Quranic Stories واقعہ ء معراج |
ہجرتِ مدینہ سے ایک سال پہلے کا واقعہ ہے ، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے ١٢ سال گزر چکے تھے ، ٥٢ برس کی عمر تھی حرم کعبہ میں سو رہے تھے کہ اچانک جبریل علیہ السلام نے آکر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو جگایا ۔ نیم خفتہ و نیم بیدار حالت میں اٹھا کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو زمزم کے پاس لے گئے ۔ سینہ مبارک چاک کیا ۔ زمزم کے پانی سے اس کو دھویا پھر اسے علم و بردباری ، دانائی اور ایمان و یقین سے بھر دیا
اس کے بعد آپ کی سواری کے لیے ایک جانور پیش کیا ۔ جس کا رنگ سفید اور قد خچر سے کچھ چھوٹا تھا ۔ برق کی رفتار سے چلتا تھا اس لیے اس کا نام براق تھا
جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس پر سوار ہونے لگے تو وہ چمکا ۔ جبرائیل علیہ السلام نے تھپکی دے کر کہا ، آج تک محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بڑی شخصیت کا کوئی انسان تجھ پر سوار نہیں ہوا ہے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے اور جبرائیل علیہ السلام آپ کے ساتھ چلے ۔
پہلی منزل مدینہ تھی ، یہاں اتر کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اس جگہ آپ ہجرت کرکے آئیں گے ۔
کھجور کے درختوں کا باغ |
دوسری منزل طور سینا تھی جہاں حضرت موسٰی علیہ السلام کو اللّٰہ تعالیٰ سے کلام کا شرف حاصل ہوا
کوہ سیناء ، واقعہء معراج |
تیسری منزل بیت لحم تھی جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی ۔
چوتھی منزل پر بیت المقدس تھا یہاں پہنچ کر براق کا سفر ختم ہوا ۔
بیت المقدس |
اس سفر کے دوران ایک جگہ کسی پکارنے والے نے پکارا ، اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ادھر آئیے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے توجہ نہ فرمائی ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ، یہ یہودیت کی طرف بلا رہا تھا ۔
کچھ دور گئے تو ایک طرف سے آواز آئی ، اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ادھر آئیے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس کی طرف بھی متوجہ نہ ہوئے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ عیسائیت کی دعوت دے رہا تھا ۔
پھر ایک نہایت بنی سنوری عورت دکھائی دی جو اپنی جانب بلا رہی تھی ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس سے نظر پھیر لی ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ دنیا تھی ۔
ایک بوڑھی عورت سامنے آئی تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اس دنیا کی عمر کا اندازہ اس کی عمر سے کر لیجیئے ۔
تھوڑی ہی دور ایک اور شخص ملا جس نے آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا آپ اسے بھی چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ، یہ شیطان تھا جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا
بیت المقدس پہنچ کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم براق سے اتر گئے اور اسے ایک مقام پر باندھ دیا ۔ پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیکلِ سلیمانی میں داخل ہوئے تو وہاں ان سب پیغمبروں کو موجود پایا جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پہلے اس دنیا میں تشریف لا چکے تھے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پہنچتے ہی نماز کے لیے صفیں درست ہو گئیں ۔ سب منتظر تھے کہ امامت کے لیے کون آگے بڑھتا ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آ گے بڑھا دیا اور آپ نے امامت فرمائی ۔
پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے تین پیالے پیش کیے گئے ۔ ایک میں پانی ، دوسرے میں دودھ اور تیسرے میں شراب تھی ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دودھ کا پیالہ لے لیا ۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو مبارکباد دی کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فطرت کی راہ پاگئے ۔
پھر ایک سیڑھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی گئی اور جبرائیل علیہ السلام اس کے ذریعہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو آسمان کی طرف لے گئے ۔پہلے آسمان پر پہنچے تو دروازے بند تھے ۔ محافظ فرشتوں نے دریافت کیا کون ہیں ؟
جبرائیل علیہ السلام نے اپنا نام بتایا ۔ پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ، محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ، ،ہاں ۔
دروازہ کھلا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا پرتپاک استقبال کیا گیا ۔ اس مقام پر آپ کا تعارف فرشتوں اور انسانی ارواح کی ان بڑی شخصیات سے ہوا جو اس مرحلے پر مقیم تھیں ۔
ان میں نمائیاں شخصیت ایک ایسے بزرگ کی تھی جو انسانی بناوٹ کا مکمل نمونہ تھے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آدم علیہ السلام ہیں آپ کے جدِ اعلٰی ۔
ان بزرگ کے دائیں اور بائیں اطراف بہت سے لوگ تھے ۔ وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے تو خوش ہوتے اور بائیں جانب دیکھتے تو روتے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ نسل آدم ہے ۔ آدم اپنی اولاد کے نیک لوگوں کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور برے لوگوں کو دیکھ کر روتے ہیں ۔
پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو تفصیلی مشاہدہ کرایا گیا ۔
ایک جگہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دیکھا کچھ لوگ کھیتی کاٹ رہے ہیں اور جتنی کاٹتے جاتے ہیں اتنی ہی وہ بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ دریافت کیا یہ کون ہیں ؟ کہا گیا یہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں ۔
کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سر پتھروں سے کچلے جارہے ہیں ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے استفسار کرنے پر جواب ملا ، یہ وہ لوگ ہیں جن کی سر گرانی انہیں نماز کے لیے اٹھنے نہیں دیتی تھی ۔
ایک مقام پر کچھ لوگ نظر آئے جن کے کپڑوں میں آگے اور پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے اور وہ جانوروں کی طرح گھاس چر رہے تھے ۔ استفسار فرمایا یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال سے زکوٰۃ اور خیرات نہیں دیتے تھے ۔
پھر ایک شخص کو دیکھا کہ لکڑیوں کا گٹھا جمع کرکے اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ جب وہ نہیں اٹھایا جاتا تو اس میں کچھ اور لکڑیاں بڑھا لیتا ہے ۔ دریافت فرمایا یہ کون ہے ؟ بتایا گیا یہ وہ شخص ہے جس پر امانتوں اور ذمہ داریوں کا اتنا بوجھ تھا کہ اٹھا نہ سکتا تھا مگر یہ ان کو کم کرنے کے بجائے اور زیادہ ذمہ داریوں کا بار اپنے اوپر لیتا رہا۔
کچھ لوگوں کی زبانیں اور ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کترے جا رہے تھے ۔ بتایا گیا کہ یہ غیر ذمہ دار مقرر ہیں جو بے تکلف زبان چلاتے اور فتنہ برپا کرتے تھے۔
ایک جگہ دیکھا کہ ایک پتھر میں ذرا سا شگاف ہوا اور اس سے ایک بڑا موٹا سا بیل نکل آیا ۔ پھر وہ بیل اسی شگاف میں واپس جانے کی کوشش کرنے لگا مگر نہ جا سکا ۔ استفسار کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ کہا گیا یہ اس شخص کی مثال ہے جو غیر ذمہ داری کے ساتھ ایک فتنہ انگیز بات کہہ جاتا ہے پھر اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے مگر نہیں کر سکتا ۔
ایک اور مقام پر کچھ لوگ اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے ۔ بتایا گیا کہ یہ دوسروں پر زبان طعن دراز کیا کرتے تھے۔
انہی کے نزدیک کچھ اور لوگ تھے جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اس سے اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے ۔ دریافت کرنے پر بتایا گیا ، یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرتے اور ان کی عزت پر حملے کیا کرتے تھے
کچھ لوگ ایسے تھے جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کے مشابہ تھے اور وہ آ گ کھا رہے تھے ۔ ان کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ یتیموں کا مال کھانے والے لوگ تھے ۔
ایک جگہ کچھ ایسے لوگ نظر آئے جن کے پیٹ بے انتہا بڑے اور سانپوں سے بھرے ہوئے تھے ۔ آنے جانے والے ان کو روندتے ہوئے گزرتے لیکن وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے تھے ۔ استفسار فرمایا یہ کون ہیں ؟ جواب دیا گیا کہ یہ سود خوار ہیں ۔
ایک مقام پر کچھ لوگ نظر آئے جن کے ایک جانب نفیس چکنا گوشت رکھا تھا اور دوسری طرف سڑا ہوا گوشت جس سے شدید بو آ رہی تھی ۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے ۔ پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ کہا گیا یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جو حلال رشتوں کے ہوتے ہوئے حرام کی طرف رغبت رکھتے تھے ۔
انہی مشاہدات کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ملاقات ایک ایسے فرشتے سے ہوئی جو نہایت ترش روئی سے ملے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے دریافت فرمایا ، اب تک جتنے فرشتے ملے تھے سب خندہ پیشانی اور بشاش چہروں کے ساتھ ملے ان کی ترش روئی کا کیا سبب ہے ؟
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ، یہ کیونکر خندہ رو ہوں گے ، یہ تو دوزخ کے داروغہ ہیں ۔ یہ سن کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دوزخ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ یکایک آپ کی نظروں کے سامنے سے پردہ ہٹا دیا گیا اور دوزخ اپنی تمام ہولناکیوں کے ساتھ نمودار ہوگئی ۔
اس مرحلہ سے گزر کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دوسرے آسمان پر پہنچے ۔ یہاں کے اکابرین میں دو نوجوان سب سے ممتاز تھے ۔ تعارف پر معلوم ہوا کہ وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔
تیسرے آسمان پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا تعارف ایک ایسے بزرگ سے کرایا گیا جن کا حسن عام انسانوں کے مقابلے میں ایسا تھا جیسے تاروں کے مقابلے میں چودھویں کا چاند ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ یہ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں ۔
چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام ، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام اور چھٹے آسمان پر حضرت موسٰی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔
ساتویں آسمان پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک عظیم الشان محل ( بیت المعمور ) دیکھا جہاں بے شمار فرشتے آ جا رہے تھے ۔ اس کے پاس آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی جو خود آپ کے مشابہ تھے ۔ تعارف پر معلوم ہوا کہ وہ حضرت ابرہیم علیہ السلام ہیں ۔
انہوں نے کہا ، اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہیے گا اور انہیں بتائیے گا کہ جنت کی مٹی نہایت عمدہ ، پانی میٹھا اور زمین نرم ہے اور جنت ایک چٹیل میدان ہے جس کے درخت اور پودے یہ کلمات ہیں
سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ
پھر مزید ارتقاء شروع ہوا یہاں تک کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سدرہ المنتہیٰ پر پہنچ گئے جو پیش گاہ رب العزت اور عالم خلق کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا ہے ۔
نیچے سے جانے والے یہاں تک جاتے ہیں اور اوپر سے احکام و قوانین براہِ راست یہاں آتے ہیں ۔ اسی مقام پر آپ کو جنت کا مشاہدہ کرایا گیا اور آپ نے دیکھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ مہیا کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے ذہن میں اس کا تصور تک گزر سکا
سدرہ المنتہیٰ پر جبرائیل علیہ السلام ٹھیر گئے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تنہا آگے بڑھے ۔
ایک بلند ہموار سطح پر پہنچے تو بارگاہِ جلال میں تھے ، ہم کلامی کا شرف بخشا گیا ۔ جو باتیں ارشاد ہوئیں ان میں سے چند یہ ہیں :
ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں ۔
سورہ البقرہ کی آخری دو آیات تعلیم فرمائی گئیں ۔
شرک کے سوا دوسرے سب گناہوں کی بخشش کا امکان ظاہر کیا گیا ۔
ارشاد ہوا جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کے حق میں ایک نیکی لکھ لی جاتی ہے اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں لیکن جو برائی کا ارادہ کرتا ہے اس کے خلاف کچھ نہیں لکھا جاتا اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے ۔
بارگاہِ جلال سے واپسی پر حضرت موسٰی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے روداد سن کر کہا میں بنی اسرائیل کا تلخ تجربہ رکھتا ہوں ، میرا اندازہ ہے کہ آپ کی امت پچاس نمازوں کی پابندی نہیں کر سکے گی ۔ جائیے اور اس میں تخفیف کے لیے عرض کیجیے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں ۔ پلٹے تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر وہی بات کہی ۔ ان کے کہنے پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بار بار اوپر جاتے رہے اور ہر بار دس نمازیں کم کی جاتی رہیں ۔ آخر پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم ہوا اور فرمایا گیا کہ یہی پچاس نمازوں کے برابر ہیں
واپسی کے سفر میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسی سیڑھی سے اتر کر بیت المقدس آئے ۔ یہاں پھر تمام پیغمبر موجود تھے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کو نماز پڑھائی جو غالباً فجر کی نماز تھی ۔ پھر براق پر سوار ہوئے اور مکہ مکرمہ واپس پہنچ گئے
مسجد الحرام |
انہوں نے عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، خدا کے لیے یہ قصہ لوگوں کو نہ سنائیں ورنہ انہیں مذاق کے لیے ایک بہانہ مل جائے گا ۔ مگر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے باہر تشریف لے گئے کہ میں ضرور بیان کروں گا ۔
حرم کعبہ پہنچے تو ابو جہل سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سامنا ہوا ۔
اس نے کہا کوئی تازہ خبر ؟
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہاں ۔
ابو جہل نے پوچھا ، وہ کیا ؟
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آج کی رات میں بیت المقدس گیا تھا ۔
ابو جہل نے حیرت سے پوچھا
بیت المقدس ، اور ایک ہی رات میں وہاں سے واپس آ گئے ؟ اور صبح یہاں موجود ہیں ؟
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہاں
کہنے لگا ، قوم کو جمع کروں سب کے سامنے یہی بات کہیں گے ؟
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، بے شک ۔
ابو جہل نے آوازیں دے کر سب کو جمع کر لیا اور کہا اب کہیں ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سب کے سامنے پورا قصہ بیان کر دیا ۔
لوگوں نے مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ دو مہینے کا سفر اور صرف ایک رات میں ؟ نا ممکن ! پہلے تو شک تھا اب یقین ہو گیا کہ یہ سب تو جنون کی باتیں ہیں ۔
فوراً ہی یہ خبر پورے مکہ میں پھیل گئی ، لوگ اس امید پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے کہ وہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دست راست ہیں اگر انہوں نے جھٹلا دیا تو اسلام کی دعوت کمزور پڑ جائے گی ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے یہ قصہ سن کر کہا ، اگر واقعی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے تو یہ ضرور سچ ہے ۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے ، میں تو روز سنتا ہوں کہ ان کے پاس آسمان سے پیغام آتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتا ہوں ۔
پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حرم کعبہ میں آئے ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرما تھے اور ہنسی اڑانے والا مجمع بھی ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا ، کیا واقعی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہاں
انہوں نے کہا ، بیت المقدس میں نے دیکھا ہوا ہے ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہاں کا نقشہ بیان فرمائیں ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نقشہ بیان کرنا شروع کیا اور ایک ایک چیز اس طرح بیان کی گویا بیت المقدس سامنے موجود ہے اور دیکھ دیکھ کر اس کی تفصیل بتا رہے ہیں ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی اس تدبیر سے جھٹلانے والوں کو ایک شدید ضرب لگی ۔
وہاں بکثرت ایسے آدمی موجود تھے جو تجارت کے سلسلے میں بیت المقدس جاتے رہتے تھے ۔ وہ سب دلوں میں قائل ہو گئے ۔
اب لوگ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بیان کی صحت کا مزید ثبوت مانگنے لگے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جاتے ہوئے میں فلاں مقام پر فلاں قافلہ پر سے گزرا جس کے ساتھ یہ سامان تھا ، قافلے والوں کے اونٹ براق سے بھڑکے ایک اونٹ فلاں وادی کی طرف بھاگ نکلا ، میں نے قافلے والوں کو اس کا پتہ دیا ۔
واپسی کے سفر میں فلاں وادی میں فلاں قبیلہ کا قافلہ مجھے ملا ، سب لوگ سو رہے تھے ، میں نے ان کے برتن سے پانی پیا اور اس بات کی علامت چھوڑ دی کہ اس سے پانی پیا گیا ہے ۔
بعد میں آنے والے قافلوں سے ان باتوں کی تصدیق ہو گئی ۔
ستائیسویں رجب اور سفر معراج
صحیح احادیث سے انتخاب
Quranic Stories
Moral Stories
Moral Stories for children
1 Comments
💖💕
ReplyDelete