حضرت ابنِ عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایک دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لائے اور آپ نے فرمایا :
پھر میں نے ایک جم غفیر دیکھا جو پورے افق پر پھیلا ہوا تھا ۔ مجھے توقع ہوئی کہ یہ میری امت ہو گی لیکن کہا گیا : یہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی امت ہے ۔
پھر مجھ سے کہا گیا دیکھیے میں نے نگاہ اٹھائی تو مجھے ایک بہت بڑا ہجوم نظر آیا جو تا حدِ نگاہ پورے افق پر چھایا ہوا تھا اور مجھ سے کہا گیا کہ اپنے دائیں جانب اور بائیں جانب دیکھیں چنانچہ میں نے ہر طرف دیکھا تو ان اطراف میں بھی یہی حال تھا تا حدِ نگاہ پورا افق ان کے پیچھے چھپ گیا تھا ۔
![]() |
دنیا آخرت کی کھیتی ہے |
مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت ہے اور ان میں ستر ہزار ایسے ہیں جو بغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے ۔
![]() |
چودھویں کا چاند ، Moral Stories |
اس گفتگو کے بعد لوگ منتشر ہو گئے اور ان پر صورتحال واضح نہ ہو سکی ۔
چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین آپس میں مختلف باتیں کرتے رہے
کسی نے کہا ، ہم تو شرک کی حالت میں پیدا ہوئے تھے اگرچہ بعد میں ہم اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے لیکن یہ لوگ جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہونے والے ہیں ہماری اولاد ہوں گے یا وہ لوگ ہوں گے جو مسلمان پیدا ہوئے ۔
ان باتوں کی اطلاع جب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نہ شگون بد لیتے ہیں ،
![]() |
دنیا آخرت کی کھیتی ہے |
نہ جھاڑ پھونک کراتے ہیں اور نہ داغ سے علاج کراتے ہیں ، صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
یہ بات سن کر حضرت عکاشہ بن محصن الاسدی اٹھے اور عرض کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، دعا کیجیے اللّٰہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں شامل فرمائے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، عکاشہ تم ان میں سے ہو گے ۔
اس کے بعد انصار میں سے ایک اور شخص اٹھے اور عرض کی ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میرے لیے بھی دعا کیجیے کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں شامل فرمائے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، عکاشہ تم پر سبقت لے گئے ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : روز قیامت اللّٰہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے اے آدم علیہ السلام :
حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے : میں حاضر ہوں میرے پروردگار ! اطاعت گزار ہوں اور ہر بھلائی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے : جہنم میں بھیجنے کے لیے لوگوں کو الگ کر لو ۔
![]() |
دنیا آخرت کی کھیتی ہے ، Moral Stories |
حضرت آدم علیہ السلام دریافت کریں گے جہنم میں بھیجے جانے والے کس قدر ہیں ؟
اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے ، ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ وقت لوگوں پر بہت سخت ہو گا ، ان کی حالت ایسی ہو گی گویا وہ نشے میں ہیں حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ یہ کیفیت اللّٰہ تعالیٰ کے سخت عذاب کے اثر سے ہو گی ۔
یہ ارشاد سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! اس ہزار میں سے ایک جو جنت میں داخل ہو گا ہم میں سے کون کون ہو گا ؟
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم خوش ہو جاؤ کہ جہنم میں جانے والوں میں نو سو ننانوے یاجوج ماجوج ہوں گے اور ایک تم میں سے ہو گا
پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ تم اہلِ جنت کا چوتھائی حصہ ہو گے ؟
ہم نے اللّٰہ کی حمد و ثناء کی اور اللّٰہ اکبر کہا ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : کیا تم اس پر خوش ہو کہ تم اہلِ جنت کا نصف حصہ ہو گے ؟
ہم نے پھر اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور اللّٰہ اکبر کہا
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جان ہے ، میں توقع کرتا ہوں کہ تم اہلِ جنت کے نصف ہوگے ۔
![]() |
دنیا آخرت کی کھیتی ہے ، Moral Stories for children |
جنت میں صرف وہ شخص داخل ہو گا جس نے اپنے نفس کو مسلمان بنا لیا ۔ اہل شرک کے مقابلے میں تمہاری مثال ایسی ہے جیسے سیاہ بیل کی کھال میں کوئی ایک سفید بال ہو یا سرخ بیل کی کھال میں ایک سیاہ بال ہو ۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اکثر فرماتے تھے ، کیا کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟
جس کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا ہوتا وہ اپنا خواب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بیان کرتا ۔
ایک دن صبح کے وقت آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : آج رات میرے پاس دو فرشتے آئے انہوں نے مجھے نیند سے بیدار کرکے کھڑا کیا اور کہا چلیے ۔
میں ان کے ساتھ چل پڑا ۔
ہم ایک شخص کے پاس پہنچے جو لیٹا ہوا تھا دوسرا شخص اس کے قریب پتھر اٹھائے کھڑا تھا
![]() |
دنیا آخرت کی کھیتی ہے |
یکایک اس شخص نے وہ پتھر اس لیٹے ہوئے شخص کے سر پر دے مارا جس سے اس کا سر پھٹ گیا ، پھر وہ اس پتھر کو اٹھانے گیا لیکن وہ ابھی واپس نہ آیا تھا کہ اس کا سر پھر پہلے کی مانند صحیح و سالم ہو گیا ۔
اس شخص نے دوبارہ وہی پتھر اس کے سر پر دے مارا جیسے پہلے مارا تھا اور اس کا سر پھٹ گیا ۔ میں نے یہ دیکھ کر ان سے پوچھا ، سبحان اللّٰہ ، یہ دو شخص کون ہیں اور ان کا معاملہ کیا ہے ؟
ان دونوں فرشتوں نے مجھ سے کہا ، آگے چلیے ۔
ہم پھر آگے چل پڑے اور ایک شخص کے پاس پہنچے جو گدی کے بل چت لیٹا ہوا تھا ۔ ایک دوسرا شخص لوہے کا ایک آنکڑا لے کر اس کے سر پر کھڑا تھا اس نے وہ آنکڑا اس شخص کے چہرے کے ایک جانب سے گاڑ کر اس کے ایک گال ایک نتھنے اور ایک آنکھ کو گدی تک چیر دیا ، پھر وہ اس کے چہرے کی دوسری جانب مڑا اور اس حصے کو بھی اسی طرح چیر دیا ، ابھی وہ چہرے کی اس جانب سے فارغ بھی نہیں ہو پایا تھا کہ دوسری جانب پھر پہلے کی طرح صحیح و سالم ہو گئی ، اس شخص نے پھر وہی عمل دہرایا جو پہلے کیا تھا ۔
یہ دیکھ کر میں نے حیرت سے پوچھا ! سبحان اللّٰہ یہ دونوں کون ہیں اور ان کا معاملہ کیا ہے ؟ ان دونوں نے کہا : آگے چلیے ، آگے چلیے ۔
ہم چل پڑے اور ایک تنور نما چیز پر پہنچے تو وہاں کچھ شور اور مختلف آوازیں سنائی دیں ۔ جھانک کر دیکھا تو اس میں کچھ مرد اور عورتیں نظر آئے جن کے نیچے کی جانب سے ان پر آگ کی لپٹیں آتی تھیں
![]() |
دنیا آخرت کی کھیتی ہے |
جونہی یہ لپٹ آتی تو وہ لوگ چیخنے چلانے لگتے ۔
دریافت کیا یہ کون ہیں اور ان کا کیا معاملہ ہے ؟
ان دونوں نے کہا : آگے چلیے ، آگے چلیے
ہم آگے بڑھے اور ایک نہر پر پہنچے جو بالکل خون کی طرح سرخ تھی ۔
![]() |
دنیا آخرت کی کھیتی ہے |
نہر کے اندر ایک شخص تیر رہا تھا اور اس نہر کے کنارے پر ایک شخص کھڑا تھا جس کے پاس بہت سے پتھر جمع تھے
جب وہ تیرنے والا شخص تیر کر اس شخص کے پاس پہنچتا جس نے پتھر جمع کر رکھے تھے تو اس کے سامنے اپنا منہ کھول دیتا وہ اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا اور وہ تیرتا ہوا واپس چلا جاتا پھر دوبارہ لوٹ کر واپس آتا جیسے پہلے آیا تھا اور اس کے آگے اپنا منہ کھول دیتا اور وہ اس کے منہ میں پھر ایک پتھر ڈال دیتا ۔
میں نے ان دونوں سے پوچھا : یہ دونوں کون ہیں اور ان کا کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے کہا : آگے بڑھیے ، آگے بڑھیے ۔
ہم چل پڑے اور ایک شخص کے پاس پہنچے جو انتہائی بد شکل تھا اس کے قریب آگ تھی جسے وہ دہکا رہا تھا اور اس کے گرد طواف کر رہا تھا ۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کون ہے اور کیا کر رہا ہے ؟ انہوں نے کہا آگے چلیے آگے چلیے ۔
ہم اور آگے بڑھ گئے اور ایک باغ میں پہنچے جس میں گھنا سبزہ تھا ۔ اس میں موسم بہار کے پھول کھلے ہوئے تھے
![]() |
دنیا آخرت کی کھیتی ہے |
باغ کے درمیان میں ایک شخص تھا جس کا قد اس قدر طویل تھا کہ میں اس کے سر کو جو آسمان تک چلا گیا تھا دیکھنے سے قاصر تھا اور اس کے ارد گرد اتنے بچے موجود تھے کہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے ۔ میں نے اپنے دونوں ساتھیوں سے پوچھا : سبحان اللّٰہ ، یہ کون ہیں اور یہ بچے کیسے ہیں ؟
انہوں نے کہا آگے بڑھیے اور آگے بڑھیے ۔
ہم آگے بڑھے تو ایک باغ میں پہنچے جس سے بڑا باغ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔
ان دونوں نے مجھ سے کہا ، اوپر تشریف لے جائیں ۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہم اس باغ میں چڑھتے گئے اور ایک شہر میں جا پہنچے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں کا بنا ہوا تھا ، ہم اس شہر کے دروازے پر پہنچے اور دروازہ کھولنے کے لیے کہا جو کھول دیا گیا ۔ ہم اندر گئے تو وہاں ہمیں ایسے لوگ نظر آئے جن کا آدھا جسم تو اس قدر خوبصورت تھا جتنا زیادہ سے زیادہ خوبصورت ہونا ممکن ہے اور باقی آدھا جسم اتنا بدصورت تھا جس قدر زیادہ سے زیادہ بدصورت ہو سکتا تھا ۔
میرے ان دونوں ساتھیوں نے ان لوگوں سے کہا ، اس نہر میں اتر جاؤ ۔
ہمارے سامنے چوڑائی میں ایک نہر بہ رہی تھی جس کا پانی خالص دودھ کی مانند سفید تھا
![]() |
دنیا آخرت کی کھیتی ہے |
یہ لوگ اس نہر میں اتر گئے ۔ پھر نکل کر ہمارے پاس لوٹ آئے ، ان کی ساری بدصورتی جاتی رہی تھی اور وہ بہت خوبصورت ہو گئے تھے ۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں نے مجھ سے کہا یہ جنت عدن ہے اور یہی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی قیام گاہ ہے ۔
میں نے اوپر کی جانب نگاہ اٹھائی مجھے ایک محل نظر آیا جو ابر کی مانند بالکل سفید تھا ۔ انہوں نے کہا یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا محل ہے ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں نے ان دونوں سے کہا ، اللّٰہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے مجھے اس محل کے اندر جانے کی اجازت دو ۔
وہ کہنے لگے : ابھی نہیں ، البتہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس میں ضرور داخل ہوں گے ۔
میں نے ان دونوں سے کہا ، آج رات بھر میں نے جو عجیب و غریب چیزیں دیکھیں ہیں ان کے بارے میں بتائیں وہ کیا تھیں ؟
وہ کہنے لگے ، لیجیے ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں ۔
پہلا شخص جس کے پاس آپ پہنچے اور اس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا ، اس نے قرآن کا علم حاصل کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا اور فرض نمازوں سے لا پرواہی برتتا رہا ۔
جس شخص کا جبڑا گدی تک چیرا جا رہا تھا ایسا شخص تھا جو صبح اپنے گھر سے نکل کر ایسی جھوٹی افواہیں گھڑتا تھا جو پوری دنیا میں پھیل جاتی تھیں ۔
اور وہ مرد و عورت جو تنور میں جل رہے تھے بدکار مرد و عورت تھے ۔
جو شخص نہر میں تیر رہا تھا اور پتھر کا لقمہ کھا رہا تھا وہ سود خور تھا
بدصورت شخص جو آگ دہکا رہا تھا اور اس کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ مالک تھا ۔
وہ طویل القامت شخص جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو باغ میں نظر آئے حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور وہ بچے جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کے ارد گرد دیکھے وہ ایسے بچے تھے جو دین فطرت اسلام پر فوت ہوئے تھے ۔
اور جن کا آدھا جسم خوبصورت اور آدھا بدصورت تھا ایسے لوگ تھے جنہوں نے کچھ نیک اعمال کیے اور ان کے ساتھ برے اعمال بھی کیے لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا ۔
سیّدنا براء بن عازب رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں : ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک انصاری کے جنازہ میں گئے ۔
جب قبر پر پہنچے تو دیکھا کہ ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی ، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے ، ہم بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے ، ایسے لگتا تھا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں لکڑی تھی ، اس کے ساتھ آپ صلى الله علیہ وآلہ وسلم زمین کو کریدنے لگ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر اٹھایا اور دو تین بار فرمایا : عذاب قبر سے اللّٰہ کی پناہ مانگو ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومن آدمی جب اس دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے مراحل میں ہوتا ہے تو آسمان سے سورج کی طرح کے انتہائی سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں ، ان کے پاس جنت کا کفن اور خوشبو ہوتی ہے ، وہ آ کر اس آدمی کی آنکھوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ، اتنے میں موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے : اے پاکیزہ روح ! اللّٰہ کی بخشش اور رضامندی کی طرف نکل ۔
اس کی روح آرام سے بہتی ہوئی یوں نکل آتی ہے جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکل آتا ہے ۔ جنت کے فرشتے اس روح کو موت کے فرشتے کے ہاتھوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے بلکہ وہ فوراً اسے وصول کر کے جنت والے کفن اور خوشبو میں لپیٹ دیتے ہیں اس سے روئے زمین پر کستوری کی عمدہ ترین خوشبو جیسی مہک آتی ہے ۔ فرشتے اسے لے کر اوپر جاتے ہیں اور وہ فرشتوں کی جس جماعت اور گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں ، وہ پوچھتے ہیں : یہ پاکیزہ روح کس کی ہے ؟ اسے دنیا میں جن بہترین ناموں سے پکارا جاتا تھا وہ فرشتے ان میں سے سب سے عمدہ نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے ، یہاں تک وہ اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور اس کے لیے دروازہ کھلواتے ہیں ، ان کے کہنے پر دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔ پھر ہر آسمان کے مقرَّب فرشتے اس روح کو اوپر والے آسمان تک چھوڑ کر آتے ہیں اس طرح اسے ساتویں آسمان تک لے جایا جاتا ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے کے نامۂ اعمال والی کتاب عِلِّیِّیْنَ میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ ، کیونکہ میں نے اس کو اسی سے پیدا کیا ہے ، اس لیے میں اس کو اسی میں لوٹاؤں گا اور پھر اس کو دوسری مرتبہ اسی سے نکالوں گا ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے ، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں : تمہارا رب کون ہے؟
وہ کہتا ہے : میرا رب اللّٰہ ہے ۔
وہ پوچھتے ہیں : تمہارا دین کیا ہے؟
وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ۔
وہ دریافت کرتے ہیں : یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوث کیے گئے تھے ، وہ کون ہیں ؟
وہ جواب دیتا ہے : وہ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں ۔
پھر وہ کہتے ہیں : یہ باتیں تمہیں کیسے معلوم ہوئیں ؟
وہ جواب دیتا ہے : میں نے اللّٰہ کی کتاب پڑھی ، اس پر ایمان لایا اور میں نے اس کی تصدیق کی ۔
اس کے بعد آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے : اس بندے نے سچ کہا ہے ، اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دو ، اسے جنت کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس اس کی طرف جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آنے لگتی ہیں اور تا حدِ نظر اس کے لیے قبر کو فراخ کر دیا جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اس کے پاس ایک انتہائی حسین و جمیل ، خوش پوش اور عمدہ خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے اور کہتا ہے : تمہیں ہر اس چیز کی بشارت ہو جو تمہیں اچھی لگے ، یہی وہ دن ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا ۔
وہ قبر والا پوچھتا ہے : تم کون ہو ؟ تمہارا چہرہ تو ایسا چہرہ لگتا ہے ، جو خیر کے ساتھ آتا ہے ۔
وہ جواباً کہتا ہے : میں تمہارا نیک عمل ہوں ۔
قبر والا کہتا ہے : اے میرے ربّ ! قیامت قائم کر دے تاکہ میں اپنے اہل اور اعمال کی طرف لوٹ سکوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کافر آدمی جب اس دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ، ان کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں ، وہ آ کر اس کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ، اتنے میں موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے : اے خبیث روح ! اللّٰہ تعالیٰ کے غصے اور ناراضگی کی طرف نکل آ ۔
وہ اس کے جسم میں بکھر جاتی ہے ۔ پھر فرشتہ اسے یوں کھینچتا ہے جیسے کانٹے دار سلاخ کو تر اون میں سے کھینچ کر نکالا جاتا ہے ۔
جب فرشتہ اسے نکال لیتا ہے تو دوسرے فرشتے اس روح کو اس کے ہاتھ میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے ، بلکہ وہ اسے فوراً ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں ، روئے زمین پر پائے جانے والی سب سے گندی بو اس سے آتی ہے ۔
پھر فرشتے اسے لے کر اوپر کو جاتے ہیں وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں : یہ خبیث روح کس کی ہے ؟
اس آدمی کو دنیا میں جن برے ناموں سے پکارا جاتا تھا ، وہ ان میں سے سب سے برا اور گندا نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے ، یہاں تک کہ فرشتے اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھلوانے کا کہتے ہیں ، لیکن اس کے لیے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۴۰﴾
الاعراف ۔ 40
یقین جانو ، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے ۔ ان کا جنّت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا ۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے ۔
تب اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اس کے نامۂ اعمال کی کتاب زمین کی زیریں تہ سِجِّیْنٍ میں لکھ دو ۔
پھر اس کی روح کو زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے ۔
اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ ﴿۳۱﴾
الحج ۔31
یکسو ہو کر اللّٰہ کے بندے بنو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ اور جو کوئی اللّٰہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا ، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے ۔
اس کے بعد اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے اور دو فرشتے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں :
تمہارا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا ۔
پھر وہ پوچھتے ہیں : تمہارا دین کیا ہے؟
وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا ۔
وہ استفسار کرتے ہیں : یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوث کیے گئے تھے ، وہ کون ہیں ؟
وہ کہتا ہے : مجھے نہیں معلوم ۔
آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے یہ جھوٹا ہے ، اس کے لیے جہنم کا بستر بچھا دو اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو ۔
پس وہاں سے اس کی طرف جہنم کی حرارت اور بو آنے لگتی ہے ۔ اس کی قبر اس پر اس قدر تنگ کر دی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں ۔ پھر ایک انتہائی کریہہ صورت ، گندے لباس والا بدبودار آدمی اس کے پاس آ کر کہتا ہے : تجھے ہر اس چیز کی بشارت ہو جو تجھے بری لگتی ہے ، یہ وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا ۔
وہ پوچھتا ہے : تم کون ہو ؟ تمہارا چہرہ تو ایسا چہرہ ہے جو شرّ کے ساتھ آتا ہے؟ وہ کہتا ہے : میں تیرا برا عمل ہوں
وہ قبر والا کہتا ہے : اے میرے رب ! قیامت کبھی قائم نہ کیجیے گا ۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے انتخاب
Moral Stories
Moral Stories for children
0 Comments