ثمود نے اپنی سرکشی کی بناء پر جھٹلایا ، جب اس قوم کا سب سے شقی آدمی بپھر کر اٹھا تو اللّٰہ کے رسول نے ان لوگوں سے کہا ، خبردار ، اللّٰہ کی اونٹنی کو ہاتھ نہ لگانا اور اس کے پانی پینے میں مانع نہ ہونا ۔
سورہ الشمس
قوم عاد پر جب تباہی کا فیصلہ نافذ ہوا تو حضرت ہود علیہ السلام اور ان کے ساتھی اہل ایمان اس علاقے سے نکل کر عرب کے شمال مغربی صوبے حجاز میں جا کر آباد ہو گئے ۔
عذاب سے بچ جانے کے بعد ابتداء میں وہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہے ۔ وہ ایک اللّٰہ کو مانتے اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے ۔ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ۔
ان کے بادشاہ بھی نیک لوگ تھے اور اپنی قوم پر حضرت ہود علیہ السلام کی شریعت کے مطابق حکومت کرتے تھے ۔ کسی کو ملک میں فساد پھیلانے کی اجازت نہ تھی ۔
الحجر اور العلاء انتہائی پر امن بستیاں تھیں ۔ قوم ثمود نہایت طاقتور ، طویل القامت اور بڑی شان و شوکت کے مالک لوگ تھے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس قوم پر اپنی نعمتوں کی خوب بارش کر رکھی تھی ۔چشموں اور ندی نالوں میں پانی رواں دواں تھا ۔ کھیتوں اور باغات میں خوب ہریالی تھی ۔ گودام غلہ سے بھرے رہتے تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مزید امیر ، خوشحال اور فارغ البال ہوتے گئے ۔
ثمود کے لوگ بھی قوم عاد کی طرح میدانوں میں بڑے بڑے عالی شان محل اور پہاڑوں کو تراش کر ان میں شاندار عمارتیں بنانے لگے ۔ اس سے ان کی غرض اپنی شان وشوکت اور امارت کا اظہار تھا اس طرح رفتہ رفتہ معاشرے میں شدید طبقاتی تقسیم پیدا ہو گئی ۔
![]() |
ثمود کی تعمیرات |
خدا فراموشی اور نفس پرستی بڑھتی چلی گئی اور پورا معاشرہ فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن گیا ۔
اس قدر عروج پانے کے بعد ثمود کی تمدنی ترقی نے بھی بالآخر وہی شکل اختیار کرلی جو عاد کی ترقی نے کی تھی یعنی معیار زندگی بلند سے بلند تر اور معیار آدمیت پست سے پست تر ہوتا چلا گیا ۔ ایک طرف میدانی علاقوں میں عالی شان قصر اور پہاڑوں میں ایلورا اور اجنٹہ کے غاروں جیسے مکان بن رہے تھے
![]() |
حضرت صالح علیہ السلام |
اور دوسری طرف معاشرے میں شرک و بت پرستی کا زور تھا اور زمین ظلم و فساد سے لبریز ہو رہی تھی ۔ قوم کے بد ترین مفسد لوگ مسند حکومت پر براجمان تھے ۔ اونچے طبقے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں سرشار تھے اور یہ سب کچھ وہ اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالات فن کی نمائش کے لیے کر رہے تھے کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی ۔
![]() |
قوم ثمود کے مکانات |
اسی قوم میں اللّٰہ تعالیٰ کے ایک انتہائی نیک بندے حضرت صالح علیہ السلام بھی تھے ۔ وہ اسی قوم میں پیدا ہوئے اور اسی میں پروان چڑھے ۔ ساری قوم ان کی شرافت ، پرہیزگاری اور سچائی کو جانتی تھی ۔
جب ثمود کا اخلاقی زوال حد سے بڑھ گیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو اپنا پیغمبر مبعوث فرمایا اور اس قوم کو ہدایت کا راستہ دکھانے پر مامور کیا ۔
حضرت صالح علیہ السلام نے ثمود سے مخاطب ہو کر کہا ، اے میری قوم کے لوگو ! اللّٰہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ ، یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے ۔
ان کی قوم کہنے لگی ، اے صالح علیہ السلام ، اس سے پہلے تم ہمارے درمیان ایسے شخص تھے جن کی امانت و دیانت اور غیر معمولی قابلیت کی وجہ سے بڑی توقعات وابستہ تھیں ، کیا تم ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتے ہو جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ؟
پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے ایک اکیلا آدمی جو ہم ہی میں سے ہے کیا ہم اس کی پیروی کریں ۔ اگر ہم نے اس کی پیروی کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم صحیح راستے سے ہٹ گئے ہیں اور ہماری عقل ماری گئی ہے ۔
صالح علیہ السلام نے کہا ، اے برادران قوم ، تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھے نواز دیا تو اس کے بعد اللّٰہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ تم میرے کس کام آ سکتے ہو سوائے اس کے کہ مجھے اور زیادہ خسارے میں ڈال دو ۔
ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کو جھٹلا دیا اور کہنے لگے ،
اے صالح علیہ السلام ، جس طریقے کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس کے بارے میں ہمیں بہت شبہات ہیں ۔
حضرت صالح علیہ السلام نے کہا ، اے لوگو ! میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ، تم اللّٰہ سے ڈرو اور اس کی اطاعت کرو ، میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو اللّٰہ رب العالمین کے ذمہ ہے
اے لوگو ! کیا تم ان سب چیزوں کے درمیان جو یہاں ہیں بس یوں ہی اطمینان سے رہنے دیے جاؤ گے ؟ ان باغوں اور چشموں میں ؟
ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں ؟ اور پہاڑ کھود کر بنائے گئے ان محلات میں ؟
![]() |
پہاڑوں میں تراشے گئے مکانات |
اے لوگو ، ایک اللّٰہ کی بندگی اختیار کرلو اور ان بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے ۔ تمہارے لیے فلاح کی اگر کوئی صورت ہے تو صرف یہ ہے کہ اپنے اندر خدا ترسی پیدا کرو
میری امانت و دیانت کو تم پہلے سے جانتے ہو اور میں ایک بے غرض آدمی ہوں اپنے کسی ذاتی فائدے کے لیے اصلاح کا کام کرنے نہیں اٹھا ہوں ۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللّٰہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو ۔
جونہی حضرت صالح علیہ السلام نے دعوت کا آغاز کیا ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ۔ ایک گروہ ایمان لانے والوں کا اور دوسرا انکار کرنے والوں کا ۔
دعوتِ حق نے اگر متاثر کیا تو نچلے طبقے کے کمزور لوگوں کو ، اونچے طبقے کے لوگوں نے انہیں ماننے سے انکار کردیا
![]() |
حضرت صالح علیہ السلام ، Quranic Stories |
اس قوم کے سردار جو اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے تھے انہوں نے ان لوگوں سے جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے اور ایک اللّٰہ پر ایمان لے آئے تھے پوچھا !
کیا واقعی تم یہ جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا گیا ( پیغمبر ) ہے ؟
انہوں نے جواب دیا ، بے شک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں ۔
ان بڑائی کے دعوے داروں نے کہا ، جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں ۔ اگر اللّٰہ چاہتا تو ہماری طرف فرشتے بھیجتا پس ہم اس بات کو نہیں مان سکتے کہ ہماری طرح کا ایک بشر رسول بنا کر بھیج دیا جائے ۔
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا ، اے لوگو ، بھول نہ جاؤ کہ تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ۔ جس خدا نے اس مفسد قوم کو برباد کرکے تمہیں اس کی جگہ سربلند کیا وہی خدا تمہیں برباد کرکے دوسروں کو تمہارا جانشین بنا سکتا ہے ۔ پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو ۔
ہم تمہاری اطاعت کرنے والے نہیں ہیں اے صالح ، اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو
صالح علیہ السلام کہنے لگے ، اے میری قوم کے لوگو ، بھلائی سے پہلے برائی کے لیے کیوں جلدی مچاتے ہو ؟ کیوں نہیں اللّٰہ سے مغفرت طلب کرتے ؟ شاید کہ تم پر رحم کیا جائے ۔
ثمود کہنے لگے ، اے صالح (علیہ السلام) ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بد شگونی کا نشان پایا ہے ۔ جب سے تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے دین آبائی کے خلاف یہ بغاوت شروع کی ہے ہم پر آئے دن کوئی نہ کوئی مصیبت نازل ہوتی رہتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معبود ہم سے ناراض ہو گئے ہیں ۔
تمہارے آتے ہی ہماری قوم میں پھوٹ پڑ گئی ہے ۔
ہم پہلے ایک قوم تھے جو ایک دین پر مجتمع تھی تمہاری دعوت شروع ہوتے ہی بھائی بھائی کا دشمن ہوگیا اور رشتوں میں دراڑ پڑ گئی ۔
حضرت صالح علیہ السلام نے جواب دیا ، تمہارے نیک و بد شگون کا سرشتہ تو اللّٰہ کے پاس ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے ۔
میری دعوت سے پہلے تم اپنی جہالت میں ایک ڈگر پر چل رہے تھے ۔ حق و باطل کا کوئی امتیاز نہ تھا ۔ کھرے اور کھوٹے کی پرکھ کا کوئی معیار نہ تھا ۔ بدتر لوگ اونچے ہو رہے تھے اور نیک لوگ خاک میں مل رہے تھے ۔
اب ایک کسوٹی آ گئی ہے جس پر تم سب لوگ جانچے اور پرکھے جا رہے ہو ، جو حق قبول کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو باطل کی پیروی کرے گا وہ ناکام ہو گا ۔
ثمود کے لوگ کہنے لگے ، اے صالح علیہ السلام ہمیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے یا ہمارے معبودوں کا عتاب نازل ہوا ہے جو اس طرح کی باتیں کر رہے ہو ۔
اے قوم ثمود ، تمہارا کیا خیال ہے کہ تمہارا یہ عیش دائمی و ابدی ہے ؟ کیا اس کو کبھی زوال نہیں آنا ہے ؟ کیا تم سے کبھی ان نعمتوں کا حساب نہ لیا جائے گا اور کبھی ان اعمال کی باز پرس نہ ہوگی جن کا تم ارتکاب کرتے ہو ؟
اے لوگو ، اگر تم توبہ و ایمان کی راہ اختیار نہ کرو گے تو ایک خاص وقت تک ہی تم کو دنیا میں عیش کرنے کی مہلت نصیب ہو سکے گی اور اس کے بعد تمہاری شامت آ جائے گی
ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی تنبیہات کو جھٹلا دیا اور کہنے لگے ، ایک اکیلا آدمی جو ہم ہی میں سے ہے کیا اب ہم اس کے پیچھے چلیں ؟ اگر ہم اس کی پیروی قبول کر لیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم بہک گئے ہیں اور ہماری عقل ماری گئی ہے ۔ کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص تھا جس پر خدا کا ذکر نازل کیا گیا ؟ نہیں ، بلکہ یہ سحر زدہ آدمی ہے ، پرلے درجے کا جھوٹا اور برخود غلط ۔
حضرت صالح علیہ السلام ایک طویل عرصے تک اپنی قوم کو راہِ راست کی طرف دعوت دیتے رہے اور ان کی قوم مسلسل ان کی دعوت کو ٹھکراتی رہی آخرکار ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کو چیلنج دیا کہ اگر تم سچے ہو تو لاؤ کوئی نشانی ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام سے کہہ دیا ، کل ہی انہیں معلوم ہوا جاتا ہے کہ کون پرلے درجے کا جھوٹا اور بر خود غلط ہے ۔
ہم اونٹنی کو ان کے لیے فتنہ بنا کر بھیج رہے ہیں ۔
![]() |
Moral Stories for children |
اب ذرا صبر کے ساتھ دیکھو کہ ان کا کیا انجام ہوتا ہے ۔ ان کو تنبیہہ کردو کہ پانی ان کے اور اونٹنی کے درمیان تقسیم ہوگا اور ہر ایک اپنی باری کے دن پانی پر آئے گا
صالح علیہ السلام نے کہا ، اے برادران قوم ، اب بھی وقت ہے اللّٰہ بزرگ و برتر کی طرف لوٹ آؤ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل ( نشانی ) آ گئی ہے ۔ یہ اللّٰہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے ۔ لہذٰا اسے چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے ۔
ایک دن سارا پانی اس کے لیے مخصوص ہوگا اور دوسرا دن تم سب کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے رہے گا ۔
![]() |
کنواں ، حضرت صالح علیہ السلام |
خبردار ، اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تمہیں آ لے گا ۔
کافی مدت تک وہ اونٹنی اس قوم کے لیے مسئلہ بنی رہی ، لوگ دل ہی دل میں کڑھتے رہے اور آپس میں مشورے کرتے رہے ۔
اس کی باری کے دن کسی کو کنوئیں پر آنے کی ہمت نہ ہوتی ۔
یہ چیلنج بہت سخت تھا اور عرب کے مخصوص حالات میں تو کسی قوم کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا چیلنج ہو نہیں سکتا تھا ۔ وہاں تو پانی کے مسئلہ پر خون خرابے ہو جاتے تھے ، قبیلہ قبیلے سے لڑ جاتا تھا اور جان کی بازی لگا کر کسی کنوئیں یا چشمے سے پانی لینے کا حق حاصل کیا جاتا تھا ۔
قوم ثمود اونٹنی سے بہت مرعوب تھے ان کو یہ احساس تھا کہ اس کی پشت پر کوئی غیر معمولی طاقت ہے ، اس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ ڈرتے تھے اور اسی بناء پر محض ایک اونٹنی کو مار ڈالنا ان کے نزدیک ایک بڑی مہم سر کرنے کا ہم معنی تھا ۔
ایک عرصہ دراز تک وہ لوگ اس کے آزادانہ چرنے پھرنے کو اور اس بات کو کہ وہ تنہا پانی پیے اور دوسرے دن ان سب کے جانور پانی پیئیں بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے ۔
آخر کار ثمود نے ایک فیصلہ کن کارروائی کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ اس فجور کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے جس میں وہ مبتلا تھے اور اس تقویٰ کو قبول کرنا انہیں گوارا نہ تھا جس کی طرف حضرت صالح علیہ السلام انہیں دعوت دے رہے تھے ۔
بڑے مشوروں اور سازشوں کے بعد آخر انہوں نے اپنی قوم کے سب سے سرکش شخص کو پکارا کہ وہ اس اونٹنی کا قصہ تمام کردے اور انہیں اس اونٹنی سے نجات دلائے ۔
یوں اپنی پوری قوم کی آشیرباد حاصل کر کے ایک شقی آدمی اس کام کا ذمہ لے کر اٹھ کھڑا ہوا ، اس نے اونٹنی کی کوچیں کاٹیں اور اونٹنی کو مار ڈالا اور ثمود پورے غرور کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے اور صالح علیہ السلام سے کہہ دیا کہ لے آؤ وہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر تم واقعی پیغمبروں میں سے ہو ۔
حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے کہہ دیا !
تین دن اپنے گھروں میں اور مزے کر لو اس کے بعد عذاب آ جائے گا اور یہ ایسی تنبیہ ہے جو جھوٹی ثابت نہ ہو گی ۔
اس شہر میں نو جتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے ۔ انہوں نے آپس میں کہا ، خدا کی قسم کھا کر عہد کرلو کہ ہم صالح علیہ السلام اور اس کے گھر والوں پر شبخون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے ، ہم بالکل صحیح کہتے ہیں ۔
یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال اللّٰہ بزرگ و برتر نے چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی ۔
آخر کار جب عذاب کا وقت آ گیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت صالح علیہ السلام اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ، بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے ان کو محفوظ رکھا ۔
قبل اس کے کہ وہ اپنے طے شدہ وقت پر حضرت صالح علیہ السلام کے ہاں شبخون مارتے اور ان کا ہاتھ حضرت صالح علیہ السلام پر پڑتا اللّٰہ تعالیٰ کا زبردست ہاتھ ان پر پڑ گیا ۔
حضرت صالح علیہ السلام یہ کہتے ہوئے ان کی بستیوں سے نکل گئے کہ
![]() |
وادئ سیناء |
اے میری قوم کے لوگو ، میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں ۔
رات کے پِچھلے پہر صبح کے قریب ایک زبردست دھماکا ہوا اور اس کے ساتھ ایسا شدید زلزلہ آیا جس نے آن کی آن میں پوری قوم کو تباہ کرکے رکھ دیا ۔ ایک دہلا دینے والی آفت نے انہیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے ۔
اس قوم پر عذاب ایسے زلزلے کی شکل میں آیا جس کے ساتھ خوفناک آواز بھی تھی ۔
صبح ہوئی تو ہر طرف اس طرح کچلی ہوئی لاشیں پڑی تھیں جیسے باڑے کی باڑھ میں لگی ہوئی سوکھی جھاڑیاں جانورں کی آمد و رفت سے پامال ہو کر رہ گئی ہوں ۔ نہ ان کے سنگین قصر انہیں اس آفت سے بچا سکے اور نہ پہاڑوں میں کھودے ہوئے غار
![]() |
حضرت صالح علیہ السلام |
اور وہ اپنی بستیوں میں اس طرح بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے کہ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے ۔
اب اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی ۔
یہ علاقہ مدینہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العلاء سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے اب انہیں الحجر اور مدائن صالح کہا جاتا ہے ۔
![]() |
الحجر کے کھنڈرات |
![]() |
قوم ثمود کے کھنڈرات |
روئیدگی بہت کم ہے ۔ چند کنوئیں ہیں ، انہی میں سے ایک کنوئیں کے متعلق گرد و پیش کی آبادیوں میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی اب وہ قدیم عہد کی ایک ویران چھوٹی سی فوجی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے
![]() |
Moral Stories ، حضرت صالح علیہ السلام |
اور بالکل خشک پڑا ہے ۔
![]() |
مدائن صالح کا کنواں |
اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگین عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا
![]() |
ثمود کی عمارات ، Quranic Stories |
العلاء کے قریب ایسے پہاڑ ہیں جو بالکل کھیل کھیل ہو گئے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی سخت زلزلے نے انہیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجھوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے ۔
![]() |
العلاء کے پہاڑ |
نزول قرآن کے زمانے میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے ۔
![]() |
مدائن صالح |
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم غزوہِ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گزرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثار عبرت دکھائے اور وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحبِ بصیرت انسان کو حاصل کرنا چاہیے
![]() |
حضرت صالح علیہ السلام ، Moral Stories |
ایک جگہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک کنوئیں کی نشان دہی کرکے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہے جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنوئیں سے پانی لیں باقی کنوءوں کا پانی نہ پیئیں
ایک پہاڑی درے کو دکھا کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی درہ سے وہ اونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی ۔
![]() |
حضرت صالح علیہ السلام ، مدائن صالح |
وہ مقام آج بھی فج الناقہ کے نام سے مشہور ہے ۔
ان کھنڈرات میں جو مسلمان تفریح کے طور پر چل رہے تھے ان کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا لہذٰا یہاں سے جلدی گزر جاؤ یہ سیر گاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے ۔
![]() |
حضرت صالح علیہ السلام |
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے ۔ رومی موءرخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور نبطیوں کے خلاف لڑے جن سے ان کی دشمنی تھی ۔
آٹھویں صدی ہجری میں ابنِ بطوطہ حج کے لیے جاتے ہوئے وہاں پہنچا وہ لکھتا ہے کہ یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قوم ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں ۔ ان کے نقش و نگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں ۔
![]() |
حضرت صالح علیہ السلام |
ان مکانات میں اب بھی گلی سڑی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں ۔
ان کی وہ سنگین عمارتیں جو انہوں نے پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں ان کی کچھ بھی حفاظت نہ کر سکیں
پس دیکھ لو کہ ان کی چال کا کیا انجام ہوا ؟ ہم نے تباہ کرکے رکھ دیا ان کو اور ان کی پوری قوم کو ، وہ ان کے گھر ویران پڑے ہیں اس ظلم کی پاداش میں جو وہ کیا کرتے تھے ۔ اس میں ایک نشان عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں اور بچا لیا ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے ۔
ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا ، دور پھینک دیے گئے ثمود ۔ بے شک تیرا رب ہی دراصل طاقتور اور بالا دست ہے ۔
ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے اب ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ۔
القرآن
سورة اعراف ، آیت ٨٧ ، الرَّجْفَۃُ ، شدید زلزلہ
سورة ہود ، آیت نمبر ٦٧ ، الصَّیْحَۃُ ، خوفناک چنگھاڑ
سورة حم السجدہ ، آیت نمبر ١٧ صَاعِقَۃُ الْعَذَابِ ، گرنے والی بجلی کا عذاب
ناقة الله ، اللّٰہ تعالیٰ کی اونٹنی
Moral Stories
Quranic Stories
Moral Stories for children
1 Comments
Mashallah 🌺
ReplyDelete