بصرہ شہر میں ایک انتہائی غریب نوجوان عبدالملک اصمعی رہتا تھا ۔ اسے علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا ۔ وہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتا اور شام کو گھر واپس لوٹتا ۔
اسی محلے میں ایک سبزی فروش بھی رہتا تھا ۔ وہ اس نوجوان سے پوچھتا تم روزانہ علی الصبح کہاں جاتے ہو ؟ اصمعی جواب دیتا علم حاصل کرنے پھر وہ پوچھتا کہ اتنی شام کو کہاں سے آتے ہو ؟
وہ جواب دیتا علم حاصل کرکے
یہ بات سن کر وہ ہنس دیتا اور کہتا ، ارے بھائی ، تم اپنی عمر بے فائدہ ضائع کر رہے ہو میرا مشورہ مانو تو کوئی ہنر یا پیشہ سیکھ لو کم از کم کوئی روزگار مل جائے گا اور تمہارا اچھا گزارہ ہو جائے گا ۔
اصمعی اس کی باتیں سن کر مسکرا دیتا ۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود اس کا علم حاصل کرنے کا شوق کم نہ ہوا اور وہ دلجمعی سے علم حاصل کرنے میں مصروف رہا ۔
آخر وہ دن بھی آگیا جب اسے اپنے وقت کے تمام علوم پر دسترس حاصل ہو گئی اب اس کا زیادہ تر وقت گھر میں گزرتا ۔ اور تنگدستی کی وجہ سے کئی بار فاقوں کی نوبت آجاتی ۔
ایک دن اصمعی بھوک سے پریشان تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔ اصمعی کے دریافت کرنے پر نووارد نے کہا ، وہ بصرہ کے گورنر کا خادم ہے اور انہوں نے اصمعی کو بلانے بھیجا ہے ۔
اس نے اصمعی کو عمدہ پوشاک اور ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی دی اور اسے اپنے ساتھ گورنر بصرہ کے پاس لے گیا ۔
گورنر بہت مہربانی سے پیش آیا اور کہنے لگا کہ امیر المومنین ہارون الرشید کو اپنے بیٹے کے لیے ایک اتالیق کی ضرورت ہے ۔
اس مقصد کے لیے کچھ اساتذہ کے مشورے سے تمہارا انتخاب کیا گیا ہے اور اگر تم یہ خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہو تو فوراً بغداد روانہ ہو جاؤ ۔
عبد الملک اصمعی نے بخوشی اس پیشکش کو قبول کر لیا ۔اور اگلے ہی دن وہ بغداد روانہ ہو گیا ۔
![]() |
علم کی طاقت |
خلیفہ ہارون الرشید نے اصمعی سے کہا ، میں اپنے لخت جگر کو تعلیم و تربیت کے لیے تمہارے سپرد کر رہا ہوں ، تمہارا فرض ہے کہ خیر خواہی کا حق ادا کر دو ۔اس کو ہر مضمون کی تعلیم دو لیکن کوئی ایسی بات نہ سکھانا جس سے اس کے دین اور عقیدہ میں کوئی خرابی پیدا ہو ۔ کیونکہ شاید ایک دن وہ مسلمانوں کا خلیفہ بنے ۔
![]() |
Moral Stories |
اصمعی نے کہا میں یہ خدمت نہایت عمدہ طریقے سے انجام دوں گا اور آپ کے اعتماد پر پورا اتروں گا ۔
تھوڑی دیر بعد شہزادہ امین کو بھی دربار میں طلب کیا گیا اور اسے اس کے اتالیق کے سپرد کر دیا گیا ۔
اصمعی کو محل کے بالاخانے میں ایک انتہائی عالی شان کمرے میں ٹھہرایا گیا جہاں ضرورت کا تمام سامان موجود تھا اور دو ملازم اس کی خدمت پر مامور کر دیے گئے ۔
خلیفہ ہارون الرشید نے اس سے مخاطب ہوکر کہا ، میں دو ہزار اشرفیاں ماہوار تمہاری تنخواہ مقرر کرتا ہوں اور تمہارے لیے کھانا شاہی باورچی خانے میں تیار کیا جائے گا ۔
اصمعی نے خلیفہ کا شکریہ ادا کیا اور دربار سے باہر نکل آیا ۔
شہزادہ امین کے اتالیق ہونے کی وجہ سے خلیفہ ہارون الرشید اصمعی کی بہت عزت کرتا ۔وزراء اور امراء بھی اصمعی کا احترام کرتے ۔
اصمعی پوری تندہی سے شہزادہ امین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہو گیا ۔
ہر ماہ تنخواہ اور دیگر تحائف وہ بصرہ بھجواتا رہتا جہاں اس کے لیے جائیداد خرید لی گئی اور اس پر ایک بہت شاندار مکان بھی تعمیر کر دیا گیا ۔
کئی سال کی محنت کے بعد شہزادہ امین تمام مضامین میں طاق ہو گیا۔
ایک دن اصمعی نے اسے خلیفہ ہارون الرشید کے سامنے پیش کیا تاکہ اس کا امتحان لیا جا سکے ۔ خلیفہ نے تمام علوم وفنون کا امتحان لیا اور شہزادہ کی عمدہ کاکردگی سے بہت خوش ہوا ۔
خلیفہ ہارون الرشید نے کہا ، ہماری خواہش ہے کہ شہزادہ امین جمعہ کو مسجد میں خطبہ بھی دیا کرے ۔ اصمعی نے اس معاملے پر بھی خصوصی توجہ دی ۔جب جمعہ کا دن آیا تو شہزادہ نے جامع مسجد میں خلیفہ کی موجودگی میں بہت عمدہ طریقے سے خطبہ دیا اور جمعہ کی نماز کی امامت کی ۔
![]() |
علم کی طاقت |
نماز کے اختتام پر وزراء اور امراء نے خلیفہ کو مبارکباد دی اور اصمعی کو بےشمار تحائف دئیے گئے ۔ اس طرح اس کے پاس کافی بڑا خزانہ جمع ہو گیا ۔خلیفہ نے اس سے کہا کہ تم نے اپنا فرض بڑی خوبی سے ادا کیا اب تم بتاؤ کیا مانگنا چاہتے ہو آج جو خواہش کرو گے وہ پوری کی جائے گی ۔
![]() |
Moral Stories |
اصمعی نے کہا ، میری تمام خواہشیں پوری ہو چکی ہیں اب صرف یہ درخواست ہے کہ چند دن کے لیے بصرہ جانے کی اجازت دی جائے ۔
خلیفہ ہارون الرشید نے اسی وقت گورنر بصرہ کے نام فرمان جاری کیا کہ شہزادہ امین کے اتالیق بصرہ آرہے ہیں ان کے شایانِ شان استقبال کی تیاری کی جائے۔
جب وہ بغداد سے روانہ ہونے لگا تو اسے دس ہزار اشرفیاں ، بہترین پوشاک ، اعلیٰ نسل کے دو گھوڑے دیے گئے اور ایک ملازم کو اس کےہمراہ کر دیا
۔عبد الملک اصمعی جب بصرہ پہنچا تو گورنر بصرہ سمیت بہت سے لوگ اس کے استقبال کے لئے موجود تھے ۔ پرانا مکان ایک شاندار محل کی صورت اختیار کر چکا تھا ۔ جب وہ اپنے دروازے پر پہنچا تو اس کی نظر اس سبزی فروش پر پڑی جو ہر روز اسے طعنے دیا کرتا تھا اور اب اس کی شان وشوکت دیکھ کر حیران رہ گیا تھا ۔ جھجکتے ہوئے اس کا احوال دریافت کیا تو اصمعی نے کہا ، میں نے تمہارے کہنے کے مطابق اپنی تمام کتابیں ایک گھڑے میں ڈال دیں اور انہیں مسلسل پانی دیتا رہا ان سے جو خمیر اٹھا اس کو اب تم دیکھ رہے ہو یہ اسی خمیر کا نتیجہ ہے کہ اتنی روٹیاں پک کر تیار ہو گئیں ۔
سبزی فروش نے اصمعی سے معافی مانگی کہ وہ باتیں کم علمی اور کم عقلی کی وجہ سے تھیں اب معلوم ہو گیا ہے کہ علم کے درخت پر پھل دیر سے لگتا ہے لیکن لگتا ضرور ہے اور یہ پھل بہت لذیذ ہوتا ہے ۔
اصمعی اس کی بات سن کر مسکرا دیا اس نے سبزی فروش سے مہربانی کا برتاؤ کیا اور اسے کچھ تحائف دے کر رخصت کر دیا ۔
Moral Stories
Moral Stories for children
0 Comments