یمن کے یہودی فرمانروا ذونواس نے نجران میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں پر بے انتہا ظلم کیا اور انہیں بےدردی سے قتل کیا ۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے حبش کی عیسائی سلطنت نے یمن پر حملہ کرکے حمیری حکومت کا خاتمہ کر دیا اور 525ء میں اس پورے علاقے میں حبشی حکومت قائم ہوگئی ۔
مگر یہ سب کچھ صرف مذہبی جذبہ کی وجہ سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے معاشی اور سیاسی مقاصد کارفرما تھے ۔
رومی سلطنت جب سے مصر و شام پر قابض ہوئی تھی اسی وقت سے اس کی کوشش تھی کہ مشرقی افریقہ ، ہندوستان ، انڈونیشیا اور رومی مقبوضات کے درمیان جس تجارت پر عرب صدیوں سے قابض تھے اسے عربوں کے قبضے سے نکال کر اپنے قبضے میں لے لیں تاکہ اس کے فائدے مکمل طور پر رومیوں کو حاصل ہوں اور عرب تاجروں کا واسطہ درمیان سے ہٹ جائے ۔
اس مقصد کے حصول کے لیے 24 یا 25 قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے ایک بڑی فوج رومی جنرل ایلس گالوس کی قیادت میں عرب کے مغربی ساحل پر اتار دی تاکہ اس بحری راستے پر قبضہ جما سکے جو جنوبی عرب سے شام کی طرف جاتا تھا لیکن عرب کے شدید جغرافیائی حالات نے اس مہم کو ناکام کردیا ۔
اس کے بعد رومی اپنا جنگی بیڑہ بحر احمر میں لے آئے اور عربوں کی اس تجارت کو ختم کردیا جو وہ سمندر کے راستے کرتے تھے ۔ عربوں کے پاس اب صرف بری راستہ رہ گیا تھا ۔
اسی بری راستے کو اپنے قبضے میں کرنے کے لیے رومیوں نے حبش کی عیسائی حکومت سے گٹھ جوڑ کرلیا اور بحری بیڑے سے اس کی مدد کرکے اس کو یمن پر قابض کرادیا ۔
حبشی فوج دو امیروں اریاط اور ابرھہ کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی تھی لیکن یمن پر قبضہ کے بعد یہ دونوں امیر آپس میں لڑ پڑے آخر اس لڑائی میں اریاط مارا گیا اور ابرھہ ملک پر قابض ہوگیا ۔ اور پھر شاہ حبش کی آشیرباد سے رفتہ رفتہ خود مختار اور طاقتور حکمران بن گیا ۔
یمن میں اقتدار مستحکم کر لینے کے بعد ابرھہ نے اس مقصد کے حصول کے لیے کام شروع کیا جو اس مہم کی ابتداء ہی سے رومی سلطنت اور اس کے حلیف حبشی عیسائیوں کے پیشِ نظر تھا ۔ یعنی عرب میں عیسائیت پھیلانا اور عربوں کی تجارت پر قبضہ کرنا ۔
یمن پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد عیسائیوں کی مسلسل یہ کوشش بھی رہی کہ کعبہ کے مقابلے میں ایک دوسرا کعبہ بنائیں اور عرب سمیت تمام ممالک میں اسے مرکزیت دلوائیں ۔
ابرھہ نے یمن کے دار السلطنت صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا تعمیر کرایا جس کا نام القلیس تھا ۔ اس کام کی تکمیل کے بعد اس نے شاہ حبش کو لکھا کہ میں عربوں کا حج کعبہ سے اس کلیسا کی طرف موڑے بغیر نہیں رہوں گا ۔
اس نے یمن میں اپنے اس ارادے کی منادی کرادی اس حرکت کی وجہ یہ تھی کہ عربوں کو غصہ دلائے اور وہ کوئی ایسی حرکت کریں جس سے اس کو مکہ پر حملہ کرنے اور کعبہ کو منہدم کرنے کا بہانہ مل جائے ۔
اس کے اس اعلان پر قریش کے بعض نوجوانوں نے جا کر اس کلیسا میں گند پھینک دیا ۔ جب ابرھہ کے پاس یہ اطلاع پہنچی کہ کعبہ کے معتقدین نے اس کے کلیسا کی توہین کی ہے تو اس نے قسم کھائی کہ اس وقت تک چین نہ لے گا جب تک کعبہ کو ڈھا نہ لے ۔
ابرھہ ساٹھ ہزار افراد اور ہاتھیوں کا ایک لشکر جرار لے مکہ کی طرف روانہ ہوا
راستے میں چند قبائل نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر شکست سے دوچار ہوئے اور ان قبائل کے سردار گرفتار کر لیے گئے ۔
جب ابرھہ کا لشکر طائف کے قریب پہنچا تو بنی ثقیف نے محسوس کیا کہ وہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ نہ کر سکیں گے ۔ اپنے قبیلے اور مندر کو بچانے کی خاطر ثقیف کا سردار ابرھہ سے ملا اور اسے بدرقہ فراہم کرنے کی پیشکش کی جو اسے مکہ تک پہنچا سکے گا ۔
ابرھہ نے یہ شرط قبول کر لی ۔ بنی ثقیف نے ابو رغال نامی شخص کو ابرھہ کے لشکر کے ہمراہ کر دیا ۔
ابرھہ کا لشکر مکہ سے تین کوس کے فاصلے پر تھا کہ ابو رغال مر گیا ۔
عرب مدتوں اس کی قبر پر سنگ باری کرتے رہے اور بنو ثقیف کو بھی ملامت کرتے رہے کہ انہوں نے لات کے استھان کو بچانے کے لیے بیت اللہ پر حملہ کرنے والوں سے تعاون کیا ۔
ابرھہ کا لشکر اہل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی لوٹ کر لے گیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب کے بھی دو سو اونٹ تھے ۔
اس نے اپنے ایک ایلچی کو اہل مکہ کے نام یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہ ان سے لڑنے نہیں صرف کعبہ کو ڈھا نے آیا ہے ۔ اگر اہلِ مکہ نے مزاحمت نہ کی تو وہ بھی اہلِ مکہ کے جان و مال سے تعرض نہ کرے گا ۔
حضرت عبد المطلب جو اس وقت مکہ کے سب سے بڑے سردار تھے اس ایلچی کے ہمراہ ابرھہ کے پاس گئے ۔
وہ اس قدر وجیہ اور شاندار شخص تھے کہ ابرھہ ان کو دیکھ کر بہت مرعوب ہوا اور اپنے تخت سے اتر کر ان کے قریب آ کر بیٹھ گیا اور پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں ۔
انہوں نے کہا ، میں اپنے اونٹ واپس لینے آیا ہوں ۔
ابرھہ نے کہا، اے قریش کے سردار آپ کو اپنے اونٹوں کی فکر ہے اور یہ گھر جو آپکا اور آپکے دین آبائی کا مرکز ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے ۔
انہوں نے کہا میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور انہی کے بارے میں بات کر رہا ہوں ۔ اس گھر کا ایک مالک ہے وہ اس کی حفاظت خود کر لے گا ۔ اس نے آج تک کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا ۔
ابرھہ نے رعونت سے جواب دیا کہ وہ کعبہ منہدم کیے بغیر نہیں پلٹے گا ۔
ابرھہ کی لشکر گاہ سے واپسی پر عبدالمطلب نے اہل قریش سے کہا اپنے بال بچوں اور مویشیوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو ۔
پھر وہ چند سرداروں کے ہمراہ حرم میں داخل ہوئے اور اس کے پردے پکڑ کر نہایت عاجزی سے دعا کی ، خدایا ! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما ۔ کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر کے مقابلے میں غالب نہ آنے پائے ۔ صلیب کی آل اور اس کے پرستاروں کے مقابلے میں اپنی آل کی مدد فرما
اے میرے رب تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا ۔ اے میرے رب اپنے حرم کی ان سے حفاظت فرما ۔ اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے ۔اس بستی کو تباہ ہونے سے بچا لے ۔
یہ دعائیں مانگ کر عبد المطلب اور ان کے ساتھی پہاڑوں پر چلے گئے ۔
دوسرے روز ابرھہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آ گے بڑھا مگر اس کا خاص ہاتھی ایک مقام پر بیٹھ گیا ۔ اس کو چلانے کی بہت کوشش کی گئی ، مارا پیٹا گیا یہاں تک کہ وہ زخمی ہو گیا مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا ۔
اسے مشرق ، شمال اور جنوب کی طرف موڑ کر چلانے کی کوشش کی جاتی تو وہ دوڑنے لگتا مگر مکہ کی طرف موڑا جاتا تو وہ بیٹھ جاتا اور کسی طرح آگے بڑھنے پر تیار نہ ہوتا ۔
اتنے میں ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے آئے اور انہوں نے اس لشکر پر سنگریزوں کی بارش کر دی ۔
اصحاب الفیل |
جس پر بھی وہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ، گوشت جھڑ تا اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا ۔ابرھہ کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ اس کا جسم ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا ۔
افراتفری میں ان لوگوں نے یمن کی طرف بھاگنا شروع کیا ۔ نفیل بن حبیب خثعمی جسے وہ لوگ بدرقہ بنا کر بلادِ خثعم سے پکڑ کر لائے تھے کو تلاش کر کے مجبور کیا گیا کہ واپسی کا راستہ بتائے مگر اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا ، اب بھاگنے کی جگہ کہاں ہے جبکہ خدا تعاقب کر رہا ہے اور نکٹا ابرھہ مغلوب ہو چکا ہے ۔
اس بھگدڑ میں وہ لوگ جگہ جگہ گر گر کر مرتے رہے ۔ سب لوگ اسی وقت ہلاک نہیں ہو گئے بلکہ کچھ تو وہیں ہلاک ہوئے اور کچھ بھاگتے ہوئے راستے بھر گرتے چلے گئے ۔
ابرھہ بھی بلادِ خثعم پہنچ کر مرا ۔
اس کی فوج اور ہاتھی سب کے سب بری طرح ہلاک ہو گئے ۔ اس کے بعد سیلاب آیا اور سب لاشوں کو سمندر میں بہا لے گیا ۔
یہ واقعہ مزدلفہ اور منی’ کے درمیان وادیء محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا ۔
حجہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ سے منی’ کی طرف روانہ ہوئے تو محسر کی وادی میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفتار تیز کر دی ۔ اسی لیے سنت یہی ہے کہ آدمی یہاں سے جلدی سے گزر جائے ۔
یہ اتنا بڑا واقع تھا جس کی تمام عرب میں شہرت ہو گئی سب نے اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ قرار دیا ۔
اصحاب الفیل کا یہ واقعہ محرم الحرام میں پیش آیا اور اس واقعہ کے پچاس دنوں بعد ربیع الاول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی ۔
اہلِ عرب اس سال کو عام الفیل کہتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے حبشیوں کو صرف یہی سزا نہ دی بلکہ تین چار سال کے اندر یمن سے حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا
واقعہ فیل کے بعد یمن میں ان کی طاقت ٹوٹ گئی ، جگہ جگہ یمنی سرداروں نے بغاوت کردی ۔
یہ 575ء کا سال تھا ، ایک یمنی سردار سیف بن یزن نے شاہ ایران سے فوجی امداد طلب کی ۔ ایران کی صرف چھ ہزار نفوس پر مشتمل فوج چھ جنگی جہازوں میں یمن میں داخل ہوئی اور حبشی اقتدار کا خاتمہ کر دینے کی لیے کافی ہو گئی۔
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیِا ؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا ۔ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے ۔ جو ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے ۔ پھر ان کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسا ۔
سورہ الفیل
Quranic Stories
Moral Stories
Moral Stories for children
0 Comments