Header Ads Widget

Responsive Advertisement

عمر ثانی ، حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، پانچویں خلیفہ راشد ، Hazrat Umer bin Abdulaziz

حضرت عمر بن عبد العزیز

رات کا پچھلا پہر تھا مکانوں اور خیموں کی روشنیاں بجھ چکی تھیں ، ماحول میں مہیب خاموشی طاری تھی ۔ مدینہ منورہ کے باشندے گہری نیند سو رہے تھے 

مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
حضرت عمر بن عبد العزیز ، Moral Stories 

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
 اپنے غلام اسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کے گلی کوچوں میں گشت کر رہے تھے تاکہ لوگوں کے حالات سے باخبر ہوں اور 
 انکی مدد کر سکیں ۔
چراغ ، carosine oil lamp

ایک چھوٹے سے گھر میں چراغ روشن تھا اور دو عورتوں کے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں

ماں اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ دودھ میں پانی ملا دو ۔ اس طرح دودھ کی مقدار بڑھ جائے گی اور زیادہ پیسے ملیں گے ۔

Moral Stories , دودھ کے برتن

بیٹی کہہ رہی تھی : اماں کیا آپ نے امیر المومنین کا یہ حکم نہیں سنا کہ کوئی شخص دودھ میں پانی نہ ملائے ۔

ماں نے کہا : امیر المومنین حضرت عمر  ہمیں نہیں دیکھ رہے ، تم دودھ میں پانی ملا دو انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا ۔

بیٹی نے جواب دیا : نہیں اماں ، خدا کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم امیر المومنین کے سامنے تو ان کی اطاعت کا اقرار کریں لیکن ان کی عدم موجودگی میں ان کی نافرمانی کریں ۔

اگر امیر المومنین ہمیں نہیں دیکھ رہے تو اللّٰہ تعالیٰ تو ہمیں دیکھ رہے ہیں ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے یہ گفتگو سنی تو اس لڑکی کی ایمانداری سے بہت خوش ہوئے ۔ انہوں نے اپنے غلام اسلم سے فرمایا ، اس گھر کو یاد رکھو ۔

صبح انہوں نے اپنے غلام اسلم کو اس گھر کے مکینوں کا احوال معلوم کرنے کے لیے بھیجا ۔

اس نے آکر بتایا کہ اس گھر میں ایک بیوہ عورت اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہتی ہے ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے عاصم سے ان لوگوں کی رضا مندی سے اس لڑکی کا نکاح کردیا ۔ کچھ عرصہ بعد ان کے ہاں ایک بچی ام عاصم پیدا ہوئی ۔          

65ھ میں مروان بن الحکم نے مصر پر قبضہ کیا تو عبد العزیز کو وہاں کا گورنر مقرر کیا ۔ کچھ عرصہ بعد عبد العزیز نے مصر سے اپنی اہلیہ ام عاصم کو لکھا کہ اپنے بچے عمر کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ سے مصر آجائیں ۔

اہرام مصر ، Pyramids
حضرت عمر بن عبد العزیز Historical Stories 
ام عاصم اپنے چچا حضرت عبداللّٰہ بن عمر سے رخصت ہونے  آئیں تو انہوں نے کہا ، یہ بچہ ہم سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے اور مدینہ منورہ میں اس کی تعلیم و تربیت کے بہترین مواقع ہیں اس لیے اسے

  ہمارے ہاں چھوڑ جاؤ ۔ چنانچہ وہ بچے کو حضرت عبداللّٰہ بن عمر کے پاس چھوڑ کر اکیلی ہی مصر چلی گئیں ۔ عبد العزیز حضرت عبداللّٰہ بن عمر کے مقام و مرتبہ سے آگاہ تھے انہیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ایسی عظیم المرتبت ہستی نے ان کے فرزند کو اپنے سایہء عاطفت میں لے لیا ہے ۔

 عبد العزیز کا بڑا بھائی عبد الملک اپنے والد مروان کی وفات کے بعد مسند حکومت پر بیٹھ چکا تھا ۔ انہوں نے عبد الملک کو اپنے فرزند عمر کے بارے میں لکھا کہ وہ ابنِ عمر کے پاس مدینہ منورہ میں ہیں تو عبد الملک نے ایک ہزار دینار اس کا وظیفہ مقرر کر دیا۔

دینار ، Gold coins

کچھ عرصہ بعد عبد العزیز نے اپنے بیٹے عمر کو مصر بلا لیا اور ان کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا لیکن جلد ہی انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے کم سن فرزند کی تعلیم و تربیت کے لیے مدینہ منورہ ہی مناسب جگہ ہے چنانچہ عمر کو پھر مدینہ بھیج دیا گیا جہاں مشہور تابعی حضرت صالح بن کیسان ان کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ صالح بن کیسان اس دور کے بلند پایہ محدث اور عالم تھے ۔انہوں نے عمر بن عبد العزیز کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور انہیں کئی عظیم المرتبت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین سے استفادہ کرنے کے مواقع بھی بہم پہنچائے ۔ ان میں حضرت عبد اللّٰہ بن عمر ، حضرت انس بن مالک ، حضرت سائب بن یزید ، حضرت یوسف بن عبداللّٰہ بن سلام اور حضرت عبد اللّٰہ بن عبداللّٰہ بن عتبہ بن مسعود شامل تھے ۔

ایک مرتبہ عمر بن عبد العزیز نے نماز کے لیے آنے میں دیر کر دی ، استاد محترم صالح بن کیسان نے وجہ دریافت کی تو کہا ، بال سنوارنے میں دیر ہو گئی ۔ صالح بن کیسان بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے ، اللّٰہ اللّٰہ ، بالوں کے سنوارنے کو نماز پر مقدم رکھا ؟ پھر ایک خط لکھ کر عبد العزیز کو برخوردار کی اس حرکت کی اطلاع کر دی ۔ انہوں نے فوراً ایک آدمی مدینہ منورہ روانہ کیا اور اس نے عبد العزیز کی ہدایت کے مطابق کچھ کہے سنے بغیر عمر بن عبد العزیز کے بال مونڈ دیے ۔

اس ماحول اور ان جلیل القدر ہستیوں سے تعلیم و تربیت پا کر چند سال کے اندر حضرت عمر بن عبد العزیز ایک بہت بڑے عالم بن گئے ۔ قرآن مجید کے حفظ کے ساتھ تفسیر ، حدیث ، فقہ ، عربی ادب اور شعر و شاعری میں وہ کمال حاصل کیا کہ ان کے ہمعصر علماء میں کوئی ان کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکا

تحصیل علم سے فراغت کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز اپنے والد کے پاس مصر چلے گئے


حضرت عمر بن عبد العزیز ، مصر ، Egypt
مصر

 اب زمانہء تعلیم کی پابندیاں ان سے اٹھا لی گئیں تھیں ۔ شاہی خاندان کے ایک فرد اور مصر کے گورنر کے فرزند تھے اس لیے نوجوانی میں بہت نفاست پسند اور شاہ خرچ ہوگئے ۔ 

 اعلیٰ سے اعلیٰ لباس پہنتے ، عمدہ سے عمدہ خوشبو لگاتے ، اچھی غذائیں کھاتے اور نہایت جاہ و حشم سے رہتے ۔ 86ھ میں عبد العزیز نے وفات پائی تو عمربن عبد العزیز پچیس برس کے تھے اسی سال ان کے چچا عبد الملک نے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی ان سے کر دی اور انہیں خناصرہ کا گورنر مقرر کردیا ۔

کچھ ہی مدت بعد عبد الملک نے وفات پائی اور ولید بن عبد الملک تخت نشین ہوا ۔ اس نے 87ھ میں حضرت عمر بن عبد العزیز کو مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کیا ۔  

مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، مدینہ منورہ
 حضرت عمر بن عبد العزیز ، مدینہ منورہ 

 حضرت عمر بن عبد العزیز نے یہ منصب قبول کرنے سے پہلے یہ شرط رکھی کہ انہیں پہلے حکام کے ظلم و عدوان پر مجبور نہ کیا جائے ۔ ولید نے یہ شرط منظور کرلی ۔

 حضرت عمر بن عبد العزیز تیس اونٹوں پر اپنا ذاتی سامان لدوا کر نہایت تزک و احتشام کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ ہوئے ۔ اہل مدینہ ان کے مرتبہ علمی سے واقف تھے اس لیے ان کی آمد پر بہت خوش ہوئے ۔

حضرت عمر نے مدینہ منورہ کے اکابر فقہاء کو اپنا دست راست بنایا اور ان کے مشورے اور تعاون سے نہایت عمدگی سے مدینہ منورہ میں گورنر کے فرائض انجام دینے لگے ۔ انہوں نے مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعمیر نو کی اور رفاہ عام کے بہت سے کام انجام دیے ۔

 لیکن کچھ ہی عرصہ بعد خلیفہ ولید بن عبد الملک نے انہیں حجاج بن یوسف کی شکایت پر معزول کر دیا ۔

  ولید بن عبد الملک کی وفات کے بعد سلیمان بن عبد الملک تخت نشین ہوا اس نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو اپنا مشیر خاص مقرر کیا اور تادمِ مرگ ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرتا رہا ۔

سلیمان بن عبد الملک جب  مرض الموت میں مبتلا ہوا تو اس دور کے نامور تابعی حضرت رجاء بن حيوة سے اپنے جانشین کے بارے میں مشورہ کیا اور ان سے کہا کہ میں نے اپنے نابالغ فرزند ایوب کو نامزد کیا ہے ۔ حضرت رجاء نے اس سے اختلاف کیا اور کہا ، جانشین کسی صالح شخص کو بنانا چاہیے تاکہ قبر میں عافیت رہے ۔

سلیمان نے کہا ، میں آپ کے مشورے پر غور کروں گا ۔ دو دن غور کرنے کے بعد اس نے وصیت نامہ چاک کر ڈالا اور حضرت رجاء بن حيوة کو پھر بلا کر پوچھا ، میرے بیٹے داؤد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟

انہوں نے کہا ، وہ قسطنطنیہ کی مہم پر گئے ہوئے ہیں اور معلوم نہیں کہ زندہ ہیں یا شہید ہوگئے ہیں ۔ اس پر سلیمان نے پوچھا ، اور عمر بن عبد العزیز کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ حضرت رجاء نے جواب دیا ، وہ نہایت متقی اور برگزیدہ  مسلمان ہیں ۔ 

سلیمان نے اپنے ہاتھ سے وصیت نامہ لکھا اور اس وصیت نامہ کو ایک لفافہ میں بند کرکے سر بمہر کیا اور حضرت رجاء کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ جس شخص کو میں نے اپنا جانشین نامزد کیا ہے ، میرے اہلِ خاندان سے اس سر بمہر لفافہ پر اس کی بیعت لیں ۔

حضرت رجاء نے سلیمان کی خواہش کے مطابق کاروائی کی ۔ اس کے بعد اموی خاندان کے تمام لوگ سلیمان کی عیادت کے لیے قصر خلافت میں گئے تو سلیمان نے بھی ان سے اس شخص کی غائبانہ بیعت لی جسے اس نے خلیفہ نامزد کیا تھا ۔

اس بیعت کے تین روز بعد سلیمان بن عبد الملک نے وفات پائی ۔

حضرت رجاء بہت صاحبِ تدبیر بزرگ تھے انہوں نے سلیمان کی موت کا اعلان کرنے سے پہلے شاہی خاندان کے افراد کو جمع کرکے ایک بار پھر وصیت نامہ پر ان سے بیعت لی ۔ جب سب نے فرداً فرداً بیعت کرلی تو حضرت رجاء نے لفافہ چاک کیا اور سلیمان بن عبد الملک کی وصیت پڑھ کر سنائی ۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا ۔ اس وقت اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کی دو آوازیں بلند ہوئیں ۔ ایک آواز حضرت عمر بن عبد العزیز کی تھی اور دوسری ہشام بن عبد الملک کی ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز بار خلافت کی عظیم ذمہ داری سے پریشان تھے اور ہشام تخت خلافت سے محروم ہونے پر رنجیدہ تھا ۔ پھر یکایک ہشام اٹھ کھڑا ہوا اور کہا : ہم عمر بن عبد العزیز کے ہاتھ پر قیامت تک بیعت نہیں کر سکتے ۔

اس موقع پر حضرت رجاء نے بے مثال جراءت اور بے خوفی کا مظاہرہ کیا اور کڑک کر کہا ، خدا کی قسم ابھی اٹھ کر بیعت کرو ورنہ گردن اڑا دوں گا ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حضرت عمر بن عبد العزیز کا ہاتھ پکڑ کر منبر پر بٹھا دیا ، آخر سب نے بلا چوں و چراں بیعت کر لی 

 حضرت عمر بن عبد العزیز خلافت کا بار گراں اٹھانے سے پہلے لباس فاخرہ پہنا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ جو لباس پہن لیتے اسے دوبارہ نہ پہنتے ۔ عمدہ خوشبو استعمال کرتے کہ جس راستے سے گزرتے وہ خوشبو سے مہک جاتا ۔ لیکن خلافت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد یہ تمام باتیں قصہ پارینہ بن گئیں ۔

خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز کی زندگی میں یکسر انقلاب آگیا سب سے بڑھ کر خوش لباس ، معطر اور تبختر کی چال چلنے والے اب فاروق ثانی بن گئے اور حضرت مصعب بن عمیر ، حضرت ابوذر غفاری اور حضرت ابو ہریرہ کے قالب میں ڈھل گئے ۔

 سلیمان کی تجہیز وتکفین سے فراغت کے بعد انہوں نے تمام شاہی سواریاں واپس کر دیں اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر گھر کی طرف چلے ۔ پولیس افسر نیزہ لے کر آگے چلا تو اس کو ہٹا دیا اور فرمایا ، میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک انسان ہوں ۔

گھر پہنچے تو اہلیہ نے ان کے چہرے کو متغیر دیکھ کر پوچھا ، آپ پریشان اور ملول کیوں ہیں ؟ فرمایا ، آج دنیا میں کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ کے اس کا حق پورا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو ۔ اس سے بڑھ کر پریشانی اور فکر کی بات کیا ہو سکتی ہے ۔

 پھر آپ مسجد گئے اور لوگوں کو جمع کرکے فرمایا ، لوگو ! مجھ پر خلافت کا بار میری مرضی کے بغیر ڈال دیا گیا ہے اور عام مسلمانوں سے بھی مشورہ نہیں لیا گیا ۔ میری بیعت کا جو قلاوہ تمہاری گردن پر ہے میں اسے خود اتارتا ہوں تم جسے چاہو اپنا خلیفہ مقرر کرلو ۔

یہ تقریر سن کر تمام لوگوں نے با آواز بلند کہا ہم نے آپ کو امیر المومنین منتخب کیا اور آپ کی خلافت پر راضی ہوئے ۔

جب لوگ خاموش ہو گئے اور کوئی آواز ان کی مخالفت میں نہ اٹھی تو انہوں نے حمد و ثناء کے بعد فرمایا ، " لوگو ، قرآن کریم کے بعد کوئی ایسی کتاب نہیں ہے اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ میں کسی چیز کو شروع کرنے والا نہیں ہوں بلکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا ہوں ۔ جو چیز اللّٰہ تعالیٰ نے حلال کردی وہ قیامت تک حلال رہے گی اور جو حرام کردی وہ ہمیشہ حرام رہے گی ۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ خدا کی نافرمانی میں لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے ۔ البتہ جو شخص خدا کی اطاعت کرے اس کی اطاعت واجب ہے ۔ میں کسی صورت تم لوگوں سے بہتر نہیں ہوں لیکن خدا نے مجھ پر تم سے زیادہ ذمہ داری ڈال دی ہے۔

اس مرحلے سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز نے امور خلافت کی طرف توجہ دی ان کے خلیفہ بننے تک تاریخ اسلام پر پوری ایک صدی گزر چکی تھی ۔ اور اس طویل مدت میں اسلامی سلطنت بے انتہا وسعت اختیار کر چکی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام کا نظامِ سیاست ، نظامِ معاشرت اور نظامِ اخلاق زنگ آلود ہو چکے تھے ۔ خلفائے راشدین کا عہد سعادت قصہ پارینہ بن چکا تھا ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے مختصر عہد خلافت میں ان خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑا ، اپنے تجدیدی اور اصلاحی کارناموں سے خلافتِ راشدہ کے نظم و نسق کو دوبارہ قائم کیا اور دنیا میں ایک مرتبہ پھر خلفائے راشدین کا عہد باسعادت لوٹ آیا 

حضرت عمر بن عبد العزیز حسن اخلاق ، حب رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، حلم و بردباری ، تواضع و انکساری ، زہد و تقویٰ ،خشیت الٰہی اور سادگی کا پیکر جمیل تھے ۔

خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد پہلی عید الفطر کا موقع تھا ، عید سے چند دن پہلے ان کی اہلیہ نے کہا ، عید کے دن سب لوگ عمدہ عمدہ لباس پہنیں گے لیکن ہمارے بچوں کے پاس معمولی کپڑے ہیں مجھے نہایت شرم آتی ہے کہ امیر المومنین کی اولاد عید کے دن بھی اس قسم کے کپڑے پہنے ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے مہتمم بیت المال کو رقعہ لکھا کہ میرا ایک ماہ کا وظیفہ پیشگی بھیج دیجیئے ۔ اس نے رقعہ کے پیچھے یہ الفاظ لکھ کر اسے واپس بھیج دیا ، " امیر المومنین کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک مہینے تک زندہ رہیں گے ۔

  یہ الفاظ پڑھ کر اشکبار ہو گئے اور اہلیہ سے کہا ہمارے بچوں کو بہشت میں عمدہ پوشاک ملے گی اس لیے یہاں صبر سے کام لیں ۔

ایک مرتبہ حضرت رجاء بن حيوة سے گفتگو میں رات زیادہ گزر گئی اور چراغ جھلملانے لگا


مٹی کے تیل کا لیمپ ، Lamp
حضرت عمر بن عبد العزیز 

نزدیک ہی خادم سویا ہوا تھا ۔ حضرت رجاء نے اس کو جگانا چاہا ، حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا اسے سونے دیں ۔ حضرت رجاء نے وہ چراغ درست کرنے کا ارادہ کیا تو انہیں بھی روک دیا اور فرمایا مہمان سے کام لینا مروت کے خلاف ہے ۔ پھر خود اٹھے ، تیل لیا اور چراغ کو ٹھیک کرکے پلٹ کر فرمایا ، جب میں اٹھا تھا تب بھی عمر بن عبد العزیز تھا اور جب پلٹ کر آیا ہوں تب بھی عمر بن عبد العزیز ہوں ۔

 ایک دن بیت المال میں بہت سے سیب آئے 


سیب ، apples

 انہیں عام مسلمانوں میں تقسیم کر رہے تھے کہ ان کا کمسن بیٹا وہاں آگیا اور ایک سیب اٹھا کر کھانے ہی لگا تھا کہ آپ نے فوراً اس کے ہاتھ سے لے لیا ۔ وہ بچہ روتا ہوا اپنی والدہ کے پاس گیا اور شکایت کی ۔ والدہ نے بازار سے سیب منگوا دیا ۔

 حضرت عمر بن عبد العزیز گھر آئے تو سیب کی خوشبو پاکر دریافت کیا ، بیت المال کا کوئی سیب تو ہمارے گھر نہیں آیا ۔ اہلیہ نے سارا واقعہ بیان کیا تو فرمایا ، خدا کی قسم میں نے سیب بچے کے ہاتھ سے نہیں اپنے دل سے چھینا تھا لیکن مجھے یہ پسند نہ تھا کہ ایک سیب کے بدلے اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لوں 

ایک مرتبہ اپنی اہلیہ فاطمہ کے سامنے لبنان کے شہد کا شوق ظاہر کیا ۔ انہوں نے لبنان کے عامل ابنِ معد یکرب کو لکھ بھیجا ، انہوں نے بہت سا شہد بھیج دیا ۔ لیکن جب یہ شہد حضرت عمر بن عبد العزیز کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے مخاطب ہو کر کہا ، معلوم ہوتا ہے کہ تم نے ابنِ معد یکرب سے فرمائش کرکے یہ شہد منگوایا ہے ۔ فاطمہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے اس کو چکھا تک نہیں اور فروخت کروا کر قیمت بیت المال میں جمع کرا دی ۔ ساتھ ہی ابنِ معد یکرب کو ایک سخت خط لکھا کہ آئندہ اگر تم نے ایسی حرکت کی تو اپنے منصب پر فائز نہیں رہو گے ۔

شہد  , Honey
حضرت عمر بن عبد العزیز              

 چند دنوں بعد ان کی اہلیہ نے ڈاک کی سرکاری سواری پر ایک آدمی کو روانہ کیا اور وہ دو دینار کا شہد خرید لایا ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس کو فروخت کروا دیا ۔ اس کی قیمت دو دینار سے زیادہ وصول ہوئی ۔ انہوں نے دو دینار اہلیہ کو واپس کرکے باقی رقم بیت المال میں جمع کرا دی اور اہلیہ سے کہا ، تم نے عمر کے لیے مسلمانوں کے جانور کو ناحق تکلیف دی 

 رات کو بیت المال کے چراغ کی روشنی میں سرکاری کام کر رہے تھے کہ گھر سے غلام آیا اور کوئی بات کرنے لگا ۔ آپ نے اس سے فرمایا پہلے چراغ بجھا دو پھر بات کرنا ۔ اس لیے کہ اس چراغ میں تیل بیت المال کا ہے اور اس کا استعمال صرف مسلمانوں کے مفاد میں ہی جائز ہو سکتا ہے

حضرت عمر بن عبد العزیز نے سب سے پہلے وہ تمام اموال اور جاگیریں ان کے اصل مالکوں اور حقداروں کو واپس کر دیں جن پر آل مروان نے ناجائز طور پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ یہ کام اتنا دشوار تھا کہ سارے خاندان کی ناراضگی کا خدشہ تھا لیکن اس پیکر عزم و استقلال نے اس کی قطعاً پروا نہ کی ۔ بعض لوگوں نے کہا اس طرح آپ کی اولاد مفلس ہو جائے گی ۔ آپ نے فرمایا میں ان کو اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں ۔

پھر لوگوں کو مسجد میں جمع کرکے تقریر کی : لوگو خلفائے بنو امیہ نے ہم کو جو عطایا اور جاگیریں دیں تھیں ، سب اصل حقداروں کو واپس کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنی ذات اور خاندان سے آغاز کرتا ہوں ۔

سب سے اہم معاملہ فدک کا تھا


حضرت عمر بن عبد العزیز ، کھجوروں کا باغ
Hazrat Umer bin Abdulaziz 
عہد رسالت میں اس کی آمدنی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی اور بنو ہاشم کی مختلف ضروریات پر صرف فرماتے ۔ ایک مرتبہ حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے وہ باغ مانگا تھا لیکن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انکار فرما دیا ۔ باغ فدک کے وہی مصارف خلفائے راشدین نے بھی برقرار رکھے ۔ لیکن بنو مروان نے دیگر جائیدادوں پر قبضہ کے ساتھ اسے بھی اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا ۔

 حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے تو ان کی اور ان کے اہل و عیال کی معاش کا تمام تر دارومدار باغ فدک کی آمدنی پر تھا جو دس ہزار دینار سالانہ تھی لیکن وہ برضا و رغبت اس سے دستبردار ہو گئے اور آل مروان کو جمع کرکے فرمایا :

فدک خالصتاً رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے تھا ، تمہارا اس کو اپنی جاگیر بنا لینا سراسر ظلم اور ناانصافی تھا ۔ جو چیز حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کو نہیں دی اس پر میرا کوئی حق نہیں ۔ اب میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ فدک کی جو حالت عہد رسالت میں تھی میں اس کو اسی طرف لوٹاتا ہوں ۔

ابنِ جوزی ۔ امام سیوطی

اپنی اور اپنے خاندان کی جاگیریں واپس کرنے کے بعد عام غصب شدہ مال اور جائیدادیں ایک ایک کرکے ان کے اصل مالکوں کو واپس کردیں ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز کے ان عادلانہ اقدامات سے بنو اُمیہ میں سخت برہمی پیدا ہوئی انہوں نے خاندان کے چند سرکردہ لوگوں کو بارگاہِ خلافت میں بھیجا کہ وہ خلیفہ کو ان کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کریں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان کی باتیں سن کر فرمایا ، خدا کی قسم اگر تم لوگ میرے کام میں مزاحم ہوئے تو میں تم لوگوں سے سختی سے پیش آؤں گا ۔

آخر آل مروان نے ان کی پھوپھی فاطمہ بنت مروان کو ان کے پاس سفارشی بنا کر بھیجا فاطمہ نے ان سے کہا ، بیٹا تمہارے اہل خاندان شکایت کرتے ہیں کہ تم نے ان سے غیر کی دی ہوئی روٹی بھی چھین لی ہے ۔ چہ جائیکہ خود انہیں کچھ دیتے ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا ، پھوپھی جان میں نے ان کا کوئی حق نہیں روکا ۔

فاطمہ نے کہا ، سب لوگ شکایت اور واویلا کر رہے ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہیں وہ تمہارے خلاف شورش نہ برپا کر دیں ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا ، اگر میں یومِ قیامت کے سوا کسی اور دن سے ڈروں تو اللّٰہ تعالیٰ مجھے اس کی برائیوں سے نہ بچائے ۔

اس کے بعد انہوں نے گوشت کا ایک ٹکڑا ، ایک اشرفی اور ایک انگیٹھی منگوائی اور اشرفی کو آگ میں ڈال دیا ۔ جب وہ خوب سرخ ہو گئی تو اس کو گوشت کے ٹکڑے پر رکھ دیا جس سے وہ بھن گیا ۔ پھر اپنی پھوپھی سے مخاطب ہو کر کہا ، پھوپھی جان ، کیا آپ اپنے بھتیجے کے لیے اس طرح کے عذاب سے پناہ نہیں مانگتیں ۔

سعید بن خالد نے کہا ،  امیر المومنین جو معاملہ آپ سے تعلق رکھتا ہے اس میں آپ حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجیے لیکن گزشتہ خلفاء کی برائی یا بھلائی کو اس کے حال پر چھوڑ دیجیے ۔ اس کے لیے وہ خود ذمہ دار ہیں آپ سے ان کے متعلق سوال نہیں ہوگا ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا ، میں تم سے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر ایک شخص چھوٹے بڑے بچے چھوڑ کر مر جائے اور بڑے بچے چھوٹے بچوں کا حق دبا لیں تو تم اس وقت کیا کرو گے جب چھوٹے بچے اپنے حق کے لیے تم سے فریاد کریں گے ۔

سعید نے کہا ، میں ان کے تمام حقوق واپس دلاؤں گا ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا ، میں بھی تو یہی کام کر رہا ہوں ۔ مجھ سے پہلے بعض خلفاء ان کے اہلِ خاندان اور امراء و وزراء نے کمزور لوگوں کے حقوق دبا لیے تھے ۔ ان مظلوموں نے مجھ سے داد رسی چاہی ۔ ایسی صورت میں میرے لیے اس کے سوا چارہ ہی کیا تھا کہ قوی سے ضعیف کا اور ظالم سے مظلوم کا حق واپس دلاؤں ۔

اُنہوں نے شاہی خاندان کے غرور اور نخوت کو توڑ دیا اور انہیں عام رعایا کی سطح پر لے آئے ۔ تمام عمال اور حکام کو احکام جاری کئے جس میں انہیں ہدایت کی

حضرت عمر بن عبد العزیز ، فرمان شاہی
حضرت عمر بن عبد العزیز ، Moral Stories 

ہر کام میں خدا اور اس کے رسول کی خوشنودی مدنظر رکھو ۔

ظالم اور سفاک احکامات کو ختم کر دیا

وہ تمام انعامات جو خلیفہ کے اقرباء اور منظورِ نظر لوگوں کو دیے جاتے تھے بند کروا دیے ۔

ظن و تخمین کی بنا پر سزا دینے اور عورتوں کو مردوں کے بدلے گرفتار کرنے کی سختی سے ممانعت کردی ۔

نو مسلموں سے جزیہ لینا بند کر دیا ۔

عدالت میں کسی سے امتیازی سلوک کرنے سے منع کر دیا ۔

عدل و انصاف کے معاملے میں تمام لوگوں کو بلا تفریق مذہب و ملت برابر قرار دیا ۔

ایک مرتبہ شہزادہ مسلمہ بن عبد الملک جو خاندان بنو اُمیہ کا دست و بازو  اور حضرت عمر بن عبد العزیز کا سالا تھا   نے ایک گرجا کے منتظمین کے خلاف دعویٰ دائر کیا ۔ عیسائی فریق مقدمہ عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا بیان دے رہے تھے لیکن مسلمہ خاندانی زعم کی بنا پر بیٹھا تھا ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا ، تمہارا فریق مخالف کھڑے ہو کر گفتگو کررہا ہے اس لیے تمہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ تم بھی کھڑے ہو جاؤ ۔

پھر فریقین کے بیانات سن کر اور دیگر شواہد کی بنیاد پر زمین اس کے جائز حقداروں ( گرجا کے منتظمین ) کو دے دی ۔


 
حضرت عمر بن عبد العزیز ، گرجا گھر ، Church
 

حضرت عمر بن عبد العزیز نے عدل و انصاف کی حکمرانی اس طرح قائم کی کہ ان کے عہد حکومت کے بارے میں حیرت انگیز روایتیں مشہور ہو گئیں  ۔

ابنِ جوزی رحمہ اللّٰہ علیہ اور امام سیوطی رحمہ اللّٰہ علیہ نے موسیٰ بن اعین کی یہ روایت بیان کی ہے ، ہم کرمان میں بکریاں چرایا کرتے تھے ۔ بھیڑیے ہماری بکریوں کے ساتھ چلتے پھرتے رہتے تھے اور بکریوں کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے ایک دن ایسا ہوا کہ ایک بھیڑیے نے ایک بکری پر حملہ کر دیا ۔ ہمیں خدشہ تھا کہ خلیفہ صالح اس دنیا سے کوچ کرگئے ہیں ۔ چنانچہ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ واقعی اس روز حضرت عمر بن عبد العزیز نے وفات پائی تھی ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے شریعت کے احیاء ، بدعات کے خاتمے اور فواحش اور منکرات کی روک تھام پر بھی خصوصی توجہ دی ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز کو اطلاع ملی کہ لوگ نماز کے وقت کی پابندی نہیں کرتے ۔ اُنہوں نے اپنے تمام عمال حکومت کے نام ایک فرمان بھیجا جس میں لکھا تھا : " نماز کے وقت تمام کام چھوڑ دو ۔ کیونکہ جس شخص نے نماز کو ضائع کیا وہ دوسرے فرائض کو سب سے زیادہ ضائع کرنے والا ہو گا ۔ ایمان فرائض ،  احکام اور  سنت کی پیروی کرنے کا نام ہے ۔ جس نے ان اجزاء کی تکمیل کرلی اس نے ایمان کو مکمل کر لیا اور جس نے ان کو مکمل نہیں کیا اس نے ایمان کو مکمل نہیں کیا ۔ "

اپنے عمال کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا "مجھے معلوم ہوا ہے کہ سفہاء کی عورتیں زمانہء جاہلیت کی طرح جنازوں کے پیچھے بال کھولے نوحہ کرتے ہوئے نکلتی ہیں ۔ حالانکہ جب سے عورتوں کو آنچل ڈالنے کا حکم دیا گیا ان کو دوپٹہ اتارنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ پس اس قسم کے نوحہ و ماتم کو مناسب طریقے سے روکو ۔

اہل عجم چند چیزوں سے جنہیں شیطان نے ان کی نگاہ میں پسندیدہ کردیا تھا دل بہلاتے تھے ۔ مسلمانوں کو اس لہو و لعب اور راگ باجے سے روکو اور جو نہ مانے اس کو اعتدال کے ساتھ سزا دو ۔"

حضرت عمر بن عبد العزیز کی ان کوششوں کا یہ نتیجہ ہوا کہ لوگ احکام شریعت کی پابندی کرنے لگے ۔

یحییٰ بن سعید کہتے ہیں مجھے حضرت عمر بن عبد العزیز نے صدقہ کی وصولی اور تقسیم کے لیے افریقہ بھیجا ۔ میں نے صدقہ وصول کرکے فقراء کو بلایا تاکہ ان میں تقسیم کردوں لیکن کوئی شخص صدقہ لینے نہ آیا ۔ کیونکہ عمر بن عبد العزیز کی اصلاحات نے لوگوں کو غنی کر دیا تھا پھر میں نے صدقہ کی رقم سے غلام خرید کر آزاد کر دیے ۔

عمال نے خدشہ ظاہر کیا کہ لوگ آسودہ حالی سے غرور اور تکبر میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا اللّٰہ تعالیٰ نے اہل جنت کی یہ خوبی بیان کی ہے کہ وہ جنت کی نعمتیں پانے کے بعد   اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ کہیں گے ،

   تم بھی لوگوں کو تلقین کرو کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے سمرقند کے گورنر سلیمان بن ابی السری کو حکم بھیجا کہ :

 اس علاقے کے تمام شہروں میں سرائیں تعمیر کراؤ


سرائے ، Inn
کاروان سرائے ، حضرت عمر بن عبد العزیز

 جو مسلمان ادھر سے گزریں ان کی ایک دن اور ایک رات مہمان نوازی کرو ، ان کی سواریوں کی حفاظت کرو ۔ جو بیمار ہو اس کو دو دن اور دو رات مہمان رکھو ۔ اگر کسی کے پاس گھر پہنچنے کے لیے زادراہ نہ ہو تو وطن تک پہنچنے کے لیے زادراہ فراہم کرو ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنی سلطنت کی حدود وسیع کرنے کے بجائے اسلام کی توسیع اور اشاعت کو اپنا مقصد بنایا اور اس کے لیے اخلاقی اور مادی جو ذریعہ بھی ممکن تھا اختیار کیا انہوں نے ماوراء النہر کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دی ان میں سے بعض نے اسلام قبول کرلیا ۔ سندھ کے حکمرانوں اور رئیسوں کو دعوت اسلام کے خطوط لکھے ۔ ان میں سے اکثر اسلام لے آئے ۔ راجہ داہر کا بیٹا جے سنگھ بھی انہی لوگوں میں شامل تھا ۔ ان سب کی زمینیں اور جائدادیں انہی کے پاس رہنے دی گئیں اور انہیں مسلمانوں کے برابر حقوق دیے گئے ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنی حکومت کی داخلی کمزوریوں کو دور کیا اور بیرونی خطرات کا استیصال کر کے اپنی سلطنت کو امن وامان اور عدل و انصاف کا مرکز بنا دیا ۔

آل مروان نے محسوس کیا کہ اگر کچھ عرصہ حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت قائم رہی تو ان کا اقتدار کبھی واپس نہ آسکے گا ۔ چنانچہ انہوں نے ایک غلام کو ایک ہزار دینار دے کر حضرت عمر بن عبد العزیز کو زہر دلوا دیا ۔ 

حضرت عمر بن عبد العزیز ، دیناروں کی تھیلی
Moral Stories 


حضرت عمر بن عبد العزیز کو دوران علالت اس بات کا علم ہو گیا لیکن انہوں نے اس غلام سے کوئی انتقام نہ لیا البتہ وہ دینار واپس لے کر بیت المال میں جمع کرا دیئے اور اس غلام کو آزاد کر دیا اور اسے اس علاقے سے نکل جانے کا حکم دے دیا ۔

علالت شدت اختیار کر گئی تو انہوں نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبد الملک کے لیے یہ وصیت نامہ لکھوایا :

 " میں تمہیں اس حال میں یہ وصیت لکھ رہا ہوں کہ مرض نے بالکل لاغر کر دیا ہے ۔تمہیں معلوم ہے کہ خلافت کی ذمہ داریوں کے بارے میں مجھ سے سوال کیا جائے گا اور اللّٰہ تعالیٰ مجھ سے اس کا حساب لیں گے اور میں اس سے اپنا کوئی کام پوشیدہ نہ رکھ سکوں گا ۔

اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں: سورة الأعراف

فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیۡہِمۡ بِعِلۡمٍ وَّ مَا کُنَّا غَآئِبِیۡنَ ﴿۷

 پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے ، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے ۔

 اگر اللّٰہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوگئے تو میں کامیاب ہوا اور اگر ناراض ہوئے تو میرے انجام پر افسوس ہے ۔ میں اس وحدہ لاشریک سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی رحمت سے آتش دوزخ سے نجات دے اور اپنی رضا سے جنت عطا فرمائے ۔

تمہیں تقویٰ اختیار کرنا چاہیے اور رعایا کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کیونکہ میری طرح تم بھی تھوڑا ہی عرصہ زندہ رہو گے ۔تمہیں اس بات سے بچنا چاہیے کہ تم سے غفلت میں کوئی ایسی لغزش سرزد ہو جائے جس کی تم تلافی نہ کر سکو ۔

سلیمان بن عبد الملک اللّٰہ تعالیٰ کا ایک بندہ تھا اللّٰہ نے اس پر موت وارد کی ۔اس نے مجھے خلیفہ بنایا اور میرے لیے خود بیعت لی اور میرے بعد تمہیں نامزد کیا ۔ اللّٰہ نے مجھے ایسی بہترین نعمتیں دی تھیں جو وہ اپنے کسی بندے کو دے سکتا تھا لیکن میں سخت اور نازک سوال سے ڈرتا ہوں الا یہ کہ اللّٰہ ہی میری مدد فرمائے ۔

وفات سے کچھ پہلے ان کے برادرِ نسبتی مسلمہ بن عبد الملک نے عرض کیا ، امیر المومنین آپ نے اپنی اولاد کو مال و دولت سے ہمیشہ محروم رکھا اور انہیں بالکل تہی دست چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ ان کے بارے میں مجھے یا خاندان کے کسی اور شخص کو کوئی وصیت کرتے جائیے ۔

یہ سن کر فرمایا

تم کہتے ہو کہ میں نے اپنی اولاد کو مال و دولت سے ہمیشہ محروم رکھا ، واللّٰہ میں نے ان کی کوئی حق تلفی نہیں کی ۔ البتہ جس مال میں ان کا حق نہ تھا وہ ان کو نہیں دیا ۔ تم کہتے ہو کہ ان کے متعلق کسی کو وصیت کرتا جاؤں تو اس معاملے میں میرا وصی اور ولی میرا اللّٰہ ہے ۔ میرے بچے اگر اللّٰہ سے ڈریں گے تو اللّٰہ ان کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال دے گا اور اگر وہ گناہ میں مبتلا ہوں گے تو میں ان کو مال دے کر معصیت پر زیادہ دلیر اور طاقتور نہ بناؤں گا ۔

اس کے بعد انہوں نے اپنی اولاد کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا ، " میرے عزیز بچو ، جن کو میں تہی دامن چھوڑے جا رہا ہوں لیکن اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نے تمہیں ایسی حالت میں چھوڑا ہے کہ تم پر کسی مسلمان یا ذمی کا کوئی حق نہیں ہے جس کا وہ تم سے مطالبہ کر سکے ۔

عزیز از جان بچو ، تمہارے باپ کے اختیار میں دو باتوں میں سے ایک تھی ۔ پہلی یہ کہ تم سب دولت مند ہو جاؤ مگر اللّٰہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہو جائیں اور دوسری یہ کہ تم صرف جائز حق تک رہو اور اللّٰہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائیں ۔تمہارے باپ نے دوسری بات پسند کی ہے ۔ اٹھو اللّٰہ تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔

بیس دن کی علالت کے بعد آخر وہ دن      آپہنچا جو ہر ذی روح کے لیے مقدر ہے ۔

اس وقت حضرت عمر بن عبد العزیز اپنے اہل و عیال سمیت دیر سمعان میں مقیم تھے ۔ 25 رجب 101ھ کو ان پر نزع کی کیفیت طاری ہونے لگی تو سب لوگوں سے فرمایا ، مجھے تنہا چھوڑ دو ۔ سب لوگ اٹھ کر چلے گئے ۔ ان کی اہلیہ فاطمہ اور برادر نسبتی مسلمہ بن عبد الملک باہر دروازے کے قریب کھڑے رہے ، انہوں نے سنا کہ کہہ رہے ہیں :

کیا مبارک چہرے ہیں جو نہ آدمیوں کے ہیں نہ جنوں کے ۔ پھر بار بار یہ آیت پڑھتے : سورة القصص ،

 تِلۡکَ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ نَجۡعَلُہَا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۸۳

 وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں ۔ اور انجام کی بھلائی تو متقین ہی کے لیے ہے ۔

اس کے بعد خاموش ہو گئے ۔ مسلمہ نے اپنی بہن سے کہا ، فوت ہوگئے ہیں ۔اندر جا کر دیکھا تو واقعی وہ آفتاب رشد و ہدایت ہمیشہ کے لیے غروب ہو چکا تھا ۔

 اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

’’ ہم اللّٰہ ہی کے ہیں اور اللّٰہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے "

محمد بن معبد کہتے ہیں میں اسی وقت شاہ روم کے دربار میں گیا تھا میں نے شاہ روم کو غمزدہ صورت بنائے زمین پر بیٹھے دیکھا


شاہ روم کا محل ،  A Palace in Rome
روم ، حضرت عمر بن عبد العزیز 

میں نے پوچھا یہ آپ کا کیا حال ہے ؟ بادشاہ نے کہا تمہیں معلوم نہیں کیا سانحہ ہوا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ، آپ فرمائیے کیا ہوا ۔ اس نے کہا مرد درویش کا انتقال ہوگیا ۔

  میں نے پوچھا وہ کون ؟ کہنے لگا عمر بن عبد العزیز ، مسلمانوں کے خلیفہ ۔

مجھے اس تارک الدنیا راہب کے حال پر کوئی حیرت نہیں جس نے اپنا دروازہ بند کرکے دنیا کو ترک کر دیا اور عبادت میں مشغول ہو گیا ۔

میں تو اس شخص کا حال سن کر حیران ہوں جس کے قدموں کے نیچے دنیا تھی لیکن اس نے ٹھکرا کر راہبوں جیسی زاہدانہ زندگی اختیار کرلی ۔

پہلی صدی کے مجدد 

حضرت عمر بن عبد العزیز کی شخصیت اور عہد خلافت 

مرد درویش حضرت عمر بن عبد العزیز 

Moral Stories

Historical Stories

Moral Stories for children 


Post a Comment

0 Comments