حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ
خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان سرحدوں پر وقتاً فوقتاً معرکہ آرائی ہوتی رہتی تھی ۔
اسلامی لشکر سے ایک مجاہد جس نے اپنے چہرے پر ڈھاٹا باندھ رکھا تھا بجلی کی سی سرعت سے اس کی طرف بڑھا اور ایک ہی وار میں رومی جنگجو کا کام تمام کر دیا ۔
پھر ایک اور رومی سپاہی ہنکارتا ہوا میدان میں آیا ۔
نقاب پوش مجاہد نے اسے بھی ڈھیر کر دیا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی رومی جنگجو مقابلہ میں آئے اور نقاب پوش مجاہد نے اپنی تلوار یا نیزے کے وار سے سب کو جہنم رسید کردیا ۔
مسلمانوں نے فرط جذبات میں نعرہء تکبیر بلند کیا اور پھر جنگ کے اختتام پر دوڑتے ہوئے اس مردِ مجاہد کے پاس پہنچ گئے اور بڑے اصرار سے ان کا چہرہ دیکھنے کی خواہش کی ، جونہی اس مجاہد نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو سب یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ وہ کوئی عام لشکری نہیں بلکہ علم و فضل کے مجمع البحرین ، فقیہہِ المشرق و المغرب حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے ۔ وہی عبداللّٰہ بن مبارک جن کے فضل و کمال کے ڈنکے تمام دنیائے اسلام میں بج رہے تھے اور جن کے مرجوعہء خلائق ہونے کی یہ کیفیت تھی کہ ایک دفعہ رقہ تشریف لے گئے تو ہزاروں لوگ استقبال کے لئے دیوانہ وار دوڑے ۔ اس قدر ہنگامہ ہوا کہ لوگوں کی جوتیاں ٹوٹ گئیں اور ساری فضا غبار آلود ہو گئی ۔
اتفاق سے خلیفہ ہارون الرشید بھی ان دنوں رقہ آیا ہوا تھا ۔
![]() |
خلفائے بنو عباس کا محل ، حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
اس کے حرم کی خواتین نے شاہی محل قصر الخشب کے برج سے یہ نظارہ دیکھا تو ملازمین سے پوچھا ! یہ ازدحام کیسا ہے ؟
انہوں نے بتایا کہ خراسان کے ایک عالم آ رہے ہیں جن کا نام عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ہے ، یہ سب لوگ ان کے استقبال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کشمکش کر رہے ہیں ۔
وہ خواتین بے ساختہ بولیں : واللّٰہ ! بادشاہ تو حقیقت میں یہ ہیں ، بھلا ہارون الرشید کیا بادشاہ ہے جو لوگوں کو سپاہیوں ، چوبداروں ، کوڑوں اور ڈنڈوں کی مدد سے اپنے گرد جمع کرتا ہے ۔
حضرت ابو عبد الرحمٰن عبداللّٰہ بن مبارک تبع تابعین کی مقدس جماعت کے فرد اور اپنے زمانہ کے امام تھے ۔
ان کے والد مبارک بن واضح ترک بنو حنظلہ کے ایک رئیس کے غلام تھے ۔ وہ نہایت نیک اور دیندار انسان تھے زہد و تقویٰ ، دیانت و امانت اور خوف خدا ان کی ذات کے نمایاں وصف تھے
حنظلہ رئیس نے اپنے باغ کی نگرانی ان کے سپرد کر رکھی تھی ۔ ایک مرتبہ اس نے مبارک کو حکم دیا کہ باغ سے ایک شیریں انار توڑ کر لاؤ ۔
![]() |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ، Moral Stories |
وہ گئے اور ایک انار لا کر پیش کر دیا ، مالک نے اسے چیر کر چکھا تو وہ ترش نکلا ، اس نے خفا ہو کر کہا : جاؤ اور کوئی اچھا سا شیرین انار لاؤ ، وہ گئے اور دوسرے درخت کا انار لا کر پیش کیا
![]() |
Hazrat Abdullah bin Mubarak |
اتفاق سے وہ بھی ترش نکلا ، ان کا مالک ناراض ہوا اور دوبارہ انار لانے بھیجا مگر تیسری دفعہ بھی وہ ترش نکلا ان کے مالک نے درشتگی سے کہا : کیا تمہاری قوتِ ذائقہ ترش و شیریں میں تمیز نہیں کر سکتی ؟
مبارک نے کہا : آپ نے مجھے انار کھانے کی اجازت نہیں دی صرف دیکھ بھال پر معمور کیا ہے ، اس لیے میں نے آج تک کسی انار کو نہیں چکھا ۔
بنو حنظلہ کے اس رئیس نے اپنے طور پر حالات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ مبارک نے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل صحیح تھا ، اسے اپنے غلام کی غیر معمولی دیانت داری اور خوف خدا نے بہت متاثر کیا اور وہ ان کی بہت عزت و تکریم کرنے لگا ۔
اس رئیس کی ایک نوجوان لڑکی تھی جس کے لیے اونچے اونچے گھرانوں کی طرف سے پیغام آ رہے تھے ۔ دنیاوی دولت و ثروت کے لحاظ سے پیغام دینے والوں میں ایک سے ایک بڑھ کر تھا اس لیے وہ سردار فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کس پیغام کو قبول کرے ۔ اسی شش و پنج میں ایک دن اس نے مبارک سے اس بارے میں مشورہ کیا ۔
مبارک نے بہت اخلاص کے ساتھ کہا : زمانہء جاہلیت میں لوگ اعلیٰ حسب نسب والا داماد تلاش کیا کرتے تھے ، یہودیوں کے نزدیک داماد کے لیے مالدار ہونا ضروری تھا اور عیسائی حسن و جمال کو اہمیت دیتے تھے لیکن امت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے نزدیک متقی ہونا وجہ ترجیح ہے ۔ آپ جو طریقہ مناسب سمجھیں اختیار کریں ۔
آقا کو مبارک کا یہ مخلصانہ مشورہ بے حد پسند آیا ۔ اس مشورے پر غور و فکر کے بعد ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا : مجھے اپنی لخت جگر کے نکاح کے لیے مبارک سے بہتر کوئی شخص نظر نہیں آتا
بیوی نے پہلے تو مبارک کے افلاس اور کم حیثیتی کا عذر پیش کیا لیکن بالآخر وہ بھی شوہر سے متفق ہو گئی اور اپنی بیٹی کا نکاح مبارک سے کردیا اور ساتھ ہی انہوں نے مبارک کو آزاد کر دیا ۔
حضرت عبداللّٰہ اسی رئیس زادی اور مبارک جیسے صاحب تقویٰ والدین کے ہاں ١١٨ ھ کو مرو میں پیدا ہوئے ۔
![]() |
مرو ، خراسان ، حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ابھی چھوٹے بچے تھے کہ ایک مرتبہ آپ کی والدہ نے آپ کو دیکھا کہ باغ میں کسی پودے کے قریب سو رہے ہیں اور ایک سانپ منہ میں ریحان کی ٹہنی لیے آپ پر سے مکھیاں اڑا رہا ہے ۔
![]() |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ، Moral Stories |
حضرت عبداللّٰہ کے والد مبارک بن واضح نہ صرف ایک متقی انسان تھے بلکہ علم کی قدر و قیمت سے بھی بخوبی آشنا تھے ۔ انہوں نے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا اور پوری کوشش کی کہ ان کا بیٹا عالم بنے ۔
اس وقت صحابہ کرام کا بابرکت دور گزر چکا تھا البتہ ہزاروں تابعین اور تبع تابعین اور دوسرے اربابِ علم و فضل دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے تھے ۔ کوئی معروف شہر اور قصبہ ایسا نہ تھا جو اہلِ علم و فضل سے خالی ہو ۔
نوجوانی میں آپ کے پاس ایک غلام تھا جس سے آپ نے یہ شرط طے کر رکھی تھی کہ اگر تم محنت مزدوری کر کے اتنی رقم مجھے دے دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا ۔
ایک دن کسی نے آپ سے کہہ دیا کہ آپ کا غلام تو کفن چرا کر فروخت کرنے کے بعد آپ کی رقم ادا کرتا ہے ۔ یہ سن کر آپ کو بے حد ملال ہوا اور رات کو چھپ کر اس کے پیچھے پیچھے قبرستان پہنچ گئے ۔
قبرستان میں جا کر غلام نے ایک قبر کھولی اور نماز میں مشغول ہو گیا اور جب آپ نے قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ٹاٹ کے کپڑے پہنے اپنے گلے میں طوق ڈالے ہوئے گریہ وزاری کر رہا ہے یہ پوری رات آپ نے باہر اور غلام نے قبر میں عبادت کرنے میں گزار دی پھر صبح سویرے غلام نے قبر کو بند کیا اور فجر کی نماز مسجد میں جاکر ادا کی اور یہ دعا کرتا رہا
اے اللّٰہ ! رات گزر گئی اور صبح طلوع ہو چکی میرا آقا اب مجھ سے رقم طلب کرے گا ، اے پروردگار ! اپنے کرم سے آپ ہی کچھ انتظام فرما دیجیے ۔
اس دعا کے بعد ایک نور نمودار ہوا اور اس نے درہم کی شکل اختیار کرلی ۔ آپ یہ واقعہ دیکھ کر غلام سے لپٹ گئے اور فرمایا ! کاش تو میرا آقا اور میں تیرا غلام ہوتا ۔
یہ جملہ سن کر غلام نے دعا کی : اے میرے رب ! میرا راز فاش ہو گیا ہے اس لئے مجھے دنیا سے اٹھا لیجیے اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آغوش میں دم توڑ دیا ۔
پھر آپ نے غسل دے کر ٹاٹ ہی کے لباس میں اسے دفن کر دیا ۔
رات کو خواب میں دیکھا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام دو براقوں پر تشریف لائے اور فرمایا : اے عبداللّٰہ تو نے ہمارے دوست کو ٹاٹ کے لباس ہی میں دفن کردیا ؟
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک کی ابتدائی تعلیم و تربیت مرو میں ہوئی اس کے بعد وہ حصولِ علم کے لیے مرو سے نکل کھڑے ہوئے اور قصبہ قصبہ ، شہر شہر گھوم پھر کر جواہر علم اپنے دامن میں سمیٹتے رہے ، اس مقصد کے لیے انہوں نے فاصلہ دیکھا نہ اس زمانے کے سفر کی صعوبتیں ، جہاں بھی کسی صاحبِ علم کا پتہ چلا ، اس کی خدمت میں پہنچے اور اکتسابِ فیض کیا ۔
![]() |
درسگاہ ، حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
![]() |
Hazrat Abdullah bin Mubarak |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک کو ان اساتذہ سے بے حد عقیدت و محبت تھی ، وہ فرماتے تھے اگر اللّٰہ تعالیٰ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ذریعہ میری مدد نہ فرماتا تو میں اس مقام پر نہ ہوتا ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ تحصیل علم کے سلسلے میں امام اوزاعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عجیب واقعہ پیش آیا :
وہ کہتے ہیں : میں طلب علم کے لیے شام گیا اور بیروت جو اس زمانے میں شام کا ایک حصہ تھا جا کر
![]() |
بیروت ، Bairut , حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
امام اوزاعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے مجھ سے کہا : اے خراسانی ! کوفہ میں ابو حنیفہ ( رحمۃ اللّٰہ علیہ ) نامی ایک شخص ہیں ؟ ان سے محتاط رہنا ۔
![]() |
عراق ، Iraq , Hazrat Abdullah bin Mubarak |
یہ سن کر میں گھر واپس آیا ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتابیں نکالیں
![]() |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ، Moral Stories for children |
ان میں سے چیدہ چیدہ مسائل منتخب کرکے انہیں ایک کتاب کی صورت میں مرتب کیا ۔ اس میں تین دن لگ گئے ۔ تیسرے دن وہ کتاب میں امام اوزاعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس لے گیا وہ مسجد کے مؤذن بھی تھے اور امام بھی ، میرے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر فرمایا : یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : ملاحظہ کیجئے ، انہوں نے ایک مسئلہ پر نظر ڈالی جس پر لکھا تھا ، قال النعمان : آذان کہہ کر کھڑے کھڑے کتاب کا پہلا حصہ پڑھ لیا ، پھر کتاب آستین میں رکھ لی ، تکبیر کہہ کر نماز پڑھی ۔ نماز سے فارغ ہو کر کتاب نکالی اور ساری پڑھ لی ۔ اس کے بعد مجھ سے دریافت فرمایا : اے خراسانی ! یہ نعمان بن ثابت کون ہیں ؟
میں نے کہا : ایک شیخ ہیں عراق میں ان سے ملاقات ہوئی تھی ۔
![]() |
عراق ، Iraq , حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
امام اوزاعی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا : بڑی شان کے انسان ہیں ، جاؤ اور ان سے بہت سا فیض حاصل کرو ۔ میں نے کہا یہ وہی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں جن سے آپ نے مجھے روکا تھا ۔
اس طرح عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں امام اوزاعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی غائبانہ غلط فہمی کو نہایت خوبصورت انداز سے دور کر دیا اور پھر امام اوزاعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے فیضانِ علمی سے بھی خوب بہرہ ور ہوئے ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عبداللّٰہ بن مبارک کو غیر معمولی قوت حافظہ اور ذہانت عطا کی تھی اس کے ساتھ علم کے بے پناہ شوق ، محنت اور بڑے بڑے آئمہ عصر کے فیضانِ صحبت کی بدولت چند سال کے اندر وہ مسند علم و فن کے صدر نشین بن گئے ۔
امام سفیان ثوری رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ایک مرتبہ کسی خراسانی نے کوئی مسئلہ پوچھا ، انہوں نے فرمایا : تمہارے پاس مشرق و مغرب کے سب سے بڑے عالم عبداللّٰہ بن مبارک موجود ہیں ان سے کیوں دریافت نہیں کرتے ؟
یحییٰ بن یحییٰ اندلسی رحمۃ اللّٰہ علیہ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم امام مالک بن انس کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ عبداللّٰہ بن مبارک تشریف لائے ۔
امام مالک جو کسی کے لیے نہیں اٹھتے تھے اور نہ اپنی نشست تبدیل کرتے تھے ، اٹھے اور اپنی نشست بدل کر عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔
اس مجلس میں امام مالک بن انس احادیث کا درس دے رہے تھے ۔ ایک شاگرد نے عبداللّٰہ بن مبارک سے مخاطب ہو کر کہا : اس مسئلہ کے بارے میں آپ لوگوں یعنی اہل خراسان کے پاس کوئی حدیث ہو تو پیش کیجیے ۔
ابنِ مبارک غایت درجہ احترام اور ازراہِ حسن ادب بہت آہستہ آہستہ جواب دیتے رہے ۔ امام مالک بن انس رحمۃ اللّٰہ علیہ کو ان کا حسنِ ادب اور اندازِ تکلم بہت پسند آیا ، جب عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ اس مجلس سے رخصت ہوئے تو امام مالک بن انس نے اہل مجلس سے مخاطب ہو کر فرمایا : یہ عبداللّٰہ بن مبارک خراسان کے فقیہہ ہیں ۔
![]() |
خراسان ، Khorasan , حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ پہلی مرتبہ حماد بن زید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دریافت کیا ! آپ کہاں سے آ رہے ہیں ؟
ابنِ مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جواب دیا : خراسان سے ۔
انہوں نے استفسار کیا خراسان کے کس شہر سے ؟
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ نے عرض کیا : مرو سے
![]() |
خراسان ، Khorasan , Moral Stories for children |
حماد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پوچھا وہاں کے ایک صاحب ہیں عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ، آپ جانتے ہیں ؟ کیا کبھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ؟
عرض کیا : جی ہاں جانتا ہوں
حماد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے دریافت کیا : وہ کیسے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا : عبداللّٰہ بن مبارک آپ کے سامنے حاضر ہے ۔
حماد بن زید رحمۃ اللّٰہ علیہ یہ سن کر بے ساختہ اٹھے اور مرحبا کہتے ہوئے انہیں گلے لگا لیا ۔
علم حدیث سے حضرت عبداللّٰہ بن مبارک کو خاص شغف تھا اسی لیے وہ ایک یگانہء روزگار محدث اور امام العصر تسلیم کیے جاتے تھے ، ان کے ہمعصر محدثین میں اگر کسی حدیث کے بارے میں اختلاف ہوتا تو وہ فیصلہ کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے ۔
حدیث مبارکہ سے والہانہ شغف کی بناء پر گھر سے بہت کم باہر نکلتے اور زیادہ وقت احادیثِ مبارکہ کی تدوین میں مصروف رہتے ۔
ایک مرتبہ کسی نے پوچھا : آپ کو مکان میں ہر وقت تنہا بیٹھے رہنے سے وحشت نہیں ہوتی ؟
فرمایا : وحشت کیسے ہو سکتی ہے جبکہ اس تنہائی میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فیض صحبت سے شرف یاب ہوتا ہوں ۔
احادیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا بہت احترام کرتے ، روایت اور سماع کے لیے خاص اوقات مقرر کر رکھے تھے ایسی کوئی بات یا عمل برداشت نہیں کرتے تھے جس سے حدیث کی شان اور وقار میں ذرا بھی تخفیف کا پہلو نکلتا ہو
ایک شخص طویل مسافت طے کرکے سماع حدیث کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی روایت حدیث کی درخواست کی ، انہوں نے انکار کردیا ، اس نے اپنے ملازم سے کہا : چلو اور سواری پر بیٹھ کر چلنے لگا ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک نے سواری کی رکاب تھام لی ، اس شخص نے کہا : آپ نے حدیث تو سنائی نہیں لیکن میری سواری کی رکاب پکڑ رہے ہیں ۔
فرمایا : ہاں ! میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ تمہارے لیے اپنی ذات کو ذلیل کروں لیکن حدیث مبارکہ کی توہین مجھے گوارا نہیں ۔
کسی شخص نے راہ چلتے آپ سے روایت حدیث کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا : یہ موقع حدیث کی روایت و سماع کا نہیں ہے ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زندگی کا بیشتر حصہ سفر میں گزرا ، لڑکپن سے جوانی تک کے زمانے میں تحصیل علم کے سلسلے میں سفر کرتے رہے ، اس کے بعد وہ اکثر تجارت ، حج ، جہاد فی سبیل اللّٰہ ، دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت کے لیے پا بہ رکاب رہے ۔ یہی سبب تھا کہ وہ کسی خاص مقام پر مجلسِ درس قائم نہ کر سکے لیکن ان کے کمالات علمی نے ایک دنیا کو مسخر کر لیا تھا ، جہاں بھی جاتے لوگ جوق در جوق ان کے گرد جمع ہو جاتے اور مقدور بھر اکتسابِ فیض کرتے تھے حتیٰ کہ ممالک اسلامیہ کے اس قدر لوگ ان سے فیضیاب ہوئے کہ شمار کرنا نا ممکن ہے ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ طبعاً شہرت سے متنفر تھے اور گمنام رہنا پسند کرتے تھے لیکن خدا کی قدرت جس قدر بھی انہوں نے گمنام رہنے کی کوشش کی اسی قدر ان کی شہرت بڑھتی گئی اور وہ مرجع ء خلائق بن گئے ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک ہمعصر عالم قاسم بن محمد رحمۃ اللّٰہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ میں اکثر سفر میں عبداللّٰہ بن مبارک کے ساتھ رہتا تھا ۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا تھا کہ آخر ان میں وہ کون سی خوبی ہے جس کی بناء پر ان کی اتنی قدر ہے اور مخلوقِ خدا ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتی ہے ؟ نماز وہ بھی پڑھتے ہیں ہم بھی پڑھتے ہیں ، روزے وہ رکھتے ہیں تو ہم بھی رکھتے ہیں ، وہ حج کو جاتے ہیں تو ہم بھی جاتے ہیں ، وہ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں تو ہم بھی جہاد میں شریک ہوتے ہیں لیکن جہاں دیکھیں ہر ایک کی زبان پر عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی کا نام ہے ۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم لوگ شام کی طرف سفر کر رہے تھے
![]() |
شام ، Syria , Hazrat Abdullah bin Mubarak |
ایک آدمی نے اٹھ کر چراغ جلایا ، جب روشنی ہوئی تو کیا دیکھا کہ عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہے ۔ میں سمجھ گیا کہ اندھیرے میں ان کو قبر کا اندھیرا یاد آ گیا اور ان پر رقت طاری ہو گئی ۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ یہی خوف خدا ان کے فضل و شرف کا باعث ہے ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ اکثر مصیصہ اور طرطوس کا سفر کرتے تھے
![]() |
Hazrat Abdullah bin Mubarak , Historical Stories |
اور یہ سب محض شرکتِ جہاد کے لیے ہوا کرتے تھے ۔
ایک مرتبہ کسی مجوسی سے مقابلہ پیش آ گیا ، لڑائی کے دوران مجوسی کی عبادت کا وقت آ گیا ، اس نے ان سے مہلت چاہی کہ میں عبادت سے فارغ ہو لوں اس کے بعد تم سے نبردآزما ہوں گا ۔ وہ مان گئے مجوسی نے سورج کے سامنے سجدہ کیا تو حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بہت غصہ آیا اور اس کو قتل کرنا چاہا لیکن پھر یہ حکم الٰہی یاد آیا کہ عہد کی باز پرس ہو گی تو ضبط سے کام لیا ۔
مجوسی اپنی عبادت سے فارغ ہوا تو ان کی پاسداری ء عہد سے اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت مسلمان ہو گیا ۔
کسی نے حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پوچھا کہ تکبر کی کیا تعریف ہے ؟
فرمایا : تکبر یہ ہے کہ دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو با عزت سمجھا جائے ، پھر فرمایا : تکبر میں یہ بھی شامل ہے کہ تم اپنی کسی چیز کی نسبت یہ خیال کرو کہ یہ کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔
آپ ایک سبیل پر پانی پینے گئے وہاں بھیڑ تھی لوگوں کا ریلا جو آیا تو دھکا لگنے سے دور جا گرے جب وہاں سے واپس چلنے لگے تو حسن رحمتہ اللّہ علیہ سے ، جو ان کے ساتھ تھے کہنے لگے : زندگی ایسی ہی ہونی چاہیے کہ لوگ نہ ہمیں پہچانیں اور نہ ہماری توقیر کریں ۔
مرو میں ان کے پاس ایک وسیع مکان تھا جس میں ہر وقت عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا تھا ۔ ان کو یہ عقیدت مندی نا پسند تھی کچھ عرصہ تو اسے برداشت کیا لیکن جب دیکھا کہ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے تو مرو سے کوفہ چلے گئے اور وہاں ایک چھوٹے سے گھر میں قیام پذیر ہوئے ۔
![]() |
عراق , Iraq , Moral Stories |
لوگوں نے پوچھا : حضرت اتنا کشادہ مکان چھوڑ کر اس چھوٹے سے گھر میں رہنے سے آپ کی طبیعت نہیں گھبراتی ؟
فرمایا : لوگ عقیدتمندوں میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن میں اسے نا پسند کرتا ہوں اسی لیے مرو سے کوفہ آ گیا ہوں ۔
ابراہیم موصلی کہتے ہیں خلیفہ ہارون الرشید عین ذربہ آیا تو اس نے دو تین مرتبہ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک سے ملنے کی خواہش کی لیکن میں نے کسی نہ کسی حیلے سے ٹال دیا کیونکہ مجھے علم تھا کہ ان کے سامنے دین و شریعت کے خلاف کوئی بات ہوگی تو وہ خلیفہ کو سختی سے روکیں گے اور یہ بات اسے ناگوار گزرے گی ۔
اتفاقاً ایک دن حضرت عبداللّٰہ بن مبارک خود ہی خلیفہ سے ملنے تشریف لے آئے ، ملاقات کے بعد کسی نے ان سے پوچھا : آپ تو ہارون الرشید کی ملاقات سے گریزاں تھے اب کیسے آ گئے ؟ فرمایا : میں اپنے دل کو موت پر راضی کرنا چاہتا تھا مگر وہ نہیں ہوتا تھا اب جبکہ وہ راضی ہو گیا تو میں خلیفہ سے ملنے آ گیا ۔
گویا وہ خلیفہ کے سامنے حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتے تھے اور اس کا نتیجہ ان کے قتل کی صورت میں نکل سکتا تھا ۔
اسماعیل بن علیہ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک شاگرد اور ان کے خاص احباب میں سے تھے ۔ وہ اس وقت کے ممتاز محدث اور عالم تھے اور تجارت میں بھی حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شریک تھے انہوں نے بعض امراء کی مجالس میں جانا شروع کردیا اور پھر زکوٰۃ و صدقات کی تحصیلداری کا عہدہ قبول کر لیا ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے ناراضگی اور ناگواری کا اظہار کیا ۔ ایک روز اسماعیل بن علیہ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مجلس میں آئے تو آپ ان سے مخاطب نہیں ہوئے اسماعیل بن علیہ بے حد پریشان ہوئے ، مجلس میں تو کچھ نہ کہہ سکے گھر پہنچے تو بڑے اضطراب کی حالت میں ابن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کو یہ خط لکھا :
اے میرے استاد محترم ! عرصہ ء دراز سے آپ کے احسانات ، شفقتوں اور نظر التفات کا مرکز رہا ہوں ، واللہ آپ کی شفقت اور توجہ میرے لیے وجہ افتخار تھی آپ نے مجھے نہ جانے کیوں خود سے دور کردیا اور مجھے میرے ہمنشینوں میں کم رتبہ بنادیا ، آپ کی بے توجہی اور ناراضگی نے میرے دل کو رنج و الم سے بھر دیا ہے ۔
میں اپنی خطاؤں پر نادم اور شرمسار ہوں اور نہایت انکسار کے ساتھ آپ کی ناراضگی کا سبب دریافت کرتا ہوں ؟ جس کی بناء پر میں آپ کی ان تمام کرم فرمائیوں سے جو میرے غائیت تمنا تھیں محروم ہوگیا
اس خط کے جواب میں حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ نے چند اشعار لکھ بھیجے :
اے علم کو ایک ایسا باز بنانے والے ! جو غریبوں کا مال سمیٹ کر کھا جاتا ہے۔
تم نے دنیا اور اس کی لذتوں کے لیے ایسی تدبیر اختیار کی ہے جو تمہارے دین کو مٹا کر رکھ دے گی ۔
تمہاری وہ تمام روایتیں کیا ہوئیں ، جو ابنِ عون اور ابنِ سیرین سے تم بیان کرتے تھے ۔
اور جن میں سلاطین سے ربط و ضبط رکھنے کی وعید آئی ہے ۔
دیکھو دنیا پرست پادریوں کی طرح دین سے دنیا نہ کماؤ ۔
اگر تم کہو کہ میں اس پر مجبور کیا گیا تو ایسا کیوں ہوا ؟ یاد رکھو ! کہ اسی طرح ذلت ہوتی ہے ۔
اسماعیل بنِ علیہ کے پاس قاصد یہ اشعار لے کر پہنچا ۔ اسماعیل یہ اشعار پڑھ کر رونے لگے اور اسی وقت اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے ۔
ایک شخص نے حسن خلق کی تعریف دریافت کی تو فرمایا : ترک الغضب ، یعنی غصّہ نہ کرنا ۔
اہلِ دنیا ، دنیا کی سب سے مرغوب اور لذیذ چیز سے لطف اندوز ہوئے بغیر یہاں سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔
لوگوں نے پوچھا کہ سب سے لذیذ چیز کیا ہے ؟
فرمایا : معرفتِ الہٰی ۔
ایک دفعہ مکة المکرمہ میں ابنِ مبارک کو زمزم سے لبریز پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے قبلہ رخ ہو کر یہ حدیث مبارک بیان فرمائی : ”مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہٗ “ زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جاتا ہے ، اس کے لیے کافی ہوتا ہے ۔
پھر فرمایا : یہ پانی میں قیامت کی پیاس بجھانے کے لیے پیتا ہوں ، اس کے بعد آپ نے نوش فرمایا ۔
![]() |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک کا ذریعہ معاش تجارت تھا ، وہ عموماً خراسان سے قیمتی سامان لاتے اور اسے حجاز میں فروخت کرتے ۔
![]() |
حجاز مقدس ، Hijaz Saudi Arabia |
اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی تجارت میں بہت برکت عطاء کی تھی وہ لاکھوں کماتے اور لاکھوں ہی رضائے الٰہی کی خاطر کارہائے خیر میں صرف کرتے ۔
ایک مرتبہ ان کے شاگرد حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کہا : حضرت ! کیا ہمیں دنیا ترک کرکے آخرت کی تیاری نہیں کرنی چاہیے ؟
فرمایا : ابو علی یہ میں اس لیے کرتا ہوں کہ مصائب سے بچ سکوں اور اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرسکوں اور اس کی مدد سے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت زیادہ سے زیادہ کروں اور اللّٰہ کی طرف سے اپنوں اور غیروں کے جو حقوق مجھ پر عائد ہوتے ہیں ان کی طرف سبقت کرکے اچھی طرح ادا کر سکوں ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک سفر میں ہوں یا حضر میں مہمان نوازی کا خاص التزام کرتے ، ابو اسحاق طالقانی کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم سفر میں ان کے ساتھ تھے ۔ دو اونٹنیوں پر بھنی ہوئی مرغیاں لدی ہوئی تھیں اور یہ ان مسافروں کے لیے تھیں جو ان کے ہم سفر تھے ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک خود کثرت سے روزے رکھتے تھے لیکن ساتھیوں کو خوب کھانے کھلاتے تھے ۔
علماء اور طلباء کی اعانت کے لیے آپ اپنا مال بے دریغ خرچ کرتے رہتے تھے ۔
![]() |
Hazrat Abdullah bin Mubarak |
بعض لوگوں نے اظہارِ تعجب کیا تو فرمایا : میں جن طلباء پر مال خرچ کرتا ہوں ان کے علم و فضل اور صدق و دیانت سے بخوبی واقف ہوں ۔ یہ لوگ علم دین کی طلب اور اشاعت میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان کی ذاتی زندگی کی بھی ضرورتیں ہیں جس طرح دوسرے لوگوں کی ہیں ۔ اگر ہم نے انہیں فکر معاش سے بے نیاز کردیا تو یہ یکسوئی کے ساتھ علم کی اشاعت کریں گے اور میرے نزدیک نبوت کے ختم ہونے کے بعد علم کی اشاعت سے افضل دوسرا کوئی کام نہیں ۔
ایک نہایت بد طینت شخص کچھ عرصہ آپ کی صحبت میں رہا اور جب وہ رخصت ہو گیا تو آپ نے روتے ہوئے فرمایا کہ صد حیف وہ تو مجھ سے رخصت ہو گیا لیکن اس کی بری خصلتیں اس سے رخصت نہ ہو سکیں ۔
آپ ایک دن کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں بعض لوگوں نے ایک نابینا سے کہا کہ عبداللّٰہ بن مبارک تشریف لا رہے ہیں اگر کچھ طلب کرنا چاہو تو ان سے درخواست کرنا ۔ چنانچہ اس نے آپ کو روک کر یہ دعا کرنے کی درخواست کی کہ اس کی بینائی واپس آ جائے جب آپ نے دعا کی تو فوراً ہی اس کی بینائی واپس آ گئی ۔
آپ کا یہ معمول تھا کہ ایک سال حج کرتے ، دوسرے سال شریک جہاد رہتے اور تیسرے سال تجارت کرکے جو کچھ بھی نفع حاصل کرتے وہ سب مستحقین میں تقسیم فرما دیتے اور فقراء کو کھجوریں کھلاتے ۔
![]() |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ جب حج کے لیے روانہ ہونے لگتے تو اپنے تمام رفقائے سفر سے فرماتے کہ تم لوگ اپنا اپنا خرچ میرے پاس جمع کرادو ، جب وہ اپنی رقمیں ان کے حوالے کر دیتے تو وہ ہر ایک کی رقم کو الگ الگ تھیلیوں میں بند کرکے ہر تھیلی پر اس کے مالک کا نام لکھ دیتے اور پھر ان سب تھیلیوں کو ایک الگ صندوق میں رکھ کر اس کو مقفل کر دیتے ۔
![]() |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ، Moral Stories |
تمام اخراجات خود اٹھاتے ، لوگوں کو عمدہ کھانے کھلاتے اور ہر طرح کی آسائشیں مہیا کرتے پھر فریضہء حج سے فراغت کے بعد سب کو ان کی امانتیں واپس لوٹا دیتے ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں حج کے لیے روانہ ہوا
![]() |
حج بیت اللّٰہ ، مکہ مکرمہ ، Makkah Saudi Arabia |
لیکن راستے میں کچھ رکاوٹیں پیش آ گئیں اور اتنی تاخیر ہو گئی کہ حج میں صرف چار یوم باقی رہ گئے اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب میں حج سے محروم رہ جاؤں گا پریشان تھا کہ کیا کروں کہ ایک بڑھیا نے آکر مجھ سے کہا : میرے ہمراہ چلو ، میں تمہیں عرفات تک پہنچائے دیتی ہوں چنانچہ میں چل پڑا جب راہ میں کوئی دریا آ جاتا تو وہ کہتی کہ آنکھیں بند کرلو
![]() |
دریا ، حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
جب میں اس پر عمل کرتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ میں صرف کمر کمر تک پانی میں چل رہا ہوں ، اور جب دریا عبور کر لیتا تو وہ کہتی کہ آنکھیں کھول دو اور اسی طرح اس نے مجھے عرفات تک پہنچا دیا ۔
![]() |
میدانِ عرفات ، Mount Arafat Saudi Arabia |
حج سے فراغت کے بعد بڑھیا نے کہا : چلو میں اپنے بیٹے سے تمہاری ملاقات کرواؤں ، جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک نہایت کمزور نورانی صورت کا نوجوان بیٹھا ہوا ہے ماں کو دیکھتے ہی ان کے قدموں میں گر کر کہنے لگا مجھے معلوم ہو چکا ہے تم دونوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے میری تجہیز وتکفین کے لئے بھیجا ہے کیوں کہ میری موت کا وقت بہت ہی قریب ہے یہ کہتے ہی وہ فوت ہو گیا ۔ میں نے غسل دے کر اس کو قبر میں اتار دیا ۔ پھر بڑھیا نے مجھے رخصت کرتے ہوئے کہا : اب تم جاؤ کیوں کہ میں اپنی زندگی بیٹے کی قبر پر گزارنا چاہتی ہوں اور آئندہ سال جب تم آؤ گے تو میں تمہیں نہ مل سکوں گی ۔ لیکن میرے لئے ہمیشہ دعائے خیر کرتے رہنا ۔
آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ عجائبات زمانہ سے آپ نے کیا دیکھا ؟
آپ نے فرمایا : میں نے ایک عیسائی راہب کو دیکھا کہ مجاہدہ اور خدا کی عبادت کر کر کے بہت کمزور اور اپنی کمر کو کمان کی مانند کیے ہوئے تھا ۔
میں نے اس سے پوچھا :
اللّٰہ کی طرف جانے کا راستہ کون سا ہے ؟
اس نے جواب دیا : اگر تو اللّٰہ کو پہچانتا ہے تو اس کی طرف جانے والے راستے کو ضرور جانتا ہے ۔
اس کے بعد اس نے کہا : مجھے دیکھو میں ابھی اسے پوری طرح نہیں پہچانتا اور میں نے اس کی بندگی میں اپنا یہ حال کر لیا ہے اور تو اسے جانتے ہوئے اس کی نافرمانی کرتا ہے ۔ جو شخص خدا کے وجود کا قائل ہو گا وہ اس کی نافرمانی سے بچنے کی کوشش ضرور کرے گا ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے : مجھے راہب کے اس کلام سے بہت نصیحت حاصل ہوئی اور اس کے بعد میں بہت سے ایسے کاموں سے بچ گیا جن کو معمولی سمجھ کر پہلے کر جاتا تھا ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول ہے : اللّٰہ کے دوستوں کے دل کبھی سکون پذیر نہیں ہوتے وہ ہمیشہ بے قرار رہتے ہیں ۔ اس کی وجہ ظاہر ہے ، دل کو سکون یا تو مقصود کو پالینے سے حاصل ہوتا ہے یا اپنے مقصود سے بے خبر ہونے سے ۔
خدا تعالیٰ کے دوستوں کے لیے اپنے مقصود سے بے خبری کا تو کوئی سوال ہی نہیں ، ان کے لیے بے خبری تو درکنار غفلت بھی حرام ہے اور جہاں تک مقصود کو پالینے کا تعلق ہے وہ آخرت ہی میں حاصل ہوگا ۔ دنیا کی زندگی میں تو انہیں کبھی یہ اطمینان بھی حاصل نہیں ہوتا کہ انہوں نے فی الواقع اللّٰہ تعالیٰ کا حق ادا کر دیا ہے جس سے ان کا مقصود انہیں یقیناً مل جائے گا
ایک مرتبہ روم کے گردو نواح میں میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک شخص کو شکنجہ میں کس کر مار رہے ہیں اور ایک شخص دور کھڑا کہہ رہا ہے کہ اس کو اچھی طرح مارو نہیں تو بڑا بت خفا ہو جائے گا جب میں نے مار کھانے والے شخص سے پوچھا کہ یہ لوگ تجھے کیوں پیٹ رہے ہیں ؟ اس نے کہا : ہمارا یہ مذہبی عقیدہ ہے کہ گناہوں سے پاک ہوئے بغیر بڑے بت کا نام زبان سے نہیں نکال سکتے اور اس کے ڈر سے میں گریہ و زاری بھی نہیں کر سکتا ۔
یہ سن کر میں نے اپنے دل میں کہا : خدا کا احسان عظیم ہے کہ اس نے مجھے وہ دین عطا کیا جس میں خدا کا نام لیتے ہی بندہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے اور جب اس کی معرفت حاصل کرتا ہے تو سکوت اختیار کر لیتا ہے
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ جہاد میں شریک ہونے کے لیے بغداد سے
![]() |
بغداد ، Baghdad , Iraq Historical Stories |
مصیصہ کی جانب روانہ ہوئے تو کچھ صوفیاء بھی ان کے شریکِ سفر ہو گئے ۔ آپ نے ان حضرات سے مخاطب ہو کر فرمایا : آپ حضرات کے نفوسِ قانع اس بات پر ناگواری تو محسوس کریں گے کہ آپ کی خدمت میں کوئی سفر خرچ پیش کیا جائے پھر بھی زاد راہ کی ضرورت سے بے نیاز رہنا ممکن نہیں ۔
یہ کہہ کر ایک ملازم کو حکم دیا کہ ایک طشت لائے ۔ وہ طشت لایا تو انہوں نے اس میں معقول رقم رکھ دی اور اس کو ایک رومال سے ڈھانپ دیا پھر ان حضرات سے فرمایا : ہر صاحب باری باری اس رومال کے نیچے ہاتھ ڈال کر جو کچھ مٹھی میں آئے لے لیں انہوں نے ایسا ہی کیا ، کسی کو دس درہم مل گئے کسی کو بیس یا اس سے کم و بیش ۔
مصیصہ پہنچ کر فرمایا : یہ پردیس ہے اور ضروریات باقی ہیں ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے بھی تقسیم کر لیا جائے ۔ یہ کہہ کر ہر ایک کو بیس بیس دینار عطا کیے ۔
![]() |
Gold coins , حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
آپ اکثر طرطوس آتے جاتے رہتے تھے ۔
![]() |
طرطوس ، Tartus , Hazrat Abdullah bin Mubarak |
راستے میں رقہ پڑتا تھا وہاں کی ایک سرائے میں قیام کرتے
![]() |
کاروان سرائے ، Caravan saray |
سرائے میں مقیم ایک نوجوان نہایت اخلاص سے ان کی خدمت کیا کرتا تھا اور ان سے حدیث کا درس بھی لیتا تھا ۔
ایک مرتبہ حسب معمول رقہ کی اس سرائے میں ٹھہرے تو اس نوجوان کو نہ دیکھا ، لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس پر فلاں شخص کا دس ہزار درہم کا قرضہ تھا جسے وہ ادا نہ کر سکا تو قرض خواہ نے دعویٰ کر دیا اور اس نوجوان کو قرض کی عدم ادائیگی کی پاداش میں قید خانے بھیج دیا گیا ۔
![]() |
Prison , قید خانہ ، Moral Stories for children |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ نے قرض خواہ کو رات کے وقت تنہائی میں بلایا اور اسے دس ہزار درہم دے کر کہا : بھائی اس نوجوان کو رہا کرادو ، ساتھ ہی اس سے عہد لیا کہ وہ اس بات کا تذکرہ کسی سے نہیں کرے گا ۔
نوجوان کی رہائی کا انتظام کرکے حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ اسی رات سرائے سے روانہ ہو گئے ۔
نوجوان رہا ہو کر سرائے میں آیا تو اسے حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کی آمد اور روانگی کی اطلاع ملی ، اس کو حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ملاقات نہ ہو سکنے کا اتنا دکھ ہوا کہ وہ اسی وقت طرطوس کی طرف روانہ ہو گیا ، تین چار منزل کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس کا حال احوال دریافت کیا ۔ اس نے عرض کیا : جناب میں قید میں تھا ، ایک نا معلوم شخص نے میرا قرض اپنی طرف سے ادا کر کے مجھے رہا کرا دیا اور مجھے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا معلوم نہیں وہ فرشتہء رحمت کون تھا ؟
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا : بھائی اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے اس نامعلوم شخص کو تمہیں اس مصیبت سے نجات دلانے کی توفیق بخشی ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وفات کے بعد قرض خواہ نے یہ واقعہ لوگوں کو بتایا ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کو عبادت و ریاضت سے بے حد شغف تھا ، رات کا بیشتر حصّہ عبادت میں گزار دیتے ، کثرت سے روزے رکھتے تھے ، دیانت و امانت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ قیام شام کے دوران کسی شخص سے قلم عاریتا لیا ، واپسی پر اسے قلم لوٹانا بھول گئے اور اسے اپنے ساتھ مرو لے آئے ۔ گھر آ کر دیکھا تو یاد آیا ، افسوس کیا اور مرو سے شام تک طویل سفر دوبارہ صرف اس لیے کیا کہ وہ قلم اس کے مالک کے حوالے کر سکیں ۔
![]() |
شام ، Syria , حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
ایک مرتبہ حج سے فراغت کے بعد حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ بیت اللّٰہ میں سو گئے ۔ خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے باہم باتیں کر رہے ہیں ۔ ایک نے دوسرے سے سوال کیا : اس سال کتنے لوگ حج میں شریک ہوئے اور کتنے افراد کا حج قبول ہوا ؟ دوسرے نے جواب دیا کہ چھ لاکھ لوگوں نے فریضہ حج ادا کیا لیکن ایک فرد کا بھی حج قبول نہیں ہوا ۔ ہاں مگر دمشق کا ایک موچی ہے
![]() |
Hazrat Abdullah bin Mubarak |
جو حج میں تو شریک نہیں ہوسکا لیکن خدا نے اس کا حج قبول فرما کر اس کے طفیل میں سب کا حج قبول کر لیا ۔ یہ خواب دیکھنے کے چند دنوں بعد موچی سے ملاقات کرنے کے لئے دمشق پہنچے
![]() |
دمشق ، Damascus , حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ |
اس کا نام و نسب معلوم کر کے حج کا واقعہ دریافت کیا ۔ اس نے اپنا تعارف کرانے کے بعد آپ کا نام پوچھا ۔ آپ نے بتایا کہ عبداللّٰہ بن مبارک ہوں وہ وفور جذبات میں آگے بڑھا اور آپ سے لپٹ گیا ۔
پھر وہ کہنے لگا : بہت عرصہ سے میرے دل میں حج کرنے کی خواہش تھی اور میں نے اس نیت سے تین سو درہم بھی جمع کر لیے تھے ، ایک دن پڑوسی کے گھر سے کھانا پکنے کی خوشبو آئی تو میری بیوی نے کہا کہ اس کے یہاں سے تم بھی کچھ کھانا مانگ لاؤ تاکہ ہم بھی کھائیں ۔
چنانچہ میں نے اس سے جا کر کہا کہ آج آپ نے جو کچھ پکایا ہے ہمیں بھی عنایت کریں ۔
اس نے کہا وہ کھانا آپ کے کھانے کا نہیں ہے کیوں کہ سات یوم سے میں اور میرے اہل و عیال فاقہ کشی میں مبتلا تھے تو میں نے مردہ گدھے کا گوشت پکا لیا ہے ۔ یہ سن کر میں خوف خداوندی سے لرز گیا اور اپنی تمام جمع شدہ رقم اس کے حوالے کر کے یہ تصور کر لیا کہ ایک مسلمان کی امداد کرنا حج کے برابر ہے
حضرت عبد اللّٰہ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا : فرشتوں نے خواب میں واقعی سچی بات کہی تھی اور خدا تعالیٰ حقیقتاً قضاء و قدر کا مالک ہے۔
موسم سرما میں نیشاپور کے
![]() |
نیشاپور ، Neishabur , Iran |
بازار میں آپ نے ایک غلام کو دیکھا جو سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا ۔
آپ نے پوچھا : تم اپنے مالک سے پوستین کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ؟ اس نے جواب دیا میرے مالک کو نظر نہیں آ رہا جو میرے کہنے کی ضرورت پیش آئے ۔
اس جملہ سے آپ کو ایسی عبرت ہوئی کہ آپ نے فرمایا کہ طریقت تو اس غلام سے حاصل کرنی چاہئے ۔
ایک پریشانی کے وقت کچھ لوگ آپ کے پاس دلداری کے لیے حاضر ہوئے ، ان میں ایک آتش پرست بھی تھا اس نے کہا : دانش ور وہی ہے جو اول دن ہی وہ کام انجام دے جس کو نادان تیسرے دن پورا کرتے ہیں ۔
یہ جملہ سن کر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ اس قول کو یاد رکھنا یہ بہت عظیم نصیحت ہے ۔
لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ کون سی عادتیں سود مند ہو سکتی ہیں ؟
فرمایا کہ عقل کا کامل ہونا ۔
لوگوں نے کہا کہ اگر عقل کامل نہ ہو ؟
فرمایا کہ حسن ادب ہو ۔ لوگوں نے کہا اگر یہ بھی نہ ہو فرمایا کہ انتہائی شفیق بھائی بن جائے کہ لوگ اس سے مشورہ کریں ۔
لوگوں نے کہا اگر یہ بھی ممکن نہ ہو سکے ؟
فرمایا سکوت اختیار کرو اور اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر مرگ ناگہاں بہت سود مند ہے ۔
ایک دفعہ وعظ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا : خدا کے راستے میں چلنے والوں کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت خدا کی رضا کی طلب میں مشغول رہتے ہیں ۔ ہمیں کثیر علم کے بجائے قلیل ادب کی زیادہ احتیاج ہے اور لوگ اس وقت ادب کی تلاش میں ہیں جبکہ اہل ادب دنیا سے رخصت ہو چکے ۔ ادب نام ہے نفس شناسی کا ۔ جس کو دنیا والے عزت و وقعت کی نگاہوں سے دیکھتے ہوں اس کو چاہئے کہ وہ خود کو بے وقعت تصور کرتے ہوئے خود فریبی میں مبتلا نہ ہو ۔
جب لوگوں نے سوال کیا کہ قلب کا معالجہ کس طرح کیا جائے ؟ فرمایا کہ قرب الٰہی اور لوگوں سے کنارہ کشی کرنے سے ۔
آپ نے ایک دفعہ یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص نے خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی کوشش کی
![]() |
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ، خانہ کعبہ مکہ مکرمہ |
لیکن گر کر بے ہوش ہو گیا ۔ ہوش میں آنے کے بعد جب میں نے اس کی کیفیت دریافت کی تو اس نے بتایا کہ میں آتش پرست ہوں اور بھیس بدل کر کعبتہ اللّٰہ میں داخلہ کی نیت سے آیا تھا لیکن جیسے ہی میں نے كعبة الله میں داخلہ کا قصد کیا تو ندا آئی کہ دوست کا دشمن بن کر دوست کے مکان میں کیسے داخل ہو سکتے ہو ؟ اور یہ آواز سنتے ہی مجھ پر خوف کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا ۔ اس واقعہ کے بعد اس نے صدق دل سے توبہ کی اور اسلام قبول کرلیا ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ ١٨١ ھ میں جہاد فی سبیل اللّٰہ کے لیے شام گئے ۔
اثنائے سفر میں ہیت کے مقام پر طبیعت خراب ہو گئی یہاں تک کہ جانبری کی کوئی امید نہ رہی ۔
انتقال سے پہلے غلام سے فرمایا : میرا سر زمین پر رکھ دو ، غلام یہ سن کر رونے لگا ، آپ نے پوچھا تم کیوں رو رہے ہو ؟
اس نے عرض کیا : مجھے آپ کے مقام بلند کا خیال آ گیا کہ اللّٰہ اللّٰہ اپنے وقت کی عظیم ترین ہستی اس طرح جان دے رہی ہے .
فرمایا : بھائی اس میں رنج کی کوئی بات نہیں ، میں نے خود بارگاہِ الٰہی میں دعا کی تھی کہ میں بے کسی اور فروتنی کی حالت میں جان دوں ۔
موت سے پہلے آپ نے آنکھیں کھول کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ عمل کرنے والوں کو ایسے ہی عمل کرنے چائیں ۔
چنانچہ انہوں نے اسی حالت میں ١٣ رمضان المبارك ١٨١ ھ کو وفات پائی اس وقت ان کی عمر تریسٹھ برس تھی ۔
مقام وفات ہیت اگرچہ ان کے وطن سے سینکڑوں میل دور تھا لیکن مخلوقِ خدا کے دلوں پر ان کی حکمرانی کا یہ عالم تھا کہ وفات کی خبر پھیلتے ہی لوگ جوق در جوق اس دور افتادہ قصبے کی طرف دوڑ پڑے ، جنازے پر اس قدر ہجوم ہوا کہ ہیت کے حاکم کو اس واقعہ کی اطلاع بغداد بھیجنی پڑی ۔
![]() |
بغداد ، Baghdad , Moral Stories for children |
خلیفہ ہارون الرشید نے یہ خبر سنی تو اس کی زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ آ گئے
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
علماء کے سردار کا انتقال ہو گیا
فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا : ابن المبارک وفات پا گئے لیکن افسوس اس کا ہے کہ جو باقی رہ گئے ان میں کوئی بھی ان کا مثل نہیں ۔
سفیان بن عینیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کہنے لگے : اللّٰہ عبداللّٰہ بن مبارک کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے انہوں نے خراسان میں اپنا کوئی ثانی نہیں چھوڑا
کسی نے حضرت سفیان بن عینیہ کو ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھ کر پوچھا اللّٰہ تعالیٰ کا آپ کے ساتھ کیسا معاملہ رہا ؟ فرمایا : میرے رب نے میری مغفرت فرما دی ۔
پھر اس نے سوال کیا عبداللّٰہ بن مبارک کس حال میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ان کا شمار تو اس جماعت میں ہے جو دن میں دو مرتبہ حضوری کا شرف حاصل کرتی ہے ۔
علم وفضل کے مجمع البحرین حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ
فقیہہِ المشرق و المغرب حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ہارون الرشید سے ملاقات
امام العصر اور یگانہ ء روزگار محدث حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ
امام ابو حنفیہ ، امام سفیان ثوری اور امام اوزاعی سے اکتساب فیض
دمشق کے موچی سے ملاقات
حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نصیحت
Moral Stories
Historical Stories
Moral Stories for children
0 Comments