تیسری صدی ہجری کا واقعہ ہے عباسیوں کے عہد حکومت میں شہر بغداد میں ابنِ ساباط
![]() |
بغداد ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
نامی ایک چور نے لوگوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں ۔ خلیفہء وقت کے سخت اقدامات کے باوجود وہ شخص قانون کی پکڑ میں نہیں آتا تھا تاہم ایک دن وہ چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا . قاضی کے فیصلے کے مطابق
![]() |
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
اس کا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا گیا اور پھر اس کو ایک ناقابلِ اصلاح مجرم قرار دے کر عمر بھر کے لیے قید خانے میں بھیج دیا گیا ۔
اہل بغداد اس کا ذکر ہتھ کٹے شیطان کے نام سے کیا کرتے تھے ۔
دس برس کی طویل مدت کے بعد ایک دن ابنِ ساباط کسی طرح قید خانے سے فرار ہو گیا
اور باہر نکلتے ہی اپنے قدیم پیشے کو نئے سرے سے شروع کرنے کا ارادہ کر لیا ۔
ایک ہاتھ کے نقصان اور قید و بند کی صعوبتوں نے اس کی قطعاً کوئی اصلاح نہیں کی تھی ۔ آزادی کی فضا میں سانس لیتے ہی چوری کی خواہش نے اسے بے تاب کردیا اور رات کا اندھیرا پھیلتے ہی وہ اپنی مہم پر نکل کھڑا ہوا ۔
یہ اس کی نئی مجرمانہ زندگی کی پہلی رات تھی ادھر
ادھر پھرتے پھراتے آدھی رات گزر گئی لیکن کسی مکان میں داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا ۔ آخر بڑی تگ و دو کے بعد اسے ایک وسیع و عریض حویلی نظر آئی جس کے چاروں طرف دور دور تک سناٹا تھا ۔ اس حویلی کی بیرونی دیوار کے وسط میں ایک بڑا پھاٹک تھا ۔
![]() |
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
حویلی دیکھ کر اسے گمان گزرا کہ شاید یہ کسی امیر سوداگر کی ہے ۔
ابنِ ساباط پھاٹک کے پاس پہنچ کر رک گیا اور اندر جانے کی تدبیر سوچنے لگا ؟
اسی سوچ بچار میں اس کا ہاتھ اچانک پھاٹک پر جا پڑا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا ، اس نے آہستگی سے دروازہ پیچھے کی طرف دھکیلا اور دبے پاؤں اندر داخل ہو گیا ۔
مکان کے وسط میں ایک وسیع احاطہ تھا جس کے چاروں طرف کمرے بنے ہوئے تھے ۔
ابنِ ساباط ایک کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا ۔ جونہی اس نے دروازے کو ہاتھ لگایا وہ بھی پھاٹک کی طرح فوراً کھل گیا ۔
کمرے میں داخل ہو کر اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی چاند کی ہلکی سی روشنی کھڑکیوں کے راستے اندر آ رہی تھی اس مدھم روشنی میں اس نے دیکھا ایک طرف کھجور کے پتوں کی ایک پرانی چٹائی بچھی ہے اس کے اوپر چمڑے کا ایک تکیہ اور بھیڑ کی کھال کی چند ٹوپیاں پڑی ہیں اور ذرا پرے ایک گوشے میں پشمینہ کے موٹے کپڑے کے چند تھان بکھرے پڑے ہیں ۔
![]() |
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
ابنِ ساباط کی آنکھیں ایسے مکانوں میں قیمتی ساز و سامان دیکھنے کی عادی رہ چکی تھیں ، یہ معمولی سامان دیکھ کر وہ جھنجھلا اٹھا اور مالک مکان کو برا بھلا کہنا شروع کیا کہ اتنے بڑے گھر میں اتنا معمولی سامان ؟ تاہم اسے خالی ہاتھ جانا گوارا نہ تھا ، اس نے پشمینہ کے کپڑوں کی گٹھڑی بنانے کی کوشش کی لیکن اپنے ایک ہاتھ سے موٹے کپڑے کو گرہ نہ لگا سکا اور ہانپتا ہوا بیٹھ گیا ۔
عین اسی لمحے دروازہ کھلا اور ایک شخص چراغ لیے کمرے میں داخل ہوا ، ابنِ ساباط سراسیمہ ہو گیا ۔
نو وارد کا قد دراز ، کمر جھکی ہوئی اور جسم انتہائی نحیف تھا جس پر ملجگے رنگ کی ایک لمبی قبا تھی اور سر پر بھیڑ کی کھال کی ایک کشادہ سیاہ ٹوپی تھی ، اس شخص کے چہرے پر عجیب طرح کا اطمینان اور آنکھوں میں چمک تھی ۔
اس نے کمرے میں داخل ہو کر چراغ ایک طرف رکھ دیا
![]() |
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
اور ابن ساباط سے مخاطب ہو کر کہا
اے اللّٰہ کے بندے ، یہ کام کسی ساتھی اور روشنی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا ، دیکھو یہ چراغ روشن ہے اور تمہاری مدد کے لیے میں حاضر ہوں ، اب ہم دونوں مل کر یہ کام اطمینان سے کرلیں گے ۔
ابنِ ساباط حیرت سے اجنبی نو وارد کو دیکھنے لگا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ معاملہ کیا ہے ؟
اتنے میں اجنبی نے پشمینہ کے تھانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ان کی الگ الگ دو گٹھڑیاں باندھ دیں ۔
ابنِ ساباط نے اس اجنبی سے کہا ، دیکھو میں تم سے پہلے یہاں پہنچا تھا اس لیے تمہارا اس مال پر کوئی حق نہیں لیکن چونکہ تم نے میری مدد کی ہے اس لیے میں تمہیں کچھ نہ کچھ ضرور دوں گا البتہ پہلے تمہیں یہ سامان میرے ٹھکانے تک پہنچانا ہو گا
اجنبی نے جواب دیا ، تم میرے حصّے کی فکر نہ کرو میں تم سے کچھ طلب نہیں کروں گا ۔
ابنِ ساباط نے کہا ٹھیک ہے ، تمہیں مجھ سے بہتر سردار سارے ملک میں نہیں مل سکتا یہ چھوٹی گٹھڑی میں اٹھا لیتا ہوں اور بڑی گٹھڑی اٹھا کر تم میرے آگے چلو ۔
اس نحیف الجثہ شخص نے بڑی محنت سے وہ گٹھڑی اٹھا کر اپنی کمر پر لاد لی اور ابن ساباط کے آگے چلنے لگا ۔
رات تیزی سے ختم ہو رہی تھی ، ابنِ ساباط جلدی میں تھا وہ بار بار اجنبی کو تیز چلنے کا حکم دیتا ، اجنبی کئی بار گرا لیکن پھر اٹھ کھڑا ہوتا ۔
دونوں چلتے چلتے شہر سے باہر ایک پرانے کھنڈر میں پہنچ گئے ، یہی ابنِ ساباط کی پناہگاہ تھی ۔
![]() |
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ ، Moral Stories for children |
ابنِ ساباط کھنڈر کی دیوار سے اندر کود گیا ، اجنبی نے دونوں گٹھڑیاں باہر سے اندر پھینک دیں اور جانے کے لیے مڑا تو ابنِ ساباط پکارا : اپنا طے شدہ حصّہ تو لیتے جاؤ ۔
اجنبی شخص اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا : میرے بھائی ! یہ مال تمہی کو مبارک ہو ، مجھے اس میں سے کچھ نہیں چاہئے ۔
یہ کہہ کر وہ اجنبی شہر کی جانب روانہ ہو گیا اور ابنِ ساباط حیرت سے اس کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اگلی صبح ابنِ ساباط پشمینہ کے تھان بازار لے گیا تاکہ اسے فروخت کرکے رقم حاصل کرسکے ، دوکاندار نے ابنِ ساباط سے کہا کوئی ضامن لاؤ جو یہ گواہی دے کہ یہ مال تمہارا ہے ۔
قبل اس کے کہ وہ کوئی جواب دیتا پیچھے سے آواز آئی میں ضمانت دیتا ہوں کہ اس کا مالک یہی ہے ۔
ابنِ ساباط نے دیکھا وہی رات والا اجنبی شخص اس کی ضمانت دے رہا ہے ۔ اجنبی کے رویے نے حیرت میں مبتلا ابنِ ساباط کو بے چین کردیا دن بھر اس سارے معاملے پر غور و فکر کرتا رہا ، صبح ہوتے ہی وہ اجنبی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا
پچھلی رات والا مکان ڈھونڈنے میں اسے کوئی دقت پیش نہ آئی ، وہاں پہنچ کر اس کے باہر موجود ایک شخص سے دریافت کیا یہ کس شخص کا مکان ہے ؟
اس شخص نے حیرت سے ابنِ ساباط کی طرف دیکھا اور کہا تم مسافر معلوم ہوتے ہو ؟ یہ شیخ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مکان ہے ۔
ابنِ ساباط نے یہ نام تو سن رکھا تھا لیکن ان کی صورت سے نا آشنا تھا ۔
پھاٹک سے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ سامنے والے بڑے کمرے کا دروازہ کھلا ہے اور حضرت جنید بغدادی چٹائی پر تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔ ان کے سامنے ان کے شاگرد انتہائی مؤدبانہ انداز میں بیٹھے ہیں ۔
ابنِ ساباط ٹھٹھک کر وہیں کھڑا ہو گیا ۔ تھوڑی دیر بعد محفلِ درس ختم ہوئی اور شاگرد اٹھ کر جانے لگے جب سب چلے گئے تو ابنِ ساباط شیخ جنید بغدادی کے پاس گیا اور پچھلی رات کے رویے پر معافی مانگی ۔
حضرت جنید بغدادی نے بہت شفقت کا برتاؤ کیا اور اسے گلے لگا لیا ۔
ابنِ ساباط کے دل کی دنیا بدل چکی تھی ، وہ دن رات حضرت جنید بغدادی کی خدمت میں رہنے لگا اور جلد ہی ان کی صحبت سے فیضیاب ہو کر ایسا مقام حاصل کیا کہ لوگ اب انہیں ہتھ کٹا شیطان کی بجائے شیخ احمد بن ساباط کہنے لگے ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شاگرد اور حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بھانجے اور مرید تھے حضرت سری سقطی سے ایک مرتبہ لوگوں نے پوچھا ! کوئی مرید اپنے پیر سے بلند رتبہ ہوا ہے ؟
آپ نے جواب دیا : ہاں ، جنید مجھ سے درجہ میں بڑھا ہوا ہے ۔
حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زندگی میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مریدوں نے درخواست کی : آپ کچھ وعظ فرمایا کریں ۔
لیکن حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے انکار کردیا کہ شیخ سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے موجود ہوتے میں وعظ نہیں کہوں گا ۔
ایک رات آپ نے خواب میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زیارت کی ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے جنید ! تم مخلوقِ خدا کو وعظ سنایا کرو ، تمہارے وعظ کو اللّٰہ تعالیٰ نے جہان والوں کی نجات کا موجب ٹھہرایا ہے
جب بیدار ہوئے تو دل میں خیال آیا کہ میرا درجہ حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بڑھا ہوا ہے اسی لیے مجھے خواب میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وعظ کہنے کی نصیحت فرمائی ہے ۔
صبح جب نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرف سے ایک شخص پیغام لایا کہ حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : جنید سے کہو کہ نہ مریدوں کے کہنے پر تم نے وعظ کہا ، نہ بغداد کے مشائخ کے فرمانے پر تم نے وعظ کہا اور نہ ہی میری سفارش اور پیغام پر تم نے وعظ کہا ، اب تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہوا ہے اس کی ضرور تعمیل کرنا ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ پیغام سن کر برتری کا جو خیال میرے سر میں سمایا ہوا تھا یکلخت نکل گیا اور میں نے جان لیا کہ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کا درجہ مجھ سے بلند ہے ، وہ میرے تمام احوال سے باخبر ہیں لیکن میں ان کے حالات سے بے خبر ہوں ۔
چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور استغفار کی اور آپ سے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے ؟
حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا : مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تم سے فرما رہے ہیں کہ مخلوقات کو وعظ و نصیحت کیا کرو تاکہ بغداد کے باشندے مراد کو پہنچیں ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے :
انبیاء کا کلام بارگاہِ رب العزت سے مستند اور یقینی خبر ہوتا ہے اور صدیقین و اولیاء کا کلام اس درسگاہ کی طرف سے آنکھ کا اشارہ ہوتا ہے ۔
نبی کی اطلاع میں غلطی و خطا کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن ولی کے بارے میں یہ امکان ہے کہ اشارہ سمجھنے اور اس کا ادراک کرنے میں غلطی لگ جائے ۔
نبی اور ولی میں بالکل واضح اور قطعی فرق ہے جہاں سے نبوت کی حد شروع ہوتی ہے وہاں ولایت کی حد ختم ہو جاتی ہے ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک دن مسجد میں تھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا : اے شیخ محترم ! آپ کا وعظ شہر ہی میں کام کرتا ہے یا جنگل میں بھی کچھ تاثیر رکھتا ہے ؟
آپ نے احوال پوچھا
اس نے عرض کیا : چند اشخاص جنگل میں فلاں مقام پر مصروف رقص و سرود اور نشہ ء مے سے مخمور ہیں ۔ آپ نے اسی وقت چہرے کو کپڑے سے چھپا کر جنگل کی راہ لی ۔
![]() |
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
جب آپ ان لوگوں کے قریب پہنچے تو وہ ڈر کر بھاگنے لگے آپ نے فرمایا : بھاگو مت ہمیں اپنا ہم مشرب سمجھو اور ہمارے لیے بھی لاؤ ۔
ان لوگوں نے کہا : ہمیں افسوس ہے کہ اس وقت ہمارے پاس بھی نہیں ہے کہو تو شہر سے منگوا دیں ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا : کیا تمہیں کوئی ایسی بات نہیں آتی کہ شراب طہور خود بہ خود آ جایا کرے ۔
وہ کہنے لگے یہ کمال تو ہم میں سے کسی کو حاصل نہیں
فرمایا : آؤ میں تمہیں ایک ایسی بات سکھا دوں کہ جام خود تمہارے سامنے آ جائیں اور اس کا مزہ بھی بہترین ہو وہ سب متجسس ہوئے کہ یہ کمال تو ضرور بتا دیجیے ۔
آپ نے کہا شرط یہ ہے کہ نہا دھو کر اور کپڑے بدل کر میرے پاس آؤ ، سب نے غسل کیا اور پاک صاف ہو کر آ گئے
تب آپ نے انہیں کہا سب دو رکعت نماز پڑھو ، جب انہوں نے نماز شروع کی تو آپ نے دعا مانگی
خدایا میرا تو اتنا ہی کام تھا کہ تیرے حضور کھڑا کر دیا اب تجھے اختیار ہے خواہ انہیں گمراہ رکھ خواہ ہدایت بخش دے ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی دعا قبول ہوئی اور وہ سب ہدایت کامل سے مستفیض ہوئے ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے دل میں شیطان کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی
ایک روز میں مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک بوڑھا آدمی وہاں آ گیا
![]() |
Hazrat Junaid Baghdadi , Moral Stories |
جسے دیکھ کر مجھے شدید نفرت اور کراہت محسوس ہوئی ۔
جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا : تم کون ہو کہ میری آنکھوں کو تمہیں دیکھنے کی طاقت نہیں اور تمہاری موجودگی سے میرے دل کو سخت وحشت ہو رہی ہے ؟
اس نے کہا : میں وہی تو ہوں جس کو دیکھنے کی تجھے خواہش تھی ۔
میں نے کہا : او ملعون ! تجھے کس چیز نے اس بات پر جراءت دلائی کہ تو آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرے ؟
اس نے جواب دیا : اے جنید ! تم نے یہ کیا بات کہی ، کیا میں خدا کی ذات کے سوا غیر کو سجدہ کر دیتا ؟
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کہتے ہیں کہ میں اس کی بات سن کر ششدر رہ گیا اور مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا ۔
اتنے میں میرے پیچھے سے یہ آواز آئی
اے جنید ! اس سے کہو کہ تو جھوٹ بول رہا ہے ۔ اگر تو خدا کا فرمانبردار ہوتا تو اس کے حکم سے سرتابی کیوں کرتا ؟
شیطان نے یہ آواز سنی تو چیخ کر کہا : خدا کی قسم جنید تو نے تو مجھے جلا ڈالا اور غائب ہو گیا ۔
ایک مرتبہ آپ وعظ فرما رہے تھے کہ
شام فتوحات کا
عراق فصاحت کا
![]() |
عراق ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
خراسان صدق کا مرکز ہے
![]() |
خراسان ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
لیکن ان راہوں میں قزاقوں نے اپنے جال بچھا رکھے ہیں
اگر تم قدرت خداوندی کا مشاہدہ کرو تو سانس تک نہ لے سکو ۔
بہت افضل ہے وہ بندہ جس کو ایک لمحہ کے لئے بھی قرب الٰہی حاصل ہوا ہو ۔
قرآن وحدیث کی اتباع کرتے رہو
![]() |
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ ، Moral Stories |
اور جو ان کا اتباع نہ کرے اس کی پیروی ہر گز نہ کرو
وسواس شیطانی کی بہ نسبت نفس کے وسواس اس لئے شدید ترین ہوتے ہیں کہ وسواس شیطانی تو لاحول سے دور ہو جاتے ہیں لیکن نفس کے وسواس کا دور کرنا بہت دشوار ہوتا ہے
خدا کے بھید خدا کے دوستوں کے قلب میں محفوظ رہتے ہیں
دوران و عظ کسی نے عرض کیا : آپ کا وعظ میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔
آپ نے فرمایا : ستر سال کی عبادت قدموں کے نیچے رکھ کر سرنگوں ہو جاؤ اس کے بعد بھی اگر تمہاری سمجھ میں نہ آئے تو یقینا میرا قصور ہو گا ۔
آپ نے وعظ جاری رکھتے ہوئے فرمایا
جہنم میں جلنے سے زیادہ خدا سے غافل رہنا سخت ہے۔
جس کا علم یقین تک ، یقین خوف تک ، خوف اخلاص تک ، اخلاص عمل تک اور عمل مشاہدہ تک نہیں پہنچتا وہ ہلاک ہو جاتا ہے ۔
ابلیس کو عبادت کے بعد بھی مشاہدہ حاصل نہ ہو سکا
انسان سیرت سے انسان ہوتا ہے نہ کہ صورت سے ۔
تکلیف پر شکایت نہ کرتے ہوئے صبر کرنا عبادت ہے ۔
مہمان نوازی نوافل سے بہتر ہے ۔
قرب خداوندی کے بغیر بقا حاصل نہیں ہو سکتی ۔
بندہ جتنا خدا سے قریب ہوتا ہے خدا بھی اتنا ہی اس کے قریب رہتا ہے ۔
جس کی زندگی روح پر موقوف ہو وہ روح نکلتے ہی مرجاتا ہے اور جس کی حیات کا دار و مدار خدا ہو وہ کبھی نہیں مرتا بلکہ طبعی زندگی سے حقیقی زندگی حاصل کر لیتا ہے ۔
پھر فرمایا کہ صنعت الٰہی سے عبرت حاصل نہ کرنے والی آنکھ کا اندھا ہونا بہتر ہے ، جو زبان خدا کے ذکر سے عاری ہو اس کا گنگ ہونا بہتر ہے اور جو کان حق بات سننے سے قاصر ہو اس کا بہرہ ہونا اچھا ہے اور جو جسم عبادت سے محروم ہو اس کا مردہ ہو جانا افضل ہے ۔
زمین کو صوفیائے کرام سے ایسی ہی آراستگی حاصل ہے جیسی آسمان کو ستاروں سے
اہل ہمت اپنی ہمت کی وجہ سے سب پر فوقیت حاصل کر لیتے ہیں ۔
خدا رسیدہ بزرگوں کا یہ قول ہے کہ عبادت الٰہی اس طرح کرنی چاہئے کہ خدا کے سوا کسی کا خیال تک نہ آئے صوفی وہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خلیل ہونے کا درس اور حضرت اسمعیل علیہ السلام سے تسلیم و رضا کا درس ، حضرت داؤد علیہ السلام سے غم کا درس ، حضرت ایوب علیہ السلام سے صبر کا درس ، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شوق کا درس اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اخلاص کا درس حاصل کرے ۔
اللّٰہ تعالیٰ سے ایک لمحہ کی غفلت کی ہزار سال کی عبادت سے بھی تلافی نہیں ہو سکتی
اولیاء اللّٰہ کے لئے نفس کی نگرانی سے دشوار کوئی کام نہیں ۔
دنیوی مشاغل ترک کر دینے کا نام عبودیت یعنی بندگی ہے اور زہد کی انتہا افلاس ہے ۔ بندہ صادق وہی ہے جو نہ تو دست طلب دراز کرے اور نہ جھگڑے ۔
توکل انتہائے صبر کا نام ہے اور صبر کی تعریف یہ ہے کہ یہ مخلوق سے دور کرکے خالق کے قریب کر دے
نیک خو کی صحبت بد خو عابد سے بہتر ہے ۔
حیا ایک ایسی نعمت ہے جو معاصی کی نگرانی سے پیدا ہوتی ہے ۔
اپنی تعظیم کرانے کے لئے کرامات کا ظہور فریب ہے ۔
ذکر کی کئی قسمیں ہیں ۔ اول : حصول معرفت کے لئے آیات قرآنی میں فکر کرنا
دوم : حصول محبت کے لئے نفس پر خدا کے احسانات کے متعلق فکر کرنا
سوم : حصول ماہیت کے لئے خدا کے مواعید پر فکر کرنا
چہارم : حصول حیا کی خاطر خدا کے انعامات پر غور کرنا ۔
شفقت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی پسندیدہ شے دوسرے کے حوالے کر کے احسان نہ جتائے
ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہئے جو احسان کر کے بھول جاتے ہیں اور تمام لغزشوں کو نظر انداز کرتے ہیں
تواضع نام ہے سر جھکا کر رکھنے کا ۔
کسی نے سوال کیا کہ قلب کو خوشی کس وقت حاصل ہوتی ہے ؟ فرمایا کہ جب قلب خدا کی یاد سے معمور ہو ۔
ایک مرید کے دل میں یہ شیطانی وسوسہ پیدا ہو گیا کہ اب میں کامل بزرگ ہو گیا ہوں اور مجھے صحبت مرشد کی حاجت نہیں رہی ۔
اس خیال کے تحت جب وہ گوشہ نشین ہو گیا تو رات کو خوابوں میں دیکھا کرتا کہ ملائکہ اونٹ پر سوار کرا کے جنت میں سیر کرانے لے جاتے ہیں اور انواع و اقسام کے طعام اس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ۔
یہ بات جب شہرت کو پہنچ گئی تو ایک دن آپ بھی اس کے پاس پہنچ گئے اور فرمایا : آج رات جب تم جنت میں پہنچو تو لاحول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم پڑھنا ۔
اس نے جب آپ کے حکم کی تعمیل کی تو دیکھا کہ شیاطین تو فرار ہو گئے اور کھانے کی جگہ مردوں کی ہڈیاں پڑی ہیں ۔ یہ دیکھ کر وہ تائب ہو گیا اور آپ کی صحبت دوبارہ اختیار کر لی ۔
ایک شخص نے پانچ سو دینار آپ کی خدمت میں پیش کئے ۔
![]() |
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
آپ نے دریافت کیا تمہارے پاس اور رقم بھی ہے ؟ اس نے جب اثبات میں جواب دیا تو پوچھا کیا مزید مال کی بھی حاجت ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ۔
آپ نے فرمایا : اپنے پانچ سو دینار واپس لے جاؤ کیوں کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن مجھے حاجت بھی نہیں اور تمہارے پاس اگرچہ رقم موجود ہے پھر بھی تم محتاج ہو ۔
ایک دن کسی سائل نے آپ سے سوال کیا تو آپ کو یہ خیال آیا کہ جب یہ شخص مزدوری کر سکتا ہے تو اس کو سوال کرنا جائز نہیں ۔
اسی شب خواب دیکھا کہ کپڑے سے ڈھکا ہوا ایک بر تن آپ کے سامنے رکھا ہوا ہے
![]() |
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
اور حکم دیا جارہا ہے کہ اس کو کھا لو ۔
آپ نے جس وقت کھول کر دیکھا تو وہی سائل مردہ پڑا ہوا تھا ۔
آپ نے کراہت محسوس کی اور فرمایا کہ میں تو مردار خور نہیں ہوں ۔
حکم ہوا : پھر دن میں اس کو کیوں کھایا تھا ۔
آپ کو خیال آگیا کہ میں نے غیبت کی تھی اور یہ اس جرم کی سزا ہے ۔
آپ نے اس سائل کو تلاش کیا اس سے معافی مانگی ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کہا کرتے تھے کہ اخلاص کی تعلیم میں نے ایک حجام سے حاصل کی ہے ۔
واقعہ اس طرح پیش آیا کہ مکہ معظمہ میں قیام کے دوران ایک حجام کسی دولت مند کی حجامت بنارہا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ خدا کے لئے میری حجامت بنا دو ۔
اس نے فوراً اس دولت مند کی حجامت چھوڑ کر میرے بال کاٹنے شروع کر دیے اور حجامت بنانے کے بعد ایک کاغذ کی پڑیا میرے ہاتھ میں دے دی جس میں کچھ ریز گاری لپٹی ہوئی تھی پھر مجھ سے کہا کہ آپ اس کو اپنے خرچ میں لائیں ۔
وہ ریزگاری لے کر میں نے یہ نیت کر لی کہ اب جس قدر جلد مجھے جو کچھ میسر ہو گا وہ میں حجام کی نذر کروں گا ۔
کچھ ہی دنوں کے بعد ایک شخص نے اشرفیوں سے بھری تھیلی مجھے پیش کی ۔
وہ لے کر جب میں حجام کے پاس پہنچا تو اس نے کہا : میں نے تو وہ نیکی صرف خدا کے لئے کی تھی اور تم مجھے تھیلی پیش کرنے آئے ہو ؟ کیا تمہیں اس کا علم نہیں کہ خدا کے لیے کام کرنے والا کوئی معاوضہ نہیں لیتا ۔
ایک مرید کے موءدب ہونے کی وجہ سے آپ کو اس سے قلبی لگاؤ تھا جس کی وجہ سے دوسرے مریدین کو رشک پیدا ہو گیا ۔
ایک دن آپ نے ہر مرید کو ایک مرغ اور ایک چاقو دے کر یہ حکم دیا کہ ان کو ایسی جگہ لے جا کر ذبح کرو جہاں کوئی دیکھ نہ سکے ۔
کچھ وقفہ کے بعد تمام مریدین تو ذبح کیا ہوا مرغ لے کر حاضر ہو گئے لیکن وہ مرید زندہ مرغ لئے ہوئے واپس آیا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی جگہ ایسی نہیں ملی جہاں خدا موجود نہ ہو ۔
یہ کیفیت دیکھ کر تمام مریدین اپنے رشک سے تائب ہو گئے ۔
ایک دفعہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی آنکھیں دکھنے لگیں ، بغداد میں آنکھوں کا علاج کرنے والا ایک آتش پرست طبیب تھا ۔ اس نے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کہا : آپ کی آنکھوں میں جو تکلیف ہے وہ اسی طرح دور ہو سکتی ہے کہ انہیں پانی سے بچایا جائے ۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ایسا تو ممکن نہیں کیونکہ وضو کرنا ضروری ہے ۔
یہ سن کر طبیب نے کہا تو پھر آپ اپنی آنکھوں سے محروم ہو جائیں گے ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ نے طبیب کے چلے جانے کے بعد وضو کیا اور نماز عشاء ادا کرکے سو گئے ۔ صبح بیدار ہوئے تو آنکھیں بالکل ٹھیک ہو چکی تھیں ۔
طبیب کو دکھائیں تو اس نے حیرت سے پوچھا کہ آپ کی آنکھیں رات بھر میں کیسے ٹھیک ہو گئیں ؟
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا : وضو کی برکت سے ۔
اس واقعہ سے وہ طبیب اس قدر متاثر ہوا کہ آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے آٹھ مخصوص مریدین نے ایک مرتبہ جہاد پر جانے کا ارادہ کیا ۔ آپ بھی ان کے ساتھ کفار سے مقابلہ کے لئے روم تشریف لے گئے ۔
![]() |
روم ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
![]() |
روم ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ |
دورانِ جنگ وہ کافر جس نے آٹھوں مریدین کو شہید کیا تھا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا ہوں ۔ میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیئے گا اور آپ بغداد تشریف لے جا کر لوگوں کی رہنمائی کیجئے ۔
وہ مسلمان ہو گیا اور جنگ میں اپنی قوم کے آٹھ کافروں کو قتل کرنے کے بعد خود بھی شہید ہو گیا ۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے دیکھا کہ اس نویں ہودے میں اس کی روح کو داخل کر دیا گیا ۔
مرگ الموت میں آپ نے لوگوں سے فرمایا : مجھے وضو کروا دو ۔ دوران وضو انگلیوں میں خلال کرنا بھول گئے تو آپ کی یاددہانی پر خلال کر دیا گیا ۔ اس کے بعد آپ نے سجدے میں گر کر گریہ و زاری شروع کر دی ، لوگوں نے سوال کیا کہ آپ اس قدر عبادت گزار ہو کر روتے کیوں ہیں ؟
فرمایا : اس وقت میں خدا کے لطف و کرم کا بہت محتاج ہوں ۔ قرآن سے زیادہ میرا کوئی مونس و غم خوار نہیں ، اس وقت میں اپنی عمر بھر کی عبادت کو اس طرح ہوا میں معلق دیکھ رہا ہوں کہ جس کو تیز و تند ہوا کے جھونکے لیے جا رہے ہیں اور مجھے یہ علم نہیں کہ یہ ہوا فراق کی ہے یا وصال کی اور دوسری طرف فرشتہ اجل اور پل صراط ہے اور میں رب رحمان پر نظریں لگائے ہوئے منتظر ہوں کہ نہ جانے مجھے کہاں جانے کا حکم دیا جائے ۔ آپ نے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی ، سورہ البقرہ کی ستر آیات تلاوت فرمائیں پھر کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے ۔
عالم سکرات میں جب لوگوں نے عرض کیا کہ اللّٰہ کا ذکر کیجئے تو فرمایا کہ میں اس کی طرف سے غافل نہیں ہوں پھر انگلیوں پر وظیفہ خوانی شروع کر دی اور جب داہنے ہاتھ کی انگشت شہادت پر پہنچے تو انگلی اوپر اٹھا کر بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم پڑھی اور آنکھیں بند کرتے ہی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔
کسی بزرگ نے خواب میں آپ سے پوچھا کہ منکر نکیر کو آپ نے کیا جواب دیا ؟
فرمایا : جب انہوں نے پوچھا کہ من ربک ؟ تمہارا رب کون ہے ؟ تو میں نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں ازل ہی میں الست بربکم کا جواب بلى' کہہ کر دے چکا ہوں اس کا جواب دینا غلاموں کے لیے کیا دشوار ہے ۔
نکیرین میرا جواب سن کر یہ کہتے ہوئے چل دیئے کہ ابھی تک یہ اسی محبت کے خمار میں ہے ۔
کسی بزرگ نے خواب میں آپ سے پوچھا خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیسا معاملہ کیا ؟ فرمایا ! محض اپنے لطف و کرم سے بخش دیا ۔
حضرت جنید بغدادی اور شیخ احمد بن ساباط
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتیں ہیں تقدیریں
ہتھ کٹے شیطان کی توبہ
حضرت جنید بغدادی اور حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ
عمدة المشائخ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ
Moral Stories
Moral Stories for children
Historical Stories
0 Comments