تیرہ سو سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزرا ہے کہ شہر بصرہ میں ایک عیش پسند نوجوان رہتا تھا۔ اس کو مے نوشی کی بہت بری عادت تھی ۔ وہ کبھی کبھار کوئی نیکی کا کام بھی کرلیتا تھا مگر اکثر و بیشتر نشے میں مدہوش رہتا
خواب میں دیکھا کہ قیامت آ گئ ہے اور انسان اپنی اپنی قبروں سے نکل کر میدان حشر کی طرف جا رہے ہیں ۔ نوجوان بھی ان لوگوں میں شامل ہو گیا ۔ چلتے چلتے نوجوان کو اپنے پیچھے کچھ شور سنائی دیا ۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے ایک خوفناک اژدھا دیکھائی دیا جس کے منہ سے آ گ کے شعلے نکل رہے تھے اور وہ اس نوجوان کا پیچھا کر رہا تھا ۔ ڈرکے
کچھ آ گے نوجوان کو ایک بوڑھے شخص نظر آئے جنہوں نے عمدہ لباس پہن رکھا تھا اور اس میں سے خوشبو آرہی تھی ۔ نوجوان نے ان سے کہا ، خدا کے لیے مجھے اس اژدھے سے بچائیے ۔ اس بوڑھے شخص نے کہا : مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہیں اس اژدھے سے بچا سکوں ۔ تم اسی تیزی سے بھاگتے رہو شاید آ گے تمہارے بچنے کی کوئی صورت نکل آئے۔
یہ سن کر نوجوان نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ اچانک اس کو ایک ٹیلہ نظر آیا ۔ وہ اس پر چڑھ گیا ۔ دوسری طرف دیکھا تو دوزخ نظر آئ جس میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے ۔ نوجوان اژدھے سے اس قدر خوفزدہ تھا کہ وہ آ گے ہی بڑھتا گیا ، قریب تھا کہ وہ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جا گرے کہ اس کے کانوں میں آواز آئ ۔۔ پیچھے ہٹ جاؤ تم دوزخیوں میں سے
یہ زوردار آواز سن کر نوجوان پیچھے پلٹا اور بھاگنا شروع کر دیا ۔ اژدھا اب بھی اس کا پیچھا کر رہا تھا ۔ راستے میں اس کی ملاقات پھر اس بوڑھے سے ہوئی ، نوجوان نے پھر پہلے کی طرح مدد مانگی ۔ مگر اس بوڑھے شخص نے اس دفعہ بھی وہی جواب دیا جو پہلے دے چکے تھے اور کہا سامنے ایک پہاڑی ہے اس پر چڑھ جاؤ شاید وہاں تمہارا پیچھا اس اژدھے سے چھوٹ جائے ۔۔
نوجوان بھاگتا ہوا اس پہاڑی پر چڑھ گیا ۔ اژدھا وہاں بھی اس کا پیچھا کر رہا تھا ۔ نوجوان نے وہاں دیکھا کہ ایک گول پہاڑ ہے جس میں بہت سی کھڑکیاں ہیں ۔ ان کے کواڑ سونے کے ہیں جن پر یاقوت اور موتی جڑے ہوئے ہیں ۔ نوجوان اس پہاڑ ی پر چڑھا تو اس نے ایک بلند آواز سنی جو کہہ رہی تھی ، " کھڑکیوں کے کواڑ کھول دو اور باہر نکل آؤ شاید تم میں کوئی ایسا ہو جو اس مصیبت میں مبتلا شخص کی مدد کر سکے۔
اس آواز کے ساتھ ہی کھڑکیوں کے کواڑ کھل گئے اور کھڑکیوں میں سے کچھ ننھے منے بچے باہر نکل آ ئے ۔ وہ اژدھا اب نوجوان کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا ۔ جو بچے باہر نکلے انہوں نے کھڑکیوں کی طرف رخ کرکے آواز دی : جلدی نکلو اور اس شخص کو اژدھے سے بچاؤ ۔
اس آواز پر بیشمار خوبصورت بچے باہر نکل آئے ۔ ان بچوں میں اس نوجوان کی وہ بچی بھی تھی جو دو سال کی عمر میں وفات پاگئ تھی ۔ وہ اسے دیکھتے ہی اس کی طرف دوڑی اور ابا ابا کہہ کر اس سے لپٹ گئی ۔ نوجوان نے اسے گود میں اٹھا لیا ۔ بچی نے اپنا دایاں ہاتھ اژدھے کی طرف بڑھایا ، اسے دیکھتے ہی اژدھا وہاں سے بھاگ گیا ۔ پھر بچی نے اپنا ہاتھ نوجوان کے چہرے پر پھیرتے ہوئے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی : (ترجمہ) " کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آ گے جھکیں۔۔۔۔
نوجوان یہ سن کر رونے لگا ۔ پھر اس نے بچی سے پوچھا ، بیٹی وہ اژدھا کیسا تھا جو میرا پیچھا کر رہا تھا ۔ بچی نے جواب دیا : وہ آ پ کے برے اعمال تھے جو اژدھا بن کر آ پ کو دوزخ میں ڈالنا چاہتے تھے ۔" نوجوان نے پوچھا : " اور وہ بوڑھا کون تھا " ۔ بچی نے کہا ،" وہ آ پ کے نیک اعمال تھے ،جو اتنے کم تھے کہ ان میں آ پ کو اژدھے سے بچانے کی طاقت نہ تھی ۔ لیکن انہوں نے آ پ کو اژدھے سے بچنے کا راستہ بتا دیا
اس کے ساتھ ہی نوجوان کی آ نکھ کھل گئ ۔وہ زاروقطار رویا ۔ اللّٰہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور تمام برے کاموں سے سچی توبہ کرلی ۔ اپنے وقت کا زیادہ حصہ علم حاصل کرنے اور عبادت میں گزارنے لگے یہاں تک کہ چند سالوں میں بہت
یہ درویش حضرت مالک بن دینار بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے ۔ اپنی سچی توبہ کا یہ واقعہ انہوں نے ایک دفعہ اپنے شاگردوں کے سامنے بیان کیا ۔
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللّٰہ علیہ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ اور اس زمانے کے کئ اور بزرگوں سے علم حاصل کیا اور پھر اسے۔ آگے پھیلایا ۔
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے کہ جو عالم اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو اس کا وعظ دلوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے بار ش کا پانی پتھر کی چٹان سے پھسلتا ہے ۔
Moral Stories
Moral Stories for children
1 Comments
So insightful🖒
ReplyDeleteI know it's meant for children but I really enjoyed it too.