Header Ads Widget

Responsive Advertisement

حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، آتش پرستی سے خدا پرستی تک , Hazrat Salman Farsi

حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

 حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت سے سالہا سال پہلے کا واقعہ ہے کہ اصفہان فارس کے ایک نواحی قصبہ " جی " میں آتش پرستوں کا ایک خوشحال خاندان " آب الملک " آباد تھا ۔

 اس گاؤں کا سردار بوذخشان بن مورسلان  ایران کے دربار میں بہت اثر ورسوخ رکھتا تھا ۔ وہ نہ صرف ایک بہت بڑا زمیندار تھا بلکہ ایک بڑے آتشکدہ کا مہتمم بھی تھا ۔

آتشکدہ ، فارس ، Fire Temple
حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

بوذخشان کا ایک کمسن بچہ " مابہ " تھا جس سے وہ بہت محبت کرتا تھا ۔ اس نے مابہ کی پرورش بہت ناز و نعم سے کی ۔ مابہ ایک سادہ ، خاموش طبع اور سعادت مند بچہ تھا ۔ وہ اپنے ہم عمر بچوں سے کھیلنے کے بجائے ہر وقت آتشکدہ میں آگ جلانے میں مصروف رہتا ۔ اس کی کوشش ہوتی کہ آتشکدہ ہر وقت روشن رہے اور اس کی آگ کبھی بجھنے نہ پائے ۔

آتشکدہ میں جلتی ہوئی آگ
آتشکدہ 

ایک دن بوذخشان نے مابہ سے کہا کہ ، بیٹا ! آج میں ایک ضروری کام کی وجہ سے اپنے کھیتوں میں نہ جا سکوں گا اس لیے کھیتوں کی دیکھ بھال تمہارے سپرد ہے ۔

مابہ والد کے حکم کی تعمیل میں فوراً کھیتوں کی طرف چل پڑا ۔ راستے میں عیسائیوں کا ایک گرجا تھا ، اس وقت وہ عبادت میں مصروف تھے اور بلند آواز سے مناجات پڑھ رہے تھے ۔ مابہ ان کی آواز سن کر گرجے میں چلا گیا ۔ عیسائیوں کی عبادت کا طریقہ دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوا اور اپنے مذہب آتش پرستی سے بیزار ہو گیا ۔ وہ کچھ دیر کھڑا اُنہیں دیکھتا رہا ۔ جب عیسائی عبادت سے فارغ ہوئے تو مابہ نے ان کے سردار سے کہا ، مجھے تمہارا دین بہت اچھا لگا ہے آج سے میں آتش پرستی ترک کرتا ہوں اور تمہارے دین میں داخل ہونا چاہتا ہوں ۔ عیسائی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اسی وقت مابہ کو بپتسمہ دے کر دین مسیحی میں داخل کر لیا ۔

گرجا گھر ، church

مابہ کے دل میں جستجوئے حق کی تڑپ تھی ، عیسائیوں سے پوچھا دین عیسوی کا مرکز کہاں ہے ۔ انہوں نے کہا ملک شام میں ۔

مابہ غروب آفتاب کے وقت گھر واپس آیا ۔ والد نے پوچھا ، کھیتوں کو دیکھ آئے ، مابہ نے جواب دیا ، نہیں ، راستے میں ایک گرجا گھر تھا ، کچھ لوگ وہاں عبادت میں مصروف تھے ، مجھے ان لوگوں کی عبادت کا طریقہ بہت پسند آیا اور میں سارا دن انہی لوگوں کے ساتھ رہا ۔

بوذخشان بیٹے کی " گمراہی " پر بہت غضبناک ہوا ۔اس نے کہا ، ان لوگوں کا مذہب ہمارے مذہب سے زیادہ اچھا نہیں ہے ۔ آج سے تمہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے ۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے بیٹے کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر اسے قید کر دیا ۔

مابہ نہایت حوصلہ سے قید میں رہا ۔ ایک دن موقع پا کر اس نے عیسائیوں کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر ملک شام کی طرف کوئی قافلہ روانہ ہو تو مجھے اطلاع دینا ۔ کچھ دنوں بعد شام سے کچھ لوگ تجارت کی غرض سے اصفہان آئے جب وہ شام واپس جانے لگے تو عیسائیوں نے مابہ کو اطلاع دی ۔ مابہ نے کسی طرح ان بیڑیوں سے نجات حاصل کی اور شام جانے والے قافلے میں شامل ہو گیا ۔

شام پہنچ کر مابہ نے لوگوں سے وہاں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما کا پتہ معلوم کیا پھر اس کی خدمت میں پہنچ کر درخواست کی کہ مجھے دین مسیحی کی تعلیم دیں ۔ اسی کے حصول کے لیے میں فارس سے یہاں آیا ہوں ۔

شام کا گرجا گھر ، A church in Syria

اسقف نے مابہ کی درخواست قبول کر لی اور وہ اسقف کے پاس رہنےلگا ۔ یہ اسقف ایک ریاکار شخص تھا ۔ اس کی ظاہری زندگی تو بہت زاہدانہ تھی مگر درحقیقت اسے عیش و عشرت اور مال و دولت جمع کرنے کے سوا کوئی کام نہیں تھا

اس نے سونے چاندی کے سات صندوق جمع کر رکھے تھے ۔ مابہ اس کے لالچ اور برائیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں بہت کڑھتا 

سونے ، چاندی کا صندوق

لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا کیونکہ لوگ اس اسقف کو نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد وہ اسقف فوت ہو گیا ۔ اس کو دفنانے کے لیے لوگ جمع ہوئے تو مابہ نے ان کے سامنے اسقف کی ساری حقیقت کھول کر رکھ دی اور انہیں اس کی جمع کی ہوئی دولت دکھائی ۔ لوگ بہت غصہ میں آگئے اور انہوں نے اسقف کی لاش کو سولی پر چڑھا کر خوب پتھر برسائے پھر ایک عبادت گزار اور نیک پادری کو اس کا جانشین بنا دیا ۔

 یہ شخص واقعی نیک فطرت تھا ۔ مابہ کو اس سے بہت عقیدت ہو گئی اور وہ دلجمعی سے اس کی خدمت میں مصروف رہتا ۔ اس پادری نے بھی جہاں تک ہو سکا مابہ کو فیض پہنچانے کی کوشش کی ۔ آخر اسکا پیمانہ حیات بھی لبریز ہو گیا مرتے وقت اس نے مابہ سے کہا میرے مرنے کے بعد تم موصل فلاں شخص کے پاس چلے جانا جو دین مسیحی کا سچا عاشق ہے ۔ اس کے سوا تمہیں مشکل سے   ہی کوئی مخلص حق پرست ملے گا ۔

موصل کا گرجا گھر

مابہ مرحوم پادری کی وصیت کے مطابق موصل پہنچا اور جس شخص کا پتہ دیا گیا تھا اس کی خدمت میں پہنچ کر حصولِ علم میں مصروف ہو گیا ۔ اللہ کی قدرت تھوڑے ہی دنوں بعد اس نے بھی سفر آخرت کی تیاری کی ، مرتے وقت اس نے مابہ کو نصیحت کی ، " اے بیٹے ، مجھے حوالہ خاک کرنے کے بعد فلاں شخص کے پاس نصیبین چلے جانا ، میرے علم میں وہی شخص ہے جو تمہیں دین حق پر چلائے گا دوسرے لوگوں نے دین کو بدل ڈالا ہے اور گمراہ ہو گئے ہیں ۔مابہ حق کی جستجو میں نصیبین پہنچا ۔ 

Historical Stories ، حضرت سلمان فارسی


 وہاں کے پادری نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا ۔ تھوڑے ہی دنوں بعد اس کا بھی وقت آخر آ پہنچا ۔ مابہ نے اس سے پوچھا ، میرے مقدس سرپرست میرے لیے کیا حکم ہے ۔ پادری نے کہا ، بیٹا ، جس نور حق کے تم متلاشی ہو وہ تمہیں عموریہ میں فلاں شخص کے پاس ملے گا میرے مرنے کے بعد سیدھا اس کے پاس چلے جانا ۔

مابہ نصیبین کے پادری کے کفن دفن سے فارغ ہو کر سیدھا عموریہ پہنچا اور وہاں کے اسقف کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا ۔ یہ اسقف ایک انتہائی پرہیزگار اور پاکباز شخص تھا ۔ عالم ہونے کے ساتھ وہ بہت باعمل انسان تھا ۔ مابہ نے اس کی صحبت سے خوب فیض حاصل کیا اور دین مسیحی کا سچا پیروکار بن گیا ۔ اپنے استاد کی طرح وہ بھی دن رات عبادت میں مشغول رہتا ۔ کچھ بکریاں خرید لیں اور ان کا دودھ بطور غذا استعمال کرتا رہا ۔ کچھ عرصہ بعد عموریہ کے اس پاکباز اسقف کو بھی پیغام اجل آ گیا ۔ جب وہ دم توڑ رہا تھا تو مابہ نے عرض کی ، " میں سینکڑوں میل کا پر صعوبت سفر طے کرنے اور بہت سے دروازوں کی خاک چھاننے کے بعد آپ کی خدمت میں پہنچا تھا اب آپ بھی مجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں آپ کے بعد میں کہاں جاؤں گا ۔ "

حضرت سلمان فارسی ، Moral Stories

عموریہ کے اس مرد درویش نے اکھڑی ہوئی آواز میں جواب دیا ، اے حق کے متلاشی بیٹے میں تمہیں کیا مشورہ دوں ۔ اس وقت ساری دنیا برائیوں میں غرق ہے ۔ کفر وشرک کی بجلیاں چاروں طرف کوند رہی ہیں ۔ اس دنیا میں مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس کے پاس تجھے بھیجوں ، البتہ اب ان نبی آخر الزماں کے ظہور کا وقت قریب ہے جو صحرائے عرب سے اٹھ کر دین حنیف کو زندہ کریں گے ۔ پھر اس سرزمین کی طرف ہجرت کریں گے جس پر کھجور کے درختوں کی کثرت ہو گی ۔ ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی ۔ وہ ہدیہ قبول کر لیں گے لیکن صدقہ کو اپنے لیے حرام سمجھیں گے ۔ اگر تم اس پاک نبی کا زمانہ پاؤ تو ان کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا ۔"

کھجوروں کا باغ ، Date Trees
حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

یہ کہہ کر اسقف نے آخری ہچکی لی اور مولائے حقیقی سے جا ملا ۔

اب مابہ تھا اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جستجو ۔ وہ ہر وقت اسی تلاش میں رہتا کہ کوئی قافلہ ملے تو اس کے ساتھ اس سرزمین میں پہنچ جائے جہاں نبی آخر الزماں صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مبعوث ہونا ہے ۔

 آخر ایک دن اس کی دلی مراد پوری ہو گئی ۔ قبیلہ بنو کلب کا ایک قافلہ عموریہ میں ٹھہرا ۔ مابہ کو معلوم ہوا کہ اس قافلے نے عرب جانا ہے تو وہ فوراً قافلہ کے سردار کے پاس پہنچا اور اس سے درخواست کی کہ میرے مویشی آپ لے لیں اور مجھے اپنے ساتھ عرب لے جائیں ۔ قافلہ کا سردار رضامند ہو گیا اور مابہ کی بکریاں اپنے قبضے میں لے کر اسے اپنے ساتھ لے گیا ۔

Moral Stories , Historical Stories کارواں
اونٹوں کا قافلہ             
جب قافلہ وادیء القری' میں پہنچا تو قافلہ والوں کی نیت اس سادہ دل نوجوان کے لیے بدل گئی اور اسے غلام بنا کر ایک یہودی کے پاس بیچ دیا ۔ مابہ کچھ دن اس یہودی کے پاس رہا ۔ ایک دن اس یہودی کا ایک رشتہ دار جو مدینہ کا رہنے والا تھا اس سے ملنے آیا ۔ اسے ایک غلام کی ضرورت تھی ۔ اپنے میزبان سے ذکر کیا تو اس نے مابہ کو اپنے مہمان کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔ یہ شخص مابہ کو اپنے ہمراہ مدینہ لے آیا ۔ مدینہ پہنچ کر مابہ نے ہر طرف کھجوروں کے جھنڈ دیکھے تو اسے یقین ہو گیا کہ جس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر عموریہ کے راہب نے کیا تھا وہ ایک روز اس سرزمین میں تشریف لائیں گے ۔ اب مابہ دن رات نبی آخر الزماں صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے انتظار میں رہا ۔
کھجوروں کے جھنڈ
حضرت سلمان فارسی Moral Stories

آخر ایک دن وہ مبارک گھڑی آ گئی جس کا مابہ کو بہت شدت سے انتظار تھا ۔ وہ اپنے یہودی آقا کے باغ میں کھجور کے ایک درخت پر چڑھ کر کھجوریں توڑ رہا تھا ۔ اس کا آقا وہیں بیٹھا تھا ۔ اتنے میں ایک یہودی شہر سے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا ، خدا بنو قیلہ کو غارت کرے سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس بھاگے جا رہے ہیں ۔ جو مکہ سے آیا ہے اور اپنے آپ کو نبی کہتا ہے ۔ ان لوگوں نے اس کے دعویٰ پر یقین کر لیا ہے اور ان کے بچوں اور عورتوں میں بھی بہت جوش ہے ۔

مسجدِ قباء  ، Quba Mosque
مسجدِ قباء 

مابہ کے کانوں میں یہ الفاظ پہنچے تو اس کے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی ۔ اس کے دل نے گواہی دی کہ اس کی منزل آ چکی ہے ۔ فوراً درخت سے نیچے اترا اور آنے والے یہودی سے پوچھا، تم جو کہہ رہے تھے کیا وہ سچ ہے ۔ اس کا آقا اس کے تجسّس پر غصہ میں آ گیا ۔ ڈانٹ کر کہا ، تمہیں ان باتوں سے کیا غرض ، جاؤ اپنا کام کرو ۔ لیکن مابہ کا دل بیقرار تھا اور وہ جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا تھا ۔ چند دنوں بعد موقع ملا تو اس نے کھانے کی کچھ چیزیں خریدیں اور بارگاہِ رسالت میں پہنچ کر عرض کی ، اے خدا کے برگزیدہ بندے آپ اور آپ کے غریب الوطن ساتھیوں کے لیے یہ صدقہ کی چند اشیا ہیں ۔ انہیں قبول فرمائیے ۔


مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، مدینہ منورہ
حضرت سلمان فارسی Moral Stories

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مابہ سے یہ چیزیں لے کر اپنے اصحاب میں تقسیم کر دیں اور خود کوئی چیز نہ کھائی ۔ مابہ نے دل میں کہا ، نبی آخر الزماں صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ایک نشانی تو دیکھ لی کہ وہ صدقہ نہیں قبول کرتے ۔ دوسرے دن پھر کھانے کی کوئی چیز خریدی اور دربارِ رسالت میں پیش ہو کر عرض کی ، یہ ہدیہ ہے قبول فرمائیے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وہ ہدیہ قبول کر لیا اس کا کچھ حصہ خود تناول فرمایا اور باقی صحابہ کرام میں تقسیم کر دیا ۔ مابہ کو یقین ہو گیا کہ صدقہ سے بچنے اور ہدیہ قبول کر نے والے یہی نبی آخر الزماں صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں ۔ چند دنوں بعد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پشت مقدس پر مہر نبوت بھی دیکھ لی اور پھر بے اختیار رو نے لگے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت فرمائی ، تو مابہ نے جستجوئے حق میں جن مراحل سے گزرنا پڑا تھا شروع سے آخر تک ساری داستان سنا دی ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بلاکشی کی داستان تمام صحابہ کو بھی سنوائی اور پھر مابہ کو مشرف بہ اسلام کرکے ان کا اسلامی نام سلمان رکھا ۔ اسی دن سے مابہ سلمان فارسی کے عظیم القدر نام سے مشہور ہو گئے ۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اب اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ چکے تھے ۔ ان کی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو گیا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ دن رات آقائے دو جہاں کی خدمت میں حاضر رہا کریں لیکن یہودی کی غلامی سے نجات ممکن نہیں تھی ۔ اس غلامی کی وجہ سے بدر اور احد کے غزوات میں شرکت سے محروم رہے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا ، سلمان تم اپنے آقا کو معاوضہ ادا کرکے آزادی حاصل کر لو ۔ سلمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی دل سے یہی چاہتے تھے ۔ یہودی آقا سے اپنی قیمیت طے کی تو اس نے چالیس اوقیہ سونا اور تین سو پودے لگانے کا مطالبہ کیا ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس مکاتبت کا حال سنا تو صحابہ کرام سے فرمایا ، تم لوگ سلمان فارسی کو ایک دشمن اسلام کی غلامی سے آزاد ہونے میں مدد دو ۔ صحابہ کرام نے بہت خوشی سے حضرت سلمان کی مدد کا بیڑا اٹھایا ۔ ہر ایک نے زیادہ سے زیادہ پودے جمع کیے یہاں تک کہ پورے تین سو پودے ہو گئے ۔ پھر سب نے مل کر گڑھے کھودے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور صحابہ کے ساتھ مل کر تمام پودے یہودی کی زمین میں لگا دیے ۔ اب صرف ایک شرط باقی رہ گئی ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو پورا کرنے کی صورت بھی جلد پیدا کر دی ۔چند دنوں بعد حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ایک غزوہ میں چالیس اوقیہ سونا مل گیا ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وہ سونا سلمان فارسی کو دے دیا اور فرمایا کہ جاؤ اور اپنے آقا کو دے کر  آزاد ہو جاؤ ۔ اس آزادی کے بعد حضرت سلمان فارسی زیادہ تر وقت سرور کائنات صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے لگے ۔

مدینہ منورہ

سونے کے سکوں کا صندوق  ، A wooden box of gold coins


ذیقعدہ 5 ہجری میں غزوہِ احزاب پیش آیا ۔ اس غزوہ میں مشرکین کے ایک لشکر جرار نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کر دی ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جنگ کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا ۔ حضرت سلمان فارسی ایران کے جنگی طریقوں سے خوب واقف تھے انہوں نے عرض کی ،یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، دشمن کے ٹڈی دل کے مقابلے میں ہماری تعداد بہت کم ہے اس لیے کھلے میدان میں لڑنا مناسب نہیں ہوگا ۔ بہتر یہ ہے کہ مدینہ کے چاروں طرف خندق کھود کر شہر کو محفوظ کر لیا جائے ۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور خندق کھودنے کا حکم دیا ۔ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ہمراہ تین ہزار صحابہ اس کام میں شریک ہوئے اور تقریباً پندرہ دن کی محنت شاقہ کے بعد پانچ گز چوڑی اور پانچ گز گہری خندق تیار ہو گئی ۔

خندق ، moat
خندق 

تقسیمِ کار کے وقت انصار اور مہاجرین میں حضرت سلمان کے متعلق ایک دلچسپ بحث چھڑ گئی ۔ انصار کہتے سلمان ہمارے ساتھ ہیں اور مہاجرین کہتے ہمارے ساتھ ہیں ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس بحث کا حال سنا تو فرمایا ، سلمان من اھل البيت ، سلمان میرے اہلِ بیت سے ہیں ۔

مشرکین مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے آئے تھے لیکن اس خندق نے اُنہیں شہر تک پہنچنے ہی نہ دیا ۔ مزید برآں اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی غیب سے مدد فرمائی اور ایسے اسباب پیدا کر دیے کہ مشرکین ستائیس دنوں کے بعد محاصرہ اٹھا کر ناکام و نامراد واپس لوٹ گئے ۔

غزوہِ احزاب کے بعد حضرت سلمان فارسی ہر غزوہ میں شریک ہوئے ۔ ان کا عشق رسول اور شوق جہاد دیکھ کر ایک دفعہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ،

 جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے ، علی ، عمار اور سلمان فارسی کا                                        

سرور کائنات صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت سلمان فارسی نے کچھ عرصہ مدینہ منورہ میں قیام کیا لیکن پھر حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں عراق میں سکونت اختیار کرلی ۔ انہوں نے کفر و اسلام کے بہت سے معرکوں میں شرکت کی اور داد شجاعت دی ۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے 35ہجری میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی ۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا شمار ان جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنہیں بارگاہِ نبوی میں خصوصی تقرب حاصل تھا ۔ وہ اپنے علم و فضل ، فہم و فراست ، تقوی'اور تفقہ فی الدین کی وجہ سے صحابہ کرام کی مقدس جماعت میں امتیازی شان کے حامل تھے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سلمان فارسی علم سے لبریز ہیں ۔ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ، سلمان فارسی علم و حکمت میں لقمان حکیم کے برابر تھے ۔

مستدرک حاکم میں حضرت سلمان فارسی سے مروی ہے کہ میں ایک دفعہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے آپ نے اس کو میرے سامنے رکھ دیا اور فرمایا ، اے سلمان اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملنے جائے اور وہ ازراہِ تعظیم اس کے لیے اپنا تکیہ پیش کر دے تو خدا اس کی مغفرت فرما دے گا ۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے بھی ازراہِ تکریم اپنی پشت کا تکیہ حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو پیش کردیا ۔ حضرت سلمان نے حضرت عمر کو دعا دی اور وہ واقعہ بیان کیا جس میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا تکیہ مرحمت فرمایا ۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تقدیر کو کوئی چیز نہیں پھیرتی مگر دعا ، اور کوئی چیز عمر کو زیادہ نہیں کرتی مگر نیکی ( جامع ترمذی )

Historical Stories                                                

Moral Stories                                                    

Moral Stories for children


Post a Comment

0 Comments