Header Ads Widget

Responsive Advertisement

آزمائش ، غزوہِ تبوک اور تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توبہ کا ایمان افروز واقعہ , Aazmaish

آزمائش ، سورہ توبہ میں ذکر کردہ واقعہ

 آزمائش 

اور ان تینوں کو بھی اس نے معاف کیا جن کے معاملے کو ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بار ہونے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللّٰہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللّٰہ ہی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ہے 

تو اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے

اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، اللّٰہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو ۔

سورہ توبہ ۔ 118 ۔ 119

یہ تینوں اصحاب حضرت کعب بن مالک ، حضرت ہلال بن امیہ ضمری اور حضرت مرارہ بن ربیع تھے ۔ تینوں انتہائی سچے مومن تھے ۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے ۔ ان کے ایمان کی صداقت ہر شبہ سے بالاتر تھی ۔ ان خدمات کے باوجود جو سستی اس نازک موقع پر ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ہوئی اس پر گرفت کی گئی ۔

حضرت کعب بن مالک نے اپنے بڑھاپے کے زمانے میں جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے اور اپنے صاحبزادے عبداللّٰہ کا سہارا لے کر چلتے تھے یہ قصہ اس طرح بیان کیا

غزوہِ تبوک کی تیاری کے زمانے میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ السلام جب کبھی مسلمانوں سے جنگ میں شریک ہونے کی اپیل کرتے تھے میں اپنے دل میں ارادہ کرلیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا ۔ اس زمانے میں میں انتہائی صحت مند اور خوشحال تھا کہ اس سے پہلے کبھی نہ تھا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں ۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب بھی کسی جنگ کا ارادہ فرماتے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ السلام اس کا مقام اور مخالف فریق کا نام خفیہ رکھتے ۔

تبوک ، Tabuk
تبوک ، Quranic Stories 

لیکن غزوہِ تبوک کی تیاری آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سخت گرمی کے موسم میں کی تھی ۔ دور کا سفر درپیش تھا ، راستہ ایسا بے آب و گیاہ اور سنگلاخ تھا جس میں ہلاکت کا خوف تھا دشمن کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی ۔ 


بے آب و گیاہ اور سنگلاخ راستہ
سنگلاخ راستہ ، Moral Stories 


اس لیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہر بات کھول کر بتا دی تاکہ جنگ کی تیاری پورے اہتمام سے کر لیں اور انہیں وہ سمت بھی بتا دی جدھر جانا تھا ۔ 

نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد تھی اور صورتحال یہ تھی کہ جو شخص لشکر سے غائب ہونا چاہتا وہ یہ سوچ سکتا تھا کہ اگر بذریعہ وحی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اطلاع نہ دی گئی تو اس کی غیر حاضری کا کسی کو پتہ نہ چلے گا ۔

غزوہِ تبوک ایسے وقت پیش آیا جب پھل پک چکے تھے اور ہر طرف سایہ عام تھا  

پکی ہوئی کھجوریں ، Ripe fruits
غزوہِ تبوک اور تین صحابہ کرام کی آزمائش 

 آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جہاد کی تیاری کی اور تمام مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ بھرپور تیاری کی اور میری کیفیت یہ تھی کہ میں صبح کے وقت اس ارادے سے نکلتا کہ میں بھی باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر تیاری کروں گا لیکن شام کو جب واپس آتا تو سستی کر جاتا تھا اور اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے دیا کرتا کہ میں تیاری کرنے پر پوری طرح قادر ہوں

  اور اسی طرح وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا ۔ 

رجب ٩ ھ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ٣٠ ہزار مجاہدین کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوئے ۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کے روانہ ہونے کے ایک دو دن بعد تیاری مکمل کرلوں گا اور راستے ہی میں ان سے جا ملوں گا مگر پھر وہی سستی مانع ہوئی اور وقت نکل گیا ۔ میں نے پھر ارادہ کیا کہ میں بھی روانہ ہو جاؤں مگر نہ جا سکا ۔

اس زمانہ میں جبکہ میں مدینہ میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بے حد کڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے جنگ میں شرکت سے معذور رکھا ہے ۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو میرا خیال نہ آیا حتیٰ کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تبوک پہنچ گئے ۔

 پھر ایک موقع پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لوگوں سے دریافت فرمایا ، کعب کہاں ہیں ؟

بنی سلمہ کے ایک شخص نے کہا : یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسے صحت و خوشحالی نے اپنے اندر ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ وہ جہاد میں شریک نہیں ہو سکا ۔

 یہ سن کر حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس سے کہا تم نے بہت بری بات کہی ۔

 یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہم نے کعب بن مالک میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا ۔

 یہ سن کر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاموش رہے ۔

چند دنوں بعد جب مجھے اطلاع ملی کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لا رہے ہیں تو مجھے پریشانی نے گھیر لیا ۔ میں طرح طرح کے بہانے اور عذرات سوچنے لگا تاکہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچ سکوں ۔ میں نے اپنے خاندان کے ہر سمجھدار فرد سے بھی مشورہ کیا ۔

جب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسب معمول آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پہلے مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکر دو رکعت نماز پڑھی پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے تشریف فرما ہوئے ۔

مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، مدینہ منورہ
مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم 

اس مجلس میں منافقین نے آکر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے ۔ یہ ۸٠ سے زیادہ آدمی تھے ۔

 حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں ، ان کے ظاہری عذرات کو قبول کرلیا اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا ، خدا تمہیں معاف کرے ۔

پھر میری باری آئی ، میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ، تشریف لائیے ، آپ کو کس چیز نے روکا تھا ؟

میں نے عرض کیا ، خدا کی قسم اگر میں اہلِ دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا مگر آپ کے بارے میں میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کرکے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کردے گا ۔ البتہ اگر سچ کہوں گا تو مجھے امید ہے کہ اللّٰہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا 

واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے پیش کرسکوں ، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا مگر سستی میرے ارادوں پر غالب آ گئی ۔

اس پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی ۔ اچھا اٹھ جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللّٰہ تمہارے معاملے میں کوئی فیصلہ کرے ۔

میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا ۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑ گئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تم نے کوئی عذر کیوں نہ کردیا ۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہو کر کوئی بات بنادوں ۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ ضمری نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی تو میرا دل مطمئن ہو گیا اور میں اپنی سچائی پر جما رہا ۔

اس کے بعد نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے ۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے مگر میں نکلتا تھا ، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا ، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سرزمین بالکل بدل گئی ، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں ۔

 مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسب معمول نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تھا مگر بس انتظار ہی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے لب مبارک جنبش کریں ۔ 

نماز میں نظریں چُرا کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسے پڑتی ہیں ۔ مگر حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے اور جہاں میں نے سلام پھیرا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے میری طرف سے نظریں ہٹا لیں ۔

جب لوگوں کی بے رخی اور سماجی مقاطعہ بہت طویل اور ناقابلِ برداشت ہو گیا تو ایک دن میں اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے ساتھی ابو قتادہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر اندر داخل ہوا اور انہیں سلام کیا مگر اس اللّٰہ کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا ۔

کھجوروں کا باغ ، مدینہ منورہ


میں نے کہا ، ابو قتادہ میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت نہیں رکھتا ؟ 

وہ خاموش رہے

میں نے پھر پوچھا ، وہ خاموش رہے ۔

تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ 

اللّٰہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔

اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا ۔

انہی دنوں میں ایک مرتبہ مدینہ کے بازار سے گزر رہا تھا میں نے دیکھا کہ ملک شام کا ایک نبطی جو مدینہ میں غلہ فروخت کرنے آیا تھا 

غلہ ، Moral Stories , Quranic Stories
غزوہِ تبوک اور تین صحابہ کرام کی آزمائش 

لوگوں سے پوچھ رہا ہے ، کوئی ہے جو مجھے کعب بن مالک کے گھر کا پتہ بتا سکے ؟ لوگ میری طرف اشارہ کرکے اسے بتانے لگے ۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے شاہ غسان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا ۔

حریر میں لپٹا ہوا خط
شاہ غسان کا خط 

 میں نے کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ ، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے ، تم کوئی حقیر شخص نہیں ہو نہ اس لائق ہو کہ تمہاری ناقدری کی جائے ۔ ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہاری قدر کریں گے اور ہمارے ہاں تمہیں بلند مرتبہ ملے گا ۔

میں نے وہ خط پڑھا تو دل میں خیال آیا کہ ایک اور بڑی آزمائش آگئی اور اسی وقت اس خط کو آگ میں جھونک دیا ۔


بھڑکتی ہوئی آگ

چالیس دن اس حالت پر گزر چکے تھے کہ ایک قاصد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ حکم لے کر آیا کہ اپنی بیوی سے علیحدہ ہو جاؤ ۔

میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں ؟

جواب ملا نہیں بس الگ رہو

چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ اس معاملے کا فیصلہ فرما دیں ۔

حضرت ہلال بن امیہ ضمری کی بیوی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ، ہلال ایک بوڑھے شخص ہیں ، ان کے پاس کوئی خادم نہیں ، کیا آپ اس بات کی اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ میں ان کی خدمت کرتی رہوں ۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مشروط اجازت مرحمت فرمائی ۔

میرے خاندان کے لوگوں نے بھی مشورہ دیا کہ میری بیوی کو بھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کر لینی چاہیے ۔

میں نے کہا میں اس بات کی اجازت نہیں لوں گا کیونکہ میں ایک جوان شخص ہوں اور اپنے کام خود انجام دے سکتا ہوں ۔

پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ اچانک میں نے کسی پکارنے والے کی آواز سنی جو کوہ سلع پر چڑھ کر پکار رہا تھا ، کعب بن مالک مبارک ہو


کوہ سلع ، مدینہ منورہ
کوہ سلع 

میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم آ گیا ہے ۔ 

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد اعلان فرمایا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی ہے 

پھر تو لوگ جوق در جوق دوڑے چلے آ رہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھے مبارکباد دے رہا تھا کہ تمہاری توبہ قبول ہو گئی ہے ۔ سب سے پہلے حضرت طلحہ بن عبید الله تیزی سے میری طرف آئے اور مجھے مبارکباد دی ۔

میں نے ان کے اخلاص کو کبھی فراموش نہیں کیا ۔

میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا ۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک رہا ہے ۔ میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں آج کا دن مبارک ہو ، یہ دن تمہاری زندگی کا سب سے بہتر دن ہے ۔

میں نے پوچھا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، یہ معافی آپ کی طرف سے ہے یا اللّٰہ رب العزت کی طرف سے ؟

 آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اور آپ نے یہ آیات سنائیں ۔

اللّٰہ نے معاف کردیا نبی کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی کا ساتھ دیا ۔ اگرچہ  ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہو چکے تھے ، مگر جب ان لوگوں نے اس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبی کا ساتھ ہی دیا تو اللہ نے انہیں معاف کر دیا ۔

بے شک اس کا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے ۔

میں نے عرض کیا ، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں ۔

 آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کچھ رہنے دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔

میں نے اس ارشاد کے مطابق اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیا باقی سب صدقہ کر دیا ۔

پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس راست گفتاری ( سچائی ) کے صلے میں اللہ تعالیٰ  نے مجھے معاف فرمایا ہے اس پر تمام عمر قائم رہوں گا ۔ چنانچہ آج تک میں نے کوئی بات جان بوجھ کر خلافِ واقعہ نہیں کہی اور خدا سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا ۔

سورہ توبہ

صحیح احادیث سے انتخاب 

غزوہِ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ کرام کا ایمان افروز واقعہ 

Moral Stories

Moral Stories for children

Quranic Stories 


Post a Comment

0 Comments