سلطنت شام کے فرمانروا سلطان نور الدین زنگی ایک انتہائی نیک ، عبادت گزار ، رعایا کے سچے خیر خواہ اور انتہائی انصاف پسند حکمران تھے ۔ انہیں سلطان عادل کے نام سے جانا جاتا تھا
یہ 558 ہجری کا واقعہ ہے ایک رات سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دو نیلی آنکھوں والے اشخاص کی جانب اشارہ کرکے فرما رہےہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ ۔
سلطان فوراً بیدار ہو گیا ۔ اس نے وضو کیا نماز ادا کی اور سجدہ ریز ہو کر دیر تک دعا میں مشغول رہا ۔ یہ وہ دور تھا جب عالم اسلام پر صلیبیوں کے حملے کے خدشات بڑھ رہے تھے ۔ نور الدین زنگی نے اپنی تمام سپاہ کو انتہائی چوکس رہنے کے احکامات صادر کیے ۔
اگلی رات سلطان نے پھر وہی خواب دیکھا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دو نیلی آنکھوں والے اشخاص کی جانب اشارہ کرکے فرما رہے ہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ ۔
سلطان فوراً بیدار ہوا ۔ نماز کی ادائیگی اور دعا کے بعد وہ بہت دیر تک اس خواب کے بارے میں غور وفکر کرتا رہا ۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس کی رہنمائی اور مدد فرمائے ۔
اگلی رات پھر یہی خواب دیکھ کر سلطان بیدار ہوا ۔ اس کو شدید تشویش لاحق ہوئی ۔ نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے خادم خاص کے ذریعے اپنے وزیر جمال الدین موصلی کو طلب کیا ۔
جمال الدین موصلی حاضر ہوئے تو سلطان نے انہیں مسلسل تین راتوں سے نظر آنے والے خواب کے بارے میں بتایا
جمال الدین موصلی نے خواب سن کر کہا : “ وقت ضائع کئے بغیر فوراً مدینہ منورہ روانگی کا قصد کریں اور کسی سے بھی اپنے خواب کا تذکرہ نہ کریں ۔
سلطان نور الدین زنگی کو خیال آیا کہ شاید مدینہ منورہ میں کوئی غیر معمولی معاملہ درپیش ہے لہذا جلد از جلد مدینہ منورہ پہنچنا چاہیے ۔ اس نے جمال الدین موصلی کو سفر کی تیاری کا حکم دیا ۔ سلطان نے اپنے خزانے سے بھی ایک خطیر رقم رکھ لی ۔
رات کے اسی پہر سلطان اپنے وزیر ، چند قریبی ساتھیوں اور دو سو سپاہیوں کے ہمراہ حلب سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا ۔
عرب اس وقت سلطنت شام کا ایک حصہ تھا ۔ اہل مدینہ سلطان کی اچانک آمد پر بہت حیران ہوئے ۔
سلطان نور الدین زنگی نے سب سے پہلے روضہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر حاضری دی پھر انہوں نے والئ مدینہ منورہ سے ملاقات میں انہیں اپنے خواب کے بارے میں بتایا اور ان سے اس معاملے میں مشورہ طلب کیا ۔
امیر مدینہ نے شہر میں منادی کرادی کہ “ ہمارے سلطان نے تمام اہلِ شہر کے لیے ضیافت کا اہتمام کیا ہے اور اس کے اختتام پر وہ اپنے ہاتھوں سے تمام لوگوں میں تحائف تقسیم کریں گے ۔ کوئی شخص بھی اس ضیافت سے خالی ہاتھ نہیں جائے گا ۔
اس اعلان کے بعد تمام اہلِ شہر اس دعوت میں شریک ہوئے ۔ جب تحائف کی تقسیم کا وقت آیا تو سلطان نے ہر شخص کو گہری نگاہ سے دیکھا تاکہ ان دو اشخاص کو پہچان سکیں جو خواب میں دکھائے گئے تھے ۔ ایک ایک کرکے تمام افراد سلطان سے ملاقات کرکے اور تحائف وصول کرکے رخصت ہوتے رہے لیکن وہ دو نیلی آنکھوں والے اشخاص ان میں نہیں تھے ۔
سلطان نے پوچھا ، کیا تمام اہلِ شہر اس ضیافت میں موجود ہیں ؟ کوئی شرکت سے محروم تو نہیں رہ گیا ۔
دعوت میں شریک ایک شخص نے بتایا ، صرف دو آدمی اس دعوت میں شریک نہیں ہوئے ۔ وہ مراکش سے تعلق رکھنے والے نیک بزرگ ہیں جو زیادہ وقت مسجد نبوی میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے ہیں اور صبح جنت البقیع میں زائرین کو
Moral Stories , مسجدِ نبوی |
سلطان نور الدین زنگی اپنے وزیر ، والئ مدینہ اور چند سپاہیوں کے ہمراہ ان دو اشخاص سے ملنے ان کے حجرے میں گئے جو مسجد نبوی کے بالکل قریب تھا
انہوں نے اپنا جرم تسلیم کر لیا اور اعتراف کیا کہ وہ درحقیقت روم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شاہ فریڈرک کے حکم پر مدینہ آئے ۔ انہوں نے عربی زبان ، طور طریقے اور عرب روایات سیکھیں پھر مسلم لباس اور حلیے میں مدینہ منورہ پہنچے ۔ یہاں آنے کا مقصد حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے جسدِ مبارک کو مزار مقدس سے نکال کر روم لے جانا تھا تاکہ مسلمانوں کے مقامات مقدس کی مرکزیت کو ختم کیا جاسکے اس مقصد کے لیے ہر رات وہ سرنگ کھودتے اور صبح اس مٹی کو چمڑے کے تھیلے میں ڈال کر جنت البقیع لے جاتے اور قبروں پر بکھیر دیتے ۔ ان کی مہم آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات طوفان باد و باراں کی وجہ سے وہ اپنا کام جاری نہ رکھ سکے اور اگلے ہی دن سلطان نور الدین زنگی وہاں پہنچ گئے ۔
سلطان نے ان کےقتل کا حکم صادر کیا اور اہل شہر کے سامنے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا گیا ۔
اس واقعہ کے بعد سلطان پر ایسی رقت طاری ہوئ کہ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی ۔ روتے ہوئے کہتا تھا ، میری خوش نصیبی کہ میرے رب نے مجھ ناچیز کا انتخاب کیا ۔
طبیعت سنبھلی تو اس نے حکم دیا کہ روضہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارد گرد ایک انتہائی گہری خندق کھودی جائے اور اس میں سیسہ ڈالا جائے ۔ سلطان کے حکم پر خندق اتنی گہری کھودی گئی کہ نیچے سے پانی نکل آیا ۔
پھر اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال کر اسے چاروں اطراف سے بند کر دیا گیا ۔ تاکہ مستقبل میں کوئی ایسی جسارت نہ کر سکے ۔ اس نے یہ تمام کام اپنی زیر نگرانی مکمل کروایا ، مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں حاضری دی ، سجدہ شکر ادا کیا اور پھر حلب واپس چلے گئے ۔
Historical Stories
Moral Stories
Moral Stories for children
1 Comments
ماشاءاللہ ،تاریخی واقعات سے ایک موثر اور خوبصورت واقعہ کا انتخاب ہے۔امت مسلمہ کا وقار اور عزت نبی کریم صلی اللہ علیہ
ReplyDeleteوسلم کی اطاعت اور پیروی سے ہے۔