ہم کو اس سے پہلے نوح نے پکارا تھا ، تو دیکھو کہ ہم کیسے اچھے جواب دینے والے تھے ۔ ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو کرب عظیم سے بچالیا اور اسی کی نسل کو باقی رکھا اور بعد کی نسلوں میں اس کی تعریف و توصیف چھوڑ دی ۔
الصافات : 75-82
حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد طویل عرصہ تک ان کی اولاد اسلام پر قائم رہی لیکن پھر ان میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے جو اسلام کی تعلیم کو فراموش کرگئے اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں شریک اور عبادت کے لائق سمجھنے لگے
اس قوم میں شرک کے ساتھ بہت سی اخلاقی خرابیاں بھی پیدا ہو چکیں تھیں ۔ انہوں نے لکڑی اور پتھر کے بت بنائے اور انکی پرستش کرنے لگے ۔
انہوں نے ان بتوں کے بڑے بڑے مندر بنا لیے جن کا انتظام ان کے مذہبی پیشوا کرتے ۔ لوگ ان بتوں کے سامنے نذریں پیش کرتے اور ان ہی سے مرادیں مانگتے
یہ مذہبی پیشوا وہ سب چیزیں اور مال و دولت غصب کر لیتے جو لوگ نذروں کی صورت میں بتوں کے سامنےرکھتے
ان مذہبی پیشواؤں نے لوگوں میں اونیچ نیچ کی تقسیم بھی پیدا کردی اور ان میں ہر طرح کی برائیاں خوب پھیلائیں
حضرت نوح علیہ السلام اسی قوم میں پیدا ہوئے اور بچپن سے جوانی کو پہنچے ۔ سب لوگ جانتے تھے کہ وہ بہت نیک انسان ہیں۔ برائی سے دور رہتے ہیں ۔ لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کرتے ہیں ۔ اور اپنی قوم کے انتہائی سچے اور ایماندار شخص ہیں
زمین ظلم اور فساد سے بھر چکی تھی ۔ اس وقت یہ لوگ جس علاقے میں آباد تھے اس کو اب عراق کہا جاتا ہے ۔ اُنہیں حالات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اس قوم کی ہدایت کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کو مامور فرمایا
حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو سمجھایا ، اے برادران قوم اللّٰہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ، میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔
ان کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا ، ہمیں تو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو ۔
نوح علیہ السلام نے کہا ، اے برادران قوم ، میں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہوں بلکہ رب العالمین کا رسول ہوں ، تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارا سچا خیر خواہ ہوں
مجھے اللّٰہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں ہے ۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعے سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ تمہیں خبردار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے ۔
ان کی قوم کے سردار آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے
یہ شخص کچھ نہیں ہے بس ہماری طرح کا ایک انسان ہے ۔ یہ چاہتا ہے کہ تم اسے بڑا آدمی مان لو ۔ اگر اللّٰہ کو بھیجنا ہوتا تو وہ فرشتے بھیجتا ۔ یہ بات تو ہم نے کبھی باپ دادا کے وقتوں میں سنی ہی نہیں کہ انسان رسول بن کر آئے ۔ بس کچھ نہیں اسے شاید جنون لاحق ہے ۔ کچھ مدت اور دیکھ لو شاید یہ ٹھیک ہو جائے
حضرت نوح علیہ السلام کو اللّٰہ تعالیٰ نے طویل عمر عطا فرمائی تھی ۔ وہ تقریباً ایک ہزار سال اس دنیا میں رہے اور نو سو پچاس سال انہوں نے اپنی قوم کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف بلانے میں گزارے
اس طویل مدت میں وہ وقتاً فوقتاً اپنی قوم کی اصلاح کے لیے انہیں نصیحتیں کرتے رہے
لیکن اتنی طویل مدت تک تبلیغ کرنے کے باوجود صرف چند غریب اور کمزور لوگ ہی ان پر ایمان لائے باقی ساری قوم ان کی دشمن ہو گئی۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو تنبیہہ کی ، میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ اللّٰہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا ۔
جواب میں ان کی قوم کے سردار جنہوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کیا تھا بولے :
ہماری نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہم ہی جیسے ۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس ان لوگوں نے جو ہمارے ہاں حقیر تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کی ہے ۔ ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو ۔ بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا ، اے میری قوم کے لوگو اللّٰہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنی خاص رحمت عطا فرمائی ہے جو تمہیں نظر نہیں آتی ۔ اب ہمارے پاس آخر وہ کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم اس کو زبردستی تمہارے سر چیپک دیں ۔
اے برادران قوم
میں اس کام کے بدلے تم سے کچھ نہیں چاہتا ، میرا اجر تو اللّٰہ رب العالمین کے ذمہ ہے ۔ اگر تم یہ کہو کہ میں ایمان لانے والوں کو اپنے پاس سے نکال دوں تو اللّٰہ تعالیٰ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا ۔
اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللّٰہ کے خزانے ہیں ، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں ، نہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں ۔
اور جن لوگوں کو تم حقیر سمجھتے ہو ان کی نسبت میں ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ اللّٰہ نے انہیں کوئی بھلائی نہیں دی ہے ۔ ان کے نفس کا حال اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اگر میں ایسی باتیں کہوں تو ظالم ہوں گا
اے میری قوم کے لوگو ، میں تمہارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا پیغمبر ہوں ۔ تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ اللّٰہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، اللّٰہ تعالیٰ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللّٰہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا ، کاش تمہیں اس کا علم ہو ۔
آخرکار ان لوگوں نے کہا ، اے نوح ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کرلیا ۔ اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا
وہ تو اللّٰہ ہی لائے گا اگر چاہے گا ، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک سکو ۔
اب اگر میں تمہاری کچھ خیرخواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیرخواہی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جب کہ اللّٰہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کر لیا ہو
اللّٰہ نے تمہاری ہٹ دھرمی ، شرپسندی اور خیر سے بے رغبتی دیکھ کر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ تمہیں راہ راست کی توفیق نہ دے اور جن راہوں میں تم خود بھٹکنا چاہتے ہو انہی میں تم کو بھٹکا دے تو اب تمہاری بھلائی کے لیے میری کوئی کوشش کارگر نہیں ہو سکتی ۔
وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے ۔
سوا نو سو سال تک اپنی قوم کو ہدایت کی طرف بلانے کے بعد جب حضرت نوح علیہ السلام کو یقین ہوگیا کہ ان کی قوم راہ راست پر نہیں آئے گی تو انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی :
اے میرے رب ، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا ۔ اور جب بھی میں نے ان کو بلایا تاکہ تو اُنہیں معاف کر دے انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا ۔
پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی ۔ میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا ۔
میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو ، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا ، اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا ۔
تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللّٰہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اس نے تمہیں تخلیق کیا ۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللّٰہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا ؟ اللّٰہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اگایا ، پھر وہ تمہیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکا یک تم کو نکال کھڑا کرے گا اور اللّٰہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو ۔
لیکن ، اے میرے رب انہوں نے میری بات رد کردی اور ان سرداروں کی پیروی کی جو مال اور اولاد پاکر اور زیادہ نامراد ہو گئے ہیں ۔
انہوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے
ان سرداروں نے لوگوں سے کہا ، ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو اور نہ چھوڑو ود اور سواع کو ، اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو ۔ انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا ہے اور تو بھی ان ظالموں کو گمراہی کے سوا کسی چیز میں ترقی نہ دے
نوح علیہ السلام نے کہا ، میرے رب ، ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ ۔ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا ۔
میرے رب ، مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے اور سب مومن مردوں اور مومن عورتوں کو معاف فرما دے اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر ۔
حضرت نوح علیہ السلام کی یہ بددعا کسی بے صبری کی بنا پر نہ تھی بلکہ یہ اس وقت ان کی زبان سے نکلی تھی جب صدیوں تک تبلیغ کا حق ادا کرنے کے بعد وہ اپنی قوم سے پوری طرح مایوس ہو چکے تھے ۔
نوح علیہ السلام پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس لاچکے ۔ اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ دو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کردو ۔ اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا ۔ یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں
حضرت نوح علیہ السلام کشتی بنا رہے تھے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی ان کے پاس سے گزرتا تھا وہ ان کا مذاق اڑاتا تھا ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کہا ، اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں ، تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا ، اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی۔
یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم آ گیا اور تنور ابل پڑا تو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا ، ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو اپنے گھر والوں کو بھی۔۔۔۔ سوائے ان لوگوں کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے ۔۔۔۔اس میں سوار کرادو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں ۔
نوح علیہ السلام نے ایمان لانے والوں سے کہا ، سوار ہو جاؤ اس میں ، اللّٰہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھہرنا بھی ، میرا رب بڑا غفور الرحیم ہے
طوفان کی ابتداء تو ایک خاص تنور سے ہوئی جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ، پھر ایک طرف آسمان سے موسلادھار بارش شروع ہوگئی اور دوسری طرف زمین میں جگہ جگہ سے چشمے پھوٹنے لگے ۔
![]() |
Moral Stories حضرت نوح |
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی ۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے پکار کر کہا ، بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ ، ان کافروں کے ساتھ نہ رہو
اس نے پلٹ کر جواب دیا ، میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھ جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے کہا ، آج کوئی چیز اللّٰہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللّٰہ ہی کسی پر رحم فرمائے ۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا ، اے میرے رب ، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے ، تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے ۔
جواب میں ارشاد ہوا ، اے نوح علیہ السلام ، ، وہ تمہارے گھروالوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ۔ لہذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا ، نوح علیہ السلام نے فوراً عرض کیا ، اے میرے رب ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں ہے ، اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ، اے زمین اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان رک جا ۔چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا ، فیصلہ چکا دیا گیا ، کشتی جودی پہاڑ پر ٹک گئی اور کہہ دیا گیا دور ہوئی ظالموں کی قوم ۔
![]() |
Moral Stories |
اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اے نوح اتر جا ، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں ، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامان زندگی بخشیں گے اور پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا ۔
اس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا اور باقی ساری قوم کو غرق کر دیا ۔
اس قہر کے سیلاب سے جو لوگ بچ گئے انہی کی نسل آج دنیا میں آباد ہے ۔
اسی لیے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ۔
Quranic Stories
Moral Stories
Moral Stories for children
1 Comments
🥰🥰
ReplyDelete