خیر التابعین حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عشق
حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بلا شبہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ان پاک نفس ، پوشیدہ فرمانبرداروں کو پسند کرتے ہیں جن کے بال پریشان ، چہرے خاک آلود اور شکم بجز کسب حلال کے بھوکے اور لاغر رہتے ہیں ۔
یہ ظاہر ہوں تو کوئی انہیں دیکھ کر خوش نہیں ہوتا اور اگر بیمار ہو جائیں تو کوئی عیادت نہیں کرتا ۔
صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے حیرت سے استفسار کیا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کس شخص کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں ؟
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : اویس قرنی
صحابہ نے عرض کیا : اویس قرنی کون ؟ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرن میں اویس نام کا ایک شخص ہے
![]() |
یمن ، Yemen |
جو ہر لمحہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے ، اپنے نفس پر روتا ہے ، زمین میں گم نام ہے مگر آسمان میں مشہور ہے
اسے قبیلہ ربیعہ اور مضر کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری امت کے لوگوں کی شفاعت کا حق ہوگا
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
اس کے بعد روئے مبارک حضرت عمر فاروق اور حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کی جانب کرکے فرمایا :
اے عمر ! یمن کی طرف سے ایک شخص آئے گا جس کا نام اویس بن عامر ہوگا ، اس کے جسم پر برص کے داغ تھے مگر اب مٹ چکے ہیں فقط ایک داغ درہم کے برابر ہو گا ، اس کی والدہ حیات ہے جن کا وہ بے حد خدمت گزار ہے ، اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کو ضرور پورا فرماتے ہیں
اے عمر ! اگر تمہیں موقع ملے کہ اس سے اپنے لیے دعائے مغفرت چاہو تو ضرور ایسا کرنا ۔
جب تم اسے ملو تو میرا سلام کہنا اور میری امت کے حق میں دعا کے لیے کہنا ۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قبیلہ مراد سے تعلق رکھتے تھے اور یمن کے ایک قصبہ قرن میں پیدا ہوئے ۔
![]() |
قرن ، یمن |
آپ کے قرنی کہلانے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آپ کے جدِ اعلیٰ کا نام قرن تھا ۔ دوسرے آپ کا خاندان قرن نامی ایک قصبہ میں رہتا تھا جو کہ یمن میں ہے ۔ روایت ہے کہ جب اس قصبہ کی کھدائی شروع ہوئی تو گائے کا ایک سینگ برآمد ہوا ۔ عربی زبان میں گائے کے سینگ کو قرن کہا جاتا ہے اس لیے یہ قصبہ قرن کہلایا اور اسی نسبت سے آپ قرنی مشہور ہوئے ۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز ہوا تو عرب کے دوسرے علاقوں کی طرح یمن کے لوگ بھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعوت سے آگاہ ہوئے ۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو اللّٰہ تعالیٰ نے طبع سلیم اور فطرت صالح عطا کی تھی وہ جب خاتم الانبیاء صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ذکرِ پاک سے آشنا ہوئے تو ان کے دل نے گواہی دی کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خدا کے سچے رسول ہیں اور زبان نے اس کی تصدیق کر دی اور پھر بات صرف تصدیق اور ایمان بالرسالت تک ہی محدود نہ رہی بلکہ ان کو سرورِ کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق ہو گیا ، ایسا عشق کہ جس نے ان کو حیاتِ جاوداں بخش دی ۔
حضرت اویسِ قرنی نے اپنے آپ کو فنا فی الرسول کردیا ، ہر وقت نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے احوال کی جستجو کرتے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اسوہء حسنہ اور اتباع سنت کی ہمہ وقت کوشش کرتے ۔
حضرت اویسِ قرنی کی زندگی عجیب شان کی تھی اونٹ کے صوف سے بنا لباس پہنتے ، ہر وقت اللّٰہ تعالیٰ کی یاد میں مستغرق رہتے ، اپنے قبیلہ کے اونٹ چرا کر یا کھجور کی گٹھلیاں بیچ کر معاش کا سامان مہیا کرتے ، بہت کثرت سے صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے ۔
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
عبادت و ریاضت سے شغف کا یہ عالم تھا کہ ساری ساری رات بیدار رہ کر ذکر و تسبیح اور نوافل کی ادائیگی میں مصروف رہتے روزے نہایت کثرت سے رکھتے تھے اور اپنی والدہ کے بے حد خدمت گزار تھے ۔
آپ کی اس مجذوبانہ شان کی وجہ سے ظاہر بیں عوام آپ کو راہ چلتے پریشان کرتے اور آپ کو تکلیفیں پہنچاتے ۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ضعیف العمر ، نابینا اور چلنے پھرنے سے معذور تھیں ، آپ ان کا بہت خیال رکھتے ، ان کی دلجوئی کرتے ، ہر وقت ان کی خدمت میں مصروف رہتے اور انہیں چھوڑ کر کسی لمبے سفر پر نہیں جاتے تھے ۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھنے اور ان سے ملاقات کرنے کی خواہش نے حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو انتہائی بے قرار کر دیا ، یہ بے چینی و بے قراری بہت بڑھ گئی تو ایک دن ہمت کرکے والدہ ماجدہ سے رخصت کی اجازت طلب کر ہی لی ۔
والدہ نے اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ لیکن ٹھیک آٹھ پہر (٢٤ گھنٹے) میں واپس میرے پاس آجانا ۔
آپ نے ضرورت کی تمام چیزیں ان کے پاس رکھیں اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔ قرن سے مدینہ کا طویل سفر طے کر کے دیار حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم پہنچے ۔
![]() |
مدینہ منورہ ، Moral Stories |
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کے حجرہ پر تشریف لے گئے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم تو کہیں باہر تشریف لے گئے ہیں ۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے عرض کیا : جب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم گھر تشریف لائیں تو آپ ان ﷺ سے میرا سلام عرض کر دیجئے گا اور پھر والدہ کے حکم کے مطابق آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا انتظار کیے بغیر واپس لوٹ گئے ۔
جب نبی کریم ﷺ گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا سے دریافت فرمایا : عائشہ ! یہاں کون آیا تھا ؟
انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایک شتربان تھا جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ملاقات کا خواہشمند تھا ۔ جب اسے بتایا گیا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کسی مہم کے سلسلے میں مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جا چکے ہیں تو وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے سلام عرض کر کے چلا گیا ۔
یہ سن کر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ! جانتی ہو وہ شخص کون تھا ؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم !
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ اویس قرنی تھے ۔
حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ تنہائی پسندی اور گوشہ نشینی کے باوجود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ سے کبھی غافل نہ ہوئے اور اس کی ادائیگی میں ہمیشہ فعال رہے جس کی وجہ سے لوگ ان کے دشمن ہو گئے ۔
ابو الاحوص کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ قبیلہ مراد کا ایک شخص حضرت اویس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے پاس گیا اور سلام کے بعد پوچھا کہ
اویس تمہارا کیا حال ہے ؟ فرمایا : الحمد للّٰہ ۔
پھر پوچھا زمانہ کا تمہارے ساتھ کیا طرز عمل ہے ؟
فرمایا : یہ سوال اس سے کرتے ہو جس کو شام کے بعد صبح ملنے کا یقین نہیں اور صبح کو شام کے ملنے کی امید نہیں ۔
میرے مرادی بھائی موت نے کسی شخص کے لیے خوشی کا محل باقی ہی نہیں رکھا ۔ خدا کے عرفان نے مومن کے لیے سونے چاندی کی کوئی قیمت نہیں رکھی ۔ خدا کے کاموں میں مومن کے فرض کی ادائیگی نے ان کا کوئی دوست نہیں چھوڑا ۔
چونکہ ہم لوگوں کو اچھے کاموں کی تلقین کرتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں اس لیے انہوں نے ہمیں اپنا دشمن سمجھ لیا ہے ۔ ہم پر تہمتیں رکھتے ہیں لیکن خدا کی قسم ان کا یہ رویہ ہمیں حق بات کہنے سے نہیں روک سکتا ۔
پھر فرمایا :
لوگوں کے لیے غائبانہ دعا کرتے رہنا ان کی ملاقات سے بہتر ہے کیونکہ اس میں بھی نمائش اور ریا شامل ہو جاتی ہے ۔
حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے مدینہ منورہ گئے ۔ مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دروازے پر آکر کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا : اب یہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا حجرہ مبارک نہیں بلکہ روضہء رسول ﷺ ہے ۔
![]() |
روضہء رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسجدِ نبوی |
آپ یہ سن کر شدتِ جذبات سے بے ہوش ہو گئے ۔ ہوش آیا تو فرمایا : مجھے اس شہر سے باہر لے چلو ۔ جس سرزمین میں حضور سرور کائنات صلی اللّٰہ علیہ وسلم محو استراحت ہیں وہاں میرا رہنا مناسب نہیں ہے ایسی مقدس اور پاکیزہ زمین پر قدم رکھنا بے ادبی ہے ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ حضرت اویسِ قرنی کی جستجو میں رہے یہاں تک آپ کے عہد خلافت میں ایک دفعہ یمن سے مجاہدین کی ایک جماعت مدینہ منورہ پہنچی کہ مرکز خلافت کی ہدایات لے کر افواج اسلام میں شامل ہو جائیں جو عراق ،
![]() |
عراق ، Iraq |
عجم ،
![]() |
روم ، Rome |
شام
![]() |
شام ، Syria |
اور ایران میں مصروف جہاد تھیں ۔
![]() |
ایران ، Iran |
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو یمنی مجاہدین کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا پتہ پوچھنے لگے ۔
لوگوں نے بتایا کہ اویس نامی ایک مجذوب ہے جو جنگل میں رہتا ہے
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، Historical Stories |
آبادیوں میں نہیں آتا ، نہ لوگوں سے ملتا جلتا ہے ، غم اور خوشی سے بھی بیگانہ ہے جب لوگ ہنستے ہیں تو وہ روتا ہے اور جب لوگ روتے ہیں تو وہ ہنستا ہے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو ایک شخص نے کہا کہ اویس میرا بھتیجا ہے لیکن وہ گمنام اور بے مایہ ہے اور یہ مرتبہ نہیں رکھتا کہ امیر المؤمنین کے پاس اس کا ذکر ہو
آپ کے اصرار پر لوگوں نے بتایا کہ وہ جنگل میں ان کے اونٹ چرا رہے ہیں ۔
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، Moral Stories |
چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حضرت اویسِ قرنی کے پاس گئے وہ نماز میں مصروف تھے ، فارغ ہوئے تو ان بزرگوں کو سلام کیا اور ان کے استفسار پر اپنے ہاتھ اور پہلو کے نشان ان کو دکھائے تاکہ وہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بیان کردہ علامات سے انہیں پہچان لیں ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے انہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سلام اور پیغام دیا اور کچھ دیر ان کے پاس بیٹھے رہے پھر انہیں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ سنائی کہ
اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ۔ پس جس شخص نے اللّٰہ اور رسول کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف شمار ہوگی اور جس نے کسی دنیوی غرض کے لیے ہجرت کی کہ اسے وہ غرض حاصل ہو جائے یا جس نے کسی عورت کی خاطر ہجرت کی کہ اس سے نکاح ہو جائے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی
گویا خدا کے ہاں آدمی کو اجر اسی چیز کا ملے گا جو اس نے خالصتاً اللّٰہ تعالیٰ کے لیے کی ہوگی ۔
پھر حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے دعائے مغفرت کی درخواست کی ۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے دعائے مغفرت کی ضروری باتیں ہو گئیں تو حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : آپ حضرات کو مجھے تلاش کرکے مجھ تک پہنچنے میں تکلیف ہوئی ، اب آپ واپس جائیے ، قیامت قریب آ چکی ہے ، اس وقت ہمیں وہ دیدار نصیب ہوگا جو کبھی منقطع نہیں ہوگا ، میں بھی قیامت کے راستہ کا توشہ تیار کرنے میں مشغول ہوتا ہوں ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا : آپ کا ارادہ کہاں قیام کرنے کا ہے ؟
حضرت اویسِ قرنی نے جواب دیا کوفہ جاؤنگا ۔
![]() |
کوفہ ، عراق ، Kufa , Iraq |
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ کوفہ کے عامل کو آپ کے مقام و مرتبہ سے آگاہ کر دوں تاکہ وہ آپ کے حسب مرتبہ برتاؤ کرے ۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے جواب دیا :
نہیں اے امیر المؤمنین ! میں جس حال میں ہوں اسی میں رہنا پسند کرتا ہوں ، خواص کے بجائے عوام میرے ساتھی ہیں اور میں انہیں میں رہنا چاہتا ہوں
اس واقعہ کے بعد اہل قرن کو معلوم ہوا کہ وہ درویش شتربان درحقیقت کون ہیں ؟ چنانچہ وہ آپ کی بہت عزت اور قدر و منزلت کرنے لگے ۔
حضرت اویسِ قرنی حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے
![]() |
مسجدِ الحرام مکہ مکرمہ ، حضرت اویسِ قرنی |
وہاں صحابہ کرام کی ملاقات سے مشرف ہوئے اور حج بیت اللہ کے بعد کوفہ چلے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی اور کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں گئے ۔
اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ کوفہ میں ہم ایک محدث سے حدیث کا درس لیا کرتے تھے ۔
![]() |
جامع مسجد کوفہ عراق ، Grand mosque Kufa |
درس کے اختتام پر لوگ منتشر ہو جاتے مگر ایک مختصر جماعت وہیں رہ جاتی ان میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو بڑی پر حکمت اور اسرار و رموز کی باتیں کیا کرتا تھا ۔ کچھ دن وہ مجلس درس سے غیر حاضر رہا تو میں نے سوچا شاید وہ بیمار ہے ہمیں چل کر اس کی عیادت کرنی چاہیے ۔
ایک آدمی کو لے کر ہم اس کے مکان پر پہنچے ۔
دروازہ کھٹکھٹایا وہ باہر تشریف لائے تو ہم نے پوچھا : آپ ہم سے کیوں چھپتے اور کنارا کش رہتے ہیں ۔
فرمایا : میرے کپڑے میلے ہوگئے تو اسے دھو کر خشک کرنے میں اتنا وقت گزر گیا اور میں درس سے غیر حاضر رہا ۔ میں نے کہا یہ میری چادر اوڑھ لیجئے ۔
![]() |
Hazrat Owais-e-Qarni |
انہوں نے چادر واپس کر دی ۔ میں نے اصرار کیا تو کہنے لگے اگر میں آپ کی چادر اوڑھوں گا تو میرے ہم قوم دیکھ کر کہیں گے کہ اس ریاکار کو دیکھو اس آدمی کے ساتھ جڑا رہا اور دھوکہ دے کر اس کی چادر لے لی ۔
لیکن میں نے اصرار کرکے چادر انہیں دے ہی دی اور کہا چلیے ہمارے ساتھ درس میں شریک ہوں دیکھیں لوگ کیا کہتے ہیں ؟ وہ چادر اوڑھ کر ہمارے ساتھ ہو لیے ۔
جیسے ہی ایک مجمع کے سامنے سے گزرے تو لوگوں نے کہا : ذرا اس ریا کار کو دیکھو اس شخص کے ساتھ جڑا رہا اور اس کی چادر لے لی ۔
یہ الفاظ سن کر میں نے ان لوگوں سے کہا : تم لوگوں کو شرم نہیں آتی ۔ تم انہیں ہر حالت میں تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بناتے ہو ۔ آخر تم اس اللّٰہ کے بندے سے چاہتے کیا ہو ؟ کیوں اس کو ایذا دیتے ہو ؟
خدا کی قسم ! میں نے انہیں جب چادر دینا چاہی تو انہوں نے انکار کردیا تھا پھر میں نے بہت اصرار کیا تو انہوں نے قبول کی ۔
حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مجاہدے اور ریاضت میں مشغول رہتے ۔ آپ ایک رات قیام میں گزارتے دوسری شب رکوع میں اور تیسری شب سجدہ میں گزار دیتے ۔ ایک مرتبہ لوگوں نے عرض کیا کیا آپ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ دراز راتیں ایک ہی حالت میں گزار دیں ؟
فرمایا : راتیں دراز کہاں ہیں ؟ کاش ازل سے ابد تک ایک رات ہوتی جس میں ایک سجدہ کرکے گریہ و زاری کرنے کا موقع نصیب ہوتا ۔ افسوس کہ راتیں اتنی چھوٹی ہیں کہ چند مرتبہ ہی سبحان ربی الاعلیٰ کہہ پاتا ہوں کہ رات گزر جاتی ہے ۔
اکثر رات کے ساتھ دن بھی عبادت ہی میں گزر جاتا تھا ۔ ربیع بن خثیم کہتے ہیں ایک دن میں اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ملنے گیا ۔ دیکھا کہ وہ فجر کی نماز میں مشغول ہیں ، میں اس خیال سے کہ ان کی تسبیح و تہلیل میں حارج نہ ہوں ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا ، وہ ظہر کی نماز تک برابر مشغول رہے پھر ظہر سے عصر تک اور عصر سے مغرب تک یہی حال رہا ، میں نے خیال کیا کہ مغرب کے بعد شاید افطار کے لیے جائیں ، لیکن وہ برابر عشاء تک مشغول رہے ، پھر عشاء سے صبح تک یہی کیفیت رہی
![]() |
خیر التابعین حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
دوسرے دن نماز فجر کے بعد نیند کا کچھ غلبہ ہوا لیکن پھر فوراً متنبہ ہو گئے اور دعا کی کہ خدایا میں سونے والی آنکھ اور نہ بھرنے والے پیٹ سے پناہ مانگتا ہوں ۔
یہ حال دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا جو کچھ میں نے دیکھ لیا ہے اس قدر کافی ہے۔
اسیر بن جابر اپنے ایک ساتھی کے ساتھ حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے ملاقات کے لیے گئے ۔ وہ نماز میں مشغول تھے دو رکعات تمام کرنے کے بعد ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : میں ایک ضعیف انسان ہوں ۔ میری بہت سی ضروریات ہیں جنہیں میں آپ کی وجہ سے پوری نہیں کر سکتا ۔ آپ لوگ ایسا نہ کیجئے خدا آپ پر رحم فرمائے ۔ اگر آپ کو مجھ سے کوئی ضرورت ہو تو عشاء کے بعد مل لیا کریں ۔"
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، Historical Stories |
ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ کوفہ سے چند لوگ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ان میں ایک وہ شخص بھی تھا جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مذاق اڑایا کرتا اور ان کو بہت ستاتا تھا ۔ دوران گفتگو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کا تعلق قرن سے ہو ۔
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، قرن ، یمن |
ان لوگوں نے اس شخص کو آگے کر دیا جو حضرت اویس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا مذاق اڑایا کرتا تھا ۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے پہلے تو اس کے سامنے وہ حدیث بیان کی جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت اویس قرنی کی شان میں بیان فرمائی تھی اور پھر اس شخص سے کہنے لگے : میں نے سنا ہے کہ وہ شخص ( حضرت اویسِ قرنی ) کوفہ میں تم لوگوں کے ہاں بہت پہنچا ہوا ہے ۔
اس شخص نے جواب دیا : ہمارے ہاں تو کوئی ایسا شخص نہیں ہے اور نہ ہم کسی ایسے شخص کو پہچانتے ہیں ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : تمہیں شاید علم نہیں ہوگا لیکن وہ شخص تمہارے ہاں ہی ہیں ۔ پھر آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ان کی کچھ علامات بتائیں اور فرمایا کہ وہ ایک درویش صفت انسان ہے ۔
اس شخص نے کہا کہ اچھا ! ایک ایسا شخص ہمارے ہاں ہے تو سہی جس کا نام اویسِ قرنی ( رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ) ہے مگر ہم تو اس کا مذاق اڑایا کرتے ہیں ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص سے کہا : مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ تم اس شخص کی شان میں ایسے حقارت آمیز الفاظ استعمال کرکے ہلاکت میں پڑنے والے ہو ۔
پھر آپ نے فرمایا : اب تم کوفہ جاؤ تو اس شخص سے ضرور ملنا اور اپنی گستاخیوں اور بے ادبیوں کی معافی مانگنا ۔
وہ شخص کوفہ واپس پہنچ کر اپنے گھر والوں کے پاس بعد میں گیا پہلے حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت اویس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اس شخص کو دیکھا تو فرمایا : میرے تئیں تمہارے رویے میں یہ تبدیلی کیسی ؟ اس شخص نے کہا : میں نے آپ کی تعریف امیر الموءمنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہے ۔ آپ کے بارے میں انہوں نے سب کچھ بتا دیا ہے لہٰذا آپ مجھے معاف فرما دیجیے ۔ میں نے آپ کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے اس سے در گزر فرمائیے اور میرے لیے دعائے مغفرت کیجیے ۔
حضرت اویس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : میں تمہارے لیے دعائے مغفرت کیے دیتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ میرے بارے میں امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے جو کچھ کہا ہے اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گے ۔ اس کے بعد انہوں نے اس شخص کے لیے دعائے مغفرت کی ۔
دوسرے سال حج کے موقع پر کوفہ کا ایک معزز شخص مکہ مکرمہ آیا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس سے حضرت اویسِ قرنی کا حال دریافت کیا ؟ اس نے بتایا کہ وہ ایک بوسیدہ اور خستہ حال گھر میں رہتے ہیں اور نہایت عسرت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، Moral Stories for children |
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو حضرت اویسِ قرنی کی رفعت شان سے آگاہ کیا اور ان کی نسبت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشادات سنائے
وہ شخص کوفہ جا کر حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اپنے حق میں دعا کا خواستگار ہوا ۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : تم حج بیت اللّٰہ سے مشرف ہو کر واپس آئے ہو اس لیے مجھے تمہاری دعا کی ضرورت ہے ۔
پھر دریافت فرمایا : کیا تمہاری امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی تھی ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ۔ حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کے لیے دعائے مغفرت کی ۔
حضرت ہرم بن حیان ایک مشہور تابعی گزرے ہیں ۔ علماء و مشائخ نے انہیں بزرگانِ طریقت میں شمار کیا ہے ۔ نہایت عبادت گزار اور نیک انسان تھے ۔
آپ نے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی صحبت اختیار کی اور اولیاء اللّٰہ میں شمار ہوئے ۔
جن دنوں حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کوفہ میں مقیم تھے ، حضرت ہرم بن حیان نے ان کا احوال سنا تو دل میں ملاقات کی آرزو پیدا ہوئی ، آپ حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کے لیے پہلے قرن گئے
![]() |
قرن ، یمن ، Qarn , Yemen |
وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ کوفہ کی طرف کہیں چلے گئے ہیں ، مایوس ہو کر واپس مکہ مکرمہ آ گئے ۔
![]() |
مکہ مکرمہ ، Makkah Saudi Arabia |
یہاں سے پتہ چلا کہ حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کوفہ ہی میں مقیم ہیں ۔
آپ کوفہ تشریف لے گئے لیکن وہاں سے کچھ پتہ نہ چلا کہ حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کہاں ہیں ؟
عرصہ دراز تک ان کے انتظار اور تلاش و جستجو میں کوفہ ہی میں مقیم رہے پھر وہاں سے بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں دریائے فرات کے کنارے اتفاقاً حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ مل گئے ۔
![]() |
دریائے فرات ، Euphrates River |
وہ گودڑی پہنے ہوئے تھے اور وضو کر رہے تھے ۔ جسم نہایت نحیف و نزار تھا اور پیشانی نورِ ایمان سے چمک رہی تھی ۔ وضو سے فارغ ہو کر دریا کے کنارے سے نیچے اترے تو ہرم بن حیان نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا ۔
آپ نے جواب میں فرمایا : وعلیکم السلام اے ابنِ حیان !
ہرم بن حیان نے متعجب ہو کر پوچھا : آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا کہ میں ہرم بن حیان ہوں ؟
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : میری روح نے تمہاری روح کو پہچان لیا ۔
ہرم بن حیان کہتے ہیں کہ ان کی ضعیفی اور نقاہت دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور میں رونے لگا ۔ حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ پر بھی رقت طاری ہو گئی ۔ کچھ دیر بعد حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : میرے بھائی تمہارا کیا حال ہے ؟ تمہیں میرے بارے میں کس نے بتایا ؟
میں نے کہا : امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ۔
میں نے درخواست کی کہ مجھے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث مبارکہ سنائیے کہ میں آپ کی زبان سے سن کر اس کو یاد کرلوں ۔
فرمایا : میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو پایا اور نہ آپ کی صحبت سے بہرہ ور ہوا ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین سے میں نے بیشک احادیث سنی ہیں لیکن اس طرح تو تم نے بھی سنی ہیں ۔
پھر حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ حدیث پوری سنانے کے بعد کہا :
اے ابنِ حیان ! تجھ سے مواخذہ اس کے مطابق ہو گا جو تیرے دل میں ہے اس لیے اپنے دل کو ہمیشہ حق کے تابع اور خالص رکھ ۔ دل اور نیت کا اخلاص ہی ہے جو انسان کو شیطان سے محفوظ رکھ سکتا ہے کیونکہ دل اور نیت کو خالص رکھنے والے بندوں کے بارے میں اس نے اول روز ہی اپنی ناکامی کا اعلان کر دیا تھا ۔
اس نے کہا تھا :
بنی آدم میں سے تیرے مخلص بندوں کے سوا ان سب کو بہکا دوں گا ۔
میں نے درخواست کی کہ مجھے اپنی زبان مبارک سے کلام الٰہی سنا دیجئیے ۔
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
یہ سن کر میرا ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا اور
اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم پڑھ کر رونے لگے پھر فرمایا : میرے رب کا ذکر بلند ہے ، سب سے زیادہ حق اس کا قول ہے سب سے زیادہ سچی بات اس کی بات ہے ، سب سے زیادہ اچھا کلام اس کا کلام ہے ، پھر آپ نے سورہ الدخان کی تلاوت شروع کی :
وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا لٰعِبِیۡنَ ﴿۳۸﴾
مَا خَلَقۡنٰہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۹﴾
اِنَّ یَوۡمَ الۡفَصۡلِ مِیۡقَاتُہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۴۰﴾
یَوۡمَ لَا یُغۡنِیۡ مَوۡلًی عَنۡ مَّوۡلًی شَیۡئًا وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾
اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ اللّٰہُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ﴿۴۲﴾
یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی ہیں ۔ ان کو ہم نے برحق پیدا کیا ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔
ان سب کے اٹھائے جانے کے لیے طے شدہ وقت فیصلے کا دن ہے ، وہ دن جب کوئی عزیز قریب اپنے کسی عزیز قریب کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ کہیں سے انہیں کوئی مدد پہنچے گی سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم کرے ، وہ زبردست اور رحیم ہے
اس آیت تک پہنچے تھے کہ آپ پر شدید رقت طاری ہو گئی اور اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی ۔
پھر آپ ایسے خاموش ہوئے کہ میں سمجھا بے ہوش ہوگئے ہیں ۔ طویل سکوت کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا :
اے ہرم تمہارا باپ مر گیا ہے اور قریب ہے کہ تم بھی مر جاؤ گے ، معلوم نہیں کہ دوزخ میں جانا ہے کہ جنت میں ۔ جب تمام انبیاء اور صلحاء کو سفر آخرت اختیار کرنا پڑا تو ہمارا تمہارا شمار بھی مردوں ہی میں ہونے والا ہے ۔
پھر یکدم پکارے ! وا عمراہ
ہائے اے عمر ! اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی ۔
میں نے کہا : اے اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اللّٰہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے یہ آپ نے کیا کہا ؟ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تو ابھی حیات ہیں
انہوں نے فرمایا : اے ابنِ حیان ! ابھی ابھی انہوں نے سفر آخرت اختیار کیا ہے ۔
اس کے بعد حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے درود شریف پڑھا اور کچھ دعائیں پڑھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے لیے مغفرت کی دعائیں کیں ۔
میں نے ان سے کہا : میں خدا کے لیے آپ کو محبوب رکھتا ہوں میرے لیے دعا کیجیے اور کچھ وصیتیں فرمائیے تاکہ میں ان کو ہمیشہ یاد رکھوں ۔
آپ نے فرمایا :
اے ہرم ! میری وصیت یہ ہے کہ کتاب اللّٰہ اور صلحائے امت کی موافقت کرنا ، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ہمیشہ درود و سلام بھیجتے رہنا ،
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
کسی حالت میں بھی موت کو فراموش نہ کرنا ، امر بالمعروف اور نہی عنہ المنکر سے کبھی غافل نہ ہونا ، جماعت اور سنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی موافقت کبھی ترک نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں تمہارا دین چھوٹ جائے اور روز قیامت تمہیں آتش دوزخ کا سامنا کرنا پڑے ۔
پھر فرمایا : خدایا یہ شخص تیرے لیے مجھ سے محبت کرتا ہے اور تیرے لیے مجھ سے ملاقات کی ہے ، اس لیے خدایا جنت (دارالسلام) میں مجھے اس سے ملا دیجیئے گا ۔ یہ دنیا میں جہاں کہیں بھی رہے اس کو اپنے حفظ وامان میں رکھیے ، اس کی کھیتی باڑی کو اس کے قبضہ میں رہنے دیجئے گا ، اس کو تھوڑی دنیا پر خوش رکھ اور دنیا سے تو نے جو حصہ اس کو دیا ہے وہ اس کے لیے آسان کر اور اپنے عطایا اور نعمتوں پر اس کو شاکر بنا اور اس کو جزائے خیر عطا فرما ۔
یہ دعائیں دے کر مجھ سے فرمایا : ہرم بن حیان ! میں تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اچھا ! السلام علیك ورحمۃ اللّٰہ ، اب جاؤ اور میرے لیے دعا کرتے رہنا میں بھی تمہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھوں گا آئندہ نہ میں تمہیں دیکھوں گا اور نہ تم مجھے دیکھ سکو گے اور مجھ سے ملنے کی کوشش نہ کرنا .
ہم دونوں روتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے ، میں حد نظر تک دیکھتا رہا حتٰی کہ وہ ایک گلی میں چلے گئے
![]() |
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
اس کے بعد میں نے اُن کو بہت تلاش کیا اور لوگوں سے پوچھا لیکن کسی سے کچھ سراغ نہ ملا ۔
خدا ان پر رحمت نازل کرے اور اُن کی مغفرت فرمائے ۔
اس ملاقات کے بعد سے کوئی مہینہ ایسا نہیں جاتا کہ میں ان کو ایک یا دو مرتبہ خواب میں نہ دیکھتا ہوں ۔
حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو راہ خدا میں شہادت کی بڑی تمنا تھی اور اس کے لیے وہ بہت کثرت سے دعائیں کیا کرتے تھے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے جنگ صفین میں ان کی یہ آرزو پوری کر دی
![]() |
جنگ صفین ، حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
اور حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے :
السلامة في الوحدة
سلامتی وحدت میں ہے
یعنی انسان کے لیے سلامتی کی راہ یہ ہے کہ اس کی زندگی کے کسی گوشے میں غیر اللّٰہ کا کوئی دخل باقی نہ رہے ، پوری زندگی ایک وحدت ہو ۔
خیر التابعین حضرت اویسِ قرنی
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات
حضرت اویسِ قرنی اور حضرت ہرم بن حیان کی ملاقات
حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی روضہء رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر حاضری
عاشق رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت اویسِ قرنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
حضرت اویسِ قرنی کی جنگ صفین میں شہادت
Moral Stories
Moral Stories for children
Historical Stories
0 Comments