Header Ads Widget

Responsive Advertisement

شرافت کا پیکر ، عرب تاریخ اور روایات کا ایک خوبصورت سچا واقعہ ۔


شرافت کا پیکر
بہت سال پہلےکا واقعہ ہے کہ عرب کے ایک قبیلے بنو شیبان میں سخت قحط پڑ گیا کھیتی باڑی تباہ ہوگئی نہ مویشیوں کے لئے چارہ رہا اور نہ لوگوں کے لئے اناج ۔ قبیلے کے لوگ بہت پریشان ہوئے اور خوراک کی تلاش میں اردگرد کے علاقوں کی طرف نکل گئے ۔
 انہی لوگوں میں ایک شخص سالم بن عبداللہ بھی تھا ۔ اس نے اپنے گھروالوں کو ساتھ لیا اور شہر حیرہ میں قیام پذیر ہو گیا ۔ جب وہاں رہتے ہوئے اسے کچھ مدت گزر گئی اور روزی کمانے کا کوئی ذریعہ نظر نہ آیا تو اپنے گھر والوں کو وہیں چھوڑا اور روزی کی تلاش میں وہاں سے بھی نکل گیا ۔ چلتے ہوئے گھر والوں سے کہہ گیا جب تک تمہارے لئے مناسب روزگار نہ ملا گھر واپسی نہیں ہوگی ۔ بیوی نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ مانا اور رات کے اندھیرے میں پیدل ہی چل پڑا ۔ 
شرافت کا پیکر , خشک سالی
شرافت کا پیکر 

                                  سالم گھر سے کافی دور نکل آیا تو اس کی نظر راستے میں ایک خچر پر پڑی جس کی باگ ایک درخت کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی ۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا مگر اسے کوئی آدمی نظر نہ آیا اس نے خچر کی باگ درخت سے کھولی اور اس پر سوار ہو کر چل پڑا ۔ ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ پیچھے سے ایک گرجدار آواز آئی : خبردار جو قدم آگے بڑھایا اپنی جان کی خیر چاہتے ہو تو خچر کو چھوڑ دو اور یہاں سے چلے جاؤ ۔ یہ آواز سن کر سالم کے ہوش اڑ گئے خچر سے اترا اور اسے وہیں چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ سالم چھ سات دن چلتا رہا یہاں تک کہ تھوڑے سے ستو جو ساتھ لایا تھا وہ ختم ہوگئے اور بھوک سے نڈھال ہو گیا ۔ پریشان تھا کہ اب کیا کرے ۔ اب تو اس کے لیے چلنا بھی بہت مشکل تھا ۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا کہ کچھ فاصلے پر اسے چمڑے کا ایک بہت بڑا خیمہ نظر آیا اس کے ساتھ ہی ایک لمبا چوڑا باڑہ تھا جس میں بہت سے اونٹ اور گھوڑے بندھے ہوئے تھے ۔ ایک طرف کچھ بکریاں بھی کھڑی تھی معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی امیر آدمی کا خیمہ اور باڑہ ہے ۔
                     
شرافت کا پیکر , خیمہ
شرافت کا پیکر ، Moral Stories 

   سالم نے خیمے کے اندر جھانک کر دیکھا تو اس کے بیچوں بیچ لکڑی کے ایک تخت پر ایک بہت بوڑھے آدمی کو بیٹھے پایا ۔ اس وقت سورج غروب ہو رہا تھا اور خیمے میں بہت کم روشنی تھی ۔ 
سالم دبے پاؤں خیمے میں داخل ہوا اور بوڑھا جس تخت پر بیٹھا تھا اس کے پیچھے بیٹھ گیا ۔ بوڑھے کو اس کے آنے کا کچھ پتہ نہ چلا ۔ یہ تخت زمین سے کچھ اونچا تھا ، اس لئے اس کے پیچھے چھپا ہوا آدمی کم روشنی یا اندھیرے میں باہر سے آنے والے آدمی کو نظر نہیں آتا تھا ۔ تھوڑی ہی دیر گزری کہ ایک شاندار گھوڑا خیمے کے باہر آکر رکا ۔ اس پر سے ایک نوجوان اتر کر اپنے دو نوکروں کے ساتھ خیمے میں داخل ہوا ۔ بوڑھے شخص کو ادب سے سلام کیا ، ان کے ہاتھ چومے اور تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھ کر نوکروں کے ساتھ باہر نکل گیا ۔ پھر اس نے گرجدار آواز میں ایک نوکر کو حکم دیا کہ اونٹنی کا دودھ دوہ کر بابا کو پلاؤ ۔ نوکر نے فوراً لکڑی کے ایک بڑے پیالے میں اونٹنی کا دودھ دوہا اور بوڑھے شخص کے سامنے پیش کر دیا ۔ بوڑھے نے اس میں سے دودھ کے چند گھونٹ پیے اور پھر پیالہ ایک طرف رکھ دیا ۔ 
سالم جو بھوک سے بے حال تھا اس نے چپکے سے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں باقی کا دودھ پی گیا ۔ نوکر باہر سے آیا تو دیکھا کہ پیالہ خالی ہے ۔ اس نے فوراً ایک دوسری اونٹنی کا دودھ دوہا اور بوڑھے شخص کے سامنے لا کر رکھ دیا ۔ بوڑھے نے اس میں سے بھی تھوڑا سا پیا اور پھر پیالہ ایک طرف رکھ دیا ۔ سالم نے یہ پیالہ بھی اٹھا کر منہ سے لگا لیا یہاں تک کہ اس کا پیٹ بھر گیا اور دودھ پھر بھی بچ رہا ۔ اتنے میں نوکر پھر آیا اور پیالہ اٹھا کر لے گیا ۔ 
سالم نے اب سنا کہ وہ نوجوان ایک نوکر سے کہہ رہا ہے کہ ایک بکری ذبح کرو اور اس کے کباب بناؤ ۔ سالم انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے ۔
 نوکر نے بکری ذبح کرکے اس کے کباب بنائے اور پھر بہت سے کباب ایک بڑی رکابی میں رکھ کر بوڑھے شخص کے سامنے لا کر رکھ دیے ۔ سالم نے ان میں سے کچھ کباب اٹھا لیے اور مزے سے کھائے ۔ بوڑھے نے صرف ایک دو کباب کھائے ۔ باقی جو بچے وہ نوکر اٹھا کر لے گیا ۔ پھر نوجوان اور نوکروں نے بھی کباب کھائے اور دودھ پیا اس کے بعد سب سو گئے ۔                                                       اس وقت آدھی رات بیت چکی تھی ۔ جب سالم نے دیکھا کہ سب لوگ گہری نیند سو چکے ہیں تو وہ دبے پاؤں خیمے سے باہر نکل کر باڑے میں گیا ۔ ایک نہایت عمدہ اونٹ کی رسی کھولی اور اس پر سوار ہو کر چل پڑا ۔ رات بھر چلتا رہا جب صبح ہوئی تو اس نے دور دور تک نظر دوڑائی مگر سالم کو کوئی آدمی اپنے پیچھے آتا دکھائی نہ دیا ۔ اب اس نے اونٹ کی رفتار اور تیز کردی اور مسلسل سفر کرتا رہا ۔ یہاں تک کہ دوپہر ہو گئی ۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بہت دور گرد اڑتی نظر آئی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس گرد میں سے ایک گھوڑا نکلا جس پر رات والا نوجوان سوار تھا وہ تیزی سے گھوڑا بھگاتا سالم کے قریب پہنچ کر للکارا اونٹ میرے حوالے کرو ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ سالم اونٹ سے کود پڑا اور اپنی کمان پر تیر چڑھا کر مقابلے کے لئے تیار ہوگیا ۔ اس نے نوجوان سے کہا : آگے مت آنا ورنہ یہ تیر تمہارے سینے کے پار ہو جائے گا ۔ میں ایک غریب آدمی ہوں اور اپنے گھر والوں کو بھوکا پیاسا چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ میں نے چلتے وقت قسم کھائی تھی کہ ان کے پاس کچھ مال لے کر ہی واپس جاؤں گا ۔ یہ اونٹ میں ہرگز تمہارے حوالے نہیں کر سکتا ۔ آؤ مقابلہ کریں جو جیتے گا وہی اونٹ کا مالک ہوگا ۔   
شرافت کا پیکر , اونٹ
شرافت کا پیکر ، Moral Stories 

     نوجوان کڑک کر بولا یہ اونٹ میرا نہیں بلکہ میری بہن کا ہے میں اسے کسی صورت میں تمہارے پاس نہیں چھوڑ سکتا ۔ تم میری زبردست طاقت سے واقف نہیں ہو اس لئے مجھے تم پر رحم آتا ہے کہ خوامخواہ اپنی جان گنوا بیٹھو گے ۔ اگر میری طاقت اور نشانہ بازی دیکھنا چاہتے ہو تو اونٹ کی مہار سامنے لاؤ اس میں تین گرہیں ہیں بتاؤ کس گرہ پر نشانہ لگاؤں ۔ سالم نے نوجوان کی باتیں سنیں تو اس کو انکار کرنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ اس نے اونٹ کی مہار کھولی اور اسے ہاتھ میں لٹکا کر کھڑا ہوگیا ۔ اس وقت بے اختیار اس کے منہ سے نکلا ، درمیانی گرہ پر
نوجوان نے تاک کر ایسا نشانہ لگایا کہ تیر درمیانی گرہ میں جا کر اٹک گیا ۔ پھر اس نے دوسری اور تیسری گرہ کو بھی اپنے تیر کا نشانہ بنایا ۔ یہ دیکھ کر سالم آگے بڑھ کر نوجوان کے قدموں پر گر پڑا ۔ اس کو اپنی مصیبت کی ساری کہانی سنائی اور اس سے اپنی قصور کی معافی چاہی ۔
 جب نوجوان کو معلوم ہوا کہ سالم پچھلی رات کو اس کا بن بلایا مہمان بھی رہ چکا ہے تو وہ ہنس پڑا اور بولا : وہ بوڑھے آدمی جن کے پیچھے بیٹھ کر تم نے دودھ پیا اور کباب کھائے وہ میرے والد مہلہل ہیں اور میرا نام زید الخیل ہے ۔                                               زید الخیل اپنے قبیلے کا مشہور شاعر تھا ۔ اور سالم اس کا نام سن چکا تھا ۔ اب تو وہ اور بھی شرمندہ ہوا اور کہنے لگا آپ تو ہمارے ملک کے مشہور شاعر ہیں اور ہر لحاظ سے عزت کے لائق ۔ افسوس کہ میری وجہ سے آپ کو اتنی تکلیف اٹھانی پڑی ۔ زید الخیل نے کہا : تم میرے والد کے ساتھ بیٹھ چکے ہو اور میرے دسترخوان سے کھانا کھا چکے ہو اب تمہیں واقعی میرا مہمان بننا پڑے گا ۔ اسی اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میرے ساتھ چلو میں تمہیں خالی ہاتھ نہیں جانے دوں گا ۔ سالم نوجوان کے ساتھ چل پڑا ۔ 
اپنے خیمے میں پہنچ کر نوجوان نے سالم کی خوب خاطر مدارت کی اور کئی دن تک اس کو اپنا مہمان بنائے رکھا ۔   
شرافت کا پیکر ، ضیافت

                            آخر سالم نے اس سےدرخواست کی کہ مجھے میرے گھر جانے کی اجازت دیجیے ۔ کیونکہ میرے گھر والے میرا انتظار کر رہے ہوں گے ۔ تو زید الخیل نے اس کی بات مان لی ۔ وہ بہت بہادر اور سخی شخص تھا اور یہ بات اس کی شان کے خلاف تھی کہ اتنے غریب اور حاجت مند مہمان کو خالی ہاتھ رخصت کرے ۔ جب سالم چلنے لگا تو زید الخیل نے اس کو ایک اعلی درجے کا گھوڑا ، بکریوں کا ایک گلہ اور سو اونٹ دیے ۔ سالم کی زبان اس کا شکریہ ادا کرتے نہ تھکتی تھی مگر زید الخیل اس سے کہتا تھا کہ بھائی یہ تمہارا مجھ پر احسان ہے کہ تم نے یہ چیزیں قبول کر لیں ۔

Moral Stories                                Moral Stories for children

Post a Comment

1 Comments