سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک دن قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کو بتایا گیا کہ مکہ سے ایک صاحب مصعب بن عمیر مدینہ آئے ہوئے ہیں
یہ سن کر سعد بن معاذ کا خون کھول اٹھا لیکن اسعد بن زرارہ کا لحاظ کرکے خاموش رہے ۔
ایک دن انہیں اطلاع ملی کہ مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ خود ان کے اپنے قبیلے کے ایک باغ میں بیٹھ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں ۔
یہ بات سن کر ان کا پیمانہ صبر چھلک اُٹھا ۔ فوراً اٹھے اور اپنے چچازاد بھائی اسید بن حضیر کو بلا کر کہا ، اسید تم کس غفلت میں پڑے ہو ۔ دیکھو یہ دونوں ہمارے گھروں میں آکر لوگوں کو ان کے آبائی دین سے دور کر رہے ہیں ۔ تم جاؤ اور اُنہیں سختی سے منع کر دو کہ وہ آئندہ اوس کے محلوں میں نہ آئیں ۔
اسید بہت بہادر آدمی تھے ۔ انہوں نے جوشِ غضب میں برچھا اٹھایا اور تن تنہا بئر مرق کی طرف گئے جہاں حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت اسعد بن زرارہ بیٹھے تھے ۔
اسعد نے اسید کو اپنی طرف آتے دیکھا تو حضرت مصعب کے کان میں کہا ، یہ عبدالاشہل کے دو بڑے سرداروں میں سے ایک ہیں ۔ اگر یہ دین حق قبول کر لیں تو ہمیں بڑی طاقت ملے گی ۔ پوری کوشش کریں کہ یہ کفر کی دلدل سے نکل آئیں ۔
اسید ان کے قریب پہنچے ۔ ان کا لہجہ بہت سخت تھا ۔ حضرت مصعب سے مخاطب ہو کر کہا : تم ہمارے آدمیوں کو ان کے آبائی دین سے ہٹا رہے ہو ۔ اپنی خیریت چاہتے ہو تو فوراً یہاں سے چلے جاؤ اور آئندہ کبھی ہمارے محلوں کا رخ نہ کرنا ۔
حضرت مصعب بن عمیر نے ان کی تلخ گفتگو بہت تحمل سے سنی اور پھر نہایت نرمی سے فرمایا ، عزیز بھائی ، آپ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں اگر پسند آئیں تو قبول کر لیں ورنہ رد کر دیں ۔
حضرت مصعب کی نرم گفتاری نے اسید کے غصے پر پانی کا کام کیا اور وہ اپنا برچھا زمین پر گاڑ کر یہ کہتے ہوئے بیٹھ گئے ، اچھا کہو کیا کہتے ہو ۔
حضرت مصعب نے دلنشین انداز میں اسلام کے اصول بیان کیے پھر قرآن کریم کی چند آیات پڑھیں ۔ اسید بے اختیار پکار اٹھے ، واہ کیسا اچھا دین ہے اور کیسا اچھا اور اعلیٰ کلام ہے ۔ بھائی مجھے بھی اپنے دین میں داخل کرلو ۔
حضرت مصعب بن عمیر نے اُنہیں غسل کرنے اور پاک کپڑے پہننے کی تلقین کی اور پھر ان سے کلمہ شہادت پڑھوایا جو ان کے قبول اسلام کا واضح اعلان تھا ۔
مسلمان ہونے کے بعد اسید کہنے لگے: ایک شخص اور ہے اگر وہ مسلمان ہو گیا تو سارا قبیلہ اس کی پیروی کرے گا میں اسے تمہارے پاس بھیجتا ہوں ۔
اسید سیدھے سعد بن معاذ کے پاس پہنچے اور سعد کو مخاطب کرکے کہا
وہاں تو کچھ اور ہی معاملہ درپیش ہے آپ کا بذات خود وہاں جانا ضروری ہے۔
سعد اسید کا چہرہ دیکھ کر اور ان کی بات سن کر بول اٹھے : خدا کی قسم ! یہ وہ چہرہ نہیں ہے جو یہاں سے جاتے وقت تھا ۔
انہوں نے اپنا نیزہ اٹھایا اور انتہائی غصّہ کے عالم میں تیزی کے ساتھ روانہ ہوئے ۔
باغ میں پہنچے تو مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کو اطمینان کے ساتھ بیٹھے پایا ، قریب پہنچتے ہی کہا
اسید سے تو کچھ نہ ہو سکا مگر میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ تم اعلانیہ ہمارے محلوں میں ایسے عقائد پھیلاؤ جن کو ہم پسند نہیں کرتے ۔ اسعد کی رشتہ داری کا لحاظ نہ ہوتا تو میں تمہارے ساتھ نہایت سختی سے پیش آتا آخر تمہیں جرآت کیسے ہوئی ؟
اسعد بن زرارہ سعد بن معاذ کے خالہ زاد بھائی اور قبیلہ خزرج کے خاندان نجار کے رئیس تھے ، وہ سعد سے دبنے والے نہیں تھے ۔ لیکن اس موقع پر انہوں نے بڑے صبر و ضبط سے کام لیا اور بڑے سکون اور نرمی کے ساتھ کہا ۔ بھائی زرا بیٹھ کر سنو تو سہی یہ صاحب کیا کہتے ہیں ۔ ان کی باتیں تمہیں پسند آئیں تو ٹھیک ورنہ تمہیں اپنی ذات پر اختیار ہے
سعد ان کے کہنے پر بیٹھ گئے ۔ حضرت مصعب نے ان کے سامنے بھی اسلام کی خوبیاں اور اصول بیان کیے اور پھر قرآن کریم سنایا ۔
قدرت نے اسید کی طرح ان کو بھی نیک فطرت عطا کی تھی ۔ قرآن کریم سنتے ہی ان کا دل شدت جذبات سے لبریز ہو گیا اور اسی وقت اسلام قبول کر لیا ۔ واپس اپنے قبیلے پہنچے تو سارے بنو عبدالاشہل کو جمع کیا اور کہا : تمہارے نزدیک میں کیسا شخص ہوں ؟
جواب ملا : آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم سب سے زیادہ عاقل اور معاملہ فہم ۔
سعد بولے : تو پھر سن لو میں نے دین حق قبول کر لیا ہے اور جب تک تم بھی خدائے واحد اور اس کے برگزیدہ رسول پر ایمان نہ لے آؤ مجھ پر تم سے گفتگو کرنا حرام ہے ۔
حضرت سعد کا اپنے خاندان میں بے پناہ اثر و رسوخ تھا ۔ ان کا اعلان سن کر بنو عبدالاشہل کے بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے اور جو چند رہ گئے وہ بھی شام ہوتے ہوتے مسلمان ہو گئے ۔
حضرت سعد ایک دن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ مشہور دشمن اسلام امیہ بن خلف رئیس مکہ کا ذکر چھڑ گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص ایک دن انہی مظلوم مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا جنہیں ستانے میں اس نے رات دن ایک کر رکھے ہیں
امیہ سے حضرت سعد کے بہت پرانے تعلقات تھے ۔ وہ جب مدینہ آتا حضرت سعد کے ہاں قیام کرتا ۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد حضرت سعد عمرہ کے لیے مکہ گئے تو پرانی واقفیت کی بنا پر امیہ کے مکان پر ٹھہر گئے ۔
انہوں نے امیہ سے کہا کہ جب حرم طواف کرنے والوں کے ہجوم سے خالی ہو تو مجھے اطلاع دینا ۔ چنانچہ ایک دن دوپہر کے وقت جب خانہء کعبہ بت پرستوں سے خالی نظر آیا تو امیہ انہیں اپنے ہمراہ خانہء کعبہ لے گیا ۔ راستے میں ابو جہل سے آمنا سامنا ہوا ۔ اس نے امیہ سے پوچھا یہ تمہارے ساتھ کون ہے ۔
حضرت سعد بن معاذ ، Historical Stories |
ابو جہل نے سعد بن معاذ سے مخاطب ہو کر کہا : حیرت ہے تم نے اپنے یہاں مسلمانوں کو پناہ دے رکھی ہے اور مکہ میں بےخوف پھر رہے ہو ۔ اگر امیہ تمہارے ساتھ نہ ہوتا تو میں دیکھتا کہ تم یہاں سے کیسے بچ کر نکلتے ہو ۔
حضرت سعد کی غیرت جوش میں آگئی کڑک کر بولے ، مجھے روک کر تو دیکھو تمہارا تجارتی راستہ نہ بند کر دیا تو میرا نام سعد نہیں ۔
امیہ بیچ میں بول اٹھا : سعد یہ کیا کہہ رہے ہو ۔ یہ ابو الحکم مکہ کے سردار ہیں ان سے نرم لہجے میں گفتگو کرو ۔
حضرت سعد اس سے کب دبنے والے تھے بولے : میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے ایک دن مسلمان امیہ کو قتل کر دیں گے ۔ یہ بات سن کر امیہ کپکپا اٹھا ۔ اس گفتگو کے بعد کسی نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا اور وہ عمرہ ادا کرکے بخیریت مدینہ واپس آ گئے ۔
رمضان المبارک دو ہجری میں غزوہِ بدر پیش آیا ۔ جنگ پر جانے سے پہلے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ سے مشورہ طلب کیا ۔
حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت مقداد بن عمرو نے اس موقع پر نہایت پرجوش تقریریں کیں اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اپنی رفاقت کا یقین دلایا ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم انصار کی مرضی بھی معلوم کرنا چاہتے تھے ۔ حضرت سعد بن معاذ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اشارہ سمجھ گئے ، فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور پرجوش لہجہ میں عرض کیا
یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی رسالت کی تصدیق کی ، آپ کی فرمانبرداری کا عہد کیا ۔ پس جو بھی مرضی مبارک میں ہو کیجیئے ۔ رب کعبہ کی قسم ! جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے آپ ہمیں سمندر میں کودنے کا حکم دیں گے تو ہم کود جائیں گے ہمارا ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا ۔ انشاء اللّٰہ آپ ہمیں میدان جنگ میں ثابت قدم پائیں گے ۔ اللّٰہ تعالیٰ ہماری طرف سے آپکی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے گا ۔
حضرت سعد بن معاذ کا جوشِ جہاد اور جذبہ فدویت دیکھ کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس خوشی سے چمک اٹھا ۔ جب لشکر کی ترتیب کا وقت آیا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قبیلہ اوس کا علم حضرت سعد بن معاذ کو اپنے دست مبارک سے عطا فرمایا ۔
حضرت سعد بن معاذ نے امیہ بن خلف کے بارے میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو غزوہِ بدر میں اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھ لیا
![]() |
Moral Stories حضرت سعد بن معاذ |
غزوہِ احزاب کی حیثیت ایک شدید آزمائش کی تھی ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس نازک موقع پر بنو غطفان (یہودیوں ) کے سرداروں کو بلا کر صلح کی گفتگو شروع کر دی ۔ انہوں نے واپس جانے کے لیے یہ شرط رکھی کہ اہلِ مدینہ اپنے پھلوں کی پیداوار کا ایک تہائی حصہ ہمیں دیں گے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ اگر اس شرط پر فیصلہ ہو جائے تو اہل مدینہ اپنے ان پڑوسیوں کی طرف سے محفوظ ہو جائیں گے تاہم حتمی بات کرنے سے پہلے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس شرط کے بارے میں انصار سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا ۔
حضرت سعد بن معاذ ، Historical Stories |
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اللّٰہ کا حکم نہیں ہے بلکہ تم لوگوں پر مشرکین کا دباؤ کم کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہوں ۔ کیونکہ سارے عرب نے متحد ہو کر تم پر یلغار کر دی ہے
دونوں سرداروں نے یک زبان ہو کر عرض کیا : یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آگر آپ صرف ہمیں بچانے کی خاطر یہ معاہدہ کر رہے ہیں تو ہماری درخواست ہے کہ یہ شرط کسی صورت نہ مانیں ۔ بنو غطفان تو ہم سے اس وقت بھی کھجور کی ایک گٹھلی تک خراج کے طور پر نہ لے سکے جب ہم مشرک تھے اور اب جبکہ ہمیں اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہے یہ ہم سے کیا خراج لیں گے ۔ ہمارے اور ان کے درمیان اب صرف تلوار فیصلہ کرے گی ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کے جذبہ ایمانی سے بہت خوش ہوئے اور آپ نے بنو غطفان کے سرداروں کو صاف جواب دے دیا ۔
دوران جنگ ایک دن حضرت سعد بن معاذ زرہ پہنے اور ہاتھ میں حربہ لیے میدان کی طرف روانہ ہوئے ۔ اتفاق سے جو ہاتھ زرہ سے باہر تھا وہاں ایک مشرک نے تاک کر تیر مارا جس سے ان کی اہم رگ کٹ گئی اور شدت سے خون جاری ہو گیا ۔
جنگ کے بعد حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ کے لیے مسجد نبوی میں ایک خیمہ نصب کروایا اور ایک طبیب کو ان کی مرہم پٹی ، علاج اور خدمت کے لیے مامور فرما دیا
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہر روز ان کی عیادت کے لیے تشریف لاتے اور ان کی دلجوئی فرماتے ۔
حضرت سعد بن معاذ ، مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم |
یہود بنو قریظہ جنگ کے دوران میں بدترین غداری کے مرتکب ہوئے تھے ۔ اُنہوں نے مسلمانوں سے اپنے حلیفانہ معاہدے کو یہ کہہ کر توڑ ڈالا تھا کہ ہمارے اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مابین کوئی عہد و پیمان نہیں ہے ۔
انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی پوری تیاری کر لی تھی اگر اللّٰہ تعالیٰ ان کے شر کو بروقت نہ ختم کر دیتے تو مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا
غزوہِ خندق کے بعد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اللّٰہ کے حکم کے مطابق بنی قریظہ کا محاصرہ کر لیا اور اس میں اتنی سختی برتی کہ چند ہی دنوں بعد اُنہوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ ان کے معاملے میں رئیس الاوس حضرت سعد بن معاذ جو فیصلہ کریں گے فریقین اسے قبول کر لیں گے ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ سے فرمایا : یہ لوگ تمہارے فیصلے کے منتظر ہیں ۔ انہوں نے عرض کی : تو میں یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان کے لڑنے والے تمام افراد قتل کیے جائیں ، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور ان کے املاک مسلمانوں میں تقسیم کر دیے جائیں ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : سعد تم نے اللّٰہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ۔
چنانچہ اس فیصلے پر عمل کیا گیا اور حضرت سعد بن معاذ کے سامنے تمام غداروں کو قتل کر دیا گیا ۔
اس اہم فیصلے کے چند دن بعد حضرت سعد کی بیماری خطرناک صورت اختیار کر گئی ۔ ایک دن اتفاقاً ایک بکری کا کھر لگنے سے ان کا زخم پھٹ گیا جس سے ان کا خون شدت سے بہہ نکلا اور ان پر نزاع کی کیفیت طاری ہو گئی ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ اسی وقت مسجد نبوی تشریف لائے ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ کا سر اپنے زانوئے اقدس پر رکھ لیا اور فرمایا : الٰہی ! تیری راہ میں سعد نے بڑی زحمت اٹھائی ۔ اس نے تیرے رسول کی تصدیق کی اور حقوقِ اسلام کو ادا کیا ۔ اے اللّٰہ ! اس کی روح کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کر جیسا کہ اپنے دوستوں کی روح کے ساتھ کرتا ہے ۔
حضرت سعد بن معاذ نے آنکھیں کھولیں اور اسلام علیک یارسول اللّٰہ کہہ کر اپنا سر احتراماً آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زانوئے اقدس سے علیحدہ کرلیا اور اگلے ہی لمحے حضرت سعد گہری اور ابدی نیند سو چکے تھے ۔
تدفین کے موقع پر حضرت ابو سعید خدری نے فرمایا : واللہ مجھے ان کی قبر سے مشک کی خوشبو آرہی ہے ۔
Moral Stories حضرت سعد بن معاذ |
تدفین سے فراغت کے بعد حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم تشریف لائے تو چہرہ مبارک آنسوؤں سے تر تھا ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مرنے والے کی موت پر عرش رحمٰن لرز اٹھا ، آسمانوں کے دروازے ان کی روح کے لیے کشادہ کر دیے گئے اور ستر ہزار فرشتے ان کے جنازے میں شریک ہوئے ۔
حضرت سعد بن معاذ کی وفات کے بعد ایک دفعہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے حریر کا ایک جبہ آیا ۔ لوگ اس کی نرمی کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کی نرمی پر حیران ہو رہے ہو حالانکہ جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم ہیں
ایک دفعہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر قبر کی تنگی سے کوئی نجات پا سکتا تو وہ سعد بن معاذ ہوتے ۔
حضرت سعد بن معاذ کا فیصلہ اور بنی قریظہ کا انجام
Moral Stories
Historical Stories
Moral Stories for children
0 Comments