے ۔ لوگ امیروں کے پاس جاتے ہیں ، ان کی غلط باتوں کی تائید کرتے ہیں اور ان کی بے جا تعریف کرتے ہیں یہی تو وہ فتنہ ہے ۔
حضرت حذیفہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے عہد کے حفاظ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک تھے ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں منافقین کے نام تخصیص کے ساتھ بتا دیے تھے لیکن انہوں نے کبھی کسی منافق کا نام لوگوں کو نہیں بتایا البتہ اتنا کہہ دیتے تھے کہ اب اتنے منافقین زندہ موجود ہیں ۔ لوگ انہیں صاحب السر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے محرم راز کہا کرتے تھے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے معیار مقرر کر لیا تھا کہ جس شخص کے جنازے میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ شریک ہوتے تو حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی اس میں شریک ہوتے اور اگر وہ کسی عذر شرعی کے بغیر شریک نہ ہوتے تو حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی جنازے میں شریک نہیں ہوتے تھے اور سمجھ لیتے کہ متوفی منافقین میں سے تھا ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو امور مملکت سے بہت کم فرصت ملتی لیکن جب بھی موقع ملتا لوگوں کو احادیث مبارکہ کا درس دیا کرتے تھے ۔ لوگ ان کا غایت درجہ احترام کرتے تھے ، حلقہء درس میں کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ اونچی آواز سے بات کرے یا سرگوشی کرے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک دن مدینہ منورہ سے کچھ فاصلے پر کھجوروں کے ایک جھنڈ میں تشریف فرما تھے ۔
![]() |
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
یہ جھنڈ اس شاہراہِ کے قریب تھا جو مدینہ منورہ کو عراق اور ایران سے ملاتی تھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب مجاہدین کے سامنے ایران کے کسر'ی کی سطوت و حشمت سر نگوں ہو چکی تھی اور ایران کے مختلف صوبوں کا نظم و نسق مسلمان گورنروں کے ہاتھ میں تھا ۔
تھوڑی دیر بعد دور سے گرد اڑتی نظر آئی ، ایک سوار مدینہ منورہ کی طرف آ رہا تھا جو بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھا ، اس کے جسم پر موٹا جھوٹا لباس تھا جس میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے ، جب وہ جھنڈ کے قریب پہنچا تو حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ فرط مسرت سے چمک اٹھا ، آپ بے تابانہ آگے بڑھے اور اس سوار سے لپٹ کر فرمایا ، واللّٰہ تم نے اسلام کی لاج رکھ لی تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو ان کے عہدے پر قائم رکھا ۔ امارت میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی درویشی کی شان حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو بہت پسند تھی ۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پاس کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے ، آپ نے ان سے فرمایا :
میں چاہتا ہوں کہ مجھے ابو عبیدہ بن الجراح ، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن الیمان جیسے اصحاب ملیں اور میں انہیں حکومت کے اہم عہدوں پر فائز کروں ۔
ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا : تم میں سے کسے فتنہ کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا فرمان یاد ہے ؟ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انسان کا فتنہ ( آزمائش ) اس کی بیوی ، اس کے مال ، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز ، صدقہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر دیتا ہے ۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے اس کے متعلق نہیں پوچھا بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو سمندر کی موجوں طرح تند و تیز ہو گا ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ عنہ نے بیان کیا کہ امیرالمؤمنین آپ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ رکاوٹ ہے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا : کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا کھولا جائے گا ؟ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ توڑ دیا جائے گا ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر تو وہ کبھی بند نہ ہو سکے گا ۔ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا ، جی ہاں ایسا ہی ہے
مجلس برخاست ہونے پر چند اصحاب نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا : کیا امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اس دروازہ کے متعلق جانتے ہیں ؟
فرمایا ، ہاں ، جس طرح میں جانتا ہوں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیونکہ میں نے ایسی بات بیان کی تھی جو بے بنیاد نہیں تھی ۔
بہت مدت بعد کچھ لوگوں نے سوال کیا ، کہ وہ دروازہ کون تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ دروازہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ تھے ۔
حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں بھی حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو مدائن کی گورنری پر برقرار رکھا ۔ لیکن حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے دل میں مدتوں سے جہاد میں شریک ہونے کی خواہش تھی ۔ چنانچہ وہ ٣٠ ھ میں فرائض امارت سے دستکش ہو کر اس لشکر میں شامل ہو گئے جو خراسان کی تسخیر کے لیے جا رہا تھا ۔ خراسان کی تسخیر کے بعد انہوں نے رے اور آرمینیا میں بھی بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا ۔
![]() |
آرمینیا ، حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
٣١ ھ میں خاقان خزر کے خلاف جو مہم بھیجی گئی حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اس میں شریک ہوئے ۔
اس دور میں لڑی جانے والی تمام لڑائیوں میں سر بکف ہو کر لڑے ۔
حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے باب کی تسخیر کے لیے تین مرتبہ فوج روانہ کی اور ہر مرتبہ اس کی قیادت حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کی ۔ حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت کے آخری ایام میں وہ مدائن کی ولایت پر واپس آ گئے ۔
٣٥ ھ میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے چند دنوں بعد حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بھی وفات پائی ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ زندگی کے آخری ایام میں کثرت سے استغفار اور گریہ زاری میں مصروف رہتے ، لوگوں نے رونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا :
مجھے دنیا سے کوچ کرنے کا غم نہیں ہے ، میں موت کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔ میرا رونا آخرت میں جواب طلبی کے خوف کی وجہ سے ہے کہ معلوم نہیں وہاں کیا معاملہ پیش آئے ۔
دم نزع زبان پر یہ الفاظ تھے ،
خدایا ، اپنی ملاقات میرے لیے مبارک کیجیے کہ میں دنیا و مافیہا کی ہر شے سے آپ کو محبوب رکھتا ہوں
ایک دفعہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں قیامت تک کے تمام فتنے بیان فرمائے ، حضرت حذیفہ بھی اس مجمع میں موجود تھے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ ہمیشہ یاد رکھا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ لوگوں کو اس موضوع پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشادات کا علم صرف حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے ہوتا تھا کیونکہ اس مجلس میں موجود دوسرے صحابہ کرام ایک ایک کرکے وفات پا گئے تھے ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے برائیوں اور فتنوں کے بارے میں اکثر پوچھا کرتے تھے اور اس کا سبب یہ بتاتے تھے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم جس چیز کو برا کہیں گے میں اس سے ہمیشہ بچوں گا
ایک شخص کو جلدی جلدی نماز پڑھتے دیکھا ، اس نے سلام پھیرا تو آپ نے فرمایا ، یہ طریقہ نماز پڑھنے کا نہیں ہے ، اگر اس طرح مر گئے تو اسلام پر نہ مرو گے ۔ پھر اس کو رکوع اور سجود کا طریقہ بتایا اور فرمایا ، رکوع اور سجدے میں اعتدال کا خیال رکھو اور چھوٹی رکعت پڑھو ۔
ایک مجلس میں کچھ لوگوں کو فضول و لا یعنی باتیں کرتے دیکھا تو فرمایا ، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسی گفتگو نفاق میں شمار ہوتی تھی ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :
چغل خور آدمی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کام کرنے والے نہ بنو کہ کہنے لگو کہ اور لوگ احسان کریں گے تو ہم بھی احسان کریں گے اور اگر دوسرے لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں گے تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے ، بلکہ اپنے دلوں کو اس بات پر پکا کرو کہ اگر لوگ احسان کریں گے تب بھی تم احسان کرو گے اور اگر لوگ برا سلوک کریں گے تب بھی تم ظلم اور برائی کا راستہ اختیار نہ کرو گے بلکہ احسان ہی کرو گے ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان صاحب السر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
حضرت حذیفہ بن یمان حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے رازدار
غزوہِ احزاب میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بحیثیت مخبر
Moral Stories
Historical Stories
Moral Stories for children
0 Comments