خاندان بنو امیہ کی سو سالہ حکومت ختم ہونے کے بعد
![]() |
بنو اُمیہ کے محلات |
بنو عباس اسلامی دنیا کے حکمران بنے اور طویل عرصے تک حکومت کی ۔
اس خاندان کا پہلا حکمران ابو العباس عبداللّٰہ بن سفاح تھا اس نے ابتداء میں بنو امیہ کے ہزاروں لوگوں کو قتل کروا دیا پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ بنو امیہ کے جو لوگ قتل ہونے کے خوف سے کہیں چھپے ہوئے ہیں اگر وہ میرے پاس پہنچ جائیں تو وہ میری پناہ میں ہوں گے اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا
بنو امیہ کا ایک شخص ابراہیم بن سلیمان بن عبد الملک بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھا ۔
وہ عرصہ سے عباسیوں سے اپنی جان چھپاتا پھر رہا تھا ۔ بھیس بدل کر کبھی ایک شہر چلا جاتا اور کبھی دوسرے شہر ۔ ہر وقت خوف اور حالت سفر میں رہنے کی وجہ سے اس کا برا حال ہو چکا تھا ، اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گیا تھا ۔
اس نے بادشاہ وقت کا اعلان سنا تو سوچا کہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو جانا چاہیے ، اگر بادشاہ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ اسے بھی قتل کروا دیا جائے گا لیکن جو زندگی وہ گزار رہا ہے وہ تو موت سے بھی بدتر ہے ۔
یہ سوچ کر وہ ایک دن عبداللہ بن سفاح کے دربار میں حاضر ہو گیا ۔
![]() |
بنو عباس کے محلات |
سفاح نے وعدے کے مطابق اس کو پناہ دی اور اس سے بہت اچھی طرح پیش آیا ۔
ایک دن باتوں باتوں میں سفاح نے ابراہیم سے پوچھا ، تم ایک مدت تک بھاگتے اور چھپتے پھرتے رہے ہو ، اس مصیبت کے زمانے میں کوئی خاص واقعہ پیش آیا ہو تو بتاؤ ۔
ابراہیم نے کہا ، اس زمانے میں مجھے ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور مجھے ایک ایسے شخص سے واسطہ پڑا جس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ دنیا میں ایسے شریف لوگ بھی موجود ہیں ؟
سفاح نے کہا ، ہم یہ واقعہ ضرور سننا چاہیں گے ۔
ابراہیم نے واقعہ سنانا شروع کیا ۔۔
جب آپ کا خاندان برسر اقتدار آیا اور بنو امیہ کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو میں اپنی جان بچانے کے لیے شہر سے بہت دور ایک قصبہ میں چلا گیا اور وہاں ایک ہمدرد کے گھر میں چھپ گیا ۔
![]() |
شریف دشمن ، قصبہ |
مکان کے اندر بند رہتے رہتے اکتا جاتا تو چہرے کو کپڑے سے چھپا کر مکان کی چھت پر چلا جاتا اور وہاں بیٹھ کر جنگل اور کھیتوں کا سبزہ دیکھتا اس طرح دل کچھ بہل جاتا ۔
ایک دن میں گھر کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا عباسیوں کی فوج کا ایک دستہ سیاہ جھنڈے اٹھائے اس قصبہ کی طرف آ رہا ہے ۔
![]() |
عباسی فوج کا دستہ ، شریف دشمن |
میں پکڑے جانے کے خوف سے فوراً چھت سے اترا اور بھیس بدل کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا ۔
کئی دن ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتا رہا ۔ بدقسمتی سے جدھر جاتا وہیں عباسیوں کو بنو امیہ کے لوگوں کے تعاقب میں پاتا ۔
آخر تنگ آ کر شہر کوفہ پہنچ گیا ۔
![]() |
عراق ، Iraq |
وہاں میں کسی کو جانتا تو نہیں تھا لیکن خیال تھا کہ اتنے بڑے شہر میں بنو امیہ کا کوئی نہ کوئی ہمدرد ضرور مل جائے گا جس کے پاس مجھے پناہ مل سکے گی ۔
اسی خیال سے کبھی ایک گلی میں داخل ہو جاتا اور کبھی دوسری گلی میں ۔
![]() |
شریف دشمن ، Moral Stories |
چلتے چلتے مجھے ایک بڑا احاطہ نظر آیا جس کے اندر ایک عالی شان مکان تھا ۔ میں پریشانی کی حالت میں اس احاطے کے اندر چلا گیا اور مکان کے دروازے کے قریب کھڑا ہو گیا ۔
![]() |
شریف دشمن ، Moral Stories |
تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک نوجوان اس احاطے کے اندر داخل ہوا ، وہ ایک خوبصورت عربی گھوڑے پر سوار تھا اور اس کے ساتھ بہت نوکر چاکر تھے ۔
اس نوجوان نے مجھے مکان کے دروازے کے پاس کھڑے دیکھا تو پوچھا ، تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو ؟
میں نے جواب دیا ، میں ایک اجنبی مسافر ہوں ، مجھے اپنی جان کا خوف ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی نیک آدمی مجھے پناہ دے ۔
یہ سن کر اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور مکان کے اندر چلا گیا ، میں امید و نا امیدی کی حالت میں باہر کھڑا تھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد ایک ملازم باہر آیا اور مجھے اپنے ساتھ مکان کے اندر اس نوجوان کے پاس لے گیا
نوجوان نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرکے کہا جاؤ اس کمرے میں آرام کرو ۔
میں اس شخص کو سلام کرکے دوسرے کمرے میں چلا گیا ۔ اس میں نہایت عمدہ قالین بچھا ہوا تھا اور ضرورت کی ہر چیز وہاں موجود تھی ۔
کھانے کے وقت ملازم آتے اور کھانا کھلا کر چلے جاتے ۔
نوجوان امیر بھی روزانہ ایک بار میرے پاس آتا اور میری خیریت دریافت کرتا ۔
اس طرح کئی ہفتے گزر گئے ۔ میں حیران تھا کہ اس نے کبھی مجھ سے میرے وطن اور عزیز و اقارب کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا ۔
وہ ہر روز گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں چلا جاتا اور رات تک باہر رہتا ۔ جب واپس آتا تو بہت مغموم دکھائی دیتا
آخر ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ آپ ہر روز سارا دن باہر گزار دیتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دن بھر کی دوڑ دھوپ کے باوجود آپ اپنا مقصود حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ آپ کو کیا فکر لاحق ہے اور کس چیز کی تلاش میں ہیں ؟
اس نے جواب دیا ، چند سال ہوئے ابراہیم بن سلیمان نے میرے والد کو قتل کیا تھا ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ امیر المؤمنین سفاح کے خوف سے چھپتا پھرتا ہے ، میں اس کی تلاش میں ہوں اور چاہتا ہوں کہ کسی طرح وہ مجھے مل جائے تو اس سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لوں ۔
یہ بات سن کر میں خوفزدہ ہو گیا اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ، میں اپنی قسمت پر حیران تھا کہ پناہ بھی ملی تو ایسے شخص کے گھر میں جو میری جان کا دشمن ہے ۔
میں نے اس نوجوان سے اس کے باپ کا نام پوچھا اور اس کے مارے جانے کی وجہ دریافت کی ۔
اس نے تفصیلاً سب کچھ بیان کیا ۔
جو کچھ اس نے بتایا تھا وہ سب سچ تھا ۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آخر میں نے اس سے کہا ، آپ نے مجھے اپنے گھر میں پناہ دی اور نہایت کھلے دل سے میری خاطر مدارت کی ۔ آپ نے جو احسان مجھ پر کیا ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کے بدلے میں آپ کی کوئی خدمت انجام دوں ، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے والد کے قاتل کو آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں اور آپ کو روز مرہ کی دوڑ دھوپ سے بچا سکتا ہوں ۔
میری بات سن کر نوجوان کا چہرہ چمک اٹھا اور وہ بولا ،
اگر تم یہ کام کر سکو تو میں تمہارا بے حد احسان مند ہوں گا ۔
یہ سن کر میں نے وہ لبادہ اتار دیا اور جو بھیس بدل رکھا تھا وہ بھی ہٹا دیا اور کہا وہ شخص جس نے آپ کے والد کو قتل کیا تھا وہ آپ کے سامنے حاضر ہے ، میں ہی ابراہیم بن سلیمان بن عبد الملک ہوں ۔
نوجوان امیر پہلے تو بہت حیران ہوا اور غور سے میری طرف دیکھنے لگا پھر بولا ، اگرچہ تمہاری شکل ابراہیم بن سلیمان سے ملتی ہے لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ تم واقعی ابراہیم بن سلیمان بن عبد الملک ہو ۔
ابراہیم بن سلیمان تو بہت ہٹا کٹا شخص ہے مگر تم تو خاصے کمزور ہو ۔
میں نے کہا : خدا کی قسم میں ہی ابراہیم بن سلیمان بن عبد الملک ہوں جس کی آپ کو مدت سے تلاش تھی ۔
امیر شخص نے کہا ، میں تمہاری بات کا اعتبار نہیں کر سکتا تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے ؟
میں نے اسے تمام تفصیلات سے آگاہ کیا ۔
جب نوجوان کو میری بات کا یقین آ گیا تو اس کا چہرہ متغیر ہو گیا وہ دیر تک سر جھکائے کچھ سوچتا رہا پھر میری جانب دیکھ کر کہنے لگا
تمہارا اور میرے والد کا سامنا قیامت کے دن ہوگا ۔ اس وقت میرے والد ایسے حاکم سے انصاف مانگیں گے جس سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے ۔
خدا جانتا ہے کہ میرے والد بے قصور تھے اور تم نے ناحق انہیں قتل کیا ۔
لیکن چونکہ میں تمہیں اپنی پناہ میں لے چکا ہوں اور تم میرے مہمان ہو ، میں اپنا عہد نہیں توڑوں گا اور اپنی پناہ میں آئے ہوئے شخص کو قتل نہیں کروں گا ۔
اب بہتر یہ ہوگا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ کسی وقت میرے جذبات میری عقل پر غالب آ جائیں اور مجھے اپنے آپ پر قابو نہ رہے ایسی حالت میں وعدہ توڑنے کا مجرم بن جاؤں گا ۔
یہ کہہ کر وہ نوجوان دوسرے کمرے میں چلا گیا ، تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ میرے کمرے میں آیا ، اس کے ہاتھ میں اشرفیوں سے بھری ایک تھیلی تھی ۔
![]() |
اشرفیوں کی تھیلی |
اس نے وہ تھیلی میرے سامنے رکھ دی اور کہا ، جب تک تمہاری مصیبت کا زمانہ ختم نہیں ہوتا اور اپنی جان بچانے کے لیے تم چھپے رہنا ضروری سمجھتے ہو اس روپیہ کو اپنی ضرورتوں پر خرچ کرنا ۔
میں نوجوان کی دریا دلی دیکھ کر حیران رہ گیا ، اس کی یہی مہربانی کچھ کم نہ تھی کہ قابو میں آئے ہوئے دشمن کو چھوڑ دیا اور مزید اسے اشرفیاں بھی دے رہا تھا ۔
میں نے کہا :
اے شریف انسان ، آپ نے اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے بڑی قربانی دی کہ دشمن سامنے ہوتے ہوئے آپ نے بدلہ نہیں لیا ، آپ کا یہی احسان بہت ہے اب یہ اشرفیاں میں ہرگز نہ لوں گا ۔
یہ کہہ کر میں نے اسے سلام کیا اور دوبارہ بھیس بدل کر اس کے گھر سے باہر نکل آیا ، امیر المؤمنین میں نے ساری عمر ایسا شریف دشمن کبھی نہیں دیکھا ۔
سفاح یہ قصہ سن کر بہت متاثر ہوا اور دیر تک اس شریف نوجوان کی تعریف کرتا رہا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
عباسی خاندان کا ساتواں خلیفہ مامون الرشید ١٩٨ ھ میں تخت حکومت پر بیٹھا تو اس کو اپنی حکومت کے پہلے چند سالوں میں کئی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ مامون الرشید نے ایک ایک کرکے تمام بغاوتوں پر قابو پالیا ، باغیوں میں اس کا چچا ابراہیم بن مہدی بھی شامل تھا وہ خود خلیفہ بن بیٹھا اور تقریباً دو سال تک بغداد اور کچھ اور حصوں پر حکومت کرتا رہا ۔
![]() |
بغداد |
٢٠٣ ھ میں مامون نے اس کو شکست دی تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھس بدل کر کہیں چھپ گیا مامون کے سپاہیوں نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا ۔ آخر کچھ مدت بعد مامون نے اعلان کیا کہ جو شخص ابراہیم کو پکڑ کر لائے گا اس کو ایک لاکھ درہم انعام دیا جائے گا ۔
![]() |
Gold coins , سونے کے سکے |
یہ خبر بہت جلد سارے ملک میں پھیل گئی اور ایک لاکھ درہم کے لالچ میں ہر شخص ابراہیم کے خون کا پیاسا نظر آنے لگا ۔
اس کے بعد کیا ہوا اس کا حال ابراہیم بن مہدی نے اس طرح بیان کیا :
جس وقت مجھے مامون کے اعلان کی خبر ہوئی میری نظروں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ خدا کی زمین مجھے تنگ نظر آنے لگی کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جان کیسے بچاؤں اور کہاں جاؤں ؟
آخر سوچ سوچ کر جس مکان میں چھپا ہوا تھا وہاں سے نکلا ، دوپہر کا وقت تھا سخت گرمی پڑ رہی تھی ، چہرے پر کپڑا ڈالے لوگوں کی نظروں سے بچتا بچاتا ایک ایسی گلی میں جا نکلا جو آگے چل کر بند تھی ۔
![]() |
Moral Stories for children |
اب نہ آگے بڑھ سکتا تھا اور نہ ہی پیچھے جا سکتا تھا ، پریشان تھا کہ کدھر جاؤں اتنے میں ایک مکان نظر آیا جس کے دروازے پر ایک حبشی غلام کھڑا تھا ، میں نے آگے بڑھ کر بڑی عاجزی سے پوچھا ، کیا تھوڑی دیر کے لیے تم مجھے اپنے مکان میں ٹھہرنے کی اجازت دے سکتے ہو ؟
![]() |
Sharif Dushman , Moral Stories |
اس نے کہا ، کیوں نہیں ، آپ تشریف لائیں ۔
پھر اس حبشی نے دروازہ کھولا اور مجھے مکان کے اندر لے جا کر ایک کمرے میں بٹھا دیا ، اس میں اعلیٰ قسم کا قالین بچھا ہوا تھا جس پر قیمتی گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے مجھے بٹھا کر وہ دروازہ بند کرکے باہر چلا گیا ۔
اس کے جانے کے بعد میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید یہ شخص حکومت کے آدمیوں کو اطلاع دینے گیا ہے کہ وہ آکر مجھے گرفتار کرلیں ، یہ خیال آتے ہی میری امید نا امیدی میں بدل گئی اور میرا یہ حال ہو گیا جیسے دہکتے انگاروں پر لوٹ رہا ہوں اتنے میں دروازہ کھلا اور وہ حبشی غلام ایک مزدور کے ساتھ مکان میں داخل ہوا مزدور کے سر پر کھانے پینے کا بہت سا سامان تھا ۔ روٹیاں ، کچا گوشت ، کچھ نئے برتن ، اس نے مزدور سے سامان لے کر اس کو رخصت کیا پھر تمام چیزیں میرے سامنے رکھ کر بڑے ادب سے کہنے لگا ، جناب میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اپنے گھر کا پکا ہوا کھانا آپ کی خدمت میں پیش کروں اس لیے بازار سے تمام نئی چیزیں خرید کر لایا ہوں آپ جس طرح مناسب سمجھیں استعمال کریں ۔ پھر وہ سارا سامان میرے پاس چھوڑ کر چلا گیا ۔
مجھے اس وقت بھوک لگی ہوئی تھی ، کھانا بنایا اور خوب سیر ہو کر کھایا ۔ اس کے بعد حبشی نے بہت عمدہ شربت پلایا ۔
میں نے اس سے پوچھا کیا تم مجھے جانتے ہو ؟
اس نے کہا سبحان اللّٰہ ، بھلا آپ کو اس شہر میں کون نہیں جانتا ، آپ ابراہیم بن مہدی ہیں جن کے لیے مامون الرشید نے اعلان کیا ہے کہ جو آپ کو پکڑ کر لائے گا ایک لاکھ درہم انعام پائے گا ، لیکن آپ میری طرف سے بالکل مطمئن رہیں مجھ سے کبھی ایسی گستاخی نہیں ہو سکتی ۔
میں اس حبشی غلام کا حوصلہ اور شرافت دیکھ کر حیران رہ گیا ، کچھ دیر میرے پاس بیٹھ کر پھر وہ چلا گیا اور میں سارے خطرے بھول کر غافل ہو کر سو گیا ، میری آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی ۔
میرے پاس اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی تھی میں نے اس شریف حبشی کے سامنے رکھ دی
![]() |
شریف دشمن ، اشرفیوں کی تھیلی |
اور اس سے کہا ، تمہاری مہربانی ہوگی اگر یہ رقم قبول کرلو اور اپنے خرچ میں لاؤ ، شرمندہ ہوں کہ اس وقت تمہاری کوئی اور خدمت نہیں کرسکتا ۔ تمہارا احسان اور شریفانہ برتاؤ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا ۔ میں جس مصیبت میں ہوں اگر خدا نے مجھے اس سے نکال لیا تو بہت کچھ صلہ دوں گا ۔
میری باتیں سن کر حبشی غلام کو بہت دکھ ہوا ، اس نے تھیلی کو ہاتھ تک نہ لگایا اور افسوس کے ساتھ کہنے لگا :
مجھ سا غریب آدمی آپ جیسے عزت دار سرداروں کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتا ، آپ کے یہاں آنے سے میری جو عزت افزائی ہوئی اسے کیا ان اشرفیوں کے بدلے میں بیچ دوں ؟
میں نے مجبوراً تھیلی واپس لے لی اور اس سے کہا مجھے اب یہاں سے چلے جانے کی اجازت دو ، لیکن اس نے بڑی عاجزی سے کہا ، آپ کچھ دن یہاں اور ٹھہر جائیں تاکہ لوگ خلیفہ کے اعلان کو بھول جائیں ، میری پوری کوشش ہوگی کہ آپ یہاں امن اور آرام سے رہیں ۔
میں کچھ دن اور اس کے مکان پر ٹھہرا اس عرصے میں حبشی غلام نے میری بہت خدمت کی لیکن پھر اس خیال سے کہ اس شریف آدمی کو میری وجہ سے بہت خرچ کرنا پڑ رہا ہے ، ایک دن بھیس بدل کر چپکے سے اس کے گھر سے نکل گیا ۔
آٹھ دن تک ادھر اُدھر بھٹکتا رہا ایک دن دریائے دجلہ کے پل کو عبور کرنا چاہ رہا تھا کہ گھوڑے پر سوار ایک فوجی افسر نے مجھے دیکھ لیا ۔
![]() |
دریائے دجلہ ، river Tigris |
یہ افسر میری ملازمت میں رہ چکا تھا اور مجھے اچھی طرح پہچانتا تھا ، دیکھتے ہی چلایا ، یہ رہا مامون الرشید کا اشتہاری مجرم ، دیکھنا جانے نہ پائے ۔ پھر وہ گھوڑے سے اتر کر میری طرف بڑھا قبل اس کے کہ وہ مجھ پر قابو پاتا میں نے اسے اس قدر زور سے دھکا دیا کہ وہ گڑھے میں جا گرا اور زخمی ہو گیا ۔ شور سن کر لوگ جمع ہو گئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کیا ہوا ؟ پھر وہ اس فوجی افسر کو گڑھے میں سے نکالنے لگے ، میں ان کی نظروں سے بچتا بچاتا پل عبور کرکے ایک راستے پر چلنے لگا کچھ دور جا کر دیکھا ایک مکان کا دروازہ کھلا ہے اور ایک بزرگ دروازے میں کھڑے ہیں
میں نے عاجزی سے کہا ،
محترم بزرگ ، میری جان اس وقت سخت خطرے میں ہے مجھ پر رحم کیجیے اور مجھے پناہ دیجیئے ۔
اس نیک شخص نے کہا ، آپ بخوشی میرے گھر میں ٹھہر سکتے ہیں پھر اس نے اپنے خادم کو کچھ ہدایات دیں اور اس نے مجھے بالا خانے میں پہنچا کر میرے لیے بستر بچھا دیا اور کھانا لایا ۔
کچھ ہی دیر بعد وہ بزرگ تشریف لائے اور مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا آپ اپنے دل سے ہر قسم کا خوف نکال دیجیے یہاں کسی کو آپ کا پتہ نہیں چل سکتا ۔
اتنے میں دروازہ کھٹکھٹانے کی زوردار آوازیں آئیں جیسے کوئی مصیبت میں مبتلا ہے اور جلد دروازہ کھلوانا چاہتا ہے ۔
خادم نے دروازہ کھولا ، میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو وہی فوجی افسر تھا جسے میں نے دھکا دے کر گڑھے میں گرایا تھا ، اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور کپڑوں پر خون لگا ہوا تھا ، یہ دیکھ کر میرا خون خشک ہو گیا کہ اب تو میری جان بچنا بہت مشکل ہے ۔
بزرگ نے اپنے بیٹے سے پوچھا ، یہ تمہیں کیا ہوا ؟
اس نے کہا ، آج ایک بڑا شکار ہاتھ آیا تھا مگر افسوس میں اسے پکڑنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔
پھر اس نے سارا قصہ سنایا ، بزرگ کے حکم پر خادم نے ایک کپڑا جلایا اور اس کی راکھ زخم میں بھردی ، پھر زخم پر پٹی باندھی ، خون آلود کپڑے بدلوائے ، اسے گرم دودھ دیا ، جب وہ سو گیا تو وہ بزرگ میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے ، معلوم ہوتا ہے کہ تم وہی شخص ہو جس کو پکڑنے کی کوشش میں میرا بیٹا زخمی ہوا ہے ۔
میں نے جواب دیا ، ہاں ، میں ہی وہ بے نصیب انسان ہوں ۔
اس بزرگ شخص نے کہا ، ڈرو نہیں ، جب تک میرا بیٹا زخمی ہے تم میری حفاظت میں ہو ، کیونکہ میں نے تمہیں پناہ دی ہے ، تم میرے مہمان ہو ۔
اس کے بعد میں تین دن تک اس معزز بزرگ کا مہمان رہا اور اس نے میری بڑی خاطر مدارت کی ، تیسرے دن شام کو انہوں نے مجھ سے کہا ، اب میرا بیٹا صحت یاب ہو گیا ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے تمہارا پتہ چل جائے ، اب تم اپنی جان بچانے کی کوئی اور تدبیر کرو ۔
میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اندھیرا ہونے تک بالا خانے ہی میں ٹھہرا رہا ، جب کچھ رات گزر گئی تو انہوں نے کھانا اور کچھ درہم دے کر اپنے گھر سے رخصت کردیا ۔
اب میں پریشان تھا کہ کدھر جاؤں ، سوچتے سوچتے مجھے اپنے ایک خادم کا خیال آیا جس کے ساتھ میں نے اپنی حکومت کے زمانے میں بہت کچھ احسانات اور بہترین سلوک کیے تھے ۔ مجھے یقین تھا کہ اگر میں اس کے گھر صحیح سلامت پہنچ گیا تو وہ ضرور مجھے پناہ دے گا ۔ یہ خیال آتے ہی میں سیدھا اس کے گھر گیا ۔
![]() |
شریف دشمن |
مجھے دیکھتے ہی وہ بہت خوش ہوا ، لیکن میری حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا اب آپ فکر نہ کریں اور میرے گھر میں آرام سے رہیں ۔
پھر وہ میرے لیے کھانا لینے چلا گیا ، تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو حکومت کے سپاہی اس کے ساتھ تھے ، اس نے میری مخبری کی تھی اور مجھے ان سپاہیوں کے حوالے کردیا ۔ یہ سپاہی پکڑ کر مجھے خلیفہ مامون الرشید کے دربار میں لے گئے ، میں نے اسے ادب سے جھک کر سلام کیا ، مجھے دیکھ کر خلیفہ مامون الرشید غصے سے کھڑا ہو گیا اور قبل اس کے کہ وہ میرے قتل کے احکامات جاری کرتا میں نے کہا :
امیر المؤمنین بدلہ لینے میں جلدی نہ فرمائیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ میں سخت سے سخت سزا کا مستحق ہوں اور آپ کو سزا دینے کا پورا اختیار ہے لیکن معاف کر دینا پرہیز گاری کی بات ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کو پسند ہے ، اگر آپ سزا دیں تو آپ اس کا حق رکھتے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ کا احسان ہے ۔
مامون الرشید نے سر اٹھا کر میری جانب دیکھا تو مجھے اس کی آنکھوں میں رحم کی جھلک نظر آئی ۔
اس نے اپنے بیٹے ، بھائی اور دربار کے دوسرے امراء سے ان کی رائے طلب کی تو سب نے قتل کا مشورہ دیا لیکن وزیر اعظم احمد بن ابی خالد نے معاف کردینے کا مشورہ دیا ، مامون الرشید نے اس کا مشورہ قبول کر لیا اور کہا ،
اپنے کسی عزیز کو ہلاک کرنا ایسا ہی ہے جیسا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ۔
میں نے کہا ، اللّٰہ اکبر ، امیر المؤمنین نے مجھے معاف کر دیا ۔
اس پر مامون الرشید سجدے میں گیا اور دیر تک سجدے کی حالت میں رہا پھر سر اٹھا کر پوچھا ، آپ جانتے ہیں کہ میں نے یہ سجدہ کیوں کیا ؟
میں نے کہا ، شاید اس لیے کہ خدا نے آپ کے دشمن کو آپ کے قابو میں دے دیا ۔
مامون الرشید نے کہا نہیں بلکہ اس بات پر کہ خدا نے مجھے معاف کرنے کی توفیق عطا کی
پھر پوچھا ، اچھا یہ بتائیے اس عرصے میں آپ پر کیا بیتی ؟
میں نے اپنی مصیبتوں کا سارا حال شروع سے آخر تک بیان کیا ۔
مامون الرشید نے یہ سن کر حبشی غلام ، فوجی افسر کے والد اور اس خادم کو طلب کیا
جب وہ حاضر ہو گئے تو اس نے غلام کی شرافت کی تعریف کی اور اس کا ایک ہزار دینار سالانہ وظیفہ مقرر کیا اور کچھ انعامات سے نوازا ، فوجی افسر کے والد کو بھی انعام و اکرام سے نوازا ، تاہم خادم کو بہت ملامت کی کہ اس نے اپنے سابق آقا سے نمک حرامی کی ، پھر اس کو کوڑے لگائے اور کچھ عرصہ کے لیے قید کردیا ۔
خلافتِ عباسیہ کے دو تاریخی اور سچے واقعات
Moral Stories
Moral Stories for children
مامون الرشید
ابراہیم بن سلیمان بن عبد الملک
0 Comments