Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Hazrat Abbas bin Abdul Muttalib ساقی ء حرمین حضرت عباس بن عبد المطلب


حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

 سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت ١٨ ھ میں ایک مرتبہ طویل خشک سالی نے اہل عرب پر قیامت ڈھا دی اور وہ شدید قحط کی لپیٹ میں آ گئے ۔



خشک سالی ، Drought
حضرت عباس بن عبد المطلب ، Moral Stories 

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے
 لوگوں کے مصائب و آلام کم کرنے کے لیے جو بھی انسانی تدبیر ممکن تھی اختیار کی لیکن باران رحمت کے بغیر لوگوں کے مصائب ختم ہوتے نظر نہیں آتے تھے ۔ 
ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے ساتھ نماز استسقاء کے لیے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے ، مجمع میں ایک انتہائی وجیہہ و با رعب بزرگ بھی تھے ۔ 
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا : رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ہم حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے توسل سے بارش کی دعا کیا کرتے تھے اب آپ کے وسیلے سے بارگاہِ الٰہی میں بارش کی استدعا کرتے ہیں ۔

یہ سن کر وہ بزرگ منبر پر تشریف فرما ہوئے ، دست دعا اٹھائے اور نہایت عجز و انکسار کے ساتھ بارگاہِ رب العزت میں بارش کے لیے دعا کی ۔

 تمام حاضرین نے بھی ان کا ساتھ دیا ۔ ابھی وہ دعا مانگ کر فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ یکایک صاف شفاف آسمان پر سیاہ بادل چھا گئے اور شدید بارش شروع ہو گئی ۔

موسلا دھار بارش ، Heavy rain fall
حضرت عباس بن عبد المطلب 

 اس باران رحمت کو دیکھ کر لوگ اس قدر خوش ہوئے کہ بار بار اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور ان بزرگ کے ہاتھ چوم کر کہتے ، ساقئ حرمین مبارک ہو ، ساقئ حرمین مبارک ہو ۔

نورانی صورت کے یہ مستجاب الدعوات بزرگ جن کو اہل مدینہ نے ساقئ حرمین کا خطاب دیا سیدنا حضرت عباس بن عبد المطلب تھے ۔

حضرت عباس بن عبد المطلب سرورِ عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عمر میں صرف تین سال بڑے تھے ، ایک مرتبہ کسی شخص نے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ، آپ بڑے ہیں یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ 

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا : گو میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کچھ سال پہلے پیدا ہوا لیکن درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بڑے ہیں حضرت عباس بن عبد المطلب کی والدہ کا نام نتیلہ تھا ۔

 عہد طفلی میں حضرت عباس بن عبد المطلب ایک مرتبہ گم ہو گئے ، نتیلہ نے نذر مانی کہ اگر انکا گمشدہ فرزند مل گیا تو خانہ کعبہ پر دیبا و حریر کا غلاف چڑھائیں گی ۔

 خوش قسمتی سے حضرت عباس بالکل صحیح و سالم مل گئے چنانچہ ان کی والدہ نے بڑی دھوم دھام سے اپنی منت پوری کی ۔

کہا جاتا ہے کہ وہ پہلی عرب خاتون تھیں جنہوں نے زمانہء جاہلیت میں خانہ کعبہ پر دیبا و حریر کا غلاف چڑھایا ۔

غلاف کعبہ ، حضرت عباس بن عبد المطلب
Moral Stories 


عہد جاہلیت میں حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا شمار قریش کے سربر آوردہ روءسا میں ہوتا تھا اور آپ  ایک کامیاب تاجر تھے ۔ خانہ کعبہ کا انتظام و انصرام اور سقایہ کے فرائض بھی حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ذمہ تھے ۔

قریش نے انہیں ذوالرائ کا خطاب دے رکھا تھا اور تمام اہم معاملات میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے ۔

سرورِ عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو جن سعید الفطرت ہستیوں نے اس پر لبیک کہنے میں سبقت حاصل کی ان میں حضرت عباس کی اہلیہ حضرت ام الفضل رضی  اللّٰہ تعالیٰ عنہا بنت حارث بھی شامل تھیں ، وہ حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کے بعد دوسری خاتون تھیں جو سعادت اندوز ایمان ہوئیں 

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کھلم کھلا قبولِ اسلام کا اظہار تو نہ کیا لیکن مشرکین قریش کے مقابلے میں انہوں نے ہمیشہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حفاظت اور معاونت کی ۔

 معتبر روایات کی رو سے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فتح مکہ سے کچھ عرصہ قبل اپنے اسلام کا اعلان کیا اور اسی موقع پر ہجرت الی المدینہ کا شرف بھی حاصل کیا ۔



مدینہ منورہ ، Madina Munawara
حضرت عباس بن عبد المطلب ، Historical Stories 

دعوتِ توحید کے آغاز کے بعد مشرکینِ مکہ نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو جس طرح ستایا اور حق کے راستے میں جس طرح روڑے اٹکائے ، اس پر آشوب دور میں حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ہمیشہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایام حج میں یا دوسرے مواقع پر قبائل عرب کو دعوتِ توحید دینے تشریف لے جاتے تو کبھی کبھی حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے

ایک مرتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اہل ایمان سے ملاقات کے لیے عقبہ کی گھاٹی کا نشیبی حصہ مقرر فرمایا


عقبہ کی گھاٹی ، حضرت عباس بن عبد المطلب
عقبہ کی گھاٹی ، حضرت عباس بن عبد المطلب 

 مقررہ تاریخ اور وقت پر اوس و خزرج کے اہل ایمان عقبہ کی گھاٹی میں جمع ہوئے تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت عباس کے ساتھ ان کی ملاقات کے لیے تشریف لے گئے 



عقبہ کی گھاٹی ، Historical Stories
  عقبہ کی گھاٹی ، حضرت عباس بن عبد المطلب 


اس موقع پر اہل مدینہ نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی تو حضرت عباس نے ان سے مخاطب ہو کر کہا :

اے گروہ اوس و خزرج ! تم نے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی ہے ، محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے خاندان اور رشتے داروں میں بے حد قدر و منزلت رکھتے ہیں ہم میں سے جنہوں نے ان کا دین قبول کر لیا ہے اور جنہوں نے نہیں کیا ، سب حسب اور شرف کی بنا پر ان کی حفاظت کر رہے ہیں ، مگر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سب کو چھوڑ کر تمہارے پاس ہی جانا چاہتے ہیں ، اب تم دیکھ لو کہ اتنی طاقت ، ہمت اور جنگی بصیرت رکھتے ہو یا نہیں کہ تمام عرب کے مقابلے میں استقامت دکھا سکو کیونکہ عرب متحد ہو کر تم پر یلغار کردیں گے ۔ لہٰذا باہمی مشورہ سے خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو جس پر سب کا اتفاق ہو کیونکہ سب سے اچھی سچی بات ہے ۔

پھر انہوں نے پوچھا : میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم اپنے دشمن سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہو ؟

حضرت عبداللّٰہ بن عمرو نے اٹھ کر کہا :

اے عباس ! خدا کی قسم ہم جنگ آزما لوگ ہیں ۔ رزم آرائی ہم نے اپنے باپ دادا سے ورثہ میں پائی ہے ۔ پہلے ہم دشمن پر تیر برساتے ہیں ، جب تیر ختم ہو جائیں تو نیزوں سے ٹوٹ پڑتے ہیں یہاں تک کہ نیزے بھی بیکار ہو جائیں پھر ہم تلواریں سونت کر دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں یہاں تک کہ ہم مر جاتے ہیں یا دشمن فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے ۔

   حضرت عباس نے کہا : بے شک تم جنگ آزما لوگ ہو ۔

ان کے بعد حضرت براء بن معرور رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور کہنے لگے :

واللّٰہ ہمارے دلوں میں کچھ اور ہوتا تو ہم صاف صاف کہہ دیتے مگر ہم تو محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی وفاداری کرنا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے اپنی جانیں لڑا دینا چاہتے ہیں ۔ ہم نے تلواروں کی گود میں پرورش پائی ہے اور ہم ہمیشہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے سینہ سپر رہیں گے ۔

ان کے بعد اہل مدینہ میں سے کچھ اور اصحاب نے بھی اپنی جانثاری اور وفا شعاری کا یقین دلایا  پھر جب سب لوگ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بیعت سے مشرف ہو چکے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اپنے کاشانہء اقدس کو مراجعت فرمائی ۔

بیعتِ ليلة العقبہ کے تھوڑے ہی عرصے بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔

مدینہ منورہ ، Madina Munawara
حضرت عباس بن عبد المطلب ، Moral Stories for children 

رمضان المبارک ٢ ہجری میں اسلام اور کفر کا پہلا معرکہ غزوہِ بدر پیش آیا ۔ 

بدر کا میدان ، Badar Field
Moral Stories ,  میدانِ بدر

اس موقع پر مسلمانوں کے مقابلے میں اہل مکہ کے لشکر میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جو مجبوراً شریکِ جنگ ہوئے ان میں حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، ابو البختری بن ہشام اور کچھ دوسرے لوگ تھے ۔ 

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو حقیقت حال کا علم تھا اس لیے لڑائی سے پہلے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا ، بعض لوگ زبردستی ہمارے مقابلے پر کھینچ لائے گئے ہیں ، وہ ہم سے قطعاً لڑنا نہیں چاہتے لہذٰا اثنائے جنگ میں عباس بن عبد المطلب اور ابو البختری تمہارے سامنے آ جائیں تو انہیں قتل نہ کرنا ۔

جلیل القدر صحابی حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشاد کی حکمت کو نہ سمجھ سکے اور بول اٹھے

یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! یہ تو حق و باطل کا معرکہ ہے ۔ کیا یہ تفریق نہیں کہ ہم اپنے باپ ، بھائی اور خاندان والوں کو قتل کریں اور عباس اور دوسرے بنو ہاشم کو چھوڑ دیں ۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ کی یہ بات ناگوار گزری ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرطِ غضب سے بے تاب ہو کر اٹھے اور عرض کیا :

یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اگر اجازت ہو تو میں ابو حذیفہ کا سر قلم کر دوں ؟

حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نہایت مخلص اور جانثار صحابی تھے اور یہ جذباتی بات ان کے منہ سے اتفاقاً نکل گئی تھی اس لیے رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے درگزر سے کام لیا ۔

غزوہِ بدر میں مشرکین کو عبرتناک شکست ہوئی ، ان کے تقریباً ستر آدمی میدانِ جنگ میں کام آئے اور اسی قدر مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوگئے ۔ قیدیوں میں حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی مشکیں اس قدر کس کر باندھیں گئیں کہ وہ رات کو تکلیف سے بار بار کراہتے تھے ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کے کراہنے کی آوازیں سن کر بیتاب ہو گئے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آرام نہ فرما سکے اور بے چینی سے پہلو بدلنے لگے ۔

صحابہ کرام نے دریافت کیا : یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مضطرب اور بے چین کیوں ہیں ؟

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے میرے چچا عباس کے کراہنے کی آوازوں نے بے چین کر رکھا ہے ۔

صحابہ کرام نے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر کراہنے کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ ان کا بند بہت سخت ہے ۔ صحابہ کرام نے ان کا بند ڈھیلا کر دیا اور وہ سو گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا : کیا وجہ ہے کہ عباس خاموش ہیں ؟

صحابہ نے عرض کیا :

یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کا بند بہت سخت تھا انہیں اسی کی وجہ سے تکلیف ہو رہی تھی ہم نے اسے ڈھیلا کردیا ہے اور وہ سو گئے ہیں ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو دوسرے قیدیوں کے بند بھی ڈھیلے کر دو ۔

بدر کے قیدیوں کے کپڑے لڑائی میں پھٹ گئے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سب کو کپڑے مہیا کیے جائیں ۔ چنانچہ تمام قیدیوں کو کپڑے دیے گئے لیکن حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا قد اتنا بلند و بالا تھا کہ ان کے بدن پر کسی کا پیرہن ٹھیک نہیں آ رہا تھا ۔

 اس موقع پر رئیس المنافقین عبداللّٰہ بن ابی نے جو حضرت عباس کی طرح بلند قامت تھا ، گھر سے اپنا کرتہ منگوا کر انہیں پہنایا ۔

اس واقعہ کے چند سالوں بعد ابنِ ابی کے مرنے پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک اس کی لاش کو پہنانے کے لیے دیا ، وہ درحقیقت اس کے اسی احسان کا بدلہ تھا ۔

چند دنوں کے بعد سرورِ عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین سے مشورے کے بعد یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ غزوہِ بدر کے جو قیدی فدیہ دینے کی مقدرت رکھتے ہیں ان سے بقدرِ استطاعت فدیہ لیا جائے اور جو فدیہ نہیں دے سکتے لیکن لکھنا پڑھنا جانتے ہیں وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں ، جب وہ اچھی طرح لکھنا سیکھ جائیں تو قیدیوں کو رہا کردیا جائے جو نہ فدیہ دے سکے اور نہ کتابت جانتے ہوں ان کو بطورِ احسان چھوڑ دیا جائے ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا اس لیے انصار نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ عباس ہمارے بھانجے ہیں ، ہم ان کا فدیہ چھوڑتے ہیں ۔

 لیکن حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اصول مساوات کے پیشِ نظر حضرت عباس کے صاحب حیثیت ہونے کی بناء پر انصار کی درخواست کو قبول نہ فرمایا اور حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے بھی فدیہ طلب فرمایا ۔

حضرت عباس مکہ سے اپنے ساتھ بیس اوقیہ سونا اس غرض سے لائے تھے کہ واپسی کے وقت تمام لشکر کو کھانا کھلائیں گے لیکن جب وہ گرفتار ہو گئے تو ان سے سونا لے کر مال غنیمت میں داخل کردیا گیا ۔


سونے کے سکے ، Historical Stories
حضرت عباس بن عبد المطلب ، Historical Stories 


 حضرت عباس نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی کہ وہ بیس اوقیہ سونا میرا فدیہ سمجھا جائے لیکن حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کی استدعا کو قبول نہ کیا ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے زر فدیہ کے جواب میں عرض کیا کہ میں تو در پردہ مسلمان تھا قریش نے مجھے زبردستی اس لڑائی میں شریک کیا ۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : دل کے حال سے اللّٰہ تعالیٰ زیادہ واقف ہیں اگر آپ کی بات درست ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کا اجر دیں گے لیکن بظاہر تو آپ مشرکین کے لشکر میں شامل ہو کر اہل ایمان سے لڑنے آئے تھے اس لیے آپ کو فدیہ دینا ہوگا ۔

اب حضرت عباس نے اپنی بے مائیگی کا عذر کیا اور کہنے لگے بھتیجے یہ بہت شرم کی بات ہوگی کہ آپ کا چچا زر فدیہ کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ۔

ادھر وحیء الٰہی کے ذریعے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے گھریلو حالات کا علم ہو چکا تھا ۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے ۔ مکہ سے چلتے وقت آپ سونے کی ایک بڑی مقدار ام الفضل کے پاس رکھ آئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ معلوم نہیں لڑائی کا کیا انجام ہو اگر میں بخیریت واپس آ گیا تو بہتر ورنہ چاروں بیٹوں میں سے فضل کو اس قدر ، عبداللّٰہ کو اس قدر ، قثم کو اتنا اور عبیداللہ کو اتنا دے دینا ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حیرت سے پوچھا ! آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یہ سب کیسے معلوم ہوا ؟

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے علیم و خبیر ہستی نے بتایا ہے ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بے ساختہ کہا : واللّٰہ اس رقم کا حال میرے اور ام الفضل کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ، بلا شبہ آپ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔

 اس کے بعد حضرت عباس نے اپنا اور اپنے بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کا فدیہ ادا کرکے آزادی حاصل کی

سونے کے سکے ، gold coins
حضرت عباس بن عبد المطلب ، Hazrat Abbas bin Abdul Muttalib 



ایک طرف مدینہ منورہ میں یہ معاملات طے ہو رہے تھے دوسری طرف مکہ مکرمہ میں مشرکین کی ہزیمت کی خبر سن کر حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے اہل خانہ خوشیاں منا رہے تھے ۔

حضرت ابو رافع مولى' رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کہتے ہیں ، میں حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا غلام تھا اور اسلام ہمارے گھر میں داخل ہو چکا تھا ۔ حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، ان کی اہلیہ حضرت ام الفضل رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا اور میں سب اسلام لا چکے تھے مگر حضرت عباس اپنا اسلام چھپائے ہوئے تھے ۔

غزوہِ بدر کے بعد کفار کے ہر گھر میں ماتم برپا تھا ، مشرکین کی شکست کی خبر جب ہمیں پہنچی تو ہمارے ہاں خوشیاں منائی جا رہی تھیں ، میں اس وقت چاہ زمزم کے قریب ایک حجرے میں تیر سازی میں مشغول تھا اور میری مالکہ ام الفضل بھی وہیں موجود تھیں ۔

اتنے میں ابو لہب گھسٹتا ہوا ہماری طرف آیا اور حجرے کی طناب کے پاس ہماری طرف پشت کرکے بیٹھ گیا ۔

تھوڑی دیر بعد ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب ، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ادھر سے گزرے ۔ 

ابو لہب نے انہیں آواز دی بھتیجے ذرا ادھر آنا !

 وہ آئے تو ابو لہب نے ان سے پوچھا : برادر زادے ، کہو بدر میں کیا حالات پیش آئے ؟

ابو سفیان بن حارث کہنے لگے : واللّٰہ مسلمانوں نے ہماری قوت تباہ کر دی ، قریش کی حالت مسلمانوں کے سامنے ایسی تھی جیسے مردہ غسال کے ہاتھوں میں بے بس ہوتا ہے ۔ مسلمانوں نے جس کو چاہا قتل کر لیا اور جس کو چاہا اسیر کر لیا ۔ ایک عجیب منظر ہم نے دیکھا کہ کثیر التعداد سفید پوش ، ابلق گھوڑوں پر سوار مسلمانوں کی مدد کر رہے ہیں ۔

میں نے ابو سفیان بن حارث کی بات سن کر فوراً کہا ، وہ یقیناً فرشتے ہوں گے ۔

اس پر ابو لہب بھڑک اٹھا اور میرے منہ پر زور سے تھپڑ مارا ، میں بھی اس سے لپٹ گیا لیکن وہ طاقتور تھا ، مجھے گرا کر میرے سینے پر چڑھ گیا اور بے تحاشا مارنے لگا ۔

 ام الفضل پہلے تو خاموش بیٹھی دیکھتی رہیں پھر وہ اٹھیں اور ایک موٹا سا لٹھ لے کر اس زور سے ابو لہب کو مارا کہ وہ زخمی ہو گیا پھر اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں :

اس کا آقا یہاں نہیں ہے اس لیے کمزور سمجھ کر اسے مار رہے ہو ؟

ابو لہب کو بھابھی کے سامنے بولنے کی جراءت نہ ہوئی اور وہ وہاں سے چلا گیا ۔

غزوہِ بدر کے بعد حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا فی الحال آپ کا مکہ میں قیام زیادہ مناسب ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھ پر نبوت ختم کی آپ پر ہجرت ختم فرمائیں گے ۔

اوائل ٧ ہجری میں خیبر فتح ہوا

خیبر کا قلعہ  ,  Khyber
  Historical Stories , خیبر کا قلعہ 

 تو ایک صاحبِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت حجاج بن علاط سلمی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر مکہ مکرمہ آئے ، ان کا کل اثاثہ مکہ میں تھا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ، اس کے علاوہ بہت سے لوگوں سے ان کو اپنا قرض بھی وصول کرنا تھا ۔ چونکہ حضرت حجاج بن علاط سلمی غزوہِ خیبر سے چند ہی دن پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اس لیے اہل مکہ کو ان کے قبولِ اسلام کا علم نہ تھا اور نہ ہی غزوہِ خیبر کے نتیجے کا ۔

حضرت حجاج بن علاط سلمی نے اپنی گفتگو سے انہیں یہ تاثر دیا کہ خیبر کی لڑائی میں یہودیوں کا پلہ بھاری رہا اور یہودیوں کو جو مال اسباب ہاتھ آیا ہے عنقریب وہ اسے فروخت کریں گے اگر ان کا قرض وصول ہو جائے تو وہ اسے اپنے اثاثے میں ملا کر دوسرے تاجروں کو باخبر ہونے سے پہلے یہود سے تمام مال غنیمت خرید لیں گے اور اس طرح اہل مکہ کی مالی معاونت کرتے رہیں گے ۔ مشرکین قریش کو اس خبر سے بے پناہ خوشی ہوئی اور سارے مکہ میں جشن کا سماں بندھ گیا ۔ مشرکین کے چند سرداروں نے کوشش کرکے حضرت حجاج بن علاط سلمی کا سارا قرض وصول کرا دیا ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے کانوں تک یہ خبر پہنچی تو انہیں بے حد صدمہ ہوا ان کے اہل خانہ بھی بہت غمگین ہوئے ۔ واقعہ کی تفصیل جاننے کے لیے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حجاج بن علاط سلمی کو بلا بھیجا ۔ وہ آ کر تخلیہ میں ان سے ملے اور بتایا کہ خیبر میں اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح مند کیا ہے ، سرورِ عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالکل خیریت سے ہیں اور رئیس خیبر حئی بن اخطب کی بیٹی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حرم میں داخل ہوئی ہیں ۔ میں خود بھی شرف ایمان سے بہرہ ور ہو چکا ہوں اور اپنا اثاثہ اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آیا ہوں ۔ کفار کو میں نے مسلمانوں کی کمزوری کا تاثر اس لیے دیا کہ وہ میرے مزاحم نہ ہوں ۔ آپ میرے جانے کے بعد تین دن تک اس خبر کو پوشیدہ رکھیں تاکہ اتنی دیر تک میں کسی محفوظ مقام پر پہنچ جاؤں ۔

حقیقت حال سے آگاہ ہو کر حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ چوتھے دن جب انہیں یقین ہو گیا کہ حجاج بن علاط سلمی مشرکینِ مکہ کی دسترس سے باہر ہوگئے ہیں تو نہا دھو کر اور بہترین لباس پہن کر عصا ہاتھ میں لیے خانہ کعبہ آئے اور طواف کرنے لگے  

خانہ کعبہ ، مکہ مکرمہ
خانہ کعبہ 

مشرکینِ مکہ نے طنزیہ انداز میں کہا ، مصیبت میں صبر کے اظہار کا یہ اچھا طریقہ ہے ؟

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا : مصیبت کیسی ؟ خدا کی قسم خیبر کو محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فتح کر لیا ہے اور اب اس کے ایک ایک چپے پر ان کا قبضہ ہے ۔

مشرکین نے حیران ہو کر پوچھا : آپ کو یہ خبر کہاں سے ملی ؟

انہوں نے کہا : حجاج بن علاط سلمی سے ، وہ اسلام قبول کر چکے ہیں اور محض اپنا مال لینے آئے تھے ۔

یہ سن کر کفار سر پیٹ کر رہ گئے ۔

٨ ہجری میں فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اسلام کا کھلم کھلا اظہار کر دیا ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں بھی ہجرت کی اجازت دے دی ۔ چنانچہ وہ اپنے اہل وعیال سمیت مکہ سے مدینہ منورہ آ گئے ۔

مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، مدینہ منورہ
مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم 

 حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کی بڑی پذیرائی فرمائی اور مدینہ منورہ میں ان کی مستقل سکونت کا انتظام کر دیا ۔

فتح مکہ کے موقع پر حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان دس ہزار جانبازوں میں شامل تھے جن کو سرورِ عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ کے قریب پہنچ کر مر الظہران میں قیام فرمایا ۔ لشکرِ اسلام میں شامل بہت سے صحابہ کرام کے عزیز و اقارب مکہ میں موجود تھے ۔ حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہو گئے اور قریش نے پہلے سے جان و مال کی امان نہ لے لی تو سب برباد ہو جائیں گے ۔ 

چنانچہ وہ اس تلاش میں لشکر سے باہر نکلے کہ مکہ کا کوئی آدمی مل جائے تو اس کے ہاتھ قریش کو پیغام بھیجیں کہ مر الظہران آ کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے امان کی استدعا کریں ۔ اتفاق سے انہیں قریش کے سربر آوردہ رئیس حضرت ابو سفیان بن حرب مل گئے ۔ حضرت عباس نے انہیں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر دی تو وہ سراسیمہ ہو گئے اور حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی کہ وہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں جائیں ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے انہیں اپنے ساتھ سواری پر سوار کیا اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے خیمہ اقدس کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی نظر ان پر پڑی تو وہ جوش غضب سے پکارے : اے دشمن خدا ! شکر ہے ہمارے رب کا کہ اس نے کسی عہد و پیمان اور ذمہ داری کے بغیر ہمیں تجھ پر قابو دے دیا ۔

لیکن حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ساتھ تھے اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ مزید کچھ کہے بغیر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے ، حضرت عباس بھی ادھر آ گئے 

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : یہ ابو سفیان ہے اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں بغیر کسی عہد و پیمان کے اس پر قابو دے دیا ہے ، اجازت ہو تو اس دشمن خدا کی گردن اڑا دوں ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں نے اس کو پناہ دی ہے ۔

 حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ برابر ابو سفیان بن حرب کے قتل کی اجازت طلب کر رہے تھے ۔

 ان کا اصرار دیکھ کر حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : عمر ! اگر تمہارے قبیلہ کا کوئی آدمی ہوتا تو تم کبھی اس کی جان لینے پر اتنا اصرار نہ کرتے لیکن تمہیں بنی عبد مناف کی کیا پرواہ ؟

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا : عباس ! خدا کی قسم ، اگر میرا باپ خطاب اسلام قبول کر لیتا تو مجھے جتنی خوشی ہوتی اس سے کہیں زیادہ خوشی آپ کے اسلام قبول کرنے کی ہوئی تھی ۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : اس وقت انہیں اپنے ساتھ لے جائیں اور کل صبح پھر ساتھ لے کر آئیں اسی وقت کوئی فیصلہ کیا جائے گا ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ انہیں لے گئے اور دوسرے دن پھر بارگاہِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں پیش کیا ۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابو سفیان بن حرب سے مخاطب ہو کر فرمایا :

ابو سفیان کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم خدا کی وحدانیت کا اقرار کرو ۔

ابو سفیان بن حرب نے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔

پھر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم مجھے اللّٰہ تعالیٰ کا رسول مانو ؟

جواب میں ابو سفیان نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شرافت ، حلم و بردباری اور صلہء رحمی کا اعتراف کیا اور پھر کچھ پس و پیش کے بعد کلمہ توحید پڑھ کر مشرف بہ ایمان ہوئے ۔

جب وہ جانے لگے تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر کھڑا کر دیں تاکہ وہ لشکرِ اسلام کے جلال اور اللّٰہ تعالیٰ کے سپاہیوں کے جوش ایمان کا منظر دیکھ سکیں ۔


مکہ مکرمہ ، Makkah
مکہ مکرمہ ، Moral Stories for children 

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہوگئے اور جب تک سارا لشکر ان کے سامنے سے نہ گزر گیا وہیں کھڑے رہے ۔

فتح مکہ کے بعد حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ غزوہِ حنین میں شریک ہوئے ۔ جب بنو ہوازن کی بے پناہ تیر اندازی سے مسلمانوں کی صفیں ابتر ہو گئیں تو حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان چند سرفروشوں میں تھے جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ میدانِ جنگ میں کوہ استقامت بن کر کھڑے رہے ۔ حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سواری کی باگ تھام رکھی تھی اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے

انا النبی لا کذب                                    انا ابن عبد المطلب

میں نبی ہوں اس میں مطلق کوئی جھوٹ نہیں

میں عبد المطلب کا فرزند ہوں

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں :

لڑائی میں جب مشرکوں کا غلبہ ہوا اور مسلمانوں میں انتشار پیدا ہوا تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ نیزہ برداروں کو آواز دوں ۔ قدرت نے مجھے بلند آواز دی تھی ۔ میں نے پوری قوت سے کہا :

این اصحاب الشجرہ ؟ اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو کہاں ہو ؟

میری آواز سنتے ہی تمام مسلمان پلٹ آئے اور انہوں نے کفار کو اپنی تلواروں اور نیزوں پر رکھ لیا ۔

غزوہِ حنین کے بعد حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے غزوہِ طائف اور غزوہِ تبوک ( جیش عسرة ) میں رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کا شرف حاصل کیا ۔ انہوں نے غزوہِ تبوک کے لیے مالی امداد بھی دی ۔

تبوک ، Tabuk
 حضرت عباس بن عبد المطلب ، تبوک 

١٠ ھ میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم حجة الوداع کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی ساتھ تھے ۔ 

خطبہء حجة الوداع میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سودی کاروبار کے باطل ہونے کا اعلان فرمایا تو اس سلسلے میں خاص طور پر حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا کیونکہ وہ اسلام سے پہلے سود کا کاروبار کیا کرتے تھے اور بہت سے لوگوں کے ذمہ ان کا سود باقی تھا ۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جاہلیت کے تمام سود باطل کر دیے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان اور چچا عباس کا سود باطل کرتا ہوں ۔

حجة الوداع سے واپس آ کر ( صفر ١١ ھ میں ) رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیل ہو گئے ۔ ازواجِ مطہرات ، حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے بنو ہاشم نے تیمارداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی علالت بڑھتی ہی گئی ۔

 وفات کے دن حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حجرہء اقدس سے باہر نکلے تو لوگوں نے پوچھا : رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟

چونکہ اس دن بظاہر افاقہ ہو گیا تھا ، حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے رو بہ صحت ہیں ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور انہیں الگ لے جا کر کہا ، علی تم کس خیال میں ہو ؟ میں خاندان عبد المطلب کے چہروں سے موت کا اندازہ کر لیتا ہوں ، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا چہرہء اقدس بتا رہا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہت جلد ہمیں داغ مفارقت دے جائیں گے ۔

اگلے دن آفتابِ رسالت اللّٰہ تعالیٰ کی شفق رحمت میں غروب ہوا تو تجہیز وتکفین کی خدمت حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت فضل بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت قثم بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے انجام دی ۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی تمام صحابہ کرام حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نہایت عزت و احترام سے پیش آتے اور ہر اہم کام میں ان سے مشورہ لیتے ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا بہت خیال رکھا ، اگر وہ سواری پر کہیں جا رہے ہوتے اور راستے میں حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ مل جاتے تو وہ فوراً سواری سے اتر جاتے اور حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو سواری پر بٹھا کر اس کی لگام پکڑ کر پیدل ساتھ چلتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے مکان پر یا جہاں ان کو جانا ہوتا پہنچ جاتے ۔

 حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں وظائف پر نظر ثانی کی تو حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا وظیفہ اصحابِ بدر کے وظیفہ کے برابر کردیا ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا مکان مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے متصل تھا اور اس کا پرنالہ مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں گرتا تھا جس کی وجہ سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔   حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اس پرنالے کو اکھڑوا دیا ، اس وقت حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے مکان پر موجود نہ تھے ۔ وہ باہر سے واپس آئے تو پرنالے کے اکھڑوائے جانے پر بہت ناراض ہوئے اور حضرت ابی بن کعب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی عدالت میں حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر دعویٰ دائر کر دیا ۔

عدالت ، Justice
Hazrat Abbas bin Abdul Mutlib 


حضرت ابی بن کعب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو جواب دہی کے لیے بلا بھیجا ۔ خلیفہء وقت نے عدالت میں حاضر ہو کر کہا : میں نے پرنالہ اس لیے اکھڑوا دیا کہ اس کے پانی سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی تھی میری کوئی ذاتی غرض اس میں پنہاں نہ تھی ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہا : واقعہ یہ ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی سے جو نشانات لگائے میں نے ان کے مطابق مکان بنوایا ، مکان بن گیا تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے کندھوں پر کھڑے ہو جاؤ اور پرنالہ یہاں لگا دو ۔

پھر حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیان کی تائید میں چند گواہ بھی پیش کر دیے ، ابھی عدالت نے کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا تھا کہ امیر المؤمنین آگے بڑھے اور حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا ،

اے ابو الفضل ، خدا کے لیے میرا قصور معاف کر دیجئے ، مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پرنالہ اس جگہ لگوایا تھا ، اب آپ میرے کندھوں پر کھڑے ہو جائیے اور پرنالے کو اس کے مقرر مقام پر لگا دیجیئے ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے پرنالہ اسی مقام پر لگا دیا اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا ، امیر المؤمنین ، آپ کی انصاف پسندی کی بدولت مجھے میرا حق مل گیا ہے ، اب میں برضا و رغبت اپنے سارے مکان کو خدا کی راہ میں وقف کرتا ہوں ، آپ اسے گرا کر مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں شامل کر لیں ، جگہ کی تنگی کی وجہ سے نمازیوں کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ دور ہو جائے گی ۔

حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے ، ان کے عہد خلافت میں ایک مرتبہ کسی شخص نے حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی توہین کی ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اسے درے لگوائے ، بعض لوگوں نے اس سزا پر اعتراض کیا تو حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تو اپنے چچا کی تعظیم کریں اور میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چچا کی توہین کیے جانے پر رخصت دے دوں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جو شخص اس بات کو روا رکھتا ہے ، وہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے ۔

اس پر اعتراض کرنے والوں کا منہ بند ہو گیا ۔

حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت ٣٢ ھ میں وفات پائی ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے انہیں لحد میں اتارا ۔ 

ساقیء حرمین حضرت عباس بن عبد المطلب 

Hazrat Abbas bin Abdul Muttalib 

Moral Stories

Historical Stories

Moral Stories for children





Post a Comment

0 Comments