بعثتِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پانچ برس پہلے کا واقعہ ہے قریش مکہ نے کعبہ کی پرانی عمارت گرا کر از سرِ نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ۔
![]() |
فیصلہ ، Moral Stories |
![]() |
Moral Stories , Faisla |
کعبہ کا خزانہ اس وقت ایک کنوئیں میں تھا جو عمارت کے اندر بنا ہوا تھا ۔
![]() |
خزانہ ، Moral Stories |
بعض لوگ دیواریں پھاند کر وہاں پہنچ جاتے اور چوری کر لیتے تھے ۔
تعمیر جدید کا فیصلہ ہونے سے پہلے ایک مرتبہ بنی ملیح کے ایک غلام دویک نے خانہ کعبہ کا مال چرا لیا ، چوری کا شبہ دراصل تین آدمیوں پر تھا جن میں سے ایک ابو لہب بھی تھا لیکن مال چونکہ دویک کے قبضہ سے برآمد ہوا تھا اس لیے اسی کو سزا دی گئی ۔
ان وجوہات کی بناء پر قریش کے لوگ چاہتے تھے کہ بلند اور پختہ عمارت بنا کر اوپر چھت ڈال دیں ۔ جب تمام روساء قریش اس پر متفق ہوگئے کہ بیت اللّٰہ کو منہدم کرکے نئے سرے سے تعمیر کیا جائے تو ابو وہب بن عمرو بن عائذ نے جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللّٰہ کے ماموں تھے کعبہ کا ایک پتھر نکال کر اس کی جگہ واپس رکھا اور پھر قریش کو خطاب کرکے کہا : اے قریش کے لوگو ! اس کی تعمیر میں اپنی حلال کی کمائی لگانا ۔
![]() |
فیصلہ ، Faisla , Moral Stories |
اس گھر کی تعمیر میں کوئی ایسا مال نہ لگانا جو تم نے غصب کرکے یا قطع رحمی کرکے یا کسی ذمہ کو جو تمہارے اور کسی دوسرے انسان کے درمیان ہو توڑ کر حاصل کیا ہو ۔
پھر اس خیال سے کہ بیت اللّٰہ کی تعمیر میں شمولیت کے شرف سے کوئی محروم نہ رہ جائے ، بیت اللّٰہ کی تعمیر کو مختلف قبائل پر تقسیم کردیا گیا ۔
دروازے کی جانب کا حصّہ بنی عبد مناف اور بنی زہرہ کے حصہ میں آیا ۔ حجر اسود اور رکن یمانی کا درمیانی حصہ بنی مخزوم اور دیگر قبائل قریش کو ملا ۔ بیت اللّٰہ کی پشت بنی جمح اور بنی سہم کے حصہ میں آئی ۔ حطیم کی تعمیر کی سعادت بنی عبدالدار بن قصی ، بنی اسد اور بنی عدی کو ملی ۔
![]() |
Makkah Saudi Arabia , فیصلہ ، مکہ مکرمہ |
اسی زمانے میں جبکہ خانہء کعبہ کی تعمیر کا کام جاری تھا ایک دن قریش کو یہ اطلاع ملی کہ ایک رومی تاجر کا تجارتی جہاز جدہ کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا ہے ۔
ولید بن مغیرہ یہ سنتے ہی قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ جدہ کی بندرگاہ پہنچا اور اس کے تختے خانہ کعبہ کی چھت کے لیے حاصل کرلیے
![]() |
فیصلہ ، Faisla |
اس جہاز میں باقوم نامی ایک رومی معمار بھی موجود تھا ۔ ولید بن مغیرہ نے بیت اللّٰہ کی تعمیر میں مدد کے لیے اس کو بھی راضی کر لیا ۔
جب قدیم عمارت کے انہدام کا وقت آیا تو کسی کو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ بیت اللّٰہ کو منہدم کرنےکے لیے آگے بڑھے ۔
آخرکار ولید بن مغیرہ نے سابق عمارت کو ڈھانے کے لیے کدال ہاتھ میں لی اور کہا: ’’اے اللّٰہ ! ہم دین سے منحرف نہیں ہوئے ہیں ، ہم خیر کے سوا کچھ نہیں چاہتے ، ہم کسی بری نیت سے تیرے گھر کو نہیں ڈھا رہے ہیں ۔ "
یہ کہہ کر حجر اسود اور رکنِ یمانی کی طرف اس نے کعبہ کے ایک حصّہ پر ضرب لگائی اور پھر رک گیا ۔
رات بھر سب لوگ انتظار میں رہے کہ ولید پر کوئی آفت آتی ہے یا نہیں اگر آفت آ جائے تو ہم کام روک دیں گے اور جو پتھر اکھڑا ہے اسے اس کی سابقہ جگہ پر لگا دیں گے اور اگر کوئی آفت نہ آئے تو کام جاری رکھیں گے ۔
صبح جب ولید بن مغیرہ پر اس فعل کا کوئی وبال نہ پڑا تو عمارت کو منہدم کرنے کا کام مختلف سمتوں سے مختلف قبیلوں نے اپنے اپنے ذمہ لیا اور دیواریں توڑ دی گئیں ۔
عمارت کو یہاں تک کھودا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رکھی گئی بنیادیں نمودار ہوگئیں اور پھر انہی بنیادوں پر تعمیر شروع کردی گئی ۔
پہلے سے طے شدہ معاہدہ کے مطابق ہر قبیلہ نے علیحدہ علیحدہ پتھر جمع کرکے تعمیر شروع کردی ۔
جب تعمیر مکمل ہوگئی
![]() |
مسجد الحرام کی قدیم عمارت ، فیصلہ |
اور حجرِ اسود کو اسکی مخصوص جگہ پر رکھنے کا وقت آیا
![]() |
حجر اسود ، فیصلہ ، Faisla |
تو تمام قبائل میں اختلاف رونما ہو گیا ۔ ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ یہ شرف اسے حاصل ہو اس پر اتنا جھگڑا ہوا کہ آپس میں لڑائی کا خطرہ پیدا ہو گیا لوگ جنگ و جدال اور قتل و خون پر آمادہ ہوگئے اور قریب تھا کہ تلواریں میان سے نکل آئیں ۔
چار پانچ روز یہی جھگڑا چلتا رہا اور اس نزاع کے حل کی کوئی صورت نہ نکل سکی ، آخر ایک روز حرم میں سب مشورے کے لیے جمع ہوئے ۔ بنی مخزوم میں سے ایک شخص ابو امیہ بن المغیرۃ مخزومی ( ولید بن مغیرہ کا بھائی ) نے جو قریش میں سب سے زیادہ سن رسیدہ تھا اٹھ کر یہ تجویز پیش کی کہ اے قریش کے لوگو ! اپنے اس اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے اس بات پر اتفاق کر لو کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے مسجد حرام کے دروازے ( باب الصفا ) سے داخل ہو اسی کو اپنا حکم بنا کر فیصلہ کرایا جائے گا ۔
![]() |
مسجدِ الحرام کا دروازہ ، فیصلہ |
سب نے اس تجویز سے اتفاق کیا ۔
خدا کی قدرت کہ اگلی صبح حرم میں سب سے پہلے داخل ہونے والے رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تھے ۔
لوگوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی کہا : هذا الامين ، رضينا ، هذا محمد بن عبد الله .
یہ امین ہیں ہم راضی ہو گئے یہ تو محمد بن عبداللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) ہیں ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی کہا : اتاکم الامین ، تمہارے پاس امین آ گئے
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ اب اس قضیہ کا فیصلہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو کرنا ہے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک چادر منگوائی اور حجرِ اسود کو اس میں رکھ کر فرمایا : ہر قبیلہ کا سردار چادر کو تھام لے تاکہ اس شرف سے کوئی قبیلہ محروم نہ رہے ۔
اس فیصلہ کو سب نے پسند کیا اور سب نے مل کر چادر اُٹھائی ۔
![]() |
حجر اسود ، Moral Stories for children |
![]() |
حجر اسود اور خانہ کعبہ ، فیصلہ |
یہ نبوت سے صرف پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک ۳۵ برس تھی ۔
اس وقت ساری قوم نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے امین ہونے کی شہادت دی تھی اور ساری قوم نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کس قدر دانشمند انسان ہیں کہ اتنے خطرناک قضیے کو بہترین طریقے سے حل کر کے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو خانہ جنگی سے بچا لیا ۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے کا زکر ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا ۔دونوں میں طے پایا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ کسی ایسے شخص سے کرایا جائے جو بے لاگ انصاف کرے ۔
![]() |
فیصلہ ، Moral Stories |
یہودی نے کہا : چلو یہ معاملہ تمہارے نبی کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہو گا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ انصاف سے فیصلہ کریں گے ۔
منافق نے کہا : نہیں ہم یہ معاملہ یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف کے سامنے پیش کریں گے وہ جو فیصلہ کرے گا ہمیں اس کو ماننا ہوگا
اصل بات یہ تھی کہ منافق کے دل میں چور تھا اور وہ جانتا تھا کہ اگر انصاف سے فیصلہ ہوا تو یہ اس کے خلاف ہوگا ۔ اس لیے وہ چاہتا تھا کہ کعب بن اشرف کو رشوت دے کر
![]() |
Faisla , Moral Stories for children |
اپنے حق میں فیصلہ کروا سکے ۔
مگر یہودی نے منافق کی بات نہ مانی اور اپنی بات پر بضد رہا
آخر دونوں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے
![]() |
مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فیصلہ |
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کے بیان سنے اور پھر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا کیونکہ وہ حق پر تھا ۔
وہ منافق اصرار کرکے یہودی کو اپنے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے گیا اور اپنا اور یہودی کا معاملہ ان کے سامنے پیش کیا ۔
یہودی نے کہا : ہم دونوں پہلے آپ کے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس گئے تھے ، انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا تھا مگر یہ شخص اس فیصلے کو مان نہیں رہا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے منافق سے پوچھا
یہ یہودی جو کچھ کہہ رہا ہے کیا وہ ٹھیک ہے ؟
اس نے کہا : یہ ٹھیک ہے کہ ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس گئے تھے اور انہوں نے اس کے حق میں فیصلہ دیا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے کا فیصلہ آپ کریں مجھے یقین ہے کہ آپ ٹھیک فیصلہ کریں گے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :
ذرا ٹھہرو ! میں ابھی فیصلہ کیے دیتا ہوں ۔
یہ کہہ کر وہ اندر گئے اور تلوار لا کر یہ کہتے ہوئے اس منافق کی گردن اڑا دی کہ میرا فیصلہ یہ ہے ۔
پھر فرمایا :
جو شخص مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فیصلے کو نہ مانے اس کی سزا یہی ہے ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے عہد خلافت کا واقعہ ہے ایک دفعہ دو بدو اکٹھے سفر کر رہے تھے ان میں سے ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین ۔
![]() |
فیصلہ ، Faisla , Moral Stories |
کچھ سفر طے کرنے کے بعد وہ دونوں ایک جگہ سستانے بیٹھ گئے ۔ انہوں نے اپنا کھانا نکالا اور مل کر کھانے لگے ۔
اتفاق سے ایک شخص پاس سے گزرا ان دونوں نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی ۔ چنانچہ تینوں نے مل کر آٹھ روٹیاں کھا لیں ۔ تیسرا شخص جانے لگا تو اس نے شکریہ کے طور پر ان دونوں کو آٹھ درہم دیے ۔
![]() |
فیصلہ ، Faisla |
پانچ روٹیوں والے نے پانچ درہم اپنے پاس رکھ لیے اور تین درہم اپنے دوسرے ساتھی کو دے دیے جس کے پاس تین روٹیاں تھیں ۔
لیکن وہ شخص ناراض ہوا اور کہنے لگا یہ رقم ہم دونوں کو برابر ملنی چاہیے ۔
آخر کار وہ دونوں اپنا جھگڑا امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے پاس لے گئے ۔
حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ان کا جھگڑا سن کر فرمایا :
تمہارا ساتھی تمہیں جو دے رہا ہے وہ لے لو ۔
اس نے کہا : جناب آپ انصاف فرمائیں اور میرا پورا حق مجھے دلائیں ۔
حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : اچھا تو پھر انصاف یہ ہے کہ سات درہم تمہارے ساتھی کو ملیں گے اور ایک درہم تمہیں ۔
وہ بولا : یا امیر المؤمنین یہ کیسا انصاف ہے ؟
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تو سنو ! آٹھ روٹیوں کو تین آدمیوں نے کھایا ۔ ان روٹیوں کے تین حصے کرو تو چوبیس ٹکڑے بنتے ہیں ۔
یہ فرض کرنا چاہیے کہ تینوں نے برابر ٹکڑے کھائے ۔ تمہارے ساتھی کی پانچ روٹیوں کے پندرہ ٹکڑے بنتے ہیں ۔ ان میں سے آٹھ اس نے خود کھائے اور سات مہمان نے ۔
تمہاری تین روٹیوں کے نو ٹکڑے بنتے ہیں ۔ آٹھ تم نے خود کھائے اور ایک مہمان نے ۔
اس لیے مہمان کے دیے ہوئے آٹھ درہموں میں سے سات درہم تمہارے ساتھی کا حق ہیں اور ایک درہم تمہارا ۔
وہ شخص لاجواب ہو گیا اور خاموشی سے ایک درہم لے کر چلا گیا ۔
تاریخ اسلام سے انتخاب
بعثتِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پہلے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فیصلہ
واقعہء تحکیم
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ
Moral Stories
Moral Stories for children
0 Comments