Header Ads Widget

Responsive Advertisement

آخری جنتی ، Aakhri Jannati ، دوزخ سے نکلنے والے اور جنت میں داخل ہونے والے سب سے کم مرتبہ جنتی کا خوبصورت واقعہ ، صحیح احادیث سے انتخاب

 

آخری جنتی


حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور  حضرت ابوسعید خدری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی  اللّٰہ علیہ وسلم سے عرض کی ، یا رسول  اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیا روز قیامت ہم اپنے پروردگار کی زیارت کریں گے ؟

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر   آسمان صاف ہو تو کیا تمہیں چودھویں کے چاند اور سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے ؟ 

چودھویں کا چاند
 آخری جنتی 


آخری جنتی ، روشن سورج



ہم نے عرض کیا ،  نہیں یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ 
تب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم اسی طرح قیامت کے دن اپنے پروردگار کو دیکھو گے ۔

روز قیامت تمام اگلے پچھلے انسان ایک ہی میدان میں جمع کیے جائیں گے اور یہ میدان ایسا ہموار ہوگا کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب سن سکیں گے اور سب کو بہ یک نگاہ دیکھا جا سکے گا 

آخری جنتی ، ایک بڑے میدان میں انسانی ہجوم
 آخری جنتی 

 سورج انسانوں سے بقدر ایک کمان دور ہوگا ۔ لوگ ایسے کرب و رنج میں مبتلا ہوں گے جو انسانی طاقت سے باہر اور ناقابلِ برداشت ہوگا ۔ 

چنانچہ لوگ باہم ایک دوسرے سے کہیں گے  یہ کیسی بری مصیبت ہے جس میں ہم سب مبتلا ہیں ۔ کوئی ایسی ہستی تلاش کرتے ہیں جو ہمارے رب کے حضور ہماری سفارش کرسکے ۔ 

کچھ مشورہ دیں گے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جانا چاہیے ۔

 تمام لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے اور عرض کریں گے ، آپ سب انسانوں کے باپ ہیں اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے ، آپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو اُنہوں نے آپ کو سجدہ کیا ، آپ اپنے پروردگار کے حضور ہماری سفارش فرمائیے ۔ 

حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے آج میرا رب درحقیقت اس قدر غضب ناک ہے کہ نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اور مجھ سے ایک بھول کا ارتکاب ہو چکا ہے کہ میرے رب نے مجھے ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے منع کیا تھا لیکن مجھ سے حکم عدولی ہو گئی ۔ اس وقت تو مجھے خود اپنی ذات کی فکر ہے کاش کوئی مجھے بچا سکے ۔ تم لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔

چنانچہ لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے ، اے نوح علیہ السلام آپ روئے زمین پر اللّٰہ تعالیٰ کے پہلے رسول ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کا لقب عبد الشکور (شکر گزار بندہ) رکھا ہے آپ بارگاہِ خداوندی میں ہماری شفاعت کیجیے ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام جواب دیں گے رب ذوالجلال آج اس قدر غضب ناک ہیں کہ نہ پہلے کبھی ہوئے اور نہ آئندہ کبھی ہوں گے اور مجھ سے ایک فروگزاشت ہو چکی ہے ۔ 

مجھے ایک بددعا کا اختیار دیا گیا تھا اور میں نے اپنی قوم کو بددعا دی تھی 

طوفان بلا خیز ، آخری جنتی

آخری جنتی 

جس کی وجہ سے آج تو مجھے خود اپنی ذات اور نجات کی فکر لاحق ہے ۔ کاش کوئی مجھے بچانے والا ہو کاش کوئی مجھے بچا سکے ۔ تم حضرت ابرہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔

چنانچہ سب لوگ حضرت ابرہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے ، اے ابراہیم علیہ السلام ، آپ اللّٰہ کے نبی اور پورے اہل زمین میں سے واحد شخص ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا خلیل ( دوست ) بنایا ہے ۔ آپ بارگاہِ رب العزت میں ہماری شفاعت کیجیے ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں ۔ 

حضرت ابراہیم علیہ السلام جواب دیں گے ، آج پروردگار عالم اس قدر غضب ناک ہیں کہ نہ آج سے پہلے کبھی تھے اور نہ پھر کبھی ہوں گے آج مجھے اپنی ذات اور اپنی نجات کی فکر ہے تم لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ 

لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے اے موسیٰ علیہ السلام آپ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو شرفِ ہم کلامی عطا فرما کر سب انسانوں پر فضیلت عطا کی آپ رب ذوالجلال کے حضور ہماری شفاعت کیجیے ۔

 حضرت موسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے آج میرا رب اس قدر غضب ناک ہیں کہ نہ پہلے کبھی تھے اور نہ آئندہ کبھی ہوں گے مجھے تو خود اپنی ذات اور نجات کی فکر ہے ۔ میں ایک ایسے شخص کو قتل کر چکا ہوں جس کے قتل کا مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا ۔ تم سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔

اب لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے ، اے عیسیٰ علیہ السلام ، آپ اللّٰہ کے رسول اور کلمتہ اللّٰہ ہیں جسے اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القا کیا ، آپ روح اللّٰہ ہیں آپ ہماری شفاعت کیجیے ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں ۔

 حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی جواب دیں گے آج میرا رب اس قدر غضب ناک ہیں کہ نہ پہلے کبھی تھے اور نہ آئندہ کبھی ہوں گے ۔ آج تو مجھے خود اپنی ذات اور نجات کی فکر لاحق ہے ۔ کاش کوئی مجھے بچا سکے ۔ تم لوگ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ان سے شفاعت کی درخواست کرو کیونکہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہ بزرگ و برگزیدہ ہستی ہیں جن کی اللّٰہ تعالیٰ نے اگلی پچھلی سب فروگزاشتیں معاف فرما دی ہیں اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ۔

چنانچہ سب لوگ میرے پاس آئیں گے  اور عرض کریں گے اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم آپ اللّٰہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کی تمام فروگزاشتیں معاف فرما دی ہیں ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں ۔ آپ رب ذوالجلال کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں ۔

قیامت کے دن ہر امت گھٹنوں کے بل پڑی ہوگی کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے نزولِ اجلال فرمائیں گے ، اس وقت فیصلہ کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کو لایا جائے گا جو قرآن کا حافظ ہو گا ، دوسرا شہید ہو گا اور تیسرا مالدار ہو گا ۔

 اللّٰہ تعالیٰ حافظ قرآن سے کہیں گے : کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر نازل کردہ کتاب کی تعلیم نہیں دی تھی؟ وہ کہے گا : یقیناً اے میرے رب ۔



قرآن کریم ، آخری جنتی
آخری جنتی 


 اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے جو علم تجھے سکھایا گیا اس کے مطابق تو نے کیا عمل کیا ؟ 

وہ کہے گا : میں اس قرآن کے ذریعے دن رات تیری عبادت کرتا تھا ۔

 اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے : تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ تو نے جھوٹ کہا ، پھر اللّٰہ تعالیٰ کہیں گے : ( قرآن سیکھنے سے ) تیرا مقصد یہ تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں ، سو تجھے کہا گیا ۔

 پھر صاحب مال کو پیش کیا جائے گا اور اللّٰہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے : کیا میں نے تجھے ہر چیز کی وسعت نہ دے رکھی تھی ، یہاں تک کہ تجھے کسی کا محتاج نہیں رکھا ؟ 

مال و دولت ، سونے کے سکے

آخری جنتی 

وہ عرض کرے گا : یقیناً میرے رب ۔

 اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے : میں نے تجھے اس قدر نعمتیں عطا کی تھیں تو نے کیا عمل کیا ؟ 

وہ کہے گا : اے اللّٰہ میں تیری خاطر صلہ رحمی کرتا تھا اور صدقہ و خیرات کرتا تھا ۔

اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے : تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے ، پھر اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے : بلکہ تو یہ چاہتا تھا کہ تجھے سخی کہا جائے ، سو تجھے سخی کہا گیا ۔ 

اس کے بعد شہید کو پیش کیا جائے گا ، اللّٰہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے : تجھے کس لیے قتل کیا گیا ؟ وہ عرض کرے گا : مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیا گیا چنانچہ میں نے جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا ۔

 اللّٰہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے: تو نے جھوٹ کہا ، فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے ، پھر اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے : تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے سو تجھے کہا گیا “۔

  ابوہریرہ! یہی وہ پہلے تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی “۔ 

آخری جنتی ، دوزخ کی آگ

آخری جنتی 

 تب ایک منادی کرنے والا منادی کرے گا جو شخص دنیا میں جس کی پرستش کرتا تھا اس کے پیچھے ہو جائے ۔ 

چنانچہ صلیب کو ماننے والے صلیب کے ساتھ ، بت پرست اپنے اپنے بتوں کے ساتھ ، سورج اور چاند کے پرستار ان کے پیچھے اور ہر الہ باطل کے پرستار اپنے اپنے الہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے ۔ 

اس کے بعد صرف یہ امت باقی رہ جائے گی جس میں نیکو کار بھی ہوں گے اور منافق بھی اور اہل کتاب رہ جائیں گے ۔ پھر جہنم ان سب کے سامنے لائی جائے گی جو دور سے اُنہیں سراب کی طرح دکھائی دے گی ۔ 

آخری جنتی ، آگ کا سراب دکھائی دینا
آخری جنتی 
  

یہودیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم دنیا میں کس کی پرستش کرتے تھے وہ کہیں گے ، ہم حضرت عزیر علیہ السلام کو اللّٰہ کا بیٹا مانتے تھے اور ان ہی کی پرستش کرتے تھے ۔

 اُنہیں کہا جائے گا تم نے جھوٹ کی پیروی کی اللّٰہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد ، پھر ان سے پوچھا جائے گا اب تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ اس سراب کو دیکھ کر کہیں گے پانی پینا چاہتے ہیں انہیں کہا جائے گا آگے بڑھ کر لے لو اور اس کے ساتھ ہی وہ جہنم میں گر جائیں گے ۔


بھڑکتی ہوئی آگ ، آخری جنتی
آخری جنتی 

پھر نصاریٰ سے پوچھا جائے گا تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے تھے ؟ وہ جواب دیں گے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللّٰہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے تھے اور ان ہی کی پرستش کرتے تھے ۔ اُنہیں کہا جائے گا تم جھوٹ کی پیروی کرتے تھے ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد ۔ 

پھر سوال ہوگا اب تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ بھی یہی جواب دیں گے ہمیں پانی پلایا جائے ۔ ان سے کہا جائے گا پی لو اور اچانک وہ جہنم میں جا گریں گے ۔ 

 اس طرح ہر الہ باطل کے پرستار جہنم میں داخل ہوتے جائیں گے ۔

اس کے بعد صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے خواہ وہ نیک تھے یا بد ۔ ان سے پوچھا جائے گا تمہیں کس چیز نے روک رکھا ہےجب کہ سب لوگ جا چکے ہیں ؟

وہ جواب دیں گے  ہم تو ان لوگوں سے اسی وقت ( دنیا میں ہی ) جدا ہو گئے تھے جبکہ ہمیں ان کی اس وقت آج سے کہیں زیادہ ضرورت تھی اور اب  ہم نے ایک منادی کرنے والے کو یہ منادی کرتے سنا ہے کہ ہر گروہ اس کے ساتھ جا ملے جس کی وہ عبادت کرتا تھا چنانچہ ہم اب اپنے رب کا انتظار کر رہے ہیں ۔

تب اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے میں ہوں تمہارا رب ، غالب و قہار یہ سنتے ہی تمام مومنین سجدہ ریز ہو جائیں گے اور صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو ریا اور شہرت کے لیے سجدہ کیا کرتے تھے ، وہ بھی چاہیں گے کہ سجدہ ریز ہو جائیں مگر ان کی پیٹھ تختے کی مانند اکڑ کر رہ جائے گی اور وہ سجدہ نہ کر سکیں گے ۔ 

میرے ساتھ تمہاری ملاقات میرے حوض پر ہوگی ، اس کا طول اور عرض برابر ہے ، وہ ایلہ سے مکہ مکرمہ تک کی مسافت جتنا وسیع ہے ، یہ ایک مہینے کی مسافت ہے ، وہاں آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر پانی پینے کے برتن ہوں گے ، اس حوض کا پانی چاندی سے زیادہ سفید ہوگا ، جس نے ایک دفعہ وہ پی لیا، اس کے بعد اسے کبھی بھی پیاس محسوس نہیں ہوگی ۔


حوض کا پانی
آخری جنتی
 

  ”حوض کوثر پر میں تم لوگوں کا پیش رو ہوں گا ، تم میں سے کچھ لوگ میری طرف آئیں گے جب میں انہیں حوض کا پانی دینا چاہوں گا تو انہیں میرے سامنے سے کھینچ لیا جائے گا ۔ میں کہوں گا اے میرے رب ! یہ تو میری امت کے لوگ ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی باتیں نکال لی تھیں ۔“

اس دن جب مومن دیکھیں گے کہ وہ خود تو بچ آئے مگر ان کے بھائی جہنم میں رہ گئے تو اللّٰہ تعالیٰ سے شدت سے مذاکرہ اور مطالبہ کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ، یہ ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور روزے رکھتے تھے اور دوسرے نیک کام کیا کرتے تھے یہ جہنم میں کیسے چلے گئے ؟ ان کو بھی معاف فرما دے ۔ 

 اللّٰہ تعالیٰ مجھے شفاعت کی اجازت عطا فرمائیں گے ۔

 چنانچہ میں شفاعت کے لیے روانہ ہوں گا اور جنابِ باری تعالیٰ میں حاضری کی اجازت طلب کروں گا ۔ مجھے اجازت دی جائے گی اور اس وقت حمد و ثناء کے کچھ کلمات مجھے سکھائے جائیں گے جو اس سے پہلے کسی کو نہیں سکھائے گئے ۔ 

میں اپنے رب کے روبرو پہنچتے اور دیدار سے شرف یاب ہوتے ہی اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا جب تک اللّٰہ تعالیٰ چاہیں گے سجدہ ریز رہوں گا اور پروردگار کی حمد و ثناء کروں گا ، 

پھر ارشاد ہو گا ،  اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھائیے آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جو مانگیں گے آپ کو دیا جائے گا ، شفاعت کیجیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔

چنانچہ میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا، اے میرے پروردگار ، میری امت کی خطائیں معاف فرما دیجیے ، میری امت کو جہنم سے بچا لیجیے ۔ 

 مجھے کہا جائے گا ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جائیں اور جاکر ہر اس شخص کو جہنم سے نکال لیں جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو ۔ میں جاؤں گا اور ایسے تمام لوگوں کو دوزخ سے نکال لوں گا ۔

پھر واپس آؤں گا اور انہی کلمات سے جو مجھے سکھائے گئے تھے اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کروں گا اور سجدہ ریز ہو جاؤں گا ۔

 پھر کہا جائے گا ، اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھائیے ، بات کیجیے آپ کی بات سنی جائے گی ، سوال کیجیے آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ، سفارش کیجئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سفارش قبول کی جائے گی ۔

میں پھر کہوں گا ، اے میرے رب میری امت کو بخش دیجیے ۔ 

جواب دیا جائے گا ، جائیے اور ان تمام لوگوں کو جہنم سے نکال لیجیے جن کے دلوں میں ایک ذرہ یا رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو ۔ میں پھر جاؤں گا اور ایسے تمام لوگوں کو دوزخ سے نکال لوں گا ۔

پھر سہ بارہ لوٹ کر آؤں گا اور مذکورہ بالا کلمات سے اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کروں گا اور سجدہ ریز ہو جاؤں گا ۔

 پھر کہا جائے گا ، اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھائیے بات کیجیے آپ کی بات سنی جائے گی ، سوال کیجیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جو مانگیں گے وہ آپ کو عطا کیا جائے گا ، سفارش کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔  

 میں عرض کروں گا ، اے میرے رب ، میری امت کو بخش دیجیے اسے دوزخ سے بچا لیجئے ۔ 

مجھ سے کہا جائے گا ، جائیے اور جا کر ان سب لوگوں کو جہنم سے نکال لیجیے جن کے دلوں میں رائی کے دانہ سے بھی کم ایمان ہو ۔ 

چنانچہ میں پھر جاؤں گا اور ایسے تمام لوگوں کو جہنم سے نکال لوں گا ۔

پھر میں چوتھی مرتبہ لوٹ کر آؤں گا اور مذکورہ بالا کلمات سے اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کروں گا اور سجدہ ریز ہو جاؤں گا ۔ 

پھر کہا جائے گا ، اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، اپنا سر اٹھائیے اور کہیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بات سنی جائے گی ، جو مانگیں گے آپ کو دیا جائے گا ، شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔

میں عرض کروں گا ، اے میرے رب ، مجھے ایسے تمام لوگوں کو جہنم سے نکالنے کی اجازت دیجیے جنہوں نے کلمہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ زبان سے ادا کیا ہو ۔ جواب میں اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرمائیں گے ، مجھے اپنے عزت و جلال اور عظمت و کبریائی کی قسم ، میں دوزخ میں سے ہر اس شخص کو نکال لوں گا جس نے کلمہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ زبان سے ادا کیا ہو گا ۔

پھر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، جائیے اور اپنی امت کے ایسے تمام افراد کو جو حساب کتاب سے مستثنیٰ ہیں دائیں دروازے سے جنت میں داخل کر لیجیے ، ان لوگوں کو دوسرے دروازوں سے آنے جانے کی بھی اجازت ہو گی ۔ پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، دروازہ جنت کے ہر دو کواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا جتنا مکہ اور حمیر کے درمیان ہے ۔

اس کے بعد جہنم کے اوپر پل صراط بنایا جائے گا اور سب کو اس پر چلنے کو کہا جائے گا ۔ 



آخری جنتی ، پل صراط
 آخری جنتی 

چنانچہ رسولوں میں سب سے پہلا رسول میں ہوں گا جو اپنی امت کو لے کر اس پر سے گزروں گا ۔ اور اس دن رسولوں کے سوا کوئی شخص نہ بول سکے گا اور رسولوں کی زبان پر بھی اللهم سلم اللهم سلم،) اے اللّٰہ سلامتی عطا فرما ، اے اللّٰہ سلامتی عطا فرما کے کلمات ہوں گے

صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم نے پوچھا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ پل صراط کیا ہے ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ایک ایسا خطرناک مقام جہاں سے گزرنے والا پھسلے گا اور لڑ کھڑائے گا ۔ اس پر اچک لینے والے اور جکڑ لینے والے آنکڑے ، وسیع و عریض گوکھرو اور ایسے ٹیڑھے میڑھے کانٹے لگے ہوں گے جیسے علاقہ نجد میں پائے جاتے ہیں جنہیں سعدان کہا جاتا ہے ۔

  جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہو گا اس کے وجود کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہو گی اور جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف چلے گا تو اس کا نور اس کے آگے آگے دوڑ رہا ہو گا کسی کا نور اتنا تیز ہو گا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہو گا ، اور کسی کا نور مدینہ سے صنعاء تک ، اور کسی کا اس سے کم ، یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہو گا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا "۔

 ( جس کی ذات سے دنیا میں جہاں جہاں تک بھلائی پہنچی ہو گی میدان حشر میں اتنی ہی مسافت تک اس کے نور کی شعاعیں دوڑ رہی ہوں گی )

 اہل جنت جب دیکھیں گے کہ منافقین نور سے محروم رہ گئے ہیں تو وہ اپنے حق میں اللّٰہ تعالیٰ سے تکمیل نور کی دعا کریں گے " کہ اے ہمارے رب ہمارے قصور معاف فرما دے اور ہمارے نور کو جنت میں پہنچنے تک ہمارے لیے باقی رکھ کہ ہم پل صراط سے بخیریت گزر جائیں ۔ "

مومن پل صراط پر سے چشم زدن میں ، بجلی اور ہوا کی سرعت سے اور تیز رفتار گھوڑوں کی مانند گزر جائیں گے ۔باقی بچ جانے والوں میں کچھ تو پوری طرح صحیح و سالم ہوں گے اور کچھ کٹے پھٹے اور جہنم کی آگ میں جھلسے ہوئے ہوں گے حتٰی کہ سب سے آخر میں نجات پانے والے اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے ۔

پھر اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے میری شفاعت ابھی باقی ہے اور مٹھی بھر کر جہنم سے لوگوں کو نکال لیں گے ، اب وہ لوگ نکلیں گے جو جل کر بھسم ہو چکے ہوں گے ان کو نکال کر ایک نہر میں ڈالا جائے گا جو جنت کے سرے پر واقع ہے 

آخری جنتی ، نہر
 آخری جنتی 

اور جسے نہر حیات کہا جاتا ہے اس نہر میں گرتے ہی وہ لوگ اس طرح دوبارہ سرسبز و شاداب ہو جائیں گے جیسے غلے کا دانہ گزرگاہ آب میں اگ آتا ہے اور سرسبز و شاداب ہو جاتا ہے یہ لوگ اس نہر میں سے موتی کی مانند آبدار ہو کر نکلیں گے 

چمکدار موتی ، آخری جنتی
 آخری جنتی 


البتہ ان کی گردن پر عتقا الرحمٰن کی مہر لگا دی جائے گی اور جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو مہر کی وجہ سے پہچان کر اہل جنت کہیں گے یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے خود آزاد فرمایا ہے اور کسی عمل اور نیکی کے بغیر فی سبیل اللّٰہ جنت میں داخل کیا ہے ۔

 اُنہیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری دی جائے گی ، یہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو نہ صرف یہ سب تمہارا ہے بلکہ اسی قدر اور مزید تمہیں ملے گا۔

 جب اللّٰہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلوں سے فارغ ہو چکے ہوں گے تو ایک شخص باقی رہ جائے گا ۔ یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا جو اہل جہنم میں سے جنت میں داخل ہوگا لیکن اس کا منہ جہنم کی طرف ہوگا ۔ 

آخری جنتی ، بھڑکتی ہوئی آگ
آخری جنتی  

یہ اللّٰہ تعالیٰ سے درخواست کرے گا ، اے میرے رب میرا منہ جہنم کی جانب سے دوسری طرف پھیر دے ، کیونکہ اس کی بو مجھے ہلاک کیے دے رہی ہے اور اس کے شعلے مجھے جھلسا رہے ہیں ۔

 اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے اگر تیری درخواست منظور کرلی جائے تو کوئی اور مطالبہ تو نہیں کرے گا ؟ 

وہ شخص کہے گا ، نہیں تیری عزت کی قسم ، میں ہرگز کچھ اور نہ مانگوں گا ۔ اور وہ اس سلسلے میں اللّٰہ تعالیٰ سے ہر قسم کا عہد و پیمان کرے گا ۔ 

چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ اس کا رخ آگ کی طرف سے موڑ کر جنت کی جانب کر دیں گے اب وہ جب جنت کو اور اس کی آرائش و زیبائش کو دیکھے گا تو کچھ دیر جب تک اللّٰہ تعالیٰ چاہیں گے خاموش رہے گا پھر درخواست کرے گا : اے میرے پروردگار ، مجھے دروازہ جنت سے قریب کر دے ۔ 

اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تو نے عہد و پیمان نہ کیے تھے کہ تو جو کچھ مانگ رہا ہے اس کے سوا مزید کچھ نہ مانگے گا ؟

تو وہ کہے گا ، اے میرے پروردگار ، میں تیری مخلوق میں سب سے بد نصیب شخص نہیں ہونا چاہتا ۔

اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے ، تجھ سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ اگر تیرا یہ سوال پورا کر دیا جائے تو پھر تو مزید کچھ نہیں مانگے گا ۔

وہ عرض کرے گا ، نہیں تیری عزت کی قسم میں مزید کچھ طلب نہیں کروں گا ۔ اس مرتبہ بھی وہ رب کریم سے ہر وہ عہد و پیماں کرے گا جو اللّٰہ تعالیٰ اس سے لینا چاہیں گے ۔

اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دیں گے ۔ 

پھر جب وہ جنت کے دروازے تک پہنچ جائے گا اور جنت کی بہار اور وہاں کا کیف و سرور دیکھے گا تو کچھ دیر جس کی مقدار کا اندازہ صرف اللّٰہ تعالیٰ کو ہے ، خاموش رہے گا ، اس کے بعد کہے گا ، اے میرے پروردگار ! مجھے بھی جنت میں داخل کردے ۔

اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے ، اے ابنِ آدم ، تجھ پر حیرت ہے ، تو کس قدر عہد شکن واقع ہوا ہے کیا تو نے اس بات پر کہ جو کچھ تجھے دے دیا گیا ہے اس کے علاوہ مزید کچھ طلب نہیں کرے گا ، ہر قسم کے عہد و پیمان نہیں کیے تھے؟

وہ عرض کرے گا ، اے میرے پروردگار ! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ رہنے دے۔

اللّٰہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے ، جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ ۔

وہ جنت کی طرف آئے گا تو اسے ایسا معلوم ہو گا کہ وہ پوری طرح پر ہو چکی ہے ۔ چنانچہ وہ لوٹ کر جائے گا اور عرض کرے گا ، اے میرے رب ، وہ تو پر ہو چکی ہے ۔ 

اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے ، جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ ، ہم نے تمہیں دنیا کے برابر بلکہ اس سے دس گنا زیادہ وسعت عطا فرمائی ۔

 اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے ، جو آرزو کرنا چاہتے ہو کرو ۔ چنانچہ وہ تمنا کرے گا ، طلب کرے گا ، مانگے گا حتیٰ کہ اس کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی ۔ پھر اسے اللّٰہ تعالیٰ یاد دلائیں گے کہ مزید یہ اور یہ طلب کرو حتیٰ کہ جب اس کے دل کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی اور تمنائیں پوری ہو جائیں گی تو اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے تجھے یہ سب کچھ عطا کیا گیا اور اسی قدر مزید دیا گیا ۔

  اسے یقین نہیں آئے گا اور وہ عرض کرے گا ، کیا آپ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں ، حالانکہ آپ تو بادشاہ ہیں ۔

یہ بات کہتے ہوئے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اتنے مسکرائے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے ۔

اور کہا جاتا ہے کہ یہ شخص اہل جنت میں سب سے پست مرتبہ کا ہوگا ۔

رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا

جب جنتی لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے ،

آخری جنتی ، مناظر فطرت
  آخری جنتی 


 تو اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فرمائیں گے، اے جنت والو !

 کیا تم خوش ہو ؟ وہ جواب دیں گے کیوں نہیں ہم خوش ہوں گے ، اے رب ! تو نے ہمیں وہ چیزیں عطا کی ہیں جو کسی مخلوق کو نہیں عطا کیں ۔

اللّٰہ تعالیٰ پوچھیں گے :

کیا تم لوگ کچھ اور چاہتے ہو کہ میں تم لوگوں کو اور زیادہ دوں ؟ تو جنتی لوگ کہیں گے ، کیا آپ نے ہمارے چہرے روشن نہیں فرماۓ ؟ کیا آپ نے ہمیں آگ سے نجات دے کر جنت میں داخل نہیں فرمایا ؟( تو بھلا اب جہنم سے نجات پانے کے بعد اور جنت کی نعمتیں پانے کے بعد اور کیا چاہیں گے ، تو اللّٰہ تعالی اپنی ذات پاک سے پردے اٹھاۓ گا ، پس جنتیوں کے لیے اپنے رب ذوالجلال کا دیدار ان سب نعمتوں سےبڑھ کر ہو گا جو کچھ بھی انہیں ملی ہوں گی پھر

 اللہ تعالیٰ فرمائیں گے!

کیا میں تمہیں ان نعمتوں سے افضل انعام نہ دوں؟ جنتی پوچھیں گے : اے رب! اس سے افضل کیا چیز ہو سکتی ہے اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے ، میں اپنی رضا تم پر اتارتا ہوں اور اب کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا ۔“

 رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب اہل جنت ، جنت میں چلے جائیں گے اور اہل دوزخ ، دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو ایک سفید مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور اسے جنت اور دوزخ کے درمیان رکھ کر ذبح کر دیا جائے گا ۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ اے جنت والو ! تمہیں اب کبھی موت نہیں آئے گی اور اے دوزخ والو ! تمہیں بھی اب کبھی موت نہیں آئے گی ۔ اس بات سے جنتی اور زیادہ خوش ہو جائیں گے اور جہنمی اور زیادہ غمگین ہو جائیں گے۔“

Moral Stories 

Moral Stories for children

آخری جنتی 

دیدارِ باری تعالیٰ 

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت 




Post a Comment

0 Comments