Header Ads Widget

Responsive Advertisement

فاتح انطاکیہ ۔ مملوک سلطان رکن الدین بیبرس ، Rukn ud din Baibrus


رکن الدین بیبرس ، Moral Stories , Historical Stories

ساتویں صدی ہجری کے عین وسط میں دشت قبچاق ، قزوین اور کوہ کاف کے سفید فام باشندے جو منگولوں کی تاتار گردی میں غلام بنا کر اہل مصر کے ہاتھ فروخت کیے گئے تھے مصر کے تخت و تاج کے مالک بن گئے اور پھر پونے تین سو سال تک اس شان سے بحر و بر پر حکومت کی کہ مشرق و مغرب کا کوئی حکمران ان پر سبقت نہ لے جا سکا ۔

الملک الظاہر سلطان رکن الدین بیبرس انہی غریب الوطن غلاموں کی جماعت کا ایک فرد تھا ۔ وہ اپنی ایک آنکھ میں نقص کی وجہ سے دمشق کے بازار میں بہت حقیر قیمت پر فروخت ہوا لیکن اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور بخت کی یاوری سے ایک دن مصر کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا ۔

اس نے مملوک سلطنت کی بنیادیں استوار کیں اور اسے ایسی عالمی طاقت بنا دیا جس کا نام سن کر دشمنان اسلام پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا ۔

ڈیڑھ صدی سے جاری صلیبی جنگیں اس چیتا صفت جنگجو کی ڈرامائی آمد ، عزم کی پختگی اور فراست کی بدولت اپنے انجام کو پہنچ گئیں ۔

رکن الدین بیبرس ایک ہمہ جہت انسان ، جو سوانگ بھرنے کا ماہر تھا ، کبھی وہ گداگر کے بھیس میں نظر آتا ، ،کبھی ماہر تیر انداز کے روپ میں دکھائی دیتا ، اور کبھی مہمان بن کر دسترخوان پر کھانے سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ۔ بلا کا حاضر دماغ اور بذلہ سنج ، ایک پر فن کردار جو خنجر تانے نمودار ہوتا ، دیوانہ نظر آتا لیکن دیوانہ بکار خویش ہشیار ۔

وہ اس لیے خوش تھا کہ اس نے تاریخ کے سٹیج سے خونخوار منگولوں کو بزدل گورخروں کی طرح مار بھگایا ۔

سلطان بیبرس بہت معاملہ فہم اور ہوشیار سپہ سالار تھا ۔ اس نے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق صلیبیوں کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کر دی ۔ اس نے اعلان جہاد سے پہلے اپنے لشکر کے نام ایک پر شکوہ اور اثر آفریں فرمان جاری کیا ،" ہمارے خلاف شاہ انگلستان ، شہنشاہ جرمنی ، شہنشاہ روم کئ مرتبہ جنگ آزمائی کرکے شکست کھا چکے ہیں ۔ وہ ہمارے لشکر جرار کے سامنے یوں منتشر ہوئے جیسے طوفان کے سامنے خس و خاشاک ۔ ان میں ہمت ہے تو دوبارہ مقابلے پر آئیں ۔ شاہ چارلس ، اس کے یونانی رفیق اور منگول ان  میں اگر جراءت ہے تو ہمارے مقابل آجائیں۔۔۔۔انشاءاللہ ہم ان سب کو تہ تیغ کر دیں گے ۔ ان کے خزانوں پر ہمارا قبضہ ہوگا ، ان کے قلعوں پر ہمارے علم لہرائیں گے اور فتح و نصرت مجاہدین اسلام کے قدم چومے گی ۔

سلطان بیبرس یورپ کے حالات کا بغور جائزہ لیتا رہا ۔ وہ اپنے جاسوسوں اور مخبروں کے ذریعے ایران میں منگولوں کی سرگرمیوں سے بھی آگاہ تھا ۔ وہ ساحل شام کو صلیبیوں سے پاک کرنے کا تہیہ کر چکا تھا ۔ وہ صلاح الدین ایوبی کے ادھورے کام کی تکمیل کا خواہاں تھا 

صلیبی نائٹس نے جافا اور انطاکیہ کے قلعوں کو مستحکم کر لیا تھا ۔ ان کی مدافعت کا مضبوط سلسلہ سارے ساحل پر پھیلا ہوا تھا ۔ ان کے خلاف فوج کشی میں بہت حزم و احتیاط کی ضرورت تھی اور بیبرس اپنے دشمنوں کو حقیر نہیں سمجھتا تھا ۔

بیبرس اپنے سفروں میں کئی دفعہ صلیبی قلعوں کا جائزہ لے چکا تھا ۔ وہ ان علاقوں سے اچھی طرح واقف تھا ۔ انطاکیہ سے حصن الاکراد تک تیس صلیبی سنگین حصار تھے جن کی فصیلیں ناقابلِ تسخیر تھیں

قلعہ , Fort
فاتح انطاکیہ رکن الدین بیبرس ، Historical Stories 

اس نے ان قلعوں کو یکے بعد دیگرے فتح کر نے کا منصوبہ بنایا ۔ اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار اچانک یلغار ، تیز نقل و حرکت ، کثیر لشکر اور آلات محاصرہ پر تھا ۔

اس نے ایک لشکر جرار اکٹھا کیا جس میں مملوکوں کے علاوہ بربر ، عرب اور سوڈانی بھی شامل تھے ۔ بلا شبہ یہ ایک زبردست فوج تھی لیکن اس فوج کو لڑانے کے لیے بیبرس میں اخفائے راز ، سرعت عمل اور جراءت اقدام کی خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں ۔

بارھویں صدی کے اوائل میں سلطان بیبرس اپنے لشکر جرار کے ہمراہ قاہرہ سے نکلا ۔ جب صلیبیوں کو اس کی نقل و حرکت کی اطلاع ملی تو وہ اپنے ساحلی قلعوں میں زور و شور سے جنگی تیاریوں میں مصروف ہو گئے ۔

بیبرس کی افواج الکرک ، قیساریہ ، ارسوف اور صفد کے قلعوں کی تسخیر کے بعد بالآخر الشقیف پہنچ گئیں جو صلیبیوں کا مرکزی ہیڈکوارٹر اور اپنے دفاعی استحکام کی وجہ سے بالکل ناقابلِ تسخیر خیال کیا جاتا تھا ۔ یہ پہاڑ کی چٹانیں تراش کر بنایا گیا تھا ۔

فاتح انطاکیہ رکن الدین بیبرس ، Moral Stories , Historical Stories
  Moral Stories سلطان رکن الدین بیبرس 


سلطان بیبرس نے منجنیقیں قلعہ کے سامنے نصب کروادیں ۔ صلیبی نائٹس نے قلعے کی فصیلوں سے ایک دراز قد شخص کو مسلمان فوج کی صفوں سے آہستہ آہستہ گزرتے دیکھا ۔ اس کے جسم پر زرہ تھی جو ٹخنوں تک پہنچ رہی تھی اور ایک ہاتھ میں ڈھال تھی ۔ کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی ۔

وہ ان صفوں سے گزرا اور فصیل کا خاموشی سے معائنہ کر کے واپس آ گیا ۔ صلیبی نائٹس یہ نہ دیکھ پائے کہ اس شخص کی ایک آنکھ نیلی اور دوسری سفید ہے ۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے اس شخص کو منجنیقوں کے پاس کھڑے دیکھا وہ سنگباروں کو ہدایات دے رہا تھا ۔

ایک ماہ بعد جب انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ شخص دراصل سلطان بیبرس تھا ۔

ان فتوحات سے دوسرے صلیبی قلعوں میں خوف وہراس پھیل گیا ۔ صلیبیوں نے ہشیوں ، منگولوں اور یورپ سے فوجی امداد طلب کی ۔ ان کے قاصد اور ہرکارے ہر طرف دوڑ رہے تھے ۔ اسی دوران سلطان بیبرس نے بوہمنڈ ششم شاہ انطاکیہ سے عارضی صلح کر لی ۔ جس سے اسے انطاکیہ کی طرف سے اطمینان ہوگیا ۔ پھر وہ ہشیوں کی گوشمالی کے لیے شمال کی طرف بڑھا کیوں کہ انہوں نے منگولوں کی مدد کی تھی اور وہ ان کے حلیف تھے ۔

یہ داستان مشہور ہے کہ وہ بھیس بدل کر ایشیائے کوچک کے دور افتادہ علاقے میں پہنچ گیا ۔ ایک دن وہ سڑک کے کنارے پر واقع حلوائی کی دکان پر سستانے کے لیے اترا ۔ اس نے کچھ مٹھائی اور پھل کھایا اور اپنی مہر سلطانی میز پر ہی بھول گیا ۔ واپس آ کر اس نے ایل خانی منگول حاکم کی طرف قاصد روانہ کیا اور درخواست کی کہ تمہارے علاقے کے فلاں شہر میں فلاں


بازار ، market

دکان پر میں اپنی انگوٹھی بھول آیا ہوں مہربانی کرکے وہ واپس کر دی جائے ۔

جنگ بھی بیبرس کی تفنن طبع کو متاثر نہ کر سکی ۔

نقل وحرکت کی حیرت انگیز سرعت اور دشمن کو فریب دینے کی ماہرانہ صلاحیت سے بیبرس دشمن کی نظروں سے اوجھل رہتا تھا ۔ دشمن اس کی نقل وحرکت اور منصوبوں کا سراغ لگانے سے قاصر رہتے ۔

ایک دن سلطان بیبرس کے سفیر ٹریپولی کے قلعے کے دروازے سے اندر داخل ہوئے اور بوہمنڈ ششم سے اذن باریابی طلب کی ۔ وہ بوہمنڈ کو شاہ کے بجائے کاؤنٹ کے لقب سے خطاب کر نے پر مصر تھے ۔

نائٹس اور مسلح پہرے داروں نے اُنہیں گھیرے میں لے لیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد برج کی سیڑھیوں سے بوہمنڈ اترا اور ایوان میں داخل ہوا ۔ وہ اپنے آبائی شہر انطاکیہ سے یہاں آیا تھا ۔ اس نے بیبرس کو تاوان ادا کرکے صلح کر لی تھی لیکن اس کے باوجود وہ خائف تھا ۔


فاتح انطاکیہ رکن الدین بیبرس ، Moral Stories , Historical Stories

 اب وہ خطرے سے بچنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنے جنوبی شہر ٹریپولی میں مقیم تھا ۔

مصری سفیروں کے سردار نے بہت بےباکی سے گفتگو کی ۔ وہ اسے کاؤنٹ بوہمنڈ کہہ کر مخاطب کر تا رہا اور اس پر صلح کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ۔ بوہمنڈ غصہ میں آگیا ۔ 

اس نے اپنے دربان سے سرگوشی کی ۔ دربان نے سفیروں کو سرزنش کی : تہذیب سے بات کرو وگرنہ خاموش ہو جاؤ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ میرے آقا شاہ انطاکیہ ہیں ۔ خبردار تمہیں بھی شاہ کو اسی لقب سے خطاب کرنا چاہیے 

مملوک سفیروں کے سردار نے معنی خیز نظروں سے دیکھا اور توقف کیا ۔ پھر اس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ جناب کاؤنٹ مجھے یہی پیغام دیا گیا ہے جو کچھ مجھے بتایا گیا ہے میں اسے دوسرے انداز میں ادا نہیں کر سکتا ۔

بوہمنڈ کی پیشانی شکن آلود ہو گئی ۔ اس نے محافظوں کو اشارہ کیا کہ سفیروں کو حراست میں لے لیں ۔ اتنے میں ایک سائیس جو گھوڑوں کی لگامیں تھامے ہوئے تھا یونہی آگے بڑھا ۔ اس نے مملوک سردار کے پاؤں کو چھو لیا ۔ مملوک سردار بول اٹھا : جناب شاہ آپ خاطر جمع رکھیے ۔    

   سفیروں نے تعمیل کرلی ۔ ان کا پیغام وصول کر لیا گیا ۔ گفتگو جاری رہی ۔ اس دوران میں وہ لمبا تڑنگا سائیس ایوان کے باہر گھومتا رہا اور اپنی سالم آنکھ سے دیواروں اور سپاہیوں کے ہتھیاروں کا جائزہ لیتا رہا ۔

اس نے بوہمنڈ کو بھی بغور دیکھا ۔ جب بوہمنڈ نے سفیروں کو رخصت کیا تو سائیس سرداروں کی رکابیں تھامنا بھول گیا ۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر مملوک سفیروں کے ساتھ ہو لیا اور شہر کے دروازے سے باہر نکل کر ہنستے ہنستے دوہرا ہوگیا ۔

فاتح انطاکیہ رکن الدین بیبرس ، مسلمان سفیر
سلطان رکن الدین بیبرس 

لعنت ہو اس کی ساری شاہی اور امیری پر "

بیبرس نے سائیس کے روپ میں ایک نیا سوانگ رچایا تھا ۔ وہ اس مشغلہ سے بہت خوش ہوا ۔ اس پر فن تدبیر سے اس نے حالات کا جائزہ لے لیا تھا ۔

بانیاس کے قریب پہنچ کر وہ پھر غائب ہو گیا ۔ لیکن اس دفعہ منتخب رسالہ اس کے ہمراہ تھا ۔

دو ہفتے بعد ٹریپولی کے قلعے میں بوہمنڈ کو ایک خط ملا ۔ نامہ بردار غیر مسلح مسلمان تھا ۔ اس دفعہ سلطان بیبرس نے بھیس نہیں بدلا تھا ۔ نامہ بردار خط دیتے ہی واپس چلا گیا ۔

بوہمنڈ نے خط کھولا تو اس کی نظر بیبرس کے جلی دستخط پر پڑی ۔ اس نے خط پڑھا تو اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں ۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھا رہا جیسے کسی غیبی ضرب سے مفلوج ہو گیا ہو ۔ جب اس کے مصاحبوں کو خط کا متن معلوم ہوا تو وہ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے ۔

یہ خط اس جامع الفنون سلطان بیبرس کا شاہکار تھا ۔

کاؤنٹ کو ہمارا سلام پہنچے ۔ ہم اس کی بدبختی پر اظہار تعزیت کرتے ہیں ۔ اللّٰہ کی مرضی جس نے اسے شاہی سے محروم کردیا اور اشک شوئی کے لیے اسے صرف کاؤنٹ رہنے دیا ۔

اے کاؤنٹ جو خود کو شاہ انطاکیہ سمجھتے ہو یاد رکھو کہ شاہ انطاکیہ ہم ہیں تمہارے زرخیز اور شاداب شہر کے مالک  ۔

رمضان المبارک کی چار تاریخ کو ہفتے کے دن چوتھے پہر ہم شمشیر بکف تمہارے شہر میں گھس گئے ۔

کاش کہ تم دیکھتے کہ کیسے تمہارے نائٹس گھوڑوں کے سموں تلے روندے گئے ، تمہارے شاندار محل ویران ہوئے ، شاہی خاندان کے امیر و کبیر کیسے غلام ہوئے اور کیسے تمہاری ہی دولت سے خریدے گئے ۔

کیسے مال غنیمت سے سپاہیوں نے اپنے توبڑے بھرے ، کاش کہ تم دیکھتے کہ تمہاری دولت کس کڑی ترازو تولی گئی ۔

کیسے تمہاری شہر پناہ زمین بوس ہوئی ۔ یہ مناظر دیکھ کر تم چیخ اٹھتے ، اے کاش کہ میں خاک ہو تا ۔

تمہارا کوئی آدمی زندہ نہیں بچا جو تمہیں یہ سر گزشت سناتا اسی لئے ہم تمہیں یہ روداد سناتے ہیں ۔

یہ تھا بیبرس کا فیصلہ کہ بوہمنڈ کاؤنٹ ہے یا بادشاہ ۔ انطاکیہ شہر فتح ہو چکا تھا ۔

سلطان بیبرس نے سرزمین قدس میں صلیبی نائٹس کے مضبوط ترین قلعوں کا صفایا کرنے کی ٹھان لی ۔ بارہ سو اکہتر کے موسم بہار میں اس کے لشکر نے دوبارہ حرکت کی اور حصن الاکراد کا محاصرہ کر لیا ۔ یہ اہم جنگی راستوں کا نگہبان اور ساحلی شہر ٹریپولی کا محافظ تھا ۔

بیبرس نے اس سطح مرتفع پر آلات محاصرہ نصب کروا دیئے ۔ دو ہفتے بعد اس عظیم الشان قلعے کے محافظوں نے علم سرنگوں کر دیے اور سپر ڈال دی ۔ باقی ماندہ نائٹس کی جان بخشی کر دی گئی ۔

اب سلطان اپنے شکست خوردہ دشمن کا ہمسایہ بن گیا تھا ۔ سابق شاہ انطاکیہ اور موجودہ کاؤنٹ بوہمنڈ اس خطرناک قرب سے گھبرا گیا ۔ وہ ٹریپولی میں محصور ہو کر رہ گیا تھا اسے باہر نکلنے کی جرات نہ تھی ۔ اس نے سلطان سے احتجاج کیا اور اس پر وعدہ شکنی کا الزام لگایا ۔

بوہمنڈ کو اس احتجاج کی بھاری قیمت چکانا پڑی ۔

بیبرس نے فوراً جواب دیا ، میں تو صرف ایک بار تمہاری فصلیں اکٹھی کرنے اور تمہارے باغات کے انگور لینے آیا تھا ۔ خاطر جمع رکھو اب انشاء اللہ ہر سال آیا کروں گا ۔

فاتح انطاکیہ رکن الدین بیبرس ،Moral Stories
سلطان رکن الدین بیبرس ، Moral Stories 

بوہمنڈ مجبور تھا وہ قلعہ میں پڑا رہا ۔

گرمیوں کے آخر میں بوہمنڈ کو سلطان کا دوسرا پیغام موصول ہوا ۔ قاصد اپنے ساتھ شکار لایا تھا جو سلطان نے کاؤنٹ کو بطور تحفہ بھیجا تھا ۔

یہ پیغام بھی پہلے خطوط کی طرح مختصر اور معنی خیز تھا ۔

ہم نے یہ افواہ سنی ہے کہ تم نے شکار ترک کر دیا ہے اور اپنے قلعے سے باہر نکلنے کی جرات نہیں کر تے ۔ ہم تمہاری دلجوئی کے لیے یہ شکار بھیج رہے ہیں ۔

بیبرس ٹریپولی کے قریب زیادہ دیر نہ ٹھہرا پیش قدمی کرتے ہوئے آگے بڑھا اور نائٹس کے مضبوط ترین قلعے مانٹفورٹ کو بھی فتح کرلیا ۔


فاتح انطاکیہ رکن الدین بیبرس  ، قلعہ
سلطان رکن الدین بیبرس ، قلعہ 

بالآخر صلیبیوں کے پاس صرف ٹریپولی سے عکہ تک کا تنگ ساحلی علاقہ رہ گیا  صلیبیوں کی پشت پر سمندر تھا


Moral Stories                   sea      سمندر
فاتح انطاکیہ رکن الدین بیبرس
                                                                               
     اور سامنے ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت

اسلامی ریاست Historical Stories

Historical Stories                                              
Moral Stories                                                 
Moral Stories for children
مملوک سلطان ، رکن الدین بیبرس 

Post a Comment

0 Comments