Header Ads Widget

Responsive Advertisement

فقیہہِ الامت اور مفسر قرآن حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ Hazrat Abdullah bin Masood

 

فقیہہِ الامت اور مفسر قرآن حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

دعوتِ حق کے ابتدائی زمانے میں ایک دن رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مکہ معظمہ سے باہر جنگل میں تشریف لے گئے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 

کچھ دور گئے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو پیاس محسوس ہوئی لیکن پانی کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا قریب ہی ایک نوجوان چرواہا بکریاں چرا رہا تھا

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا : 
 میاں لڑکے کیا تم کسی بکری کا دودھ دوہ کر ہماری پیاس کی تسکین کا سامان کرو گے ؟

اس چرواہے نے بڑی متانت کے ساتھ جواب دیا ،

یہ بکریاں میری نہیں ہیں ۔ 

ان کا مالک عقبہ بن ابی معیط ( مشرک )سردار مکہ ہے اس کی اجازت کے بغیر کسی بکری کا دودھ آپ کو دینا امانت میں خیانت ہو گی ۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو بھائی کوئی ایسی بکری لے آؤ جو دودھ نہ دیتی ہو

چرواہے نے کہا ، یہ ایک بکری ہے تو سہی لیکن آپ کے کس کام کی ؟

چرواہے نے ایک بکری پیش کی ، سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کی پشت پر اپنا ہاتھ پھیر کر دعا مانگی ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس کا دودھ دوہا تو اتنا دودھ نکلا کہ ان تینوں نے خوب سیر ہو کر پیا 

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 


اس کے بعد حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعا سے بکری واپس پہلے جیسی ہو گئی ۔

نوجوان چرواہا یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ 

مکہ میں دعوت حق کی بھنک اس کے کانوں میں پڑ چکی تھی لیکن داعیء حق سے ملنے کا اتفاق آج پہلی بار ہوا تھا یہ معجزہ دیکھ کر اس کا دل نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عقیدت اور محبت سے معمور ہو گیا ۔ اس وقت تو خاموش رہا لیکن شہر واپس جا کر وہ اپنے جذبات پر زیادہ دیر تک قابو نہ رکھ سکا اور ایک دن حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مجھے بھی اپنی جماعت میں داخل فرما لیجیے ۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس چرواہے کی دیانت داری و سچائی کا مشاہدہ فرما چکے تھے ، بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ اس کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا ، تم تعلیم یافتہ لڑکے ہو ۔

یہ خوش بخت نوجوان جن کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تعلیم یافتہ لڑکے کا لقب مرحمت فرمایا تھا ، ابو عبد الرحمٰن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہیں اکثر ان کی والدہ ام عبد کی نسبت سے ابنِ ام عبد کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔

نعمت ایمان سے بہرہ ور ہو کر حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے اپنے آپ کو سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے وقف کردیا اور ساتھ ہی ذوق و شوق سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے لگے اس وقت تک صرف چند سعید الفطرت ہستیاں ہی مشرف بہ اسلام ہوئی تھیں اور وہ سب قریش کے قہر و غضب کا نشانہ بنی ہوئی تھیں ۔

ایک دن ان مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ قریش نے آج تک بلند آواز سے قرآن کریم پڑھتے ہوئے نہیں سنا ، کوئی ایسی صورت ہو کہ ان کے سامنے بلند آہنگی سے کلام الٰہی پڑھا جائے ۔

نوجوان عبداللّٰہ بن مسعود نے کہا ، اس کام کو میں انجام  دوں گا ۔

صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے کہا ، یہ کام بڑا پر خطر ہے ایسا نہ ہو کہ تم کسی مصیبت میں پھنس جاؤ ، تمہارا قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہیں ہے کہ تمہیں مشرکین کے پنجہء ستم سے نجات دلا سکے

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے جوش ایمان سے بے قرار ہو کر کہا ، میں یہ فرض ادا کروں گا ، میرا بھروسہ اللّٰہ تعالیٰ پر ہے وہی میری حفاظت فرمائے گا

صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم ان کا جوش ایمانی دیکھ کر خاموش ہو گئے ۔


Hazrat Abdullah bin Masood
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، Moral Stories 

دوسرے دن طلوع آفتاب کے بعد جب تمام مشرکین ایک جگہ جمع تھے حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے بلند آہنگی سے ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی ۔

مشرکین یہ نا مانوس کلام سن کر پہلے تو حیران ہوئے اور ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے آخر ان میں سے ایک شخص نے کہا ، یہ تو وہی کلام ہے جو محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر اترا ہے 

یہ سننا تھا کہ تمام مشرکین مشتعل ہو گئے اور عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر پل پڑے ۔ نوجوان عاشق قرآن کو اس قدر مارا کہ ان کا چہرہ متورم ہو گیا اور جسم کے کئی حصوں سے خون بہہ نکلا لیکن ان کے جوش ایمانی کا یہ عالم تھا کہ پٹتے جاتے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت جاری تھی حتیٰ کہ مشرکین مارتے مارتے تھک گئے لیکن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اس وقت خاموش ہوئے جب قرآن کریم کی وہ سورہ جو انہوں نے شروع کی تھی ختم ہو گئی ۔

جب وہ اس حالت میں صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم کے پاس گئے تو انہوں نے کہا ، ہمیں اسی بات کا خدشہ تھا اور اسی لیے ہم تمہیں وہاں جانے سے روکتے تھے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا ، خدا کی قسم مشرکین میری نظر میں آج سے پہلے کبھی اتنے ہلکے نہ تھے ، میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ کل پھر ان کو کلام الٰہی سناؤں گا ۔

صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم نے فرمایا 

جو کچھ تم نے کیا ہے وہ بہت ہے اب تمہیں دوبارہ وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کلام الٰہی ، جس کا سننا مشرکین کو ناگوار تھا اس کو تم نے ان کے کانوں تک پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے اپنے رفقاء کے اصرار سے مجبور ہو کر خاموشی اختیار کرلی ۔

اب کفار و مشرکین انہیں کہاں سکون سے رہنے دیتے انہوں نے عبداللّٰہ بن مسعود پر بے پناہ مظالم ڈھانے شروع کردیے ۔ جب مشرکین کے جوروستم کا سلسلہ ناقابل برداشت ہو گیا تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی 

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود ، Moral Stories for children
حبشہ ، افریقہ 

 نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حکم کی  تعمیل میں حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے دو مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت اختیار کی اور تیسری مرتبہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔ 


حضرت عبداللّٰہ بن مسعود
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کی مواخات حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کرا دی اور ان کے رہنے کے لیے مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قریب جگہ مرحمت فرمائی ۔ 

 حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ  وسلم سے محبت اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ امن ہو یا جنگ ، سفر ہو یا حضر ، خلوت ہو یا جلوت وہ اکثر بارگاہِ نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں حاضر رہتے اس طرح ایک طرف تو فیضانِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بہرہ ور ہوتے اور دوسری طرف حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی والہانہ خدمت کرنے کی سعادت حاصل کرتے تھے ۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم یمن سے مدینہ منورہ آئے تو عبداللّٰہ بن مسعود کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس اس کثرت سے جاتے دیکھا کہ ہم مدت تک یہی گمان کرتے رہے کہ وہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے گھر کے فرد ہیں 

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود ان چند صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین میں سے ہیں جنہیں قرآن کریم کا عالم تسلیم کیا جاتا ہے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود
Moral Stories for children 


 انہوں نے قرآن مجید کی ستر سورتیں خاص رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر یاد کیں ۔ اور قرآن کریم کی ہر آیت کے بارے میں انہیں علم تھا کہ وہ کہاں نازل ہوئی اور اس کی شان نزول کیا تھی ۔

ایک موقع پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا ، قرآن کریم چار آدمیوں سے سیکھو ، عبداللّٰہ بن مسعود ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب ۔

٢ ھ میں غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ابتداء سے آخر تک تمام غزوات میں شرکت کی ۔


حضرت عبداللّٰہ بن مسعود
میدانِ بدر 


 غزوہِ بدر میں دو انصاری نوجوانوں نے ابو جہل کو شدید زخمی کر دیا ، وہ آخری سانسیں لے رہا تھا کہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی اتفاقاً وہاں آ گئے انہوں نے ابو جہل سے کہا ، اے دشمن خدا ! تو نے زندگی بھر اپنے رب سے بغاوت کا رویہ رکھا اور اس کے رسول کو ایذا پہنچائی ۔

ابو جہل نے پوچھا ، اے بھیڑیں چرانے والے بتاؤ آج فتح کس کی ہوئی ؟

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ۔

اتنا سن کر ابو جہل ٹھنڈا پڑ گیا ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :

حمد و ثناء کے لائق وہ اللّٰہ ہے جس نے اپنے دشمن کو ذلیل کیا ۔

پھر فرمایا : اس امت کا فرعون ہلاک ہو گیا ۔

فتح مکہ کے بعد شوال ٨ ھ میں حنین کا خونریز معرکہ پیش آیا 

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حنین 

بنو ہوازن اور بنو ثقیف کے جنگجو قبائل نے ہلال ، نصر ، جشم اور مضر قبائل کو ساتھ ملایا اور ہزارہا جنگجووءوں کی فوج لے کر مکہ کی طرف پیش قدمی کی ابھی وہ مقام اوطاس میں پہنچے تھے کہ سرور کائنات صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ان کی نقل و حرکت کی اطلاع مل گئی ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فوراً جنگ کی تیاری کی اور بارہ ہزار فرزندانِ توحید کے ساتھ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
مکہ مکرمہ 


 اسلامی فوج میں مکہ کے دو ہزار نو مسلم بھی شامل تھے اتنا کثیر لشکر دیکھ کر مسلمانوں کی زبان سے نکل گیا  آج ہم پر کون غالب آ سکتا ہے 

اللّٰہ تعالیٰ کو مسلمانوں کی یہ ادا پسند نہ آئی اور اس نے اہل حق کو ایک سخت آزمائش میں ڈال دیا ۔

لشکرِ اسلام وادئ حنین میں پہنچا تو وادی کے دونوں جانب کمین گاہوں میں دشمن کے سپاہی اس لشکر کے منتظر تھے ۔ جونہی مسلمانوں کے ہراول دستے ان کی زد میں آئے انہوں نے بے پناہ تیر اندازی شروع کر دی ، پھر کمین گاہوں سے نکل کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ، ہراول دستوں میں زیادہ تعداد نو مسلموں کی تھی وہ سراسیمہ ہو کر پیچھے کی طرف بھاگے ، دوسرے مسلمان بھی حواس باختہ ہوگئے اور ان میں سے اکثر کے قدم اکھڑ گئے ۔

اس نازک وقت میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کوہ استقامت بن کر میدانِ جنگ میں کھڑے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم کی ایک مختصر سی جماعت آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قریب جانثاری کے جوہر دکھا رہی تھی اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ شامل تھے اس افراتفری کے عالم میں سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے

انا النبی لا کذب    انا ابن عبد المطلب

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس وقت اپنے سفید خچر دلدل پر سوار تھے اس کی باگ ابو سفیان بن حارث نے تھام رکھی تھی کہ یکبارگی آگے نہ بڑھ جائے لیکن دلدل بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے کی طرف ہٹتا تھا ، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، عبداللّٰہ ! مجھے ایک مٹھی خاک دو ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے فوراً حکم کی تعمیل کی ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ خاک مشرکین کی طرف پھینکی تو خدا کی قدرت سے ان سب کی آنکھیں غبار آلود ہو گئیں ۔

اس کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ مہاجرین و انصار کو آواز دو ۔

انہوں نے بآواز بلند پکارنا شروع کیا

یا معشر الانصار ، یا معشر المہاجرین ، یا اصحاب الشجرہ

اے جماعت انصار ، اے جماعت مہاجرین اے بیعت رضوان کرنے والو

پھر ہر قبیلہ کا نام لے کر بلانا شروع کیا ۔ اس پکار کو سنتے ہی تمام مسلمان دفعتاً پلٹ آئے اور کفار کے مد مقابل ہوئے ، گھمسان کا رن پڑا ، مشرکین کو شکست فاش ہوئی اور وہ اپنے بے شمار مقتولین میدانِ جنگ میں چھوڑ کر بھاگ نکلے بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔

غزوہِ حنین کے متعلق سورہ توبہ کی یہ آیات نازل ہوئیں

لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾

 اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے ۔ ابھی غَزوہ حنَین کے روز اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو ۔ اس روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غَرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے ۔

ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ عَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۶

 پھر اللّٰہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرین حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علم کے ساتھ حسنِ قراءت سے بھی نوازا تھا ۔ انتہائی خوش الحانی اور سوز کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے

ایک دن نماز میں سورہ النساء کی تلاوت کر رہے تھے کہ سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے 


حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، مدینہ منورہ 

 آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کے انداز تلاوت سے اس قدر مسرور ہوئے کہ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو شخص چاہتا ہے کہ قرآن کریم کو اسی طرح تر و تازہ پڑھنا سیکھے جس طرح وہ نازل ہوا ہے تو وہ قراءت میں ابنِ ام عبد کی تقلید کرے

حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک مختصر خطبہ دیا پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ، اے ابو بکر کھڑے ہو جاؤ اور خطبہ دو ، انہوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے خطبہ سے بھی مختصر خطبہ دیا ۔

 پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ دینے کا حکم دیا ، انہوں نے اس ارشاد کی تعمیل کی لیکن اپنے خطبہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے خطبہ سے بھی مختصر رکھا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کسی اور صاحب کو خطبہ دینے کا حکم دیا ۔ انہوں نے اپنے خطبہ میں متفرق باتیں کہنا شروع کیں ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اسے نا پسند فرمایا اور انہیں بیٹھ جانے کا حکم دیا

اب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنا روئے مبارک حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی طرف کیا اور فرمایا ، اے ابنِ ام عبد کھڑے ہو جاؤ اور خطبہ دو ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد کہا

اے لوگو ، بیشک اللّٰہ تبارک و تعالیٰ ہمارا رب ہے ، قرآن کریم ہمارا امام ہے ، کعبہ ہمارا قبلہ ہے اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہمارے نبی اور اللّٰہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں ۔ 

 اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جو چیزیں ہمارے لیے پسند فرمائی ہیں ہم نے بھی وہ چیزیں پسند کیں اور اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو ہمارے لیے مکروہ سمجھا ہے ہم نے بھی وہ چیزیں مکروہ سمجھیں ۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وہ خطبہ سن کر فرمایا ، ابنِ ام عبد نے ٹھیک اور سچی بات کہی ، میں راضی ہو گیا اس سے جس سے اللّٰہ راضی ہے میرے لیے ، میری امت کے لیے اور ابن ام عبد کے لیے 

 حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، میں نے رسول اللّٰہ ﷺ سے دریافت کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سب سے بہترین عمل کیا ہے؟

 آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کا اپنے وقت پر ادا کرنا ، 

میں نے کہا پھر ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا ،

  میں نے کہا پھر ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، راہ خدا میں جہاد کرنا 

اس کے بعد میں خاموش ہو گیا لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میں مزید پوچھتا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس پر کچھ اور اضافہ فرماتے ۔

ایک دن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ، ابنِ ام عبد مجھے سورہ النساء پڑھ کر سناؤ ۔

 انہوں نے عرض کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں آپ کو سناؤں جبکہ یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے ۔

 آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا میری خواہش ہے کہ تم مجھے سناؤ ، انہوں نے سورہ النساء کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ ۢ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ؃۴۱

 پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امّت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں یعنی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے ۔

 آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : بس ابنِ ام عبد ۔

 انہوں نے کہا کہ میں نے  نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جانب دیکھا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک آنسوؤں سے تر تھا ۔

    ١١ھ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی تو حضرت عبداللہ بن مسعود دل شکستگی کے عالم میں گوشہ نشین ہو گئے ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں جنگ یرموک کے موقع پر جب حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ہر تندرست مسلمان کو جہاد میں حصہ لینے کی ترغیب دی تو حضرت عبداللّٰہ بن مسعود اپنے گوشہء عزلت سے نکل کر اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے اور شام پہنچ کر جنگ یرموک میں بہت جوش و خروش ، ثابت قدمی اور بہادری سے لشکرِ کفار کا مقابلہ کیا ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، یرموک 

میدانِ جہاد سے واپس آئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے انہیں کوفہ کا قاضی مقرر کیا 


حضرت عبداللّٰہ بن مسعود کوفہ میں قاضی
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 

اور اس کے ساتھ بیت المال اور دینی تعلیم کے شعبے بھی ان کو تفویض کیے ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اہل کوفہ کے نام ایک فرمان تحریر کیا اور اس میں خاص طور پر یہ الفاظ لکھے : میں نے عبداللّٰہ بن مسعود کو تمہارے پاس بھیج کر بڑا ایثار کیا ہے ۔ وہ ایک ایسا ظرف ہے جو علم سے لبریز ہے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود پورے دس سال تک کوفہ میں اپنے فرائض منصبی نہایت تندہی اور خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے ۔ 

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، کوفہ 


حضرت عبداللّٰہ بن مسعود کو قرآن کریم کی تفسیر میں یہ کمال حاصل تھا کہ کسی سے کبھی صحیح حدیث سنتے تو بسا اوقات اس کی تائید میں قرآن مجید کی آیات پڑھ دیتے ۔



مفسر قرآن حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود ، Historical Stories 

کوفہ کی مجلسِ درس میں ایک مرتبہ یہ حدیثِ مبارکہ پڑھی جا رہی تھی کہ جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال غصب کرے گا قیامت کے روز خدا اس پر نہایت غضبناک ہوگا ، حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود ؓ نے اس حدیث کی تصدیق میں برجستہ یہ آیت تلاوت فرمائی۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَشۡتَرُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ وَ اَیۡمَانِہِمۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا اُولٰٓئِکَ لَا خَلَاقَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَ لَا یَنۡظُرُ اِلَیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَایُزَکِّیۡہِمۡ ۪ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۷۷﴾

سورہ آل عمران - ٧٧

  وہ لوگ جو اللّٰہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ، اللّٰہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا ۔ بلکہ ان کے لیے تو سخت درد ناک سزا ہے ۔

  ایک دفعہ اپنے حلقہ درس میں بیان فرما رہے تھے کہ ایک روز رسول خدا ﷺ سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شرک کرنا ، سوال کیا گیا پھر ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، قتلِ اولاد ۔۔۔۔۔۔ الآخر ، اس حدیث کو بیان کرکے انہوں نے برجستہ اس آیت سے اس کی تصدیق فرما دی :

 وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ۔ 

الفرقان . ٦٨


 جو اللّٰہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ، اللّٰہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے ، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ،  


آپ حدیث کی روایت میں بے حد احتیاط سے کام لیتے تھے ۔ حدیث روایت کرتے وقت بہت مؤدب انداز میں بیٹھتے اور ایک ایک لفظ ایسی احتیاط سے زبان سے ادا کرتے گویا ذمہ داری کے بوجھ سے دبے جا رہے ہوں ۔

اور اس طرح نقشہ کھینچ دیتے تھے کہ گویا سامع خود رسول اللّٰہ ﷺ کی زبان مبارک سے سن رہا ہے

 اسدی فرماتے ہیں کہ میں کوفہ میں دوپہر کے وقت اپنے گھر میں تھا کہ یکایک دروازہ سے السلام علیکم کی آواز بلند ہوئی ، میں نے سلام کا جواب دیا پھر باہر نکل کر دیکھا تو عبد اللّٰہ بن مسعودؓ تھے

 میں نے کہا ابوعبدالرحمان ، آپ اس وقت ؟

کہنے لگے ،  

آج کچھ مصروفیات ایسی پیش آ گئیں کہ دن چڑھ گیا اوراب فرصت ملی تو یہ خیال آیا کہ کسی سے باتیں کرکے عہد مبارک کی یادیں تازہ کرلوں ، غرض وہ بیٹھ کر احادیث بیان فرمانے لگے ، اور کافی دیر تک بابرکت صحبت رہی ۔

اہل کوفہ کے سامنے درس دیتے ہوئے ایک

حدیث بیان کی جس میں قیامت ، جنت ، دوزخ اور مؤمنین اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان گفتگو کا ذکر کرنے کے بعد متبسم ہو گئے 


حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
فقیہہِ الامت اور مفسر قرآن حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 

پھر لوگوں سے فرمایا ، تم نے پوچھا نہیں کہ میں کیوں مسکرایا ؟

لوگوں نے کہا ، آپ ہی فرمائیے ، 

کہنے لگے ، اس لیے کہ اس موقع پر خود رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اسی طرح تبسم فرمایا تھا ۔

ان کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ حدیث بیان کرتے ہوئے ، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے الفاظ زبان سے نکالنے سے حتیٰ الوسع احتراز کرتے اور کہتے ، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ کم یا زیادہ یا اس کے ہم معنی الفاظ ارشاد فرمائے تھے ۔

 لوگوں کو بھی نصیحت کرتے ہوئے تاکید کی کہ 

جب تم کوئی حدیث بیان کرو تو اس خیال کو پیش نظر رکھو کہ رسولِ خدا ﷺ سب سے زیادہ عظیم المرتبت ، پرہیز گار اور ہدایت یاب تھے۔

اس قدر احتیاط اور خوف کے باوجود حضرت عبداللّٰہ بن مسعود حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشادات کو امت مسلمہ تک پہنچانا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے ۔

  ایک مرتبہ ولید بن عقبہ والی کوفہ کو مسجد پہنچنے میں دیر ہو گئی ۔۔۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، کوفہ 

حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بغیر توقف و انتظار کے نماز پڑھا دی ۔

 ولید نے برہم ہوکر کہلا بھیجا ، آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ کیا امیر المؤمنین کا کوئی حکم ہے یا آپ کا ذاتی فعل ؟ 

انہوں نے جواب دیا کہ ، نہ تو امیر المؤمنین کا حکم ہے اور نہ میرا ذاتی فعل ، البتہ خدا کو یہ نا پسند ہے کہ تم نماز کے اوقات میں اپنے مشاغل میں مصروف رہو اور لوگ نماز میں تمہارے منتظر رہیں ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے سالہا سال تک حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کسبِ فیض کیا تھا چنانچہ وہ احکام شریعت کی معلومات کا ایک بحر ذخار بن گئے ۔    

ان کا شمار ان صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین میں ہوتا ہے جن سے بکثرت فقہی احکام و مسائل منقول ہیں  جمہور علماء کے نزدیک سات صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم ہیں جنہوں نے فقہی احکام و قوانین پر فتاویٰ دیے ، ان میں 

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ  حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ  

حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ  

حضرت زید بن ثابت رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور 

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا شامل ہیں ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود کوفہ میں فقہ کی باقاعدہ تعلیم دیتے تھے اور ان کے شاگرد ان کے فتاویٰ کو تحریر کیا کرتے تھے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود کے بعد ان کے تین نامور شاگردوں 

 علقمہ بن قیس نخعی رحمۃ اللّٰہ علیہ  اسود بن یزید نخعی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور مسروق بن عبدالرحمان ہمدانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فقہ اور اجتہاد میں بڑی شہرت حاصل کی ۔

 ان میں سے علقمہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی احادیث کے سب سے بڑے عالم تھے اور ان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے ابراہیم بن یزید نخعی نے ان کی مسند فضیلت کو رونق بخشی ۔

 ابراہیم بن یزید نخعی فقہ کے امام تھے اور ان کے فقہی کمال پر سب کا اتفاق ہے ابراہیم کے فتاویٰ کے سب سے بڑے عالم حماد رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے جن سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ علیہ نے تعلیم پائی ۔ چنانچہ فقہ حنفی کی عمارت بالواسطہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے فتاویٰ کی بنیاد پر تعمیر ہوئی ۔

فقیہہِ الامت حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
فقیہہِ الامت حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے انکسار کا یہ عالم تھا کہ کسی مسئلہ کا علم نہ ہوتا تو بلا تامل کہہ دیتے کہ میں نہیں جانتا اور اگر کبھی کوئی فتویٰ دیتے اور بعد میں اس کے خلاف ثابت ہو جاتا تو فوراً اپنے فتویٰ کو منسوخ قرار دیتے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نہایت اعلیٰ درجے کے خطیب بھی تھے ۔ ان کے خطبات مختصر مگر انتہائی مؤثر ہوا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ اہل کوفہ کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : 

اے لوگو ! جس نے دنیا کا ارادہ کیا اس نے آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا ، تمہیں چاہیے کہ فانی کا خسارہ باقی کے لیے برداشت کرلو ۔

     جو دنیا میں ریا کاری کرے گا اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو ریا کاری کا بدلہ دیں گے ، جو دنیا میں شہرت کے لیے کام کرے گا اس کے لیے آخرت میں کوئی جزا نہیں ، جو عظمت و بڑائی چاہتا ہے اللّٰہ اس کو حقیر کر دیتے ہیں اور جس نے ازراہِ خشوع تواضع اختیار کی اللّٰہ تعالیٰ اس کو سربلند کریں گے ۔

اللّٰہ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، قرآن کے ساتھ چلو وہ جہاں تمہیں لے جائے اور جو تمہارے پاس حق لائے اسے قبول کرو اگرچہ حق لانے والا کتنا ہی غیر ہو اور تمہیں اس سے دشمنی ہی کیوں نہ ہو ، اور جو تمہارے پاس باطل کو لائے اس کو رد کر دو اگرچہ وہ تمہارا کتنا ہی جگری دوست اور قریبی رشتہ دار ہو

جب اللّٰہ نے دنیا میں کسی بندہ کی پردہ پوشی کی تو وہ آخرت میں بھی اس کی پردہ پوشی کریں گے ۔

 حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اپنی مغفرت کی بشارت سن چکے تھے لیکن اس کے باوجود خشیت الٰہی سے ہمہ وقت لرزہ براندام رہتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے ۔ تنہائی کا زیادہ تر وقت عبادت اور تسبیح و تہلیل اور تلاوت قرآن پاک میں گزارتے تھے ۔

 رات کا بیشتر حصہ نوافل کی ادائیگی میں مصروف رہتے اور صبحِ صادق سے طلوعِ آفتاب تک ذکر و اذکار اور دعاؤں میں مشغول رہتے ، اپنے اہلِ خانہ کو بھی بیدار کر دیتے اور سارا گھرانہ عبادت میں مشغول ہو جاتا

  ابو وائل کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ صبح کی نماز پڑھ کر عبد اللّٰہ بن مسعود ؓ کے پاس گئے ، دروازہ پر کھڑے ہوکر سلام کیا ۔

 اندر آنے کی اجازت ملی لیکن ہم لوگ تھوڑی دیر دروازے پر ٹھہرے رہے کہ اتنے میں خادم نے آکر کہا ،

   آپ لوگ آتے کیوں نہیں ؟ 

ہم لوگ گھر کے اندر  گئے تو وہ بیٹھے ہوئے تسبیح پڑھ رہے تھے ۔ کہا اجازت ملنے کے بعد تم لوگوں کو اندر آنے سے کس نے روکا تھا ؟

ہم لوگوں نے کہا کسی نے نہیں ، ہمیں خیال ہوا ممکن ہے بعض اہل بیت سو رہے ہوں ۔

انہوں نے کہا ، ابن ام عبد کی اولاد پر تم نے غفلت کا گمان کیا ؟

 اس کے بعد پھر تسبیح میں مشغول ہو گئے جب سمجھے کہ آفتاب نکل چکا ہے تو خادم سے کہا دیکھو آفتاب طلوع ہوا اس نے جاکر دیکھا تو ابھی طلوع نہ ہوا تھا ، پھر تسبیح میں مشغول ہو گئے تھوڑی دیر کے بعد پھر خادم سے کہا دیکھو آفتاب طلوع ہوا ، اس نے جاکے دیکھا تو سورج طلوع ہوچکا تھا ۔ پھر آپ نے یہ دعا پڑھی ،

الحمدلله الذى اقالنا يومنا هذا و لم يهلكنا بذنوبنا .

 اللّٰہ کا شکر ہے جس نے ہمیں یہ آج کا دن دکھایا اور ہمارے کل کے گناہوں کے سبب ہمیں ہلاک نہیں کیا ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود اپنی بیوی اور بچوں سے بہت محبت رکھتے تھے ، گھر میں داخل ہوتے تو باہر ہی سے کھنکھارتے اور بلند آواز سے کچھ کہتے  تاکہ گھر کے لوگ باخبر ہو جائیں ۔

ان کی اہلیہ محترمہ حضرت زینب ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز عبد اللّٰہ ؓ کھنکھارتے ہوئے اندر آئے ، اس وقت ایک بوڑھی عورت مجھے تعویذ پہنا رہی تھی میں نے ان کے ڈر سے اس کو پلنگ کے نیچے چھپا دیا ۔

 عبد اللّٰہ آکر بیٹھ گئے ، پھر میرے گلے کی طرف دیکھ کر پوچھا : یہ دھاگہ کیسا ہے؟ 

میں نے کہا ، تعویذ ہے 



حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ



 انہوں نے کہا ،  اس کو توڑ کر پھینک دو پھر کہنے لگے عبد اللّٰہ کے گھر والو ! شرک سے بچو ، میں نے رسول اللّٰہ ﷺ سے سنا ہے کہ تعویذ اور گنڈے شرک میں داخل ہیں ۔

 میں نے کہا ، آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں میری آنکھوں میں تکلیف تھی تو میں فلاں یہودی سے تعویذ لینے جایا کرتی تھی اور اس کے تعویذ سے سکون ہو جاتا تھا ۔

کہنے لگے یہ سب شیطانی عمل ہے تمہارے لیے صرف رسول اللّٰہ ﷺ کی یہ دعا کافی ہے

 أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا ۔

تکلیف دور فرما دیجیے ، اے پروردگار ، شفا عطا کیجیے تو ہی شفا دینے والا ہے ، تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں ، ایسی شفا دیجیے کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص سے کچھ مال خریدا لیکن قیمت ادا ہونے سے پہلے وہ تاجر کہیں چلا گیا ۔ حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ایک سال تک اس کو تلاش کیا مگر کچھ پتہ نے چلا بالآخر مایوس ہوکر ایک ایک ، دو دو درہم کرکے اس کی طرف سے صدقہ کر دیا اور فرمایا اگر وہ واپس آئے گا تو قیمت ادا کروں گا اور یہ صدقہ میری طرف سے ہوگا۔

عبدالرحمن بن یزید کا بیان ہے کہ ہم نے حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا ، آپ ہمیں کسی ایسے شخص کا پتہ دیجئے جو اخلاق و ہدایت میں رسول اللّٰہ ﷺ سے قریب تر ہو تا کہ ہم ان سے رہنمائی حاصل کریں ۔

 انہوں نے کہا

 عبداللّٰہ بن مسعود ؓ سب سے زیادہ رسول اللّٰہ ﷺ کی ہدایت ، حسن خلق اور اسوہ حسنہ کے پابند تھے ، رسول اللّٰہ ﷺ کے صحابہ میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ بارگاہِ نبوت میں تقرب کے لحاظ سے ابن ام عبد کو بڑا مقام حاصل ہے۔

ابن شہاب کہتے ہیں کہ ہم لوگ عبد اللّٰہ بن مسعود ؓ کے گرد بیٹھتے اوران کی صحبت سے فیضیاب ہوتے تھے ، ایک روز حسب معمول بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص السلام علیک یا ابا عبدالرحمن کہتا ہوا تیزی کے ساتھ اس طرف سے گزرا ۔

 انہوں نے جواب دیا صدق اللّٰہ ورسولہ ( اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے ) پھر آپ حرم میں داخل ہو گئے ۔

  ہم لوگوں کو اس جواب پر نہایت حیرت ہوئی ، باہم مشورہ ہوا کہ ان کے باہر آ جانے کے بعد کون اس کے متعلق سوال کرے گا ؟

 میں نے کہا کہ میں پوچھوں گا ۔

غرض وہ تشریف لائے اور میں نے آپ کے جواب کی وجہ دریافت کی 

فرمانے لگے ، رسول اللّٰہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ خاص خاص آدمیوں کو سلام کرنا تجارت کا ترقی کرنا ، اعزہ و اقارب کے ساتھ بدسلوکی کرنا ، جھوٹی گواہی دینا اور حق کو چھپانا ، قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں ۔

 تمیم بن حرام فرماتے ہیں کہ مجھے اکثر اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ کی ہم نشینی کا فخر حاصل ہے ۔ میں نے عبد اللّٰہ بن مسعود ؓ کو دنیا سے انتہائی بے نیاز اور آخرت کا طالب دیکھا ۔

حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں کسی وجہ سے انہیں ان کے عہدہ سے معزول کردیا ۔ اہلِ کوفہ پر ان کی معزولی کی خبر بہت شاق گزری وہ جمع ہو کر حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور ان سے کہا :

ابو عبدالرحمان آپ کوفہ نہ چھوڑیں ، ضرورت پڑی تو ہم سب آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان کی بات قبول نہ کی اور فرمایا ، میں امیر المؤمنین کی حکم عدولی کرکے در فتنہ ہرگز نہ کھولوں گا ۔

چنانچہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہو کر وہ ایک قافلہ کے ہمراہ حج بیت اللہ کے لیے مکہ روانہ ہوگئے ۔ ربذہ کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے ایک بدوی خاتون کو سر راہ کھڑے پایا ۔ اس نے حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو پکار کر کہا ، بھائیو قریب ہی ایک مسلمان دم توڑ رہا ہے اس کی تجہیز و تکفین میں میری مدد کرو ۔

انہوں نے پوچھا ، وہ کون شخص ہے ؟

خاتون نے جواب دیا ، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صحابی ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود اور ان کے ساتھی حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی سن کر ، ہمارے ماں باپ ان پر قربان ہوں ، کہتے ہوئے اس کٹیا کی طرف لپکے جہاں حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنی زندگی کی آخری سانس لے رہے تھے ، انہوں نے نو وارد اصحاب کو سلام کیا اور اپنے کفن دفن کے متعلق ہدایات دے کر پیک اجل کو لبّیک کہا ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی ، پھر سب نے مل کر انہیں سپردِ خاک کیا اور اس کے بعد اپنے سفر پر روانہ ہوگئے 

مکہ مکرمہ پہنچ کر حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا 



حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، Historical Stories 

اور پھر مدینہ منورہ جا کر گوشہء عزلت میں بیٹھ گئے اور دن رات ذکر و اذکار میں مشغول رہنے لگے ۔

 اسی زمانے میں ایک دن ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ، 

ابو عبدالرحمان میں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ آپ سید الانبیاء صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہیں اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں ، ابنِ مسعود : میرے بعد تمہیں تکلیف پہنچی ، میرے پاس چلے آؤ ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے استفسار کیا ، کیا تم نے یہ خواب دیکھا ہے ؟

اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا تو بس میرا وقت آخر آ پہنچا ہے شاید تم میرے جنازہ میں شریک ہو کر ہی مدینہ سے باہر جاؤ گے ۔

اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ صاحب فراش ہو گئے ۔ جب علالت تشویش ناک صورت اختیار کر گئی تو حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ۔انہوں نے پوچھا : آپ کو کیا بیماری ہے ؟

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے کہا ، اپنے گناہوں کی

حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا ، آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے ؟

انہوں نے کہا ، ہاں خدا کی رحمت کی

حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، آپ کے لیے معالج بھیجوں ؟

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے جواب دیا ، معالج ہی نے تو صاحب فراش کیا ہے ۔

حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں آپ کے لیے وظیفہ جاری کرواتا ہوں ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے جواب دیا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔

حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہا ، آپ کی بیٹیوں کے کام آئے گا

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود نے جواب دیا ، میں نے ان کو تلقین کر دی ہے کہ ہر رات کو سونے سے پہلے سورہ واقعہ کی تلاوت کر لیا کریں کیونکہ میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص ہر رات سونے سے پہلے سورہ واقعہ پڑھ لے گا وہ کبھی عسرت اور فاقہ میں مبتلا نہیں ہو گا ۔

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو جب یقین ہو گیا کہ اس بیماری سے وہ جانبر نہیں ہوں گے تو انہوں نے حضرت زبیر بن العوام اور ان کے صاحب زادے حضرت عبداللّٰہ بن زبیر کو بلا بھیجا اور انہیں اپنی جائیداد ، اولاد اور تجہیز و تکفین کے بارے میں ضروری وصیتیں کیں اور اس کے کچھ ہی وقت بعد انہوں نے داعیء اجل کو لبّیک کہا ۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

نمازِ جنازہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی اور ان کی تدفین جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں ہوئی ۔ 

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود کی وفات کے بعد امیر المومنین حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان کا رکا ہوا سارا وظیفہ واگزار کروایا ، 

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
فقیہہِ الامت اور مفسر قرآن حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

یہ وظیفہ پانچ ہزار درہم سالانہ تھا اس طرح ان کی اولاد کو ایک خطیر رقم یک مشت مل گئی ۔


فقیہہِ الامت

مفسر قرآن 

Moral Stories 

Historical Stories

Moral Stories for children 


Post a Comment

0 Comments