حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں مصر کی فتح کے فوراً بعد امیر مصر حضرت عمرو بن العاص کی افواج نے شمالی افریقہ کی طرف پیش قدمی کی اور شمالی ساحل کے قبائل کو مغلوب کرتی ہوئی برقہ تک جا پہنچیں اور وہاں اسلامی علم لہرا دیا
![]() |
حضرت عقبہ بن نافع فہری ، شمالی افریقہ |
خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا عہد خلافت آیا تو لشکرِ اسلام نے والئ مصر حضرت عبداللہ بن ابی سرح کی زیر قیادت طرابلس الغرب (لیبیا) پر چڑھائی کر دی ۔
![]() |
(طرابلس الغرب ( لیبیا |
اس زمانے میں افریقہ اور طرابلس پر قیصر روم کا ایک بطریق گریگوریس حکومت کر رہا تھا ۔ مسلمانوں نے ایک خونریز جنگ کے بعد اسے شکست دی اور اس پورے علاقے پر قابض ہو گئے ۔
رومیوں نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی کہ مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی قوت سے مقابلے کا خیال ترک کر دیں ۔ چنانچہ انہوں نے پچیس لاکھ دینار سالانہ پر مسلمانوں سے صلح کر لی ۔
![]() |
Moral Stories |
اسلامی لشکر تقریباً دو سال بلادِ مغرب میں مقیم رہ کر واپس چلا گیا ۔
مسلمانوں کے چلے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد رومیوں نے اپنا عہد و پیمان توڑ ڈالا اور اسلامی حکومت کی اطاعت سے منحرف ہو گئے ۔
لیکن پھر کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ مسلمان ایک عرصہ تک اس طرف توجہ نہ کرسکے یہاں تک کہ ٤١ ھ میں حضرت امیر معاویہ کا دور حکومت شروع ہو گیا
انہوں نے ٤٥ ھ میں معاویہ بن خدیج کی سرکردگی میں ایک لشکر شمالی افریقہ کی تسخیر کے لیے روانہ کیا ۔
اس لشکر نے رومیوں کو شکست فاش دے کر شمالی افریقہ کے کئی وسیع علاقے اور ساحلی مقامات فتح کر لیے لیکن وہ رومیوں اور سرکش بربریوں کی متحدہ قوت کا پوری طرح استیصال نہ کرسکے ۔
درحقیقت رومیوں اور بربروں کی جبلت ہی ایسی تھی کہ جب تک ان کے سر پر فوجی قوت مسلط رہتی وہ مطیع رہتے ذرا سی ڈھیل بھی ملتی تو فوراً باغی ہو جاتے ۔
اس صورتحال میں حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی نظر انتخاب ایک ایسے مرد مجاہد پر پڑی جس کی شجاعت ، بہادری اور شوق جہاد کی شہرت مصر سے نکل کر مرکز حکومت دمشق تک آ پہنچی تھی ۔
![]() |
دمشق |
یہ مرد مجاہد مشہور صحابی حضرت عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فاتح مصر کے بھانجے حضرت عقبہ بن نافع فہری تھے ۔
حضرت عقبہ بن نافع کی پرورش اور تعلیم و تربیت نہایت پاکیزہ ماحول میں ہوئی ، وہ جوان ہوئے تو اپنے اعلیٰ کردار ، شجاعت و صالحیت ، ذوقِ عبادت اور شوق جہاد کی بناء پر نہ صرف بنو فہر بلکہ دوسرے لوگوں میں بھی نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے ، لوگ انہیں مستجاب الدعوات جوان صالح سمجھتے تھے ۔
نوجوانی میں وہ اپنے ماموں حضرت عمرو بن العاص کے پاس مصر چلے گئے اور دشمنان اسلام کے خلاف کئی معرکوں میں داد شجاعت دی ۔
![]() |
مصر |
حضرت عمرو بن العاص کے زمانہ ولایت میں ایک مرتبہ حضرت عقبہ بن نافع مصر کے کسی گاؤں میں گئے اور وہاں قیام کیا
![]() |
مصر ، حضرت عقبہ بن نافع فہری |
ان کے ساتھ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چند صحابہ کرام تھے ۔ جن میں جلیل القدر صحابی حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص بھی شامل تھے ۔
ایک دن ان سب کے سامنے دسترخوان بچھا ہوا تھا کہ اچانک ایک چیل نے کھانے پر جھپٹا مارا اور ایک ہڈی لے اڑی یہ دیکھ کر حضرت عقبہ کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا
خدا کرے اس کی گردن ٹوٹ جائے
یہ کہنا تھا کہ وہ چیل سر کے بل گری اور اس کی گردن ٹوٹ گئی ۔
حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص نے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا ۔ حضرت عقبہ نے پوچھا ، ابو عبداللّٰہ کیا ہوا ؟ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے فرمایا ، اس جانب بعض لوگ لشکر کشی کریں گے اور سب کے سب شہید ہو جائیں گے ۔
یہ بات سنتے ہی حضرت عقبہ بن نافع نے دعا کی کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا کے لیے شہید ہوئے ۔
حضرت عمرو بن العاص نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے حضرت عقبہ کو عساکر افریقہ کا سپہ سالار مقرر کیا ، اسی زمانے میں انہوں نے سوڈان پر یلغار کی اور کئی علاقوں کو فتح کرتے ہوئے غذامس تک پہنچ گئے ۔
![]() |
سوڈان |
![]() |
حضرت عقبہ بن نافع فہری |
٥٠ ھ میں حضرت امیر معاویہ نے شمالی افریقہ کی مہم کا امیر مقرر کیا تو انہوں نے دس ہزار سرفروشوں کے ساتھ ایسی یلغار کی کہ سارے بلادِ مغرب میں بھونچال آگیا ۔
مجاہدینِ اسلام نے تیونس (قرطاجنہ) تک کا سارا علاقہ فتح کرلیا اور رومیوں اور بربریوں کی سخت گوشمالی کی ۔
اس مہم کے دوران ایک مرتبہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ ایک لق و دق صحرا سے گزر رہے تھے کہ لشکر کے پاس پانی ختم ہوگیا
دور دور تک پانی یا کسی آبادی کا نام و نشان نہ تھا ، لوگ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بہت دوڑے لیکن ناکام واپس آئے ۔ یہ بہت نازک وقت تھا ، ہزاروں آدمیوں اور جانوروں کی زندگیاں خطرے میں تھیں ۔ حضرت عقبہ نے دو رکعت نماز پڑھ کر ایک طویل دعا کی ، اسی وقت حضرت عقبہ کے گھوڑے نے اپنے سم سے زمین کو کریدنا شروع کر دیا ۔ جب تھوڑی سی ریت ہٹ گئی تو ایک بڑا سا پتھر دکھائی دیا ، حضرت عقبہ کے حکم سے اس پتھر کو ہٹایا گیا تو اس کے نیچے سے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا ایک چشمہ نکل آیا ۔ اہلِ لشکر نے اس چشمے سے چھوٹی چھوٹی نالیاں مختلف سمتوں میں نکالیں اور اپنی مشکوں میں پانی بھر لیا ۔ اس کے بعد اس واقعہ کی نسبت سے اس مقام کا نام ماء الفرس گھوڑے کا چشمہ مشہور ہو گیا ۔
![]() |
حضرت عقبہ بن نافع فہری ، Moral Stories |
بلاد مغرب کی مہم سے فراغت کے بعد حضرت عقبہ نے ارادہ کیا کہ اس علاقے میں ایک ایسا شہر بسانا چاہیے جو اسلامی قوت کا مرکز ہو اور نہ صرف سرکش بربریوں کی شورشوں کی روک تھام کرسکے بلکہ رومیوں کے بحری حملوں کا مؤثر دفاع بھی کر سکے ۔
![]() |
بحری بیڑا |
چنانچہ انہوں نے صوبہ بیزاسین کے وسط میں القیروان کے مستحکم فوجی قلعے اور شہر کی بنیاد رکھی ۔
حضرت عقبہ نے جو جگہ شہر کی تعمیر کے لیے منتخب کی وہاں میلوں تک گھنا جنگل اور دلدلی علاقہ تھا جو حشرات الارض اور خونخوار درندوں کا مسکن تھا ۔ جب انہوں نے ایسے خطرناک علاقے میں شہر کی تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا تو ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا : اے امیر آپ نے ایسے گھنے جنگل اور دلدلی علاقہ میں شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے کہ سانپ اور خونخوار درندوں کے ڈر سے کوئی اس علاقے میں قیام نہیں کرنا چاہیے گا ۔
لشکر میں اٹھارہ صحابہ کرام اور باقی تمام تابعین تھے ۔ حضرت عقبہ نے ان تمام اصحاب کے ساتھ مل کر بارگاہِ رب العزت میں دعا کی ، الٰہی تو ہمیں اپنے فضل و کرم سے نواز اور ہمیں یہ شہر آباد کرنے کی توفیق عطا فرما
پھر حضرت عقبہ جنگل کے قریب گئے اور پکار کر کہا ،
اے سانپوں اور اے درندوں ، ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اصحاب اور تابعین ہیں ۔ تم یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ ہم یہاں اقامت اختیار کرنے والے ہیں ۔ اگر تم یہاں سے نہ گئے تو ہم تمہیں ہلاک کرنے میں آزاد ہوں گے ۔
اس کے بعد چشم فلک نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ تمام درندے اپنے بچوں کو اٹھائے جنگل سے بھاگ رہے ہیں اور سانپ اور بچھو بھی ان کے پیچھے پیچھے جا رہے ہیں ۔ اس طرح دیکھتے دیکھتے وہ پورا علاقہ تمام حشرات الارض اور خونخوار درندوں سے خالی ہو گیا ۔ اس کے بعد درخت کاٹ کر شہر کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا ۔
کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد چالیس برس تک اہل افریقہ نے اس علاقے میں کسی سانپ ، بچھو یا درندے کا نام و نشان تک نہ پایا ۔
حضرت عقبہ نے سب سے پہلے دارالامارہ اور جامع مسجد کے لیے چار دیواری بنوائی ۔ اس موقع پر قبلہ کی سمت کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا جس نے آہستہ آہستہ شدت اختیار کر لی
حضرت عقبہ کو اس سے بہت تشویش ہوئی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس مشکل کے حل کی خوب دعائیں کیں ۔
ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک نورانی صورت بزرگ ان سے کہہ رہے ہیں کہ پو پھٹنے کے بعد تم تکبیر کی آواز سنو گے جسے کوئی دوسرا نہ سن سکے گا ۔ اس آواز کے تعاقب میں جانا ، جہاں وہ آواز سُنائی دینا بند ہو جائے وہی تمہارا مقام قبلہ اور محراب ہے ۔
اس کے بعد ان کی آنکھ کھل گئی ۔ رات کا پچھلا پہر تھا ، انہوں نے وضو کیا اور نماز پڑھی پھر صبح کے انتظار میں بیٹھ گئے ۔
پو پھٹنے کے کچھ ہی دیر بعد انہیں تکبیر کی آواز سنائی دی ، اپنے قریب موجود لوگوں سے دریافت کیا کہ انہیں کوئی آواز سُنائی دے رہی ہے ، لوگوں نے کہا نہیں ، حضرت عقبہ بن نافع کو یقین ہو گیا کہ قبلہ کے سمت کی تعین میں ان کی راہنمائی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہو رہی ہے انہوں نے آواز کی سمت میں چلنا شروع کر دیا ، لوگوں کا ایک جم غفیر بھی ان کے ساتھ تھا آخر اس محراب میں پہنچے جو جامع مسجد کی چار دیواری میں پہلے سے تعمیر کی جا چکی تھی وہاں تکبیر کی آواز آنا بند ہو گئی ۔ اس مقام پر انہوں نے ایک جھنڈا گاڑ دیا اور لوگوں سے کہا ، یہ تمہاری محراب اور سمت قبلہ ہے ۔
یہ قضیہ طے ہو جانے کے بعد شہر کی تعمیر تیزی سے شروع ہو گئی اور جلد ہی القیروان کا عظیم الشان شہر وجود میں آگیا ۔ اس کی جامع مسجد نہایت شاندار تھی ۔
القیروان کی تاسیس سے مسلمانوں کو ایک مضبوط فوجی مستقر مل گیا اور اس کے ساتھ ہی افریقہ میں اشاعتِ اسلام کا راستہ ہموار ہو گیا ۔
حضرت عقبہ نو تعمیر شہر میں زیادہ عرصہ قیام نہ کر پائے ، القیروان کے آباد ہونے کے فوراً بعد حضرت امیر معاویہ نے حضرت مسلمہ بن مخلد انصاری کو مصر اور افریقہ کا والی مقرر کیا ۔
حضرت مسلمہ نے حضرت عقبہ کو معزول کرکے ان کی جگہ اپنے ایک غلام ابو المہاجر کو افریقہ کا والی مقرر کیا ، ابو المہاجر نے قیروان پہنچ کر حضرت عقبہ کے شایانِ شان برتاؤ نہ کیا اس سے انہیں رنج ہوا اور انہوں نے دمشق جا کر امیر معاویہ سے ابو المہاجر کی شکایت کی ۔ حضرت امیر معاویہ نے انہیں دوبارہ افریقہ کی ولایت پر بھیجنے کا وعدہ کیا لیکن اپنی زندگی میں انہیں یہ وعدہ پورا کرنے کا موقع نہ مل سکا کیونکہ ابو المہاجر نے الجزائر کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی ۔
ابو المہاجر الجزائر میں داخل ہو کر تلمستان تک بڑھتے چلے گئے ، اس دوران انہوں نے ایک ممتاز بربری سردار کسیلہ برنسی کو شکست فاش دی ۔ شکست کھانے کے بعد کسیلہ نے اسلام قبول کر لیا اور ابو المہاجر نے اس کے مرتبے کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اپنے مشیروں میں شامل کر لیا ۔
حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد ان کے جانشین نے حضرت عقبہ بن نافع کو دوبارہ افریقہ کا والی مقرر کردیا ۔
حضرت عقبہ نے افریقہ پہنچ کر عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی ۔ چونکہ سرکش بربری اور رومی نت نئے فتنے اٹھاتے رہتے تھے حضرت عقبہ نے عزم کر لیا کہ خواہ انہیں ساری عمر لڑنا پڑے وہ ان سرکش بربریوں کی بیخ کنی کرکے رہیں گے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے بچوں کو بلایا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا ، میرے بچو ! میں نے اپنی جان کو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیچ دیا ہے لہٰذا جب تک زندہ رہوں گا کفار سے جہاد کرتا رہوں گا
اس کے بعد وہ جری فوج کے ساتھ قیروان سے وسطی المغرب کی طرف بڑھے اور باغہ پہنچ کر پڑاؤ ڈالا ، وہاں بڑی تعداد میں رومی اور بربری جمع تھے حضرت عقبہ نے ایک خونریز معرکہ میں اس متحدہ لشکر کو شکست دی ۔ یہ لوگ شکست کھا کر شہر میں محصور ہو گئے ۔ لشکرِ اسلام نے کچھ عرصہ ان کا محاصرہ کیا لیکن محصورین نے شہر سے باہر نکلنے کی ہمت نہ کی ۔
![]() |
حضرت عقبہ بن نافع فہری |
حضرت عقبہ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد آگے بڑھے اور زاب کے علاقہ میں واقع رومیوں کے ایک بڑے مرکز لمیس پر دھاوا بول دیا رومیوں کے لشکر جرار نے بری طرح شکست کھائی ۔
حضرت عقبہ نے آگے بڑھ کر فزان کو جا گھیرا ۔ وہاں کے حکمران کو مقابلہ کرنے کی جراءت نہ ہوئی اور اس نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی ۔ فزان کی تسخیر کے بعد حضرت عقبہ نےودان ، قفصہ اور قسطیلہ پر پرچمِ اسلام بلند کیا اور تھوڑے وقفے کے بعد اربہ کے مقام پر رومیوں کے ایک زبردست لشکر کو شکست دے کر تاہرت کا رخ کیا ۔
وہاں کے رومیوں کو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنی مدد کے لیے بربریوں کو بلا لیا ۔ اس طرح رومیوں اور بربریوں کا ایک بہت بڑا لشکر جمع ہو گیا ۔ مسلمانوں کی تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم تھی لیکن وہ اپنی جانیں راہ حق میں وقف کر چکے تھے اس لیے دشمن کی کثرتِ تعداد کو خاطر میں نہ لائے اپنی مضبوط ایمانی قوت ، تدبر اور انتہائی جوش کے ساتھ لشکرِ کفار پر حملہ آور ہو گئے ، رومی اور بربری جنگجو جان توڑ کر لڑے لیکن مسلمان سرفروشوں کے سامنے ان کی کچھ پیش نہ چلی اور بالآخر انہیں شکست فاش ہوئی ۔ تاہرت سے حضرت عقبہ نے طنجہ کا رخ کیا جو بحر روم کے کنارے افریقہ کا آخری شہر اور رومیوں کا ایک مضبوط مرکز تھا ۔
وہاں کا حاکم جولیان بڑے اثر و اقتدار کا مالک تھا اور مغرب کے بیشتر حکمران اس کے باجگزار تھے اس نے حضرت عقبہ سے شکست کھا کر ان کی اطاعت قبول کر لی ۔
حضرت عقبہ کا ارادہ تھا کہ طنجہ سے آبنائے جبل الطارق کو عبور کرکے اندلس پر حملہ آور ہوں لیکن جولیان نے انہیں مشورہ دیا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں کیونکہ کوہ اطلس کبیر اور سوس کے بربر کسی بھی وقت اسلامی اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں ۔
حضرت عقبہ نے طنجہ سے سوس ادنیٰ کا رخ کیا اور راستے میں موجود تمام بربر قبائل کو مغلوب کرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے شمالی ساحل پر پہنچ گئے
![]() |
بحر اوقیانوس |
پھر انہوں نے تلوار لہراتے ہوئے اپنے برق رفتار گھوڑے کو سمندر میں ڈال دیا ۔
![]() |
سمندر |
حضرت عقبہ بن نافع فہری سارا شمالی افریقہ فتح کر چکے تھے لیکن جذبہ جہاد کا یہ عالم تھا کہ بحر اوقیانوس کی وسعتوں کو اپنے راستے میں حائل دیکھ کر انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا خدایا ، تیرا یہ عاجز بندہ اس نیت سے گھر سے نکلا تھا کہ تیرے ولی ذوالقرنین کی طرح زمین کی آخری حدوں تک تیرا نام بلند کرے تاکہ تیرے سوا کسی دوسرے کی پرستش نہ کی جائے لیکن آج اس سمندر نے میرا راستہ روک لیا ہے ۔ اے اللّٰہ ! اگر یہ سمندر میرے راستے میں حائل نہ ہوتا تو جہاں تک زمین ملتی میں تیری راہ میں جہاد کرتا چلا جاتا ۔
جب پانی گھوڑے کی رانوں تک پہنچ گیا تو انہوں نے اسے روک لیا اور بڑی بے دلی کے ساتھ ساحل سے واپس چلے گئے ۔
![]() |
Moral Stories |
حضرت عقبہ کی فتوحات نے تمام شمالی افریقہ پر مسلمانوں کی ہیبت کا سکہ بٹھا دیا تھا اور بظاہر ان کی حریف کوئی بڑی قوت باقی نہ رہی تھی لیکن دفعتاً کسیلہ برنسی کی غداری نے سارے افریقہ میں انقلاب برپا کر دیا ۔
کسیلہ برنسی حضرت عقبہ کے پیش رو ابو المہاجر سے شکست کھا کر مسلمان ہو گیا تھا اور ان کا مشیر بن گیا تھا ۔
حضرت عقبہ نے دوسری مرتبہ افریقہ کی عنان حکومت سنبھالی تو ابو المہاجر نے ان سے کسیلہ کی سفارش کی اور اس کے مرتبے کا لحاظ رکھنے کا مشورہ دیا ۔لیکن کچھ ہی دنوں بعد بعض اطلاعات کی بنیاد پر احتیاطی تدابیر کے پیش نظر انہوں نے ابو المہاجر اور کسیلہ دونوں کو گرفتار کرلیا اور اپنی مہمات کے دوران انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا ۔ کسیلہ کے خلاف صرف اتنی کاروائی کی کہ اس کو مجلسِ مشاورت سے علیحدہ کرکے ایک عام سپاہی کی حیثیت دے دی کسیلہ نے اسے اپنی توہین سمجھا اور وہ حضرت عقبہ کا جانی دشمن بن گیا اور ان سے بدلہ لینے کے لیے موقع کی تلاش میں رہنے لگا ، تاہم اس نے اپنے ظاہری رویہ میں کوئی فرق نہ آنے دیا ۔
حضرت عقبہ بحر اوقیانوس کے شمالی ساحل کی مہم سے فراغت کے بعد واپس آتے ہوئے طنبہ کے مقام پر پہنچے تو اس اطمینان کے ساتھ کہ اب کوئی مخالف و مزاحم باقی نہیں رہا انہوں نے اپنی فوج کو منتشر کر دیا ۔ انہوں نے اپنے لشکر کو متعدد دستوں میں تقسیم کرکے قیروان کی جانب روانہ کر دیا اور اپنے ساتھ ایک مختصر سی جمعیت رکھی ، اس دوران کسیلہ ان کے لشکر سے فرار ہو گیا اور مسلمانوں سے مقابلے کے لیے فوج جمع کرنی شروع کر دی ۔
حضرت عقبہ اپنی مختصر جمعیت کے ساتھ آگے بڑھے اور صحرا کے کنارے تہودا کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا ،
![]() |
حضرت عقبہ بن نافع فہری ، Moral Stories |
رومی حضرت عقبہ کے ساتھ اتنے کم آدمی دیکھ کر مقابلہ پر آمادہ ہو گئے ۔ انہیں کسیلہ کی حضرت عقبہ سے عداوت کا علم تھا چنانچہ انہوں نے عین اس وقت جب مسلمان تہودا کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے کسیلہ کو پیغام بھیجا کہ عقبہ سے انتقام لینے کا یہ بہترین موقع ہے کیونکہ ان کے پاس مٹھی بھر آدمی ہیں ۔
کسیلہ یہ پیغام ملتے ہی ایک بڑے لشکر کے ساتھ تہودا پہنچ گیا اور مسلمانوں پر حملہ آور ہو گیا مسلمانوں کی تعداد تین سو کے لگ بھگ تھی جبکہ کسیلہ کا لشکر چھ ہزار سے زیادہ بربری جنگجووں پر مشتمل تھا ۔
لڑائی شروع ہونے سے پہلے حضرت عقبہ بن نافع نے ابو المہاجر کو آزاد کر دیا اور کہا کہ تم قیروان جا کر مسلمانوں کو منظم کرو میں اس لشکرِ کفار کا مقابلہ کرتا ہوں ۔ ابو المہاجر کہنے لگے ، میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا کیونکہ میرا مقصد بھی راہ حق میں جہاد کرنا اور شہادت حاصل کرنا ہے ۔
حضرت عقبہ اور ان کے ساتھیوں کے دلوں میں تو شوق شہادت کے شعلے بھڑک رہے تھے ، اپنے سے کئی گنا زیادہ بربریوں کو مطلق خاطر میں نہ لائے ۔ ان غیور مردان حق نے اپنی ڈھالیں اور تلواروں کے نیام پھینک دیے اور پورے جوش و خروش سے دشمن کی صفوں میں گھس گئے
![]() |
اسلامی لشکر کے پیش قدمی |
بربریوں کی کثیر تعداد ماری گئی لیکن حضرت عقبہ بن نافع اور ان کے تمام جانباز ساتھی بھی مردانہ وار لڑتے ہوئے ایک ایک کرکے شہید ہو گئے ۔ اور یوں حضرت عقبہ بن نافع کی دلی مراد بر آئی اور رتبہ شہادت پر فائز ہونے کی دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ۔
راہ حق کے ان تمام شہداء کی قبریں آج بھی اس مقام پر موجود ہیں جو اب ایک چھوٹے سے گاؤں کا مرکز بن گیا ہے اور زیارت گاہ خواص و عوام ہے ، یہ گاؤں حضرت عقبہ بن نافع کے نام پر سیدی عقبہ کہلاتا ہے اور تہودا کی قدیم جائے وقوع کے قریب بسکرہ کےجنوب مشرق میں چند میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔
حضرت عقبہ بن نافع فہری کی شہادت کے بعد کسیلہ نے قیروان پر قبضہ کر لیا لیکن پانچ سال بعد عبد الملک بن مروان کے عہد حکومت میں زہیر بن قیس نے اس کو قیروان سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور پھر ممش کے مقام پر ایک خونریز جنگ میں اس کو عبرتناک شکست دی ۔
اس جنگ میں کسیلہ اور اس کے ساتھ بڑے بڑے بربر اور رومی سردار مارے گئے اور یوں حضرت عقبہ بن نافع فہری کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔
Moral Stories
Moral Stories for children
Historical Stories
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
0 Comments