دوسری صدی ہجری کا واقعہ ہے ایک مرتبہ خراسان کے علاقے میں ایک ڈاکو ظاہر ہوا
![]() |
خراسان ، حضرت فضیل بن عیاض |
اس کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اس کا نام سن کر ہی دہل جاتے تھے ، دور کا سفر درپیش ہوتا تو دن کی روشنی میں اور قافلوں کی صورت میں جاتے ، اس قدر احتیاط کے باوجود جو قافلہ بھی اس علاقے سے گزرتا وہ اور اس کے ساتھی ان کو لوٹ لیتے اور پھر پہاڑوں میں ایسے غائب ہوتے کہ کسی کو ان کا سراغ نہ ملتا ۔
لیکن اس ڈاکہ زنی اور لوٹ مار میں بھی خدا ترسی کی ایک عجیب شان موجود تھی ، اپنے شکار قافلوں کی عورتوں سے بالکل الگ رہتا ، اگر کسی کے پاس مال کم ہوتا تو اس سے تعرض نہ کرتا اور جسے لوٹتا اس کے پاس اپنی دانست میں مناسب سرمایہ رہنے دیتا
اس کے ساتھی جو مال لاتے وہ اسے تقسیم کرتا کیونکہ وہ ان کا سردار تھا لیکن اپنے لیے صرف بقدرِ ضرورت رکھتا تھا نماز ہمیشہ با جماعت پڑھتا اور جو شخص با جماعت نماز نہ پڑھتا اسے اپنے گروہ سے نکال دیتا ۔
ایک دن ایک قافلہ جنگل سے گزر رہا تھا
![]() |
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ |
جب اہل قافلہ نے ڈاکوؤں کی آواز سنی تو ان لوگوں میں سے ایک شخص نے جس کے پاس بہت نقدی تھی ، سوچا کہ اس بیابان میں اسے کسی جگہ دفن کر دینا چاہیے تاکہ اگر قافلہ لوٹا بھی جائے تو نقدی محفوظ رہے ۔ وہ اس غرض کے لیے بیابان میں گیا ، اس نے وہاں ایک خیمہ دیکھا جس میں ایک شخص تسبیح میں مشغول تھا ۔
![]() |
مکہ کا درویش ، Historical Stories |
اس نے کہا : شکر ہے ایک نیک آدمی مل گیا ، اب روپیہ اس کے سپرد کرتا ہوں ۔
وہ اس کے قریب گیا اور تمام حال بیان کیا ، تسبیح میں مشغول شخص نے اسے اشارہ کیا کہ خیمہ میں رکھ دو ، اس نے وہ روپیہ وہاں رکھا
![]() |
Hazrat Fazeel bin Ayyaz , Historical Stories |
اور خود قافلہ میں آ گیا ۔ ڈاکوؤں نے قافلے کو لوٹ لیا ۔
اس آدمی نے جو کچھ بچا کھچا تھا اٹھا لیا اور اس خیمہ کی طرف رخ کیا تاکہ اپنی امانت واپس لے ۔
جب خیمہ کے قریب پہنچا تو اس نے ڈاکوؤں کو دیکھا کہ وہ مال آپس میں تقسیم کر رہے ہیں ۔
اس نے اپنے دل میں کہا ، آہ افسوس ! میں نے اپنے ہاتھ سے روپیہ ڈاکوؤں کو دے دیا ڈاکوؤں کے سردار ( فضیل ) نے جب اسے دور سے دیکھا تو آواز دی ، وہ ڈرتے ڈرتے سردار کے قریب آیا ۔
سردار نے کہا ، جہاں اپنی امانت رکھی تھی وہاں سے اٹھا لے ، اس نے وہاں سے تھیلی اٹھا کر اپنے قافلے کا رخ کیا ۔
ڈاکوؤں نے اپنے سردار سے کہا ہم نے اس قافلے میں کچھ نقدی نہیں پائی ، آپ نے کیوں اسے روپیہ واپس دے دیا ؟ سردار نے کہا : اس شخص نے مجھ پر نیک گمان کیا اور میں بھی خدا تعالیٰ پر نیک گمان رکھتا ہوں ۔ میں نے اس کے گمان کو سچ کر دکھایا ہے تاکہ اللّٰہ تعالیٰ میرے گمان کو بھی سچ کر دیں ۔
اس کے بعد ڈاکوؤں نے دوسرا قافلہ لوٹا اور مال لے گئے ۔ جب کھانے کے لیے بیٹھے تو قافلے کے ایک آدمی نے ڈاکوؤں سے پوچھا : تمہارا سردار کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا دریا کے کنارے نماز پڑھ رہا ہے ۔
![]() |
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ |
اس نے کہا ، لیکن یہ نماز کا وقت تو نہیں ہے ۔
انہوں نے جواب دیا : نفل نماز پڑھ رہا ہے ۔
اس نے پوچھا ! پھر تمہارے ساتھ کھانے میں کیوں شریک نہیں ہوا ؟
انہوں نے جواب دیا ، روزہ رکھتا ہے ۔
اس نے حیرت سے کہا ! لیکن یہ ماہ رمضان تو نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا نفلی روزے رکھتا ہے ۔
اس آدمی کو بڑا تعجب ہوا اور آپ کے پاس جا کر کہا : نماز ، روزہ ، ڈاکے ان کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟
ڈاکوؤں کے سردار نے کہا :
میرا رب میرے حال سے آگاہ ہے
وہ آدمی اس کی حالت پر حیران رہ گیا ۔
اس ڈاکو کو لوٹ مار کرتے کئی سال گزر گئے کہ ایک دن عجیب واقعہ ہوا ۔
ایک سوداگر بہت کثیر مال اسباب کے ساتھ اپنے چند ساتھیوں کی معیت میں ماورد جا رہا تھا ۔ اس کا گزر خراسان کے علاقے سے ہونا تھا ، لوگوں نے اس سے کہا اپنی حفاظت کے لیے سرکاری آدمیوں کا ایک دستہ ساتھ لے لو ، راستے میں فضیل ڈاکو لوگوں کو لوٹ لیتا ہے ۔
سوداگر نے سپاہیوں کو ہمراہ لینے سے انکار کردیا اور خدا کے بھروسے پر روانہ ہو گیا ۔
چند دنوں کے سفر کے بعد وہ قافلہ خراسان کے قریب ایک جنگل میں داخل ہوا ، اہل قافلہ تھک کر چور ہو گئے تھے وہیں سستانے بیٹھ گئے ۔
![]() |
Forest , Moral Stories for children |
سورج غروب ہو چکا تھا اور لوگ تھکن کے باوجود ڈاکوؤں کے خوف سے محتاط بیٹھے ہوئے تھے ۔
قافلے میں موجود ایک شخص نے نہایت خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی ۔
فضیل اور اس کے ساتھی اس قافلے کو لوٹنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے تھے ۔
قاری سورہ الحدید کی تلاوت کر رہا تھا
![]() |
Hazrat Fazeel bin Ayyaz |
جب وہ اس آیت پر پہنچا
اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾
کیا ایمان لانے والوں کے لیئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللّٰہ کے ذکر سے پِگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں ؟
تو فضیل اس طرف متوجہ ہوا اس کے دل اور دماغ کو ان آیات نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا جیسے کوئی گہری نیند سویا ہوا شخص شور سے بیدار ہوا ہو
فضیل کے دل کی دنیا بدل چکی تھی ۔ خدا ترسی کا جو جوہر دل میں چھپا ہوا تھا غالب آ گیا وہ بے اختیار پکار اٹھا
اے میرے مالک ، وہ وقت آ گیا ہے کہ میں گناہوں کی آگ سے نکل کر تیری رحمت کے سائے میں آ جاؤں ۔
تلاوت ختم ہو چکی تھی اور قافلے والے آپس میں مشورہ کر رہے تھے کہ کب کوچ کیا جائے ، کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ اسی وقت کوچ کرنا چاہیے اور کچھ کہہ رہے تھے کہ آگے فضیل ڈاکو کا علاقہ ہے اس کے شر سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ صبح ہونے کا انتظار کیا جائے ۔
![]() |
مکہ کا درویش |
یہ باتیں سن کر اس نے دل میں خود کو ملامت کی کہ فضیل تم کس قدر ظالم شخص ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے بندے تم سے ڈرتے ہیں اور امن سے سفر نہیں کر سکتے ۔
اس نے ڈاکہ زنی اور لوٹ مار سے سچی توبہ کرلی ، جن لوگوں کے بارے میں علم تھا کہ ان کا مال لوٹا ہے ان کو ان کا مال واپس کیا
![]() |
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ ، مکہ کا درویش |
اور مکہ مکرمہ پہنچ گئے
پھر وہ کچھ عرصہ تک بیت اللہ میں رہے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے رہے اس کے بعد وہ کچھ مدت کے لیے کوفہ چلے گئے
![]() |
عراق ، Iraq |
جو اس زمانے میں علم کا بہت بڑا مرکز تھا ۔ کوفہ میں بہت سے بزرگانِ دین رحمہم اللّٰہ علیہم کی صحبت میں رہے جن میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی شامل ہیں ۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ مکہ مکرمہ واپس چلے گئے اور باقی ساری زندگی وہیں گزاری دی ۔ امام جعفر صادق ، امام سفیان ثوری اور امام اعمش سے علم حاصل کرنے کے بعد
![]() |
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ ، مکہ کا درویش |
وہ اس مقام پر پہنچے کہ خود ایک حلقہء درس قائم کیا ان سے تعلیم پانے کے بعد ان کے شاگردوں میں سے بھی بعض اپنے وقت کے امام ہوئے ۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے ، ایک معمولی سے گھر میں رہتے ، اور سقے کا کام کرکے روزی کماتے تھے ،
![]() |
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ |
ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو بہت نیک اور صالح شخص تھا وہ جوانی میں فوت ہو گیا ، نیک اکلوتے بیٹے کی وفات ان کے لیے بڑا صدمہ تھی لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا اور جب لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا تو فرمایا : میں اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں ۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ کو تصوف اور معرفت کے حقائق میں بڑا مرتبہ حاصل تھا ۔ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے ،
من عرف اللّٰہ حق معرفتہ عبدہ بکل طاقتہ
جو شخص اللّٰہ کو پہچان لیتا ہے جیسا کہ اللّٰہ کو جاننے کا حق ہے وہ پھر اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کی بندگی کرتا ہے ۔
ایک شخص کا اپنے رب کے بارے میں طرزِ عمل یہ ظاہر کردیتا ہے کہ اس نے اپنے رب کو کس قدر پہچانا ۔ جس قدر انسان خدا کی معرفت اور اس سے محبت میں بڑھتا چلا جائے گا اسی قدر وہ اس کی فرمانبرداری میں شدید ہوتا جائے گا ۔
اس سلسلے میں انہوں نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی :
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں : ایک رات کا ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اٹھے اور حجرے سے باہر تشریف لے گئے ۔ میں نے خیال کیا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کسی دوسرے حجرے میں تشریف لے گئے ہیں ۔ میں اٹھی اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قدموں کی آہٹ سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پیچھے چلی گئی یہاں تک کہ میں مسجد تک پہنچ گئی ، وہاں میں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے پایا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں تھے اور رو رہے تھے ، میں وہیں رہی حتیٰ کہ حضرت بلال حبشی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہوں نے فجر کی آذان دی ۔
![]() |
مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، مدینہ منورہ |
جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجر کی نماز سے فارغ ہو کر واپس حجرہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں سوجے ہوئے تھے ، پاؤں کے دونوں انگوٹھے پھٹے ہوئے تھے اور ان میں سے زرد پانی بہہ رہا تھا ۔
میں نے روتے ہوئے عرض کیا : اے اللّٰہ تعالیٰ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، آپ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ اللّٰہ تعالیٰ نے معاف فرما دیے ہیں پھر آپ اپنے آپ کو اس قدر مشقت میں کیوں ڈالتے ہیں ؟
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا ! یہ تو میرے رب کا فضل اور احسان ہے ، کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔
فضل بن ربیع بیان کرتے ہیں : میں خلیفہ ہارون الرشید کے ساتھ حج کے لیے مکہ مکرمہ گیا ،
![]() |
مسجدِ الحرام ، مکہ مکرمہ |
جب ہم حج سے فارغ ہوئے تو ہارون الرشید نے مجھ سے کہا : اگر یہاں کوئی خدا رسیدہ شخص ہو تو اس کی زیارت کے لئے چلیں ؟
میں نے عرض کیا عبد الرزاق صنعانی یہاں موجود ہیں ۔ خلیفہ نے کہا : مجھے ان کے پاس لے چلو ۔
چنانچہ ہم ان کے پاس گئے ، کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد رخصت ہونے لگے تو ہارون الرشید نے مجھ سے کہا : ان سے دریافت کرو ان کے ذمہ کوئی قرض تو نہیں ؟
میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ میرے ذمہ کچھ قرض ہے جس کی ادائیگی ابھی کرنا باقی ہے ۔
خلیفہ نے حکم دیا کہ ان کا تمام قرض ادا کر دیا جائے
وہاں سے نکلے تو ہارون الرشید نے کہا : اے فضل ، میرے دل میں کسی اور بزرگ کو دیکھنے کی خواہش ہے جو ان سے بھی بڑا ہو ۔
میں نے عرض کیا ، کہ سفیان بن عینیہ بھی یہاں موجود ہیں ۔
خلیفہ نے فرمایا : مجھے ان کے پاس لے چلو ۔
سفیان بن عینیہ کے پاس پہنچے ، دروازہ کھٹکھٹایا تو انہوں نے پوچھا کون ہے ؟ انہیں بتایا کہ خلیفہ ہارون الرشید ملنا چاہتے ہیں ۔ سفیان جلدی سے باہر آئے اور کہا ، امیر المؤمنین آپ مجھے پیغام بھیجتے میں خود حاضر ہو جاتا ۔ ان سے بھی تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد رخصت ہوئے اور رخصت ہوتے وقت پھر خلیفہ نے مجھے اشارہ کیا کہ ان سے بھی ان کے ذمہ قرض کے بارے میں دریافت کروں ۔ انہوں نے بھی فرمایا کہ ان کے ذمہ اتنا قرض باقی ہے ۔
چنانچہ اسے بھی خلیفہ کے حکم پر ادا کر دیا ۔
حضرت سفیان بن عینیہ سے رخصت ہو کر خیمے سے باہر نکلے تو خلیفہ ہارون الرشید نے کہا ! میرا مقصد ابھی حاصل نہیں ہوا ۔
اس پر مجھے یاد آیا کہ فضیل بن عیاض بھی اسی جگہ رہتے ہیں چنانچہ میں ( فضل بن ربیع ) خلیفہ کو ان کے پاس لے گیا ۔
حضرت فضیل بن عیاض اس وقت تلاوت میں مشغول تھے ۔ میں نے دروازے پر دستک دی تو اندر سے آواز آئی کون ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ امیر المؤمنین ہیں ۔
انہوں نے فرمایا : امیر المؤمنین کو مجھ سے کیا سروکار ؟
کافی رد و کد کے بعد تشریف لائے اور دروازے کو کھول دیا ۔ کمرے کے ایک کونے میں رکھا ہوا چراغ بجھ چکا تھا ۔
ہارون الرشید نے دروازے سے آپ کو ڈھونڈنا شروع کیا یہاں تک کہ اس کا ہاتھ آپ کے ہاتھ کو لگا ۔
حضرت فضیل بن عیاض نے خلیفہ کے ہاتھ کی نرمی محسوس کرکے فرمایا : افسوس ہے کہ ایسا نرم ہاتھ دوزخ کی آگ کا ایندھن بنے ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ خدا کے عذاب سے بچ جائے ۔
ہارون الرشید یہ سن کر اس قدر روئے کہ بے ہوش ہو گئے ۔
جب ہوش آیا تو عرض کیا : اے فضیل بن عیاض مجھے کوئی نصیحت کیجیے ۔
آپ نے فرمایا ! اے امیر المؤمنین : آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بالکل صحیح راستے پر چل رہے ہیں ، آپ کے ساتھی بھی آپ کو یہی یقین دلاتے ہیں حالانکہ اگر آپ ان سے کہیں کہ وہ آپ کے گناہوں کا کچھ بوجھ اپنے اوپر لے لیں تو وہ اس کے لیے ہرگز تیار نہ ہوں گے بلکہ وہ جس قدر محبت آپ سے ظاہر کرتے ہیں اتنا ہی آپ سے دور بھاگیں گے
یہ فرما کر حضرت فضیل بن عیاض کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور پھر یوں گویا ہوئے :
عمر بن عبد العزیز جب خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے سالم بن عبدااللہ بن عمر ، محمد بن کعب القرظی اور رجاء بن حيواة کو بلایا اور بہت دکھ کے ساتھ فرمایا کہ میں بڑی آزمائش میں ڈال دیا گیا ہوں آپ لوگ مجھے کوئی مشورہ دیں ۔
امیر المؤمنین ! غور کریں کہ عمر بن عبد العزیز نے خلافت کو ایک آزمائش خیال کیا مگر آپ اور آپ کے ساتھی اس کو نعمت سمجھ رہے ہیں ۔
اب سنیے ان بزرگوں نے انہیں کیا مشورے دیے ۔
سالم بن عبداللہ نے عمر بن عبد العزیز سے فرمایا ، اس دنیا میں ایک روزہ دار کی طرح رہنا چاہیے ۔
محمد بن کعب القرظی نے فرمایا ، اگر آپ قیامت کے دن خدا کے عذاب سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو جان لیں کہ مسلمانوں کا یہ ملک آپ کا گھرانہ ہے اور اس کے تمام باشندے آپ کے عیال ہیں پس اس کے تمام بوڑھوں کو اپنے والدین کے مثل سمجھیں ، اس کے جوانوں کو اپنے بھائیوں کی طرح سمجھیں اور اس کے بچوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھیں ۔ یعنی والدین کی زیارت کریں ( خود ان کے پاس پہنچیں ) ، اپنے بھائیوں کا اکرام کریں اور اپنی اولاد کے حق میں نیکی اور بھلائی کریں ۔
رجاء بن حيواة نے کہا ، اگر آپ روز قیامت اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے لیے وہی پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں وہ مسلمانوں کے لیے بھی پسند نہ کریں ۔
پس اے امیر المؤمنین ، میں آپ کو اس دن سے ڈراتا ہوں جب بڑے بڑوں کے قدم لڑ کھڑا رہے ہوں گے ۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ پر رحم کریں کہ آپ کے ساتھی عمر بن عبد العزیز کے ساتھیوں کی طرح نہیں ہیں جو آپ کو ان کے مشوروں جیسا مشورہ دیں ۔
یہ سن کر ہارون الرشید اس قدر روئے کہ ان کی ہچکی بندھ گئی جب طبیعت ذرا سنبھلی تو حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ سے درخواست کی کہ کچھ اور نصیحت کیجیے
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ، امیر المؤمنین ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے ایک گورنر نے انہیں خط لکھا جس میں شکایت کی کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے اس کو سونے کا وقت نہیں ملتا اس کے جواب میں عمر بن عبد العزیز نے لکھا :
بھائی ، دوزخی دوزخ میں کبھی نہ سو سکیں گے ۔
یاد رکھو کہ ایک روز تمہیں سوتے یا جاگتے اپنے رب کی طرف ہانک لیا جائے گا ۔
ڈرو اس بات سے کہ کہیں ایسی حالت میں تم رب کی طرف نہ لوٹائے جاؤ کہ تمہیں بخشش کی کوئی امید نہ رہے ۔
![]() |
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ ، Historical Stories |
جب یہ خط گورنر نے پڑھا تو سارے کام چھوڑ کر حضرت عمر بن عبد العزیز کی خدمت میں حاضر ہوا ، انہوں نے پوچھا کیسے آئے ہو ؟
تو اس نے جواب دیا کہ آپ کا خط پڑھ کر میں نے عہد کر لیا ہے کہ اب زندگی بھر کوئی عہدہ قبول نہ کروں گا ۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا ، امیر المؤمنین ، ایک دفعہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خواہش ظاہر کی کہ مجھے کسی جگہ کا امیر بنا دیجیئے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا
چچا جان ! حکومت کی ذمہ داری قیامت کے دن حسرت و افسوس کا باعث ہوگی اس لیے اس کی خواہش نہ کیجئے خلیفہ ہارون الرشید نے کہا : کچھ اور فرمائیے ۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا :
امیر المؤمنین اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی مخلوقات کے بارے میں آپ سے سوال کریں گے کہ آپ نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا ؟
گر آپ آتش دوزخ سے بچنا چاہتے ہیں تو زندگی اس طرح گزاریں کہ آپ کے دل میں اپنی رعیت کے کسی بھی آدمی کے خلاف دشمنی اور برائی کا خیال نہ ہو کیونکہ
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کے خلاف اپنے دل میں کھوٹ اور کینہ رکھتا ہے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا ۔
خلیفہ ہارون الرشید کافی دیر تک روتے رہے جب ذرا سکون ہوا تو حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پوچھا : آپ پر کسی کا کوئی قرض تو نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا ہے :
مجھ پر میرے رب کا قرض ہے جس کا قیامت کے دن وہ مجھ سے حساب لے گا ، اگر میرا مواخذہ ہوا تو میں برباد ہو جاؤں گا ۔
ہارون الرشید نے حیرت و استعجاب کے ساتھ دیکھا تو آپ نے فرمایا :
خداوند عالم کی فرمانبرداری کا قرض میری گردن پر ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کے سبب پکڑا نہ جاؤں ۔
خلیفہ نے کہا ، میں رب کے قرض کی بات نہیں کر رہا بندوں کے قرض کے بارے میں پوچھ رہا ہوں ۔
فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ بولے :
بزرگ و برتر پروردگار کا شکر ہے کہ اس نے بہت سی نعمتوں سے سرفراز فرمایا ، مجھے اس سے کوئی شکوہ نہیں کہ مخلوق کے سامنے بیان کروں ۔
میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اسی کو رب سمجھوں اور اسی کی اطاعت کروں ۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔۔
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾
میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں ۔
مَاۤ اُرِیۡدُ مِنۡہُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ وَّ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ یُّطۡعِمُوۡنِ ﴿۵۷﴾
میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۔
اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّۃِ الۡمَتِیۡنُ ﴿۵۸﴾
اللہ تو خود ہی رزاق ہے ، بڑی قوت والا اور زبردست سورہ الزاریات
خلیفہ ہارون الرشید نے ایک ہزار دینار کی تھیلی نکال کر آپ کو پیش کی
![]() |
مکہ کا درویش حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ |
اور عرض کیا کہ اس کو اپنے مصرف میں لائیے گا ۔
فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ، سبحان اللّٰہ ، میں تو آپ کو بلاؤں کے چنگل سے نکال رہا ہوں اور نجات کی طرف بلا رہا ہوں اور آپ مجھے بلا میں گرفتار کرتے ہیں کیا یہ ظلم اور بے انصافی نہیں ہے ؟
خلیفہ ہارون الرشید اور اس کا وزیر فضل دونوں روتے ہوئے رخصت ہوئے ۔
باہر آ کر ہارون الرشید نے کہا اے فضل بن ربیع ! حقیقت میں فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ بادشاہ ہیں ، دنیا اور اس کی زینتیں اس کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتیں ، اہل دنیا کی تواضع کرنا بھی اس نے اسی لیے ترک کر رکھی ہے ۔
حضرت فضیل بن عیاض کو تلاوت قرآن کریم کا بے حد شغف تھا
![]() |
Hazrat Fazeel bin Ayyaz |
اکثر قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہتے ، ترتیل سے پڑھتے تھے ۔ تلاوت کرتے ہوئے جب اللّٰہ تعالیٰ کی بڑائی اور شان کا ذکر آ جاتا یا جنت اور دوزخ کا ذکر ہوتا تو اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی
مکہ مکرمہ کے اس سچے درویش نے محرم ١٨٧ ھ میں ٨٠ برس سے زیادہ عمر میں وفات پائی ۔
مکہ کا درویش حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ
ہارون الرشید اور فضل بن ربیع سے ملاقات
ڈاکو کی توبہ
اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فٰسِقُوۡنَ °
سورہ الحدید
Moral Stories
Moral Stories for children
Historical Stories
0 Comments