حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
نبوت کا تیرہواں سال اور ربیع الاول کا مہینہ تھا ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے جا رہے تھے ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
اہل قبا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جدائی کے خیال سے غمگین تھے ۔ سردار قبیلہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیا ہم لوگوں سے کوئی کام آپ کی منشاء کے خلاف ہوا ہے یا آپ یہاں سے بہتر مقام پر تشریف لے جانا چاہتے ہیں ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں جہاں جا رہا ہوں وہیں مجھے جانے کا حکم دیا گیا ہے ۔
ادھر مدینہ میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی اطلاع پہنچ چکی تھی اور وہاں جشن کا سماں تھا ۔ بنو نجار کے چیدہ افراد ہتھیار سجائے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیشوائی کے لیے مدینہ منورہ سے قبا پہنچ چکے تھے ۔
![]() |
Moral Stories حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبا سے مدینہ روانہ ہوئے تو انصار و مہاجرین کے مسلح افراد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں جانب چل رہے تھے ۔
بنو نجار اور انصار کے تمام قبائل کے افراد ہتھیاروں سے لیس راستے کے دونوں اطراف کھڑے تھے ۔ ان کے ہتھیاروں کی چمک نظر کو خیرہ کررہی تھی ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب بنو سالم کے محلے میں پہنچے تو نماز جمعہ کا وقت ہو گیا ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی سے اترے ، لوگوں کو نماز جمعہ کی تیاری کا حکم دیا اور پھر خطبہء جمعہ ارشاد فرمایا : جس میں سب سے پہلے اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی ، مسلمانوں کو آخرت کی باز پرس سے آگاہ فرمایا ، اللّٰہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اعمالِ صالح کی تاکید فرمائی اور تقویٰ و طہارت کے بارے میں رہنمائی دی ۔
اس خطبہ کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا فرمائی ۔ یہ مدینہ منورہ میں سب سے پہلا خطبہء جمعہ اور سب سے پہلی نمازِ جمعہ تھی ۔
نمازِ جمعہ سے فراغت کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی جنوبی سمت سے شہر میں داخل ہوئے ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
اہل مدینہ نے انتہائی عقیدت و محبت اور والہانہ جوش سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا استقبال کیا ۔ یہ درحقیقت مدینہ منورہ کی تاریخ کا سب سے بڑا یوم مسرت تھا مدینہ منورہ کی فضاء اللّٰہ اکبر اور مرحبا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پرجوش نعروں سے گونج رہی تھی ۔
اس موقع پر سب سے زیادہ خوشی بنو نجار کو تھی جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ننہالی رشتہ دار تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی میزبانی کا اعزاز انہیں عطا کریں گے اور اس طرح انہیں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا میزبان اور ہمسایہ بننے کی دوہری سعادت نصیب ہو گی ۔ بنو نجار کی چھوٹی بچیاں دف بجا بجا کر یہ اشعار پڑھ رہی تھیں ،
طلع البدر علينا من ثنيات الوداع
کوہ وداع کی گھاٹیوں سے ہم پر ماہ کامل طلوع ہوا
وجب الشكر علينا ما دعى للہ داع
ہم پر خدا کا شکر واجب ہے جب تک دعا مانگنے والے دعا مانگیں
نحن جوار من بني النجار ياحبذا محمدا من جار
ہم خاندان نجار کی لڑکیاں ہیں
محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیا ہی اچھے ہمسایہ ہیں
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان بچیوں کے پاس سے گزرے تو مسکراتے ہوئے ان سے دریافت فرمایا ، اے بچیو ، کیا تم مجھ سے محبت رکھتی ہو ؟ انہوں نے بیک آواز جواب دیا ، جی یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم بھی مجھے عزیز ہو
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اونٹنی جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی انصار کا شوق اور بیتابی بھی بڑھتی جاتی تھی ۔
ہر قبیلے اور فرد کی خواہش تھی کہ سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس کے گھر میں تشریف فرما ہوں ۔
قبائل کے سرداروں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ہمارے گھر تشریف لا کر ہمیں اپنی میزبانی کی سعادت کا اعزاز عطا فرمائیے ۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر اس وقت نزول وحی کی کیفیت طاری تھی ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے چاہنے والوں کے حق میں دعائے خیر کی اور فرمایا ، اس اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو یہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے ۔
اس ارشاد پر سب خاموش ہو گئے لیکن سب منتظر تھے کہ دیکھیں قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے ۔
قصواء ، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اونٹنی چلتے چلتے بنو نجار کے محلے میں پہنچی اور اس جگہ جا کر بیٹھ گئی جہاں آج کل مسجد نبوی کا بڑا دروازہ ہے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس پر سے نہ اترے ۔ قصواء پھر اٹھی اور تھوڑی دور جا کر واپس آئی اور اسی جگہ پر جہاں پہلے بیٹھی تھی وہیں بیٹھ گئی ۔
اس جگہ بالکل قریب ایک دو منزلہ مکان تھا ۔ اس کے مالک گھر کی دہلیز پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے موجود تھے ۔ انہوں نے قصواء کو اپنے مکان کے قریب اس طرح بیٹھتے دیکھا تو بے حد خوش ہوئے آگے بڑھ کر رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا پرتپاک استقبال کیا ۔
اسی اثناء میں بنو نجار کے دوسرے لوگ بھی وہاں پہنچ گئے اور ہر ایک اصرار کرنے لگا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میرے غریب خانے پر تشریف لائیے ۔ ان صاحب کا بھی اصرار تھا کہ ان کے گھر قدم رنجہ فرمائیے ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کسی کی دل شکنی نہیں کرنا چاہتے تھے ، فرمایا قرعہ ڈال لو ، اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت قرعہ ڈالا گیا تو انہیں صاحب کا نام نکلا ۔ گویا فخر دوجہاں صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف اللّٰہ تعالیٰ نے ان ہی کے مقدر میں لکھ دیا تھا ۔ انہوں نے انتہائی خوشی سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سامان ناقہ سے اتارا ۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد سے ان کا گھر فیوض و برکات سے معمور ہو گیا ۔
یہ ہستی جنہیں مدینہ منورہ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا اور جن کی خوش نصیبی پر تمام انصار رشک کیا کرتے تھے بنو نجار کے رئیس حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تھے ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے ۔ حضرت مصعب بن عمیر کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں مسلمان ہوئے ۔ اس کے بعد انہیں بیعت عقبہ کبیرہ میں شامل ہونے کا عظیم شرف حاصل ہوا اس موقع پر انہوں نے اپنے رفقاء کے ساتھ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے یہ مقدس پیمان وفا باندھا تھا کہ ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آپ مدینہ منورہ میں تشریف لائیں گے تو خدائے برتر کی قسم ہم ہمیشہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ آپ کی مدد اور حفاظت کریں گے ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بنو نجار کے آسودہ حال لوگوں میں سے تھے ۔ وہ ایک مکان اور اس سے متصل کھجوروں کے ایک باغ کے مالک تھے ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا مکان دو منزلہ تھا ، ایک کمرہ نیچے اور ایک اوپر ، انہوں نے بارگاہِ نبوت میں عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آپ غریب خانے کی بالائی منزل پر قیام فرمائیں ، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نہیں میرے پاس لوگوں کی آمد و رفت رہے گی اس لیے نچلی منزل ہی میرے قیام کے لیے موزوں ہے ۔چنانچہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خواہش کے مطابق حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے مکان کی نچلی منزل خالی کردی اور خود بالاخانے میں فروکش ہوگئے لیکن انہیں اور ان کی اہلیہ کو ہر وقت یہ خیال مضطرب رکھتا کہ وہ تو بالائی منزل میں مقیم ہیں اور سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نچلی منزل میں ۔
ایک مرتبہ بالا خانے میں پانی سے بھرا ہوا برتن ٹوٹ گیا ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اس خیال سے پریشان ہو گئے کہ پانی بہہ کر نیچے جائے گا اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو گی ۔ گھر میں اوڑھنے کا ایک ہی لحاف تھا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فوراً وہ لحاف اس پانی پر ڈال دیا تاکہ بہتا ہوا پانی اس لحاف میں جذب ہو جائے ۔ جب پانی کے نیچے جانے کا امکان نہ رہا تو انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے اطمینان کا سانس لیا ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اگرچہ اپنی خوشی سے زیریں منزل میں مقیم تھے لیکن حضرت ابو ایوب انصاری اور ان کی اہلیہ کو بالاخانے میں رہنا ناپسند تھا ۔ یہ خیال ان کے لیے تکلیف دہ تھا کہ خیر البشر صلی اللّٰہ علیہ وسلم تو نچلی منزل میں مقیم ہوں اور ان کے ادنیٰ خدام بالائی منزل میں ۔ یہ خیال ایک رات اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ دونوں چھت کے ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھ گئے اور ساری رات اسی حالت میں جاگ کر گزار دی ۔
صبح ہوئی تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہم ساری رات چھت کے ایک کونے میں بیٹھ کر جاگتے رہے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو عرض کی ، ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہمیں ہر لمحہ آپ کی بے ادبی کا اندیشہ دامنگیر رہتا ہے رات کو یہ اندیشہ شدت اختیار کرگیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آپ بالاخانے میں تشریف لے جائیے ، آپ کے غلاموں کے لیے آپ کے قدموں میں رہنا باعثِ سعادت ہے
سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی درخواست قبول کر لی اور اوپر کی منزل میں مقیم ہوگئے ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا ۔ اس مقصد کے لیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس قطعہ زمین کا انتخاب کیا جہاں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اونٹنی آکر بیٹھی تھی ۔
اس زمین کے مالک بنو نجار کے دو یتیم بچے سہیل اور سہل تھے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انصار کو بلا کر فرمایا کہ میں یہ زمین قیمت دے کر لینا چاہتا ہوں تاکہ اس پر مسجد تعمیر کی جا سکے ۔
انصار نے عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس زمین کے مالکوں کو ہم قیمت ادا کر دیں گے اور اسے اپنی طرف سے آپ کے لیے ہبہ کرتے ہیں ، اس کا صلہ ہم اللّٰہ تعالیٰ سے لیں گے ۔
سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انصار کے جذبہ ایثار کی تعریف فرمائی لیکن زمین کی قیمت دینے پر اصرار فرمایا
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مالکان زمین سہل اور سہیل دونوں بچوں سے یہ زمین خریدنے کی خواہش کا اظہار فرمایا ۔ دونوں سعادت مند بچوں نے عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہم یہ زمین اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آپ کی نذر کرتے ہیں ، ان بچوں کی والدہ نے بھی تائید کی ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں دعائے خیر دی اور فرمایا یہ زمین بلا قیمت نہیں لی جائے گی ۔
پھر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے مشورے سے اس زمین کی قیمت دس مثقال ( پونے چار تولہ سونا ) مقرر فرمائی اور اس زمین کے مالکوں کو ادا کر دی ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
ہجرت کے چھ ماہ بعد مسجد اور اس سے متصل دو حجروں کی تعمیر مکمل
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
ہوئی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے گھر سے وہاں منتقل ہو گئے ۔
لیکن اس کے بعد بھی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کبھی کبھی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لے جاتے تھے ۔
ایک دن سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم خانہ اقدس سے باہر نکلے راستے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ مل گئے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان دونوں اصحاب کو ساتھ لے کر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے گھر رونق افروز ہوئے ۔
اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے کھجوروں کے باغ میں تھے اور گھر میں کھانے کی کوئی چیز موجود نہ تھی ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا باغ مکان کے بالکل قریب تھا ، انہوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو کھجوروں کا ایک گچھا توڑ کر تیزی سے گھر آئے اور وہ کھجوریں مہمان عزیز کی خدمت میں پیش کیں ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ Historical Stories |
اس کے ساتھ ہی ایک بکری ذبح کی ۔ آدھے گوشت کا سالن پکوایا اور آدھے کے کباب بنوائے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے رفقائے کرام رضوان اللہ علیہم کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرمایا ۔ یہ پر تکلف کھانا کھاتے ہوئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہو گئی اور فرمایا ، حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن بندوں سے دنیاوی نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ( کہ ان نعمتوں کا حق کیسے ادا کیا ) ۔
ہجرت کے فوراً بعد مدینہ منورہ کے منافقین اور یہودیوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہدایت فرمائی کہ رات کو ہتھیار باندھ کر سویا کریں اور کچھ لوگ جاگ کر پہرہ دیں تاکہ قریش مکہ اور دوسرے دشمنوں کے ناگہانی حملوں کا تدارک کیا جا سکے ۔
ایسے ہی ایک موقع پر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے رات بھر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حجرے پر پہرہ دیا صبح ہوئی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے ابو ایوب خدا تمہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے کہ تم نے اس کے نبی کی نگہبانی کی ۔
یہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعا ہی کی برکت تھی کہ حضرت ابو ایوب انصاری زندگی بھر مصائب و آلام سے محفوظ رہے اور وفات کے بعد بھی صدیوں تک نصاریٰ ان کی قبر کی حفاظت اور نگرانی کرتے رہے حتیٰ کہ ان کا مدفن یعنی قسطنطنیہ ہی مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، قسطنطنیہ |
واقعہ افک میں منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی تو حضرت ابو ایوب انصاری کی اہلیہ نے ان سے پوچھا ، لوگ جو کچھ کہہ رہے وہ آپ نے سنا ۔
فرمایا ، ہاں ، لیکن یہ سب جھوٹ ہے ، میں تم سے پوچھتا ہوں کہ لوگ جو بات ام المومنین کے بارے میں کہہ رہے ہیں کیا تم ایسا کر سکتی ہو ؟ ام ایوب نے کہا ، خدا کی قسم ہر گز نہیں ۔
فرمایا ، اگر تم ایسا نہیں کر سکتی تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کا درجہ اور کردار تو تم سے بہت بلند ہے ۔
دو ہجری میں غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو غزوہِ بدر سے بیعت رضوان اور پھر غزوہِ حنین تک کوئی معرکہ اور موقع ایسا نہ تھا جس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ہمرکاب نہ رہے ہوں ۔
خلفائے راشدین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے عہد میں بھی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کفر و اسلام کے مابین برپا تمام معرکوں میں شریک ہوئے ۔
سینتیس ہجری میں خوارج کے خلاف نہروان کی مشہور جنگ پیش آئی اس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں مقدمہ الجیش کے سالار تھے ۔ اس جنگ میں حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنا مشہور علم راية الایمان حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کیا ۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا ۔ آپ نے کمال درجے کی شجاعت ، جانبازی و سرفروشی اور ثابت قدمی سے اپنے آپ کو اس اعزاز کا مستحق ثابت کردیا اور شیر خدا نے ان کی شجاعت کی تحسین فرمائی ۔
جس زمانے میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس حضرت علی کی طرف سے بصرہ کے گورنر تھے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان کی ملاقات کے لیے بصرہ تشریف لے گئے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے انتہائی عقیدت و محبت سے ان کا استقبال کیا اور بصرہ میں اپنا مکان ساز وسامان سمیت یہ کہہ کر ان کی نذر کردیا کہ جس طرح آپ نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی میزبانی کے لئے اپنا گھر خالی کردیا تھا اسی طرح میری دلی خواہش یہ ہے کہ آپ کی میزبانی کے لئے اپنا گھر مال و اسباب سمیت آپ کی نذر کر دوں ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ زندگی بھر قرآن کریم اور سنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اتباع کرتے رہے اور ہمیشہ اسی کی تلقین کی ۔
ایک دفعہ مصر کے گورنر حضرت عقبہ بن عامر جہنی نے نمازِ مغرب میں کسی وجہ سے دیر کردی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی اتفاق سے وہاں موجود تھے ۔ انہوں نے کہا ، عقبہ یہ کیسی نماز ہے ؟ حضرت عقبہ بن عامر نے جواب دیا کہ ایک کام کی وجہ سے اتفاقاً دیر ہوگئی ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ مت بھولنا کہ تم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صحابی ہو اور تمہارا قول و فعل لوگوں کے لیے حجت بن سکتا ہے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نمازِ مغرب جلدی پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے اگر تم نماز میں تاخیر کرو گے تو لوگ خیال کریں گے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی اسی وقت نماز ادا کرتے ہوں گے ۔ یاد رکھو کہ کسی صحابی کا کوئی عمل نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف نہیں ہونا چاہیئے ۔
حضرت عقبہ بن عامر نے آئندہ محتاط رہنے کا وعدہ کیا ۔
حاکم مدینہ مروان بن الحکم نے محض اپنی سستی کے سبب مساجد کے اماموں کو بلا کر حکم دیا کہ نماز ذرا دیر سے پڑھا کریں تاکہ میں بھی جماعت میں شریک ہو سکوں ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو اس واقعے کا علم ہوا تو فوراً مروان بن الحکم کے پاس گئے اور فرمایا ، تمہیں نماز میں تاخیر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اگر تم اس معاملے میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اتباع نہیں کرو گے تو ہم تمہاری مخالفت کریں گے اور اگر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے عمل کو مشعلِ راہ بناؤ گے تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے ۔ آخر مروان بن الحکم کو اپنا حکم منسوخ کرنا پڑا ۔
ایک دفعہ ایک جنگ میں سالار لشکر عبد الرحمٰن بن خالد نے چار قیدیوں کو ہاتھ پاؤں بندھوا کر قتل کروا دیا ۔ آپ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا ، یہ تو سفاکی اور وحشت ہے ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے ایسے وحشیانہ سلوک کی ممانعت فرمائی ہے ۔
اہل روم سے جنگ میں بہت سے رومی مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔ انہیں بحری جہاز پر سوار کرادیا گیا تھا ۔
![]() |
Moral Stories , حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
اتفاقاً حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان قیدیوں کی طرف جا نکلے ۔ دیکھا کہ ایک قیدی عورت رو رہی ہے ۔ وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا اس کا بچہ اس سے چھین لیا گیا ہے اور جہاز میں کسی اور جگہ رکھا گیا ہے ۔ آپ فوراً اس بچے کو ڈھونڈ کر لائے اور اسے اس کی ماں کے حوالے کیا ۔
قیدیوں کے افسر نگران کو یہ کام ناگوار گزرا اور اس نے سپہ سالار سے شکایت کی ۔ سپہ سالار نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا ، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ظالمانہ برتاؤ سے منع فرمایا ہے ۔
52 ہجری میں امیر معاویہ نے ایک اسلامی لشکر قسطنطنیہ کی تسخیر کے لیے روانہ کیا ، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اس لشکر میں ایک عام مجاہد کی حیثیت سے شامل ہوئے ۔ حضرت امیر معاویہ نے اسلامی بیڑے کو ہر طرح کے ساز و سامان سے لیس کیا اور پھر ایک دن یہ بیڑا شوق شہادت سے سرشار ہزار ہا مجاہدین کو لے کر ساحل شام سے قسطنطنیہ روانہ ہوا ۔
چند دن بعد اسلامی بیڑا بحیرہ روم سے گزر کر آبنائے باسفورس میں داخل ہوا اور قسطنطنیہ کے قریب ایک موزوں مقام پر لنگر ⚓ انداز ہوا ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
رومی شہنشاہ قسطنطین چہارم بڑے لشکر اور ساز و سامان کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ پر آیا تھا ۔ مسلمان مجاہدین ابھی پوری طرح سستانے بھی نہ پائے تھے کہ رومیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور ایک خونریز جنگ کا آغاز ہو گیا ۔ مسلمان مجاہدین نے انتہائی جراءت اور استقامت سے لشکر کفار کا مقابلہ کیا ۔
ایک مجاہد عبد العزیز بن زرارہ ایک مرتبہ تنہا رومیوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے دور چلے گئے ۔ مسلمان انہیں اس طرح اپنی جان خطرے میں ڈالتے دیکھ کر پکار اٹھے ، ایسا کرنا اللّٰہ تعالیٰ کے اس فرمان کے خلاف ہے ۔
وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ
تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔
اس موقع پر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور اسلامی لشکر سے مخاطب ہو کر فرمایا ، مسلمانو ، تم نے اس آیت کا یہ مطلب سمجھا ہے ؟ حالانکہ اس کے حقیقی معنی اس کے برعکس ہیں ۔
زمانہء امن میں انصار نے ارادہ کیا تھا کہ جہاد میں مصروف رہنے کی وجہ سے ان کے کاروبار اور تجارت کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی کریں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚ ۖ ۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚ ۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ
اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللّٰہ محسنوں کو پسند کرتا ہے ۔
جہاد میں نقصان اور ہلاکت نہیں بلکہ جہاد سے کنارہ کشی کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔
آپ کا یہ ارشاد سن کر مجاہدین نے نئے عزم اور جوش کے ساتھ رومیوں پر جان توڑ حملہ کیا اور جلد ہی انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ۔ رومی شہر کے اندر جا گھسے اور فصیل کے دروازے بند کر دیے ۔
مسلمانوں نے شہر کا محاصرہ کرلیا اور اس کی تسخیر کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں رہنے لگے ۔
جن دنوں اسلامی لشکر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھا ، یورپ کی آب و ہوا مسلمانوں کی صحت پر برا اثر ڈال رہی تھی ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ Historical Stories |
یہاں تک کہ مجاہدین کی ایک کثیر تعداد بیمار ہو گئی ۔ بہت سے مجاہدین اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی اس موقع پر بیمار ہو گئے جب ان کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو امیرِ لشکر ان کی خدمت میں عیادت کے لیے حاضر ہوا اور عرض کی ، آپ کی کوئی وصیت ہو تو فرمائیے ؟
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، جب میں مر جاؤں تو مسلمانوں کو میرا سلام پہنچا دینا اور ان کو بتانا کہ میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص اس حالت میں انتقال کر جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا تھا ، اللّٰہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے ۔
میرا جنازہ دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جا سکو لے جا کر دفن کر دینا ۔
امیرِ لشکر نے ان کی وصیت پوری کرنے کا وعدہ کیا اور چند ہی لمحوں کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی
امیرِ لشکر نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی پھر تمام فوج ہتھیار سجا کر ان کی میت کو قسطنطنیہ کی دیوار کے نیچے لے گئی اور
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
اسلام کے اس بطل جلیل کو سپردِ خاک کردیا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی تدفین رات کے وقت ہوئی
قیصر قسطنطین کو رات کے وقت مسلمانوں کی ہلچل کی اطلاع ملی تو اس نے اگلی صبح قاصد بھیج کر دریافت کیا کہ رات کو مسلمانوں کو کیا معاملہ درپیش تھا ؟
مسلمانوں نے بتایا کہ رات کو ہمارے پیشوائے اعظم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کا انتقال ہوگیا تھا اور سب ان کی تدفین میں مصروف تھے
قیصر قسطنطین نے پیغام بھیجا کہ جب تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ گے تو ہم قبر کھود کر ان کے جسد خاکی کو باہر پھینک دیں گے ۔
قیصر کے اس گستاخانہ پیغام پر مسلمانوں کا خون کھول اٹھا ، امیر لشکر نے قیصر کو پیغام بھیجا ، اگر تم نے ایسی کوئی حرکت کی تو خدا کی قسم یاد رکھو کہ مسلمانوں کی وسیع الحدود سلطنت میں جتنے گرجے ہیں سب مسمار کردیے جائیں گے اور عیسائیوں کی قبروں کو اکھاڑ پھینکا جائے گا ۔
امیر لشکر کے اس انتباہ کا خاطر خواہ اثر ہوا قیصر نے جواب میں کہلا بھیجا ، میں تمہاری دینی غیرت و حمیت کا امتحان لے رہا تھا ، ہم تمہارے نبی کے صحابی کی قبر کا احترام اور اس کی حفاظت کریں گے ۔
رومیوں نے فی الواقع اپنے عہد کو نبھایا ایک روایت تو یہ بھی ہے کہ قیصر روم نے خود حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے مزار پر قبہ تعمیر کرایا
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد مسلمانوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ اٹھا دیا اور واپس آ گئے ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
فتح قسطنطنیہ کی سعادت تقریباً آٹھ سو سال بعد سلطان محمد فاتح کے لیے مقدر ہو چکی تھی ۔
![]() |
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
امتداد زمانہ سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا مزار زمین میں مستور ہو گیا تھا اور سالہا سال تک کسی کو معلوم نہ تھا کہ میزبان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جسدِ مبارک کہاں مدفون ہے ۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا اور اس پر علم اسلام لہرایا تو اس وقت بڑی تلاش و جستجو کے بعد زمین کھود کر مزار کو برآمد کیا گیا
![]() |
dren , Historical Stories , حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
اس کے بعد صدیوں تک یہ رسم رہی کہ ترکی کا جو سلطان تخت نشین ہوتا وہ پہلے جامع ابو ایوب انصاری میں حاضر ہوتا اور شیخ العصر حضرت شمس الدین ترک کی عطا کردہ تلوار اپنی کمر میں باندھتا اس کے بعد باضابطہ اس کی تخت نشینی کا اعلان کیا جاتا ۔
گویا یہ ترک بادشاہوں کی رسم تاجپوشی بن گئی ۔
لیکن مصطفیٰ کمال پاشا نے ترکی میں خلافت کا خاتمہ کرکے مغربی جمہوریت کی بنیاد رکھی تو اس رسم کا بھی خاتمہ ہو گیا ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
Hazrat Abu Ayyub Ansari
میزبان رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم
محاصرہ قسطنطنیہ 674 ء __678ء
Constantinople (Turkey )
ایوب سلطان مسجد ۔ Eyup Sultan Mosque
خالد بن زید
مقدمة الجيش کے سالار
Moral Stories
Moral Stories for children
Historical Stories
0 Comments