حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت کے ابتدائی زمانے کا ذکر ہے ایک دن مکہ میں ایک خبر پھیل گئی ۔ اس خبر نے اہل ایمان کو انتہائی غم اور پریشانی میں مبتلا کر دیا ۔
نوجوان نے عرض کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، میں نے سنا تھا کہ دشمنوں نے آپ کو محبوس کر لیا ہے یا شاید آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تو یہ بات ہے اگر واقعی یہ خبر درست ہوتی تو تم کیا کرتے ؟
نوجوان نے بے ساختہ عرض کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، میں اہل مکہ سے انتقام لیتا ۔
یہ جواب سن کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر بشاشت پھیل گئی ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کے جذبہ کی تعریف فرمائی اور ان کے حق میں دعائے خیر کی ۔
یہ پہلی تلوار تھی جو راہ حق میں اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حمایت میں بلند ہوئی ۔ اور یہ نوجوان جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت کرتے تھے بنو اسد کے سردار کے بیٹے حضرت زبیر بن العوام تھے ۔
حضرت زبیر بن العوام ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً اٹھائیس برس قبل پیدا ہوئے ۔ کمسنی میں یتیم ہوگئے تو آپ کے چچا نوفل بن خویلد نے اپنی سرپرستی میں لے لیا ۔ حضرت زبیر کی والدہ حضرت صفیہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا بہت شجاع اور شیر دل خاتون تھیں ۔ وہ حضرت زبیر سے بھی سخت محنت و مشقت کا کام لیتیں اور اکثر و بیشتر زد و کوب سے بھی گریز نہ کرتیں ۔
نوفل بن خویلد ایک دن بھتیجے کو ماں کے ہاتھوں پٹتا دیکھ کر بیتاب ہو گئے اور حضرت صفیہ کو سختی سے منع کیا کہ اس طرح تم بچے کو مار ڈالو گی ۔انہوں نے بنو ہاشم سے بھی کہا کہ صفیہ کو بچے پر سختی کرنے سے روکیں ۔
جب اس بات کا چرچا عام ہوا تو حضرت صفیہ نے لوگوں سے کہا ، جس نے یہ کہا کہ میں زبیر سے بغض رکھتی ہوں اس نے غلط کہا میں اس کو اس لیے پیٹتی ہوں کہ یہ عقلمند اور بہادر بنے ، دشمن کو شکست دے اور لشکروں کی قیادت کرے ۔
حضرت زبیر بن العوام کو لڑکپن میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آ گیا ۔ انہوں نے ایسی ضرب لگائی کہ اس شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا ۔ لوگوں نے حضرت صفیہ سے شکایت کی تو انہوں نے سوال کیا کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا ، بہادر یا بزدل ؟
والدہ کی تربیت اور سختی کا یہ اثر ہوا کہ حضرت زبیر بن العوام نے ابتدائی عمر میں ہی جنگی فنون میں مہارت حاصل کرلی اور ایک انتہائی بہادر ، مضبوط ،حوصلہ مند اور پر اعتماد جوان بنے
حضرت زبیر بن العوام ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جس پر آفتابِ اسلام کی شعاعیں دعوت حق کے آغاز ہی میں پڑنے لگیں ۔ ان کی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا اسلام کی خاتون اول تھیں ۔ آپ کی والدہ بھی آغاز عہد نبوت میں مسلمان ہوئیں ۔ حضرت زبیر بن العوام نے بارہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا ۔
جب تک وہ اسلام نہیں لائے تھے اپنے چچا کی شفقتوں اور توجہ کا مرکز تھے لیکن جونہی انہوں نے دعوت حق قبول کی چچا کا رویہ بدل گیا اور اس نے ان پر سخت مظالم ڈھانے شروع کر دیے ۔
حضرت زبیر بن العوام کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ دیتے ، آگ سلگا کر اس کی دھونی دیتے اور کہتے کہ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ ۔
لیکن حضرت زبیر ہر دفعہ یہی جواب دیتے ، ہرگز نہیں ، ہرگز نہیں اب میں کبھی کافر نہ ہوں گا ۔
جب چچا کی ایذارسانی حد سے بڑھ گئی تو حضرت زبیر بن العوام نے سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اجازت سے مکہ سے حبش ہجرت اختیار کی ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد مکہ واپس آ گئے اور تجارت کرنے لگے ۔
کچھ مدت بعد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے جانے لگے ۔ حضرت زبیر بن العوام اس وقت ایک تجارتی قافلے کے ہمراہ شام گئے ہوئے تھے ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
جب وہ شام سے مکہ مکرمہ کی طرف واپس آ رہے تھے تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
حسن اتفاق سے راستے میں ان سے ملاقات ہو گئی ۔ اس موقع پر انہوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں کچھ سفید کپڑے بطور تحفہ پیش کیے اور پھر مکہ واپس چلے گئے ۔
تھوڑی ہی مدت بعد انہوں نے بھی اپنی والدہ حضرت صفیہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا اور اہلیہ حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ مکہ سے ہجرت کی ، کچھ عرصہ قبا میں قیام کیا قبا میں دو ہجری کو حضرت عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، |
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عن |
اس لیے بہت تنگدستی سے گزر اوقات ہوتی تھی بعد میں انہوں نے تجارت بھی شروع کر دی ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس میں بہت برکت دی اور وہ نہایت آسودہ حال ہو گئے ۔
ہجرت کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت زبیر بن العوام نے ہر معرکے میں کمال درجے کی استقامت اور بہادری دکھائی ۔ کئی مواقع پر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کی جراءت اور بہادری کی تعریف فرمائی ۔ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ انہیں اشجع العرب کہا کرتے تھے ۔
حق و باطل کا معرکہء اول بدر کے میدان میں برپا ہوا تو حضرت زبیر بن العوام کی شمشیر خارا شگاف دشمن کی صفوں پر بجلی بن کر گری اور اسے درہم برہم کرکے رکھ دیا ۔ جدھر جھکتے دشمن کی صفوں میں تباہی مچا دیتے ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر بن العوام سے فرمایا ، اے ابنِ صفیہ کھڑے ہو جاؤ اور اس مشرک کے مقابلے پر جاؤ ۔
حضرت زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ شیر کی طرح اس پر جھپٹے اور اس کو دبوچ لیا دونوں بڑے شہ زور تھے اور ایک دوسرے کو ٹیلے سے نیچے گرانے کی کوشش کر رہے تھے ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ان دونوں میں سے جو پہلے گرے گا وہ مارا جائے گا ۔ پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کے حق میں دعا فرمائی ۔
چند ہی لمحوں بعد وہ دونوں ٹیلے سے لڑھکتے ہوئے نیچے اس طرح گرے کہ مشرک نیچے تھا اور حضرت زبیر اس کے اوپر اور پھر پلک جھپکنے کی دیر میں حضرت زبیر نے اپنی تلوار سے اس مشرک کی گردن اڑا دی ۔
اس کے بعد حضرت زبیر کا مقابلہ قریش کے ایک نامور بہادر عبیدہ بن سعید سے ہوا ۔ وہ سر تا پا لوہے میں غرق تھا صرف اس کی آنکھیں نظر آتی تھیں ۔ اس نے للکار کر اپنے مقابلے پر آنے کا کہا ۔
حضرت زبیر بن العوام نے اپنی برچھی سے اس پر حملہ کیا اور تاک کر اس کی آنکھ میں برچھی ماری ، وہ مر گیا ۔ جب حضرت زبیر اس کو ہلاک کر چکے تو اپنی برچھی کو اس کی آنکھوں سے اتنی مشکل سے نکالا کہ اس کا پھل مڑ گیا ۔
غزوہِ احد میں حضرت زبیر ان چودہ ثابت قدم صحابہ کرام میں سے تھے جو
شروع سے آخر تک نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سپر بنے رہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی ۔
![]() |
احد کے پہاڑ ، حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
احد کے دن طلحہ بن ابی طلحہ مشرکین کا علم بردار تھا ۔ اس نے میدانِ جنگ میں آ کر مسلمانوں کو دعوت مبارزت دی حضرت زبیر تیزی سے اس کی طرف گئے اور جست لگا کر اس کے اونٹ پر سوار ہو گئے پھر اس کو زمین کی طرف دھکیل کر اونٹ سے گرا دیا اور اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا .
٥ ھ میں مشرکین مکہ نے اپنے حلیف قبائل کی مدد سے دس ہزار مسلح افراد پر مشتمل ایک لشکر جرار کے ساتھ مدینہ منورہ پر چڑھائی کی اور اس کا محاصرہ کر لیا اس سے پہلے عرب کی تاریخ میں اتنا بڑا لشکر کسی جنگ کے موقع پر جمع نہیں ہوا تھا یہ فوج اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کیے ہوئے تھی ۔ دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم اور اسلحہ اور رسد کی بھی شدید قلت تھ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے گرد خندق کھود کر اس لشکر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
مشرکین کا محاصرہ تقریباً تین ہفتے جاری رہا ۔ اس دوران اگرچہ کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی تاہم لشکر اسلام اور لشکر کفار میں وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہیں ۔
ایک دن نوفل بن عبد اللہ مخزومی اپنی لشکر گاہ سے باہر نکل کر آیا اور مسلمانوں کو مقابلے کے لیے پکارا ۔ حضرت زبیر بن العوام اس کے مقابلے پر آئے اور آن واحد میں اس کا سر تن سے جدا کر دیا ۔ اس موقع پر ان کی تلوار میں ایک دندانہ پڑ گیا ۔ نوفل کو جہنم واصل کرنے کے بعد وہ یہ رجز پڑھتے ہوئے واپس آئے
میں وہ شخص ہوں جو اپنی حفاظت بھی کرتا ہوں اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حفاظت بھی کرتا ہوں ۔
یہود بنو قریظہ اور مسلمانوں میں باہم خیر سگالی کا معاہدہ تھا ۔ لیکن جنگ خندق کے اس نازک موقع پر یہودیوں کی نیت بدل گئی انہوں نے حملہ آوروں سے ساز باز کرکے بد عہدی اور غداری پر کمر باندھی اور مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے منصوبے بنانے لگے ۔ اہل ایمان کے لیے یہ بہت کڑا وقت تھا ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ان غداروں کے فاسد عزائم کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بنی قریظہ کے جنگی عزائم ، تیاریوں اور نقل و حرکت کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو جمع کرکے فرمایا ، کون بنو قریظہ کی خبر لائے گا ؟
![]() |
بنی قریظہ کی گڑھیاں ، حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
حضرت زبیر بن العوام نے بڑھ کر عرض کیا ، ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں جاتا ہوں ۔
سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اپنے الفاظ دہرائے اور تینوں مرتبہ حضرت زبیر بن العوام نے اپنے آپ کو اس پر خطر مہم کے لیے پیش کیا ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے
ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے
حضرت عبداللّٰہ بن زبیر کہتے ہیں غزوہِ احزاب میں عمر بن ابی سلمہ اور میں عورتوں اور بچوں کی حفاظت پر مامور تھے
میں نے دیکھا کہ حضرت زبیر گھوڑے پر سوار دو یا تین مرتبہ بنو قریظہ کی طرف گئے اور واپس آئے شام کو جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ، ابا جان میں نے آپ کو بنو قریظہ کی طرف جاتے دیکھا تھا ؟
حضرت زبیر نے دریافت کیا ، بیٹا تم نے مجھے دیکھا تھا ؟
میں نے کہا ، جی ہاں ۔
حضرت زبیر بن العوام نے فرمایا ،
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ، کون بنو قریظہ کی خبر لاتا ہے ۔ میں گیا اور جب واپس آیا تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے ماں باپ جمع کیے اور فرمایا ، فداك ابى و امى میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں
محاصرہ جاری تھا کہ ایک روز شدید آندھی آئی
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، |
اور ساتھ ہی موسلادھار بارش شروع ہو گئی ۔ لشکر کفار کے خیمے اکھڑ گئے اور سارا ساز و سامان بکھر گیا ۔ کفار اس اچانک افتاد سے گھبرا گئے ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
غزوہِ احزاب ( خندق ) کا انجام یہ ہوا کہ بائیس دن کے محاصرے کے بعد کفار آسمانی آفات اور مسلمانوں کی غیر معمولی استقامت کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
آواخر ٦ھ یا اوائل ٧ھ میں خیبر کی جنگ ہوئی تو حضرت زبیر نے اس میں بھی کمال درجے کی شجاعت کا مظاہرہ کیا ۔
جب رئیس خیبر مرحب حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا تو اس کا قوی ہیکل اور جنگجو بھائی غضب ناک ہو کر میدان میں آیا ۔ حضرت زبیر بن العوام اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے ۔ یاسر بہت قوی الجثہ اور بڑے قدوقامت والا شخص تھا ۔
حضرت صفیہ بھی اس جنگ میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے آئی تھیں ۔ انہوں نے بے قرار ہو کر عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آج میرا لختِ جگر شہید ہو جائے گا ۔
سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نہیں ، انشاء اللّٰہ وہ دشمن پر غالب آئے گا ۔ تھوڑی دیر کی لڑائی کے بعد حضرت زبیر بن العوام نے آخر یاسر کو قتل کر دیا ۔
![]() |
خیبر کا قلعہ ، حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
خیبر کی فتح کے بعد حضرت زبیر بن العوام تمام غزوات اور سرایا میں شریک ہوئے پھر حجته الوداع میں انہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کی سعادت حاصل ہوئی ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو حضرت زبیر بے حد دل شکستہ ہوئے اور گوشہ نشین ہوگئے ۔
تاہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں تمام جنگوں میں بھر پور شرکت کی اور شجاعت و بہادری کی عظیم مثال قائم کی
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ |
فتح شام کے بعد مجاہدین اسلام نے حضرت عمرو بن العاص کی قیادت میں مصر پر چڑھائی کی اور وہاں کے مشہور شہر فسطاط کا محاصرہ کر لیا ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، فسطاط کا قلعہ |
چونکہ فسطاط کا قلعہ بہت مضبوط تھا اور مجاہدین کی تعداد بہت کم تھی اس لیے حضرت عمرو بن العاص نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مدد مانگی ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے چار ہزار مجاہدین پر مشتمل ایک لشکر حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت مقداد بن اسود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مسلمہ بن مخلد رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں روانہ کیا اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو لکھا ، ان میں سے ہر ایک افسر ایک ہزار سوار کے برابر ہے
مصریوں کا دفاع اس قدر مضبوط تھا کہ اس لشکر کے پہنچنے کے باوجود قلعہ سات ماہ تک فتح ہونے میں نہ آیا ۔
ایک دن حضرت زبیر بن العوام کو جوش آیا اور وہ تلوار ہاتھ میں لیے کسی طرح قلعہ کی دیوار پر چڑھ گئے ، چند اور مجاہدین نے بھی ان کا ساتھ دیا اور فصیل پر پہنچ کر ایک فلک شگاف نعرہ تکبیر بلند کیا ۔ نیچے موجود فوج نے بھی نعرے لگانے شروع کر دیے ۔ عیسائی سراسیمہ ہو گئے ۔ اسی اثناء میں حضرت زبیر بن العوام نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اس کے ساتھ ہی تمام اسلامی لشکر قلعہ کے اندر داخل ہو گیا ۔
عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور امان طلب کی ۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان کی درخواست قبول کرلی اور فسطاط پر اسلامی علم لہرا دیا
فسطاط کی فتح کے بعد حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے سکندریہ کی تسخیر میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ سکندریہ کا قلعہ اپنے زبردست انتظامات کی وجہ سے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، سکندریہ کا قلعہ |
اسلامی افواج مدت سے اس قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھیں ۔ آخر ایک دن حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مسلمہ بن مخلد رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فوج کے چند مضبوط دستے اپنے ہمراہ لیے اور اتنی شدت سے حملہ کیا کہ دشمن اس کا مقابلہ نہ کر سکا اور ہتھیار ڈال کر اطاعت قبول کر لی ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، سکندریہ کا قلعہ |
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے پھر گوشہ نشینی اختیار کر لی اور ہر قسم کے ہنگامہ ہائے کارزار سے کنارہ کش ہوگئے ۔ لیکن عامة المسلمين میں ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے عہد خلافت میں طبعیت کی خرابی کی وجہ سے حج سے معذور ہو گئے تو انہوں نے لوگوں کی خواہش پر حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو امیر حج اور بعد ازاں اپنا جانشین مقرر فرمایا ۔ اور لوگوں سے فرمایا ، بے شک زبیر تم لوگوں میں بہتر ہیں اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھے ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں مفسدین نے مدینہ منورہ پر اپنی حکومت قائم کر لی اور بارگاہِ خلافت کا محاصرہ کر لیا ۔ اس نازک موقع پر حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بڑے فرزند حضرت عبداللہ بن زبیر کو بارگاہِ خلافت کی حفاظت پر مامور کیا ۔
ایک دن باغی گروہ دوسری طرف سے دیوار پھلانگ کر کاشانہ خلافت میں داخل ہوئے اور امیر المومنین حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا ۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت سے بہت صدمہ پہنچا ۔
ادھر مفسدین کی شقاوت قلبی کا یہ عالم تھا کہ وہ امیر المومنین حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی تجہیز و تکفین کے بھی روادار نہ تھے
آخر حضرت زبیر اور چند دوسرے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے جان پر کھیل کر حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ شہید کی تجہیز و تکفین کی پھر رات کے وقت پوشیدہ طور پر حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور مضافات مدینہ میں حش کوکب کے مقام پر انہیں سپردِ خاک کردیا ۔
حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سریر آرائے خلافت ہوئے ۔ ان کے عہد خلافت کے اوائل ہی میں حالات و واقعات نے کچھ ایسی صورت اختیار کی کہ قصاص عثمان کے سلسلے میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے اصلاح کا علم بلند کردیا ۔
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، حضرت طلحہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور کئی دوسرے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین ام المومنین کے پرجوش حامیوں میں تھے ۔ دوسری جانب حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی جلیل القدر صحابہ کی ایک کثیر تعداد تھی ۔
لڑائی کے آغاز سے قبل حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تنہا گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں تشریف لائے اور حضرت زبیر کو پکار کر کہا :
ابو عبداللّٰہ ، کیا تمہیں وہ دن یاد ہے جب ہم دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرے تھے ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تم سے سوال کیا تھا ، کیا تم علی کو دوست رکھتے ہو جب تم نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ، ایک دن تم ناحق علی سے لڑو گے ۔
حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تو یہ بات یاد دلا کر واپس چلے گئے لیکن حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے دل کی دنیا بدل چکی تھی ۔ حضرت قعقاع بن عمرو کی کوشش سے دونوں افواج میں بات چیت ہوئی اور دونوں صلح اور قصاص عثمان پر متفق ہوگئیں ۔ لیکن اس موقع پر عبداللہ بن سبا یہودی ، مالک اشتر اور دوسرے باغیوں نے اپنے مستقبل کو مخدوش پا کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت رات کے پچھلے پہر بیک وقت حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے کیمپ پر حملہ کر دیا اور آخر جمادی الثانی ٣٦ ھ کو اپنے وقت کے بہترین انسانوں کے مابین جمل کی افسوسناک لڑائی پیش آئی ۔
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالی عنہ اسی وقت میدانِ جنگ سے کنارہ کش ہو کر بصرہ روانہ ہو گئے ۔
ایک شخص عمرو بن جرموز نے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کا تعاقب کیا ۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ پہنچ کر اپنے غلاموں کو مال و اسباب کے ساتھ روانہ ہونے کی ہدایت کی اور خود بصرہ کی آبادی سے دور نکل آئے ۔
اس وقت ابنِ جرموز گھوڑا دوڑا کر ان کے قریب پہنچا اور پوچھا ، ابو عبداللّٰہ آپ نے قوم کو کس حال میں چھوڑا ؟
حضرت زبیر نے کہا ، لوگ ایک دوسرے کا خون بہانے پر تلے ہوئے تھے ۔ مسلمان جب زور و قوت میں پہاڑ بن گئے تو آپس میں ٹکرا کر چور چور ہو جانا چاہتے ہیں
ابن جرموز نے کہا ، آپ کہاں جا رہے ہیں
حضرت زبیر بن العوام نے فرمایا ، مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور اب میں اس ہنگامے سے کنارہ کش ہو کر کسی طرف نکل جانا چاہتا ہوں ۔
ابنِ جرموز نے کہا تو چلیے میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔
کچھ دور جانے کے بعد ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ۔ حضرت زبیر نماز پڑھنے کے لیے ٹھہر گئے ۔ ابنِ جرموز نے کہا میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھوں گا ۔
حضرت زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، میں تمہیں امان دیتا ہوں کیا تم بھی میرے حق میں ایسا ہی کرو گے
ابنِ جرموز نے کہا ، یقیناً ۔
اس عہد و پیمان کے بعد دونوں گھوڑوں سے اتر کر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ حضرت زبیر جونہی سجدے میں گئے عمرو بن جرموز نے غداری کرکے ان کی گردن پر تلوار کا وار کیا اور حواری رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سر اقدس تن سے جدا کر دیا
اس کے بعد وہ حضرت زبیر کی تلوار ، زرہ اور سر لے کر امیر المومنین حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اسے توقع تھی کہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اس کام کو سراہیں گے لیکن شیر خدا نے حضرت زبیر کی تلوار پر ایک دکھ بھری نگاہ ڈالی اور فرمایا
اس تلوار نے بارہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے سے دشمنوں کے دل بادل ہٹائے ۔ اے ابنِ صفیہ کے قاتل تجھے جہنم کی بشارت ہو ۔
اس موقع پر ابنِ جرموز نے مایوسی کے عالم میں یہ اشعار پڑھے
"علی کے پاس زبیر کا سر لے کر حاضر ہوا ۔
اس کام سے ان کے تقرب کی امید تھی ۔ جب ان کے پاس گیا تو انہوں نے جہنم کی بشارت دی ۔
سو کیسی بری بشارت اور کیسا برا تحفہ ہے “ ۔
شہادت کے وقت حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی عمر چونسٹھ برس تھی ۔ اپنی جائے شہادت وادیء السباع میں دفن کیے گئے ۔
![]() |
حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا مقبرہ حوارئ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اشجع العرب عشرہ مبشرہ فسطاط کے قلعہ 🏰 کی فتح اسکندریہ کے قلعہ 🏰 کی تسخیر بہادری اور شجاعت کا پیکر Moral Stories Historical Stories Moral Stories for children |
0 Comments