ابو عبداللّٰہ محمد بن اسماعیل البخاری ١٣ شوال المکرم ١٩٤ ھ بعد نمازِ جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے ۔
![]() |
امام بخاری ، بخارا |
ابھی کمسن تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، اور ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی تمام ذمہ داری ان کی والدہ پر آ گئی ۔
نو عمر تھے کہ ان کی بینائی چلی گئی اس المناک سانحہ سے ان کی والدہ کو شدید صدمہ پہنچا ۔ وہ دن رات اپنے بیٹے کی بینائی کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کے حضور آہ و زاری کرتیں اور بہت اضطراب سے دعائیں مانگتیں ۔
ایک رات دعا کرتے کرتے ان کی آنکھ لگ گئی خواب میں دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اُنہیں خوشخبری دے رہے ہیں کہ اے نیک خاتون ، تمہاری دعائیں بارگاہِ رب العالمین میں مقبول ہوئیں ۔
یہ خواب دیکھتے ہی ان کی آنکھ کھل گئی ۔
اگلی صبح دیکھا کہ ان کے بیٹے کی بینائی واپس لوٹ آئی ہے ۔
محمد بن اسماعیل البخاری کو علم حدیث کے حصول کا بہت شوق تھا ، بیشتر وقت حصول علم میں مصروف رہتے حتیٰ کہ رات کو بارہا اٹھتے ، چراغ روشن کرتے اور مطالعہ حدیث میں مشغول ہو جاتے ۔ نیند کی شدت ہوتی تو کچھ دیر آنکھ جھپکا لیتے مگر علم کی طلب اور شوق ان کی نیند پر غالب آ جاتا ۔
ابتدائی عمر میں مکتب میں داخل کرا دیے گئے ۔
![]() |
مکتب ، بخارا |
قدرت نے ان کو کمال کا حافظہ عطا کیا تھا جو حدیث سنتے فوراً یاد کر لیتے ۔
دس سال کی عمر میں مدرسہ چھوڑ دیا اور اپنے زمانے کے بہت بڑے محدث داخلی کے درس حدیث میں شریک ہونے لگے ۔
ایک مرتبہ امام بخاری داخلی کے حلقہ درس میں شریک تھے ۔ داخلی نے لوگوں کو حدیث کی سند سنانی شروع کی امام بخاری نے درمیان میں انتہائی ادب کے ساتھ ٹوکا اور سند کی اصلاح کی ۔ داخلی نے پہلے تو طفل مکتب سمجھ کر انہیں جھڑک دیا مگر امام بخاری کے اصرار پر جا کر اپنی اصل کتاب سے رجوع کیا تو روایت کو اسی طرح پایا جیسے امام بخاری نے کہا تھا ۔
داخلی واپس آئے اور کہا ، اچھا میاں لڑکے یہ بتاؤ یہ سند کیسے صحیح ہے ؟
امام بخاری نے اس کی درستگی کر دی ۔ داخلی نے فرمایا ، جو تم نے کہا وہی ٹھیک ہے ۔
اس واقعہ کے وقت امام بخاری کی عمر تقریباً ١١ برس تھی ۔
حاشر کہتے ہیں کہ امام بخاری ہمارے ساتھ بخارا کے مشائخ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ اس وقت وہ نو عمر تھے ۔ وہ درس میں شریک ہوتے ،
![]() |
امام بخاری اور صحیح بخاری کی تدوین |
تمام طالب علم احادیث لکھتے اور یاد کرتے مگر امام بخاری خاموش بیٹھے سنتے رہتے اور ایک لفظ تک نہ لکھتے ۔ ساتھی ملامت کرتے کہ تم لکھتے نہیں تو درس میں شریک کیوں ہوتے ہو ؟
پندرہ بیس دن یونہی گزر گئے ، آخر ایک دن امام بخاری نے تنگ آکر کہا ، تمہاری ملامت کی حد ہو گئی ہے ، لاؤ اپنے دفتر نکالو اور دکھاؤ تم لوگوں نے کیا لکھا ہے
ہم اس وقت تک پندرہ ہزار سے زیادہ احادیث لکھ چکے تھے ، ہم نے اپنے دفتر امام بخاری کے سامنے لا کر رکھ دیے ، امام بخاری نے وہ تمام احادیث تمام اہلِ مجلس کے سامنے زبانی سنا دیں ۔ تب ہم نے جان لیا جو نایاب خزانہ ہمارے کاغذوں میں ہے وہ امام بخاری کے سینے میں محفوظ ہے ۔ حتیٰ کہ ہمیں امام بخاری کی یادداشت سے اپنے نوشتوں کی اصلاح کرنی پڑی ۔
![]() |
امام بخاری اور صحیح بخاری کی تدوین |
امام بخاری کے علم کا ہر طرف چرچا تھا ان کے عہد میں بڑے بڑے علماء اور مشائخ ہستیاں موجود تھیں مگر امام بخاری کی کمسنی اور علم و فضل کی فراوانی سب کو حیرت میں ڈالے ہوئے تھی ۔
![]() |
امام بخاری ، Moral Stories |
محمد بن قتیبہ نے کہا ، میں ابو عاصم نبیل کے پاس تھا وہاں میں نے ایک لڑکا دیکھا ۔
میں نے پوچھا ، یہ کس ملک کا رہنے والا ہے ؟
انہوں نے کہا ، بخارا کا ۔
میں نے پوچھا ، کس کا بیٹا ہے ؟
انہوں نے کہا ، اسماعیل کا ۔
میں نے کہا ، پھر تو یہ میرا قرابت دار ہوا
ایک اور شخص کہنے لگا ، یہ لڑکا ہے جو مقابلہ کرتا ہے بوڑھوں کا ۔
ابن خلکان کہتے ہیں ، امام بخاری کو حدیث کا بے پناہ شوق اطراف و امصار میں کشاں کشاں لیے پھرتا تھا ، اپنے وطن سے نکل کر دیار عرب کا کونہ کونہ چھان مارا ، جلیل القدر محدثین سے استفادہ کیا ، خراسان ، حجاز ، عراق اور شام کے مختلف علاقوں سے علم و فضل کے پھول چنتے چنتے جب آپ بغداد پہنچے تو وہاں کے علماء نے جو اگرچہ آپ کی خداداد اور غیر معمولی فضل و کمال کا شہرہ سن چکے تھے لیکن اپنی معلومات پر یقین و اطمینان کی مہر ثبت کرنا چاہتے تھے ، آپ کی علمیت جانچنے کا فیصلہ کیا ۔
![]() |
بغداد ، Moral Stories for children |
تمام علمائے شہر نے ایک مجلس کا اہتمام کیا اور امام بخاری کو اس میں مدعو کیا امام بخاری تشریف لائے اور مجلس امتحان کا آغاز یوں ہوا کہ دس آدمیوں نے امام بخاری کے سامنے دس دس احادیث بیان کیں جن کی سند اور متن میں ردوبدل کیا گیا تھا ۔
امام بخاری یہ احادیث سنتے رہے اور ہر ایک کے جواب میں لا اعرف (میں نہیں جانتا) کہتے رہے
بعض ظاہر بیں یہ سمجھ بیٹھے کہ امام بخاری نقد و نظر کے معیار پر پورے نہیں اترے لیکن جن کو خدا نے فہم و فراست کی دولت سے نوازا تھا وہ سمجھ گئے ۔
جب وہ دس آدمی اسناد و متن میں ردوبدل کی ہوئی احادیث سنا چکے تو امام بخاری نے ترتیب وار ہر ایک کو بلانا شروع کیا اور ہر ایک کو بتاتے گئے کہ تم نے جو حدیث بیان کی تھی اس کی سند یوں ہے اور متن اس طرح ۔
حاضرین آپ کی زبردست قوت حافظہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور ہر فرد آپ کے علم و فضل اور فہم و فراست کا مداح ہو کر مجلس سے نکلا ۔
یوسف بن موسیٰ کہتے ہیں کہ میں بصرہ کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا
اچانک ایک نقیب نے پکارا ، علم والو ، محمد بن اسماعیل البخاری پہنچ گئے ہیں لوگ ان کی زیارت کو ٹوٹ پڑے ۔ میں بھی ہجوم کے ساتھ آگے بڑھا ، امام بخاری کو ایک نوجوان پایا جو ایک ستون کی آڑ میں نوافل پڑھ رہے تھے ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور درخواست کی کہ ہمارے لیے مجلس املاء قائم کریں ۔ چنانچہ امام صاحب نے ان کے اصرار پر مجلس املاء کا اہتمام کیا اور اہل بصرہ کو وہ احادیث لکھوائیں جو انہیں اب تک نہ پہنچیں تھیں ، اس وقت امام بخاری کی عمر ٢٧ برس تھی ۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عہد زریں میں احادیث کی کتابت کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا گیا تھا ۔ لوگوں کے اذہان اور حافظے قابلِ اعتماد اور صاف تھے لیکن جب صحابہ کرام کا مقدس دور ختم ہوا اور تابعین کا دور آیا تو مختلف فتنے ابھرنے لگے ۔ علماء کو فکر ہوئی کہ احادیث کی ترتیب و تدوین ضروری ہو چکی ہے ورنہ دین کا اہم جز اور کتاب اللّٰہ کی بسیط شرح ہاتھ سے جاتی رہے گی ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں سب سے پہلے باقاعدہ احادیث کے جمع کرنے کا کام شروع ہوا ، انہوں نے ابو بکر بن حزم کو کہا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور سنتوں کو تلاش کرو اور لکھ لو اس لیے کہ مجھے ڈر ہے کہ علماء کے چلے جانے سے علم مٹ جائے گا ۔
اس زمانے میں بہت سے اصحاب نے احادیث جمع کیں لیکن ساتھ ہی اہل حجاز کی قوی اور مستند روایات اور صحابہ و تابعین کے فتاویٰ بھی شامل کیے گئے ۔
![]() |
امام بخاری اور صحیح بخاری کی تدوین |
دوسری صدی میں محدیثین کو یہ خیال دامنگیر ہوا کہ احادیث کو اس طرح یکجا کیا جائے کہ صحابہ کرام و تابعین کے اقوال و فتاویٰ اس میں شامل نہ ہوں اس کے بعد تمام محدیثین اسی طریقے پر چل پڑے اور بہت کم ایسے گزرے جنہوں نے کوئی مسند نہ لکھی ہو ۔
جب امام بخاری نے ان تصانیف کو دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ یہ کتابیں اپنی ترتیب و تدوین میں بہترین اور یگانہ ہیں مگر قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ان مجموعوں میں صحیح احادیث کے ساتھ ضعیف احادیث بھی جمع ہو گئی ہیں ۔
انہی دنوں ایک مرتبہ اسحاق بن راہویہ کی مجلس میں بھی یہ بات سنی کہ کاش کوئی ایسی کتاب ترتیب دی جائے جس میں صرف صحیح احادیث ہوں تب آپ نے دل میں مصمم ارادہ کرلیا کہ آپ اس کام کو انجام دیں گے ۔
ایک روز آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے پنکھا جھل رہے ہیں ۔
تعبیر پوچھی تو بتایا گیا کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے کذب و افتراء کی مکھیاں دور کریں گے ۔اس خواب نے آپ کے عزم کو مہمیز لگا دی ۔ آپ نے اس عدیم النظیر کارنامے کو انجام دینے کے لیے کمر ہمت باندھ لی اور ان چھ لاکھ احادیث سے آپ نے انتخاب شروع کیا جو آپ کے خداداد حافظے میں موجود تھیں ۔
آپ نے ترتیب و تالیف میں صرف علمیت ذکاوت اور حفظ ہی کا اہتمام نہیں کیا بلکہ خلوص ، دیانت ، تقویٰ اور طہارت کا بھی خاص اہتمام کیا اور اس شان سے ترتیب و تدوین کا آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے ، دو رکعت نماز پڑھتے ، بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوتے اس کے بعد ایک حدیث تحریر فرماتے
ابواب اور تراجم لکھتے وقت بھی اسی بے مثال خلوص اور تقویٰ کا مظاہرہ کیا ۔
اس سخت جانکاری اور دیدہ ریزی کے بعد سولہ سال کی طویل مدت میں یہ کتاب زیور تکمیل سے آراستہ ہوئی اور ایک ایسی تصنیف وجود میں آگئی جس کا لقب بلا کسی کم و کاست اصح الکتاب بعد کتاب اللّٰہ ( قرآن کریم کے بعد سب سے صحیح کتاب ) قرار پایا
امت کے ہزاروں محدیثین نے سخت سے سخت کسوٹی پر اسے پرکھا اور جانچا ۔ مگر جو لقب اس مقدس کتاب کے لیے من جانب اللّٰہ مقرر ہو چکا تھا وہ پتھر کی لکیر کی طرح کبھی نہ مٹنے والی لکیر بن گیا ۔
امام بخاری کو ان کے والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی ، آپ اس سے تجارت کیا کرتے تھے ۔
![]() |
امام بخاری ، Moral Stories for children |
امام بخاری نے اپنا روپیہ مضاربت پر دے رکھا تھا ، خود کاروبار سے علیحدہ رہتے تاکہ علم نبوی کی خدمت اور اشاعت میں کوئی روکاوٹ نہ آنے پائے ۔ اپنے تجارتی شرکاء سے بہت رعایت اور مروت برتتے ۔
ایک مرتبہ کوئی مضارب ٢٥ ہزار درہم ضبط کر بیٹھا ، اس سے ملاقات ہوئی شاگردوں میں سے کسی نے کہا کہ یہ شخص آ پہنچا ہے روپیہ وصول کر لیجیے ۔
آپ نے کہا : قرضدار کو پریشانی میں ڈالنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی ۔
ہر قسم کے معاملات میں بہت احتیاط برتتے تھے ایک مرتبہ آپ کے پاس کچھ مال آیا ۔
تاجروں کا ایک وفد امام بخاری کے پاس گیا اور اُنہوں نے پانچ ہزار کے نفع سے وہ مال خریدنا چاہا ۔ آپ نے قدرے آمادگی ظاہر کر دی تھی تاہم حتمی فیصلہ نہیں ہوا تھا ۔
اگلے دن ایک اور وفد آیا وہ دس ہزار نفع کے عوض وہ مال خریدنا چاہتا تھا ۔ امام بخاری نے اپنا مال پہلے تاجروں کے ہاتھ بیچ دیا کیونکہ آپ پہلے تاجروں کو دینے کی نیت کر چکے تھے اور آپ نے پانچ ہزار کا نفع چھوڑ دیا ۔
امام بخاری طالب علمی کے زمانے میں ایک مرتبہ ایک بحری سفر پر گئے ۔
![]() |
امام بخاری ، Moral Stories |
کشتی میں سوار ہوئے تو آپ کے پاس ایک ہزار اشرفیاں تھیں ، ایک شخص امام بخاری کے ساتھ بڑی حسن عقیدت سے پیش آیا اور خوب میل جول بڑھا لیا امام بخاری بھی اس سے کافی بے تکلف ہو گئے اور باتوں ہی باتوں میں اپنی اشرفیوں کے بارے میں بتا دیا ۔ ایک روز صبح سویرے وہ شخص بیدار ہوا اور اس نے شور و غل مچانا شروع کر دیا ، لوگوں نے حیرانی سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا ، میرے پاس ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی تھی لیکن آج وہ میرے سامان سے غائب ہے ۔
کشتی والوں کی تلاشی شروع ہو گئی ، امام صاحب نے بڑی خاموشی کے ساتھ اشرفیوں کی تھیلی سمندر کی موجوں کے سپرد کر دی ۔
![]() |
امام بخاری |
جب کسی مسافر کے سامان سے تھیلی برآمد نہ ہوئی تو لوگوں کے تیور بدلے اور اس شخص کو سخت سست کہنا شروع کردیا ۔
سفر پورا ہوا تو وہ شخص تنہائی میں امام بخاری سے ملا اور کہنے لگا آپ نے اشرفیوں کی وہ تھیلی کیا کی ؟ امام بخاری نے بڑے اطمینان سے جواب دیا سمندر میں پھینک دی تھی ۔
اس نے حیرت سے پوچھا ، آپ کی طبیعت اتنی بڑی رقم اس بے دردی و بے پروائی سے سمندر برد کردینے پر کیسے آمادہ ہوئی ؟
تم کس دنیا میں جی رہے ہو ؟
آپ نے کہا ،
میری ساری زندگی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی جمع و ترتیب میں گزری ، میری علمی دیانت اور پاکیزگی ضرب المثل بن چکی ، کیا چوری کا شبہ اپنے اوپر لے کر اس دولت کو پامال کر دیتا جو عمر کے اتنے سال گزار کر حاصل کی ہے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ علیہ نے ابو زید مروزی کا خواب نقل کیا ہے کہ میں رکن اور مقام کے درمیان بیت اللّٰہ کے قریب سو رہا تھا ، خواب میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ ابوزید ! ہماری کتاب کا درس نہ دو گے ؟ عرض کیا حضور «فداك ابي وامي» آپ کی کتاب کونسی ہے؟ فرمایا جسے محمد بن اسماعیل بخاری نے یکجا کیا ہے ۔
محمد بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ جب ہم سفر میں ہوتے تو امام بخاری رات کو بار بار اٹھتے اور چراغ روشن کرتے
![]() |
امام بخاری ، Historical Stories |
اور کتب بینی میں مشغول ہو جاتے ، ہم نے کہا آپ خود تکلیف فرماتے ہیں ، ہمیں جگا دیا کریں ۔ فرمانے لگے ، تم جوان ہو میں مناسب نہیں سمجھتا کہ تمہاری نیند میں خلل ڈالوں ۔
امام بخاری ٢٥٠ ھ میں نیشاپور تشریف لے گئے تو وہاں کے عوام اور علماء نے آپ کا پُرجوش استقبال کیا ، امام ذہلی جو نیشاپور کے علمی افق پر چھائے ہوئے تھے ، علمائے شہر کی ایک بڑی تعداد لے کر امام بخاری کے استقبال کے لیے شہر سے باہر پہنچے ۔ جب آپ نے مجلسِ درس کا اہتمام کیا تو سارا شہر امنڈ آیا ، آپ کی قیام گاہ پر تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی یہ کیفیت دیکھی تو دوسرے علماء کو حسد ہوا اور انہوں نے امام بخاری کی شہرت داغدار کرنے کے لیے امام بخاری کے خلاف جھوٹا پروپیگینڈا شروع کردیا یہاں تک کہ ذہلی کی مجلس میں اعلان کیا گیا کہ جو امام بخاری کے درس میں شریک ہو وہ ہماری مجلس میں نہ آئے ۔ اس اعلان کے بعد بہت سے لوگوں نے امام بخاری کی مجلس میں جانا چھوڑ دیا ۔
احمد بن سلمہ نیشاپوری امام صاحب کی مجلس میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ، امام ذہلی نے آپ کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے اس کا کیا ردعمل ہونا چاہیے ؟
امام بخاری نے فرمایا
افوض امرى إلى الله ، أن الله بصير بالعباد
میں اپنا معاملہ اللّٰہ کے سپرد کرتا ہوں وہ اپنے بندوں کا حال اچھی طرح جانتا ہے ۔
آپ نے فرمایا ، میری آمد کا مقصد کسی شہرت اور برتری کا حصول نہ تھا ، مخالفین کی ایذا رسانی سے تنگ آ کر اپنے وطن کو خیر باد کہہ دیا تھا ، ان لوگوں نے بھی میرے ساتھ زیادتی کی ہے اس لیے اب فیصلہ کیا ہے کہ یہاں سے بھی کوچ کر جاؤں ۔
امام بخاری نے نیشاپور سے بخارا کے لیے رخت سفر باندھا ۔
![]() |
جامع مسجد بخارا |
جب آپ بخارا پہنچے تو وہاں کے شہریوں نے بڑے جوش و خروش سے آپ کا استقبال کیا اور امرائے شہر نے درہم و دینار نچھاور کیے ۔
آپ کو بخارا میں اقامت اختیار کیے زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ حاکم بخارا ، خالد بن احمد ذہلی کا قاصد آپ کے پاس پہنچا اور حاکم وقت کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ آپ اپنی کتاب صحیح بخاری اور کتاب التاریخ ہمیں آ کر سنایا کریں ۔
آپ نے فرمایا ، امیر بخارا سے جا کر کہہ دو کہ میں اُمراء و حکام کے آستانوں کی جبہ سائی نہیں کر سکتا ۔ میں علم کو ذلیل نہیں کرتا اور سلاطین کے دروازوں پر لے کر نہیں جاتا اور یہ نہیں ہو سکتا کہ علم کی باتیں خاص لوگوں کو سناؤں اور عوام نہ سنیں ۔ اگر علم کی حاجت ہے تو مسجد آ کر سنو
یا میرے گھر آؤ اور عام مسلمانوں کی طرح سنو ۔
امیر کو یہ جواب ناگوار گزرا اور امام بخاری کی اس خودداری کو اس نے آداب شاہی کے خلاف جانا اس کے دل میں امام بخاری کے لیے رنجش پیدا ہو گئی ۔
اس نے براہِ راست امام بخاری کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا لیکن حریث بن ورقاء کو اس بات پر آمادہ کیا کہ امام بخاری کے خلاف کوئی الزام قائم کرے تاکہ آپ کی شہرت اور عقیدت کو کوئی ٹھیس پہنچائی جا سکے اور آپ کے علمی تبحر اور تقدس کے جو نقش مسلمانوں کے دلوں پر ثبت ہیں انہیں مٹایا جا سکے ۔
حریث نے یہ حکم پاتے ہی امام بخاری پر کوئی تہمت لگائی اور اسے اتنا اچھالا کہ سارے شہر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ امیر بخارا خالد بن احمد ذہلی نے امام بخاری کو شہر سے نکل جانے کا حکم دے دیا ۔
آپ کے دل پر اس حادثہ کا بیحد اثر ہوا اور شہر سے کوچ کرتے وقت آپ نے فرمایا ، خدایا ان لوگوں نے میرے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس پر میں آپ ہی سے مدد کا طلب گار ہوں ۔
امام بخاری اپنے شہر بخارا سے نکلے اور سمر قند کے قریب ایک گاؤں خرتنگ چلے گئے جہاں ان کے عزیز و اقارب مقیم تھے اور باقی ایام وہیں گزارے
![]() |
سمرقند |
دوسری طرف اس سانحہ کو ایک مہینہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ خالد بن احمد کو امیر کے حکم سے معزول کردیا گیا اور اسے اور اس کے اہل خانہ کو انتہائی ذلت سے ان کے گھروں سے نکال کر قید میں ڈال دیا گیا ۔ قید و بند کی انہی صعوبتوں میں ایک روز خالد بن احمد ذہلی دم توڑ گیا ۔
جلاوطنی اور اعزہ و احباب کے نامناسب رویے نے امام بخاری کو بہت کرب سے دوچار کردیا تھا اور آپ بے انتہا مغموم رہنے لگے تھے ۔
امام بخاری ایک رات نماز میں کافی دیر کھڑے رہے جب نماز مکمل کر لی تو نہایت الحاح سے دعا کی
اے اللّٰہ ، تیری زمین اگرچہ بہت کشادہ ہے مگر مجھ پر تنگ ہو گئی ہے ، خدایا مجھ پر رحم فرما ۔
خرتنگ میں رہائش اختیار کرنے کے چند ہی دنوں بعد سمرقند سے ایک ایلچی آیا اور آپ کو بصد احترام و اصرار سمرقند جانے پر آمادہ کرنے لگا ۔
![]() |
سمرقند |
امام بخاری اس کے ساتھ جانے پر رضامند ہو گئے
سفر کا ارادہ کیا اور گھوڑے پر سوار ہونے کی غرض سے دس بیس قدم چلے لوگ آپ کے بازو کو تھامے آپ کو سہارا دے رہے تھے ۔
جب سواری پر بیٹھنے لگے تو نقاہت محسوس ہوئی آپ سواری سے اتر گئے اور فرمانے لگے میں بہت ضعیف ہو گیا ہوں مجھے چھوڑ دو ۔ پھر آپ زمین پر لیٹ گئے اور دعائیں پڑھنی شروع کر دیں یہاں تک کہ آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔
شوال ۲۵٦ ھ بعد نمازِ عشاء آپ نے داعئ اجل کو لبیک کہا اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی ۔
اگلے دن جب آپ کے انتقال کی خبر سمر قند اور اکناف و اطراف میں پہنچی تو کہرام مچ گیا ، تمام شہر ماتم کدہ بن گیا ، جنازہ اٹھا تو بچے ، بوڑھے ، جوان سب ساتھ تھے ۔
نمازِ ظہر کے بعد علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے مجسمہ کو سپردِ خاک کر دیا گیا ۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
اسی زمانے کے ایک بزرگ روایت کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ ایک جگہ کھڑے ہوئے ہیں ، میں نے سلام عرض کیا اور آپ سے وہاں کھڑے ہونے کی وجہ دریافت کی ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا ، محمد بن اسماعیل البخاری کا انتظار کر رہا ہوں ۔
چند دنوں بعد امام بخاری کی وفات کی اطلاع ملی ، تحقیق کی تو معلوم ہوا وہ اسی رات فوت ہوئے تھے جب میں نے یہ خواب دیکھا تھا ۔
امام بخاری مستجاب الدعوات تھے ۔ وہ کہتے تھے میں نے اپنے پروردگار سے دو بار دعا کی جو فوراً قبول ہو گئی پھر میں نے دعا نہ کی اس ڈر سے کہ کہیں میری نیکیاں کم نہ ہو جائیں ۔
انہوں نے اپنی کتاب صحیح بخاری کے قاری کے لیے بھی دعا کی ہے اور بہت سے مشائخ نے اس کا تجربہ کیا ہے ۔
سید اصیل الدین کہتے ہیں کہ میں نے صحیح بخاری کو تقریباً ایک سو بیس مرتبہ پڑھا ہے اور ہر مرتبہ پڑھنے سے میرا مقصود مجھے حاصل ہوا ۔
’الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه‘‘۔
امام بخاری ، Imam Bukhari
صحیح بخاری ، Sahih Bukhari
Moral Stories
Moral Stories for children
Historical Stories
0 Comments